
کیوبا میں مسلمان آبادی کا صرف ۲ء۰ فیصد ہیں۔اس کے باوجود ترک صدر رجب طیب ایردوان نے۲۰۱۵ء میں اپنے دورہ کیوبا میں دارالحکومت ہوانا میں استنبول کی اورتاکوئے مسجد کی ہو بہونقل تعمیر کرنے کی پیشکش کی۔ اس بارے میں ابہام ضرور موجود تھے کہ ترک ڈائریکٹریٹ آف ریلیجئس افیئرز (Directorate of Relegious Affairs) اور اس کی شاخ دیانت فاؤنڈیشن کیوبا میں اس مسجد کو منظم طریقے سے چلا بھی سکے گی یا نہیں۔لیکن ترک حکومت نے اس کام کو کامیابی کے ساتھ پورا کیا۔اس مسجد سے ہوانا کے مسلمان، جن میں اکثریت افریقی ممالک سے آئے ہوئے طلبہ کی ہے، استفادہ کرتی ہے۔اسی سال سعودی عرب نے بھی کیوبا کی حکومت کو ہوانا میں مسجد تعمیر کرنے کے لیے فنڈ فراہم کیے تھے۔لیکن ترک صدر ایردوان نے واضح کیا کہ ترکی خود یہ مسجد تعمیر کرے گا۔یہ مسلم دنیا میں اپنے اثر و رسوخ اور اسلامی سافٹ پاور کو بڑھانے کے لیے ترکی اور سعودی عرب کے مقابلے کی ایک مثال ہے۔
اسی طرح ۲۰۱۵ء کے وسط میں دیانت فاؤنڈیشن نے بلقان کی سب سے بڑی مسجد کی تعمیر کا آغاز کیا۔نماز گاہ نام کی یہ مسجدالبانیہ کے دارالحکومت تِرانہ میں تعمیر ہو رہی ہے۔ البانیہ مسلم اکثرتی ملک ہے، جو اپنی آئینی اور مذہبی رواداری کی وجہ سے مشہور ہے۔یہ مسجد بھی اپنے طرز تعمیر میں استنبول کی مساجد جیسی ہے۔ البانی مسلمانوں کی اکثریت ترکی کی ان دینی خدمات سے خوش ہے۔ ترک صدر نے بھی مسجد کا سنگ بنیاد رکھتے ہوئے اسے ترکوں اور البانی مسلمانوں کے برادرانہ تعلقات کی نشانی قراردیا تھا۔ تاہم کچھ حلقوں میں ترکی کے ان اقدامات کے حوالے سے تحفظات پائے جاتے ہیں۔
البانی اسکالرجمال احمد نے ۲۰۱۸ء میں ایک رپورٹ جاری کی، جس میں یہ تجویز دی گئی کہ البانی ریاست کو سلفیت اور ایردوان کے سیاسی اسلام سے بچنے کے لیے ٹھوس اقدامات کرنے چاہییں۔ رپورٹ میں یہ بھی اشارہ کیا گیا ہے کہ ترکی کی تمام تر مذہبی پالیسیاں مذہبی سافٹ پاورحاصل کرنے کے لیے نہیں ہیں بلکہ دیانت فاؤنڈیشن اور ترک حکومت کے دیگر ادارے میزبان ممالک کے مسلمانوں کی مدد کے علاوہ بھی دیگر سرگرمیاں انجام دے رہے ہیں۔
البانیہ کوئی پہلا ملک نہیں ہے جو سمجھتا ہے کہ ترکی کی یہ سرگرمیاں ایردوان کے سیاسی مقاصد کے لیے بھی استعمال ہوئی ہیں۔ جون ۲۰۱۸ء میں آسٹریا کے چانسلر سی بیس چین کرز نے مذہب کی آڑ میں سرگرمیاں انجام دینے کے الزام میں دیانت فاؤنڈیشن کے تحت چلنے والی سات مساجد کو بند کردیا، اور ۴۰ ترک امام اور ان کے خاندانوں کو ڈی پورٹ کردیا۔۲۰۱۸ء کے اواخر میں صدر ایردوان نے جرمن شہر کولون میں جرمن حکومت کے تعاون سے تعمیر ہونے والی یورپ کی سب سے بڑی مسجد کا افتتاح کیا۔ جرمنی میں ترک حکومت کی امداد سے ایک ہزار سے زائد مساجد چل رہی ہیں۔ دوسری جانب جرمن حکومت نے دیانت فاؤنڈیشن کے حوالے سے تحقیقات بھی شروع کردیں کہ کچھ ترک امام ممکنہ طور پر گولن تحریک سے وابستہ افراد پر جاسوسی کر رہے ہیں۔
یہ تحقیقات صرف جرمنی تک محدود نہیں ہیں بلکہ بلغاریہ سے فرانس تک پورے یورپ میں ہو رہی ہیں۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ مساجد کے ائمہ کی جانب سے جاسوسی کرنا قطعاً اسلامی سافٹ پاور میں شامل نہیں ہے۔ ان تحقیقات سے یہ بھی سامنے آتا ہے کہ دیانت فاؤنڈیشن کے امام اکیلے نہیں ہیں بلکہ وہ ترکی کے دیگر بین الاقوامی اداروں سے بھی منسلک ہیں۔
یہ تصویر ترکی کی جانب سے خارجہ پالیسی میں مذہب کے استعمال اور ریاستوں کے دوطرفہ تعلقات میں سرکاری مذہبی اداروں کے کردار، عوامی سفارت کاری اور ملک سے باہر آمرانہ طرز عمل کو واضح کرتی ہے۔ اس وقت ترکی کی بڑھتی یا گھٹتی ہوئی سافٹ پاور اور ایردوان کے امت کے لیڈر بننے کے سیاسی عزائم، علمی اور موضوعاتی مباحث کا مرکز بنے ہوئے ہیں۔
جوزف نائے نے ۸۰ کی دہائی میں سافٹ پاور کی اصطلاح دی۔ بعد میں انھوں نے اس کے تصور میں کئی ترامیم کیں، لیکن کبھی بھی مذہب کو اس میں باقاعدہ طور پر شامل نہیں کیا۔ جوزف کے بعد جیفری حینَس وہ پہلے اسکالر تھے، جنہوں نے مذہب اور سافٹ پاور کے مابین تعلق پر بات کی۔ ان کا کہنا تھاکہ مذہبی سافٹ پاور میں افراد کو ان کے سیاسی برتاؤ کو تبدیل کرنے کی ترغیب دینا بھی شامل ہے۔ اس کے بعد کئی اسکالروں نے یہ جاننے کی کوشش کی کہ مذہب اور مذہبی تنظیمیں کس طرح مذہبی تعلیم اور سماجی سرگرمیوں کی مدد سے لوگوں کے تصورات کو تبدیل کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔
۱۹۲۴ء میں دیانت فاؤنڈیشن کا قیام عمل میں آیا۔پہلی نظر میں یہ مذہبی اسکالروں پر مشتمل ایک ادارہ نظر آتا ہے، لیکن ایسا نہیں ہے۔ دیانت ریاست کے تحت ایک بیورو کریٹک ادارہ ہے۔ اپنے قیام کے بعد سے ہی اس ادارے میں مختلف تبدیلیاں ہوتی رہی ہیں۔ ۱۹۴۰ء کے کثیر الجماعتی نظام میں سیاسی جماعتوں کو یہ احساس ہوا کہ مذہبی جذبات کو ووٹ میں ڈھالا جا سکتا ہے۔ اسی وجہ سے دائیں اور بائیں بازو کی جماعتوں نے مذہبی افراد تک پہنچنے کے لیے دیانت فاؤنڈیشن کے اختیارات میں اضافہ کیا۔
۱۹۷۸ء میں دیانت فاؤنڈیشن کو ٹیکس سے مستثنیٰ کردیا گیا۔ اس اقدام سے ترکی کے اندر اور باہر دیانت کی سرگرمیوں میں مدد ملی۔ اسی سال یورپ میں ترکی کے سفارتی مشن میں مذہبی اتاشی اور امام تعینات کیے گئے۔ ۱۹۸۰ء کی فوجی بغاوت کے بعد دیانت کو ترکش اسلام (Turkish Islam) کے فروغ کے لیے استعمال کیا گیا۔ اس طرح دیانت اور ترکی کا ’’معتدل اسلام‘‘ ترکی کی خارجہ پالیسی میں سافٹ پاور کے آلے کے طور پر استعمال ہوتی رہی ہے۔
۲۰۰۲ء میں آق پارٹی نے جمہوریت پسند ایجنڈا اختیار کیا۔ بہتر ہوتی ہوئی معیشت، اندرونی اصلاحات اور دنیا میں اسلام اور جمہوریت کی بڑھتی ہوئی مطابقت نے ترکی کو ایک جمہوریت پسند مذہبی قوت ناعم کی حیثیت دی۔ ترکی اس وجہ سے بلقان، یورپ اور صومالیہ جیسے کچھ خاص ممالک میں اسلامی سافٹ پاور رکھنے والے دیگر ممالک کی نسبت زیادہ نمایاں ہو گیا۔ دیانت نے بھی ترک سفارت خانوں کا استعمال کیا اور آسٹریا جیسے ممالک کے ساتھ ائمہ کی تربیت اور مذہبی خدمات دینے کے معاہدے کیے۔ دیانت نے ۴۰ سے زائد ممالک میں دفاتر قائم کیے اور قرآن مجید سمیت دیگر مذہبی کتابوں کے ۲۵ سے زیادہ زبانوں میں تراجم شائع کیے۔ دیانت نے بلقان، وسطی یورپ اور افریقا کے مسلم اداروں کو مالی امداد بھی فراہم کی۔
البتہ یہاں یہ بات بھی لائق ذکر ہے کہ ترکی اب تک خود کو ایک مستقل اور حتمی مذہبی سافٹ پاور ثابت کرنے میں ناکام رہا ہے۔ ۲۰۱۰ء کے بعد سے آق پارٹی کی سیاسی سمت آمرانہ طرز حکومت کی جانب ہوگئی۔ جمہوری انحطاط کا یہ عمل ترکی کی داخلہ اور خارجہ پالیسی میں نظر آیا۔ پالیسیوں کی تبدیلی نے مؤثر سافٹ پاور بننے کی ترکی کی صلاحیت پر منفی اثرات ڈالے۔
ترکی کے مذہبی اداروں کی سرگرمیوں کو صومالیہ اور کوسو و جیسے ممالک میں تو قدر کی نگاہ سے دیکھا جارہا ہے لیکن یورپی ممالک کی صورتحال مختلف ہے۔ جرمنی، ہالینڈ اور سویڈن جیسے ممالک میں جہاں گولن تحریک اور ترک اپوزیشن کے دیگر لوگ جلاوطنی میں ہیں، وہاں دیانت کو ترکی کے اندرونی اختلافات کو بیرونِ ملک پھیلانے والا ادارہ سمجھتے ہیں۔اس کے علاوہ دیانت جیسے ادارے میزبان ممالک کی داخلی سیاست میں بھی دخل دینے لگے ہیں۔جس کی وجہ ایردوان کی تبدیل شدہ خارجہ پالیسی ہے۔
ترکی کی بڑھتی ہوئی آمرانہ اوراسلام پر مبنی پالیسیوں کومذہبی سافٹ پاور کے حوالے سے نہیں دیکھا جاسکتا۔ ترکی کی ان بدلتی پالیسیوں کو کچھ ممالک قدر کی نگاہ سے دیکھ رہے ہیں اور کچھ اس حوالے سے تحفظات رکھتے ہیں۔اسی وجہ سے ترکی کی مذہبی سافٹ پاور کو ایک دو جذبی رجحان کے طور پر سمجھا جا سکتا ہے۔تاہم یہاں یہ بات بھی یاد رہے کہ گزشتہ سالوں میں ترکی نے دیانت فاؤنڈیشن اور دیگر اداروں کا ایک جال بنا لیا ہے اور یہ مسلم اکثریتی ممالک میں اپنی اچھی ساکھ بھی رکھتا ہے۔اگر ترکی اپنی خارجہ پالیسی میں معتدل اسلامی راہ اختیار کرے اور دوبارہ اصل جمہوریت کی طرف گامزن ہوجائے تو یہ ان مسلم اکثریتی ممالک کے مقابلے میں زیادہ فائدہ اٹھاتا سکتا ہے، جو اپنی خارجہ پالیسی میں اسلام کو ایک آلے کے طور پر استعمال کر نا چاہتے ہیں۔
(ترجمہ: محمد عمید فاروقی)
“Turkey: An Ambivalent Religious Soft Power”.(“berkleycenter.georgetown.edu”. June 6, 2019)
Leave a Reply