
ترکی کے داعش کے ساتھ تعلقات کا اثر ناختم ہونے والا دکھائی دیتا ہے۔ان مسلسل دعوؤں کی وجہ سے کہ ترکی کے جہادیوں کے ساتھ خفیہ رابطے ہیں، ترکی کا عالمی تشخص مسخ ہو رہا ہے۔ اگرچہ ترکی اس بات کی تردید کرتا ہے۔ ترکی کردوں کے مابین امن بات چیت اب مکمل خاتمے کے قریب ہے کیوں کہ ’کوبانے‘ میں شامی کرد، ابھی تک داعش کے محاصرے میں ہیں جبکہ (سرحد کے دوسری جانب) ترکی کے ٹینک غیر فعال کھڑے ہیں۔
ترکی کی امریکا کے ساتھ دوستی میں بھی تلخی آئی ہے۔ کیونکہ ترکی نے اتحادی جنگی جہازوں کو داعش پر بمباری کرنے کے لیے ’انسرلیک‘ (Incirlik) کا ہوائی اڈا فراہم کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ اور اب ایک ڈینش جہادی کے مسئلے پر ڈنمارک کے ساتھ جھگڑا ترکی کے یورپی یونین کے ساتھ تعلقات کا امتحان لے رہا ہے۔
لبنانی نژاد ڈینش شخص باسل حسن پر اسلام مخالف نظریات کے حامل مصنف لارس ہیڈ گارڈ کو کوپن ہیگن میں قتل کرنے کا الزام ہے۔ اس شخص کو ترکی کی پولیس نے ایک مخبری کے بعد ۱۶؍اپریل کو استنبول اتا ترک ائیر پورٹ سے پکڑا تھا۔ اس وقت کافی احتجاج ہوا جب یہ بات سامنے آئی کہ ڈنمارک کی جانب سے حوالگی ملزم کے مطالبات کے باوجود ترکی نے باسل حسن کو رہا کر دیا ہے۔
کچھ لوگ یہ قیاس آرائی کرتے ہیں کہ باسل حسن یرغمالیوں کے اس تبادلے کا حصہ تھا، جس کے تحت داعش نے ۲۰ ستمبر کو ۴۶ ترک شہریوں کو رہا کیا۔ ان شہریوں کو عراقی شہر موصل میں قائم ترکی قونصل خانے سے جون میں اغوا کیا گیا تھا۔ کچھ اور لوگ یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ باسل حسن تبادلے کے معاہدے سے پہلے ہی غائب ہو گیا تھا۔ ترکی کی وزارتِ انصاف اس معاملے پر کوئی تبصرہ کرنے سے انکار کرتی ہے۔ یہ بات بھی واضح نہیں کہ داعش کے تین جنگجو جنہیں مارچ میں جنوبی ترکی میں ایک پولیس والے، ایک فوجی اور ایک عام شہری کو قتل کرنے کے جرم میں گرفتار کیا گیا تھا، آیا وہ ابھی بھی زیرِ حراست ہیں یا نہیں۔
ڈنمارک کے وزیرِ اعظم ہیلے تھورننگ شمٹ اس بات پر زور دیتے ہیں کہ ترکی کو اپنے رویہ کے نتائج کا سامنا کرنا پڑے گا، اگرچہ ’’اب اس مسئلے کو یورپی یونین میں لے کر جانا غیر مناسب ہو گا‘‘۔ مگر سوشلسٹ ڈیموکریٹک حریف میٹے جیرسکوو کہتے ہیں کہ یورپی یونین میں ترکی کی رکنیت پر مذاکرات روک دینے چاہئیں اور ترکی میں نیٹو مشن پر تعینات ڈینش فوجیوں کو واپس بلا لینا چاہیے۔ یورپی یونین نے قبرص کی سمندری حدود میں ترکی کی حالیہ مداخلت کی بھی مذمت کی ہے۔ یورپی پارلیمان کے ایک ڈچ رکن مریجے شاکیر نے خبردار کیا ہے کہ ’’میں تمام سیاسی حلقوں میں اس حوالے سے سنجیدہ تشویش دیکھتا ہوں کہ ترکی کس کے ساتھ کھڑا ہے‘‘۔
ترکی کی یورپی یونین میں شمولیت کی امیدیں اس وقت ہی کافی کمزور پڑ گئی تھیں جب پچھلے سال غازی پارک میں احتجاج کے دوران حکومتی ردِ عمل کے نتیجے میں کم از کم ۹؍افراد جاں بحق ہو گئے تھے۔ ترکی کی شمولیت کے حوالے سے مذاکرات پر یورپی یونین کی حالیہ سالانہ ترقی رپورٹ میں مختلف امور پر تشویش ظاہر کی گئی ہے۔ مثلاً صدر رجب طیب اردوان اور ان کے قریبی حلقے کے خلاف بدعنوانی کی تحقیقات کالعدم قرار دینے کی کوشش کرنا، پریس پر پابندیاں لگانا، انٹرنیٹ کو سنسر کرنا اور عدلیہ کو قابو میں رکھنے کی جدوجہد کرنا۔ اس کے باوجود حکومت پولیس کو وسیع اختیارات دینے کے لیے نئے قوانین پیش کر نے جا رہی ہے جس میں استغاثہ کی رضامندی کے بغیر مشکوک افراد کو ۲۴ گھنٹے حراست میں رکھنے کا حق بھی شامل ہے۔
امریکی حکومت کے ایک ما لیاتی عہدیدار ڈیوڈ کوہن نے یہ اعلان کر کے ایک اور دھماکا کیا ہے کہ داعش کو تیل کی غیر قانونی فروخت کے نتیجے میں، جس میں ’’ترکی آڑھتی‘‘ ملوث ہیں، روزانہ کم ازکم دس لاکھ ڈالر کی آمدن ہوتی ہے۔
ترکی کے عہدیدار، ان باتوں کے جواب میں یہ کہتے ہیں کہ ترکی داعش کو اپنی سلامتی کے لیے بھی خطرہ سمجھتا ہے۔ اور اس سال کے آغاز سے اب تک ۶۰ میگا لیٹر ممنوعہ ایندھن پکڑا گیا ہے اور ۶۵ کلومیٹر (۴۰ میل) کی غیر قانونی پائپ لائنیں تباہ کی گئی ہیں۔ اس کے باوجود انقرہ میں یورپی یونین کے سابق سفیر مارک پیرنی خبردار کرتے ہیں کہ جب تک ترکی بلا شک و شبہ پوری طرح داعش کے خلاف اتحاد کا حصہ نہیں بنتا یورپ اور مغرب میں اس کی جگہ کے حوالے سے شکوک و شبہات میں صرف اضافہ ہو گا۔
(مترجم: طاہرہ فردوس)
“Turkey and Europe: Problems with neighbours”. (“The Economist”. Nov. 1, 2014))
Leave a Reply