
دور حاضر کے تناظر میں جمہوریت کا ارتقا کئی مراحل سے گزرا ہے۔ پہلا دور سلطنتِ عثمانیہ کا تھا۔ ترکی اور مراکش کے سوا مشرقِ وسطیٰ کے تقریباً تمام ہی ممالک صدیوں تک سلطنتِ عثمانیہ کا حصہ رہے۔ یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ صدیوں تک یہ خطہ مجموعی طور پر جمہوریت کے ارتقا اور فقدان دونوں سے متصف رہا ہے۔ ہوسکتا ہے کہ چند علاقوں میں جمہوریت دوسرے علاقوں سے زیادہ رہی ہو۔
سلطنتِ عثمانیہ میں ۱۸۷۶ء میں آئینی بادشاہت متعارف کرائی گئی، جس کے تحت تمام صوبوں کے منتخب نمائندوں پر مشتمل پارلیمان معرض وجود میں آئی یا لائی گئی۔ بحرین، قطر، مصر، یمن، عراق، اسرائیل، اردن، تیونس، کویت، لبنان، لیبیا، فلسطین، سعودیہ، سوڈان اور شام کے عوام کی نمائندگی اس پارلیمان میں تھی۔ یہ جمہوریت کا پہلا مرحلہ تھا جس میں جمہوریت ابھی شیر خوار سی تھی۔
سلطنتِ عثمانیہ کی شکست و ریخت کے بعد اِس کے تمام صوبے آزاد و خود مختار ریاست کی حیثیت حاصل کرنے کے بعد اپنی اپنی روایات اور معاشرت کے مطابق جمہوریت کو پروان چڑھانے لگے۔ تین صدیوں کے بعد تیونس ۱۸۸۱ء میں فرانس کا حصہ بن گیا اور وہاں جمہوری روایات فرانسیسی تجربے کی بنیاد پر پروان چڑھیں۔ مصر ۱۹۱۴ء میں برطانوی پروٹیکٹوریٹ کا حصہ بنا اور یُوں وہاں جمہوریت برطانوی روایات کے مطابق پروان چڑھی۔ پہلی جنگِ عظیم کے بعد شام اور لبنان کو فرانسیسی مینڈیٹ کے تحت دے دیا گیا جبکہ عراق اور فلسطین کو برطانوی اتھارٹیز کے ماتحت کردیا گیا۔ ہر ملک اپنے سرپرست ملک کی روایات کی روشنی میں جمہوریت کے فروغ کی راہ پر گامزن ہوا۔ سعودی عرب اور دیگر خلیجی ریاستوں نے سخت اسلامی قوانین کی روشنی میں اپنا راستہ چُنا۔ ترکی سیکولر ریاست میں تبدیل ہوگیا۔
ترکی واحد ملک ہے جو سلطنتِ عثمانیہ کی شکست و ریخت کے بعد سیکولر بنا۔ ترکی اور خلیج کی ریاستوں سمیت خطے کے بیشتر ممالک کے درمیان بنیادی فرق اگر ہے تو سیکولراِزم کے باعث۔
مشرقِ وسطیٰ میں جمہوریت کے ارتقا کا تیسرا دور عرب دنیا میں بیداری کی لہر کے آنے پر شروع ہوا۔ یہ لہر جنوری ۲۰۱۱ء کے بعد شروع ہوئی۔ عرب دنیا میں بیداری کی لہر جیسے ہی پیدا ہوئی، سب یہ توقع کرنے لگے کہ اب مشرقِ وسطیٰ میں حقیقی جمہوریت نمودار ہوگی مگر یہ توقع اب تک پوری نہیں ہوئی۔ تمام ہی ممالک نے رول ماڈل کے طور پر ترکی کی طرف دیکھنا شروع کردیا۔ آزاد و خود مختار تیونس کے پہلے صدر حبیب برغوبہ کے سامنے آتے ہی یہ توقع کی جانے لگی کہ اب حقیقی جمہوریت درشن دے گی۔
یہ بھی اتفاق ہے کہ عرب دنیا میں بیداری کی لہر پیدا ہوتے ہی ترکی میں جسٹس اینڈ ڈیویلپمنٹ پارٹی نے یورپی یونین کی رکنیت کے حصول کی ایک شرط پوری کرتے ہوئے سیاسی اور معاشی اصلاحات کا ایک اور دور مکمل کیا۔ یورپی یونین کی توسیع سے متعلق انچارج کمشنر نے کہا کہ ترکی نے ۲۰۱۳ء اور ۲۰۱۴ء کے دوران اٹھارہ ماہ میں جو اصلاحات نافذ کیں وہ ۸۰ برس کے دوران متعارف کرائی جانے والی اصلاحات سے زیادہ تھیں۔ ترکی میں یہ اصلاحات ایک ایسی سیاسی جماعت نے نافذ کیں جس کی جڑیں اسلامی تعلیمات اور اُن سے جڑے ہوئے سیاسی اصولوں پر اُستوار تھیں۔ ترکی کی حکمران اے کے پارٹی نے یہ وضاحت بھی کی ہے کہ وہ اپنی کارکردگی کو اسلامی تعلیمات پر عمل کا پھل قرار نہیں دے رہی۔ اے کے پارٹی کے ارکان کی اکثریت کا تعلق کالعدم ورچیو (فضیلت) پارٹی سے ہے، جسے آئینی عدالت نے نان سکیولر قرار دے کر تحلیل کردیا تھا۔ عرب دنیا میں بیداری کی لہر پیدا ہونے کے بعد جو انتخابات ہوئے، اُن میں اِخوان المسلمون غیر معمولی سیاسی قوت کی حیثیت سے اُبھری۔
جمہوریت کے لیے بہت سے انقلابات کے رونما ہونے کے بعد اے کے پارٹی اپنے اسلامی تشخص کے ساتھ ایک ایسی سیاسی قوت کی حیثیت سے اُبھری جو کئی ممالک کے لیے مثال تھی۔ یعنی اصلاحات کے لیے اے کے پارٹی سے تحریک لی جاسکتی تھی۔ تیونس کے راشد غنوشی پہلے لیڈر تھے جنہوں نے رول ماڈل کے طور پر ترکی کا ذکر کیا۔ تیونس میں صدر زین العابدین بن علی کے برطرف کر دیے جانے کے بعد راشد غنوشی کی النہضہ پارٹی سب سے بڑی سیاسی قوت کے طور پر اُبھری۔ تیونس میں اسلامی جڑیں رکھنے والی ایک سیاسی جماعت کے برسر اقتدار آنے پر تیونس کے اندر اور باہر لبرل اور سیکولر حلقوں کا ملا جلا ردعمل تھا۔ خدشات اور تحفظات ٹالنے کے لیے راشد غنوشی کو اعلان کرنا پڑا کہ ان کی پارٹی اپنے دور حکومت میں تیونس میں شریعت نافذ نہیں کرے گی، خواتین کو اسکارف استعمال کرنے پر مجبور نہیں کیا جائے گا، شراب والے ریستوران پر پابندی عائد نہیں کی جائے گی، یعنی ترکی کے تجربے سے مکمل استفادہ کیا جائے گا۔
عرب دنیا میں بیداری کی لہر اٹھنے پر مصر میں بھی دانشور طبقے کے متعدد ارکان نے ترکی کو بہترین نمونے کے طور پر پیش کیا۔ ان کا خیال تھا کہ ترکی ایک ایسا نمونہ ہے جسے اپناکر آج کی دنیا میں سیاسی اور معاشی ترقی حاصل کی جاسکتی ہے۔ ترکی میں چونکہ اسلامی جڑیں رکھنے والی جسٹس اینڈ ڈیویلپمنٹ پارٹی کی حکومت تھی، اس لیے سبھی یہ توقع کرنے لگے کہ مصر، شام، لبنان، لیبیا اور تیونس میں جسٹس اینڈ ڈیویلپمنٹ پارٹی کی ہم خیال اِخوان کی حکومتیں بنیں گی۔
تیونس اور مصر میں اِخوان نے کامیابی حاصل کی مگر جب وہ عوام کی توقعات پر پوری اترنے میں ناکام رہی اور جمہوریت کے ارتقا کے حوالے سے مطلوبہ نتائج نہ دے سکی تو لوگ اُس سے بددل ہوگئے۔ دسمبر ۲۰۱۴ء میں تیونس میں صدارتی انتخاب ہوا تو یہ بات بھی سامنے آگئی کہ تیونس کے عوام النہضہ پارٹی کو ریڈ کارڈ بھی دکھا سکتے ہیں۔ مصر میں صدر مُرسی نے سوچا کہ بھرپور اکثریت کے حصول کے بعد اب اُن کے لیے ممکن ہوگیا ہے کہ ووٹ نہ دینے والوں کو نظر انداز کردیں۔ مصر میں ’’داعش‘‘ کے اُبھرنے سے اسلامی تحریکوں سے جُڑے منفی تاثر کو مزید تقویت ملی۔
اب عرب دنیا میں جمہوریت کے ارتقا کا چوتھا دور چل رہا ہے۔ لوگ یہ سوال کر رہے ہیں کہ مشرقِ وسطیٰ میں جمہوریت کا فروغ عوام کا معیارِ زندگی بلند کرنے میں بھی کوئی اہم کردار ادا کرے گا یا نہیں۔ وہ یہ جاننا چاہتے ہیں کہ جمہوریت سے انہیں کیا ملے گا اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اسلامی بنیاد پرستی ان تمام اقدار کے زندہ رہنے کی گنجائش چھوڑے گی، جو مشرقِ وسطیٰ کے عوام کو اب تک بہت عزیز ہیں؟
ترکی اب تک جمہوریت کے حوالے سے جنت بننے کے مرحلے سے بہت دور ہے مگر اس نے پارلیمانی جمہوریت کا مزا کم و بیش ۱۵۰؍سال پہلے چکھا تھا۔ ۱۹۲۳ء سے ۱۹۴۶ء تک ترکی میں ایک پارٹی کی جمہوریت اور حکومت رہی۔ ۷۰ سال سے ترکی میں کثیر الجماعتی جمہوریت رہی ہے۔ اس دوران کئی بار فوجی بغاوتیں ہوئی ہیں۔ جمہوریت پر شب خون مارا جاتا رہا ہے۔ یورپی یونین کی رکنیت کی بنیادی شرائط پوری کرنے کے عمل نے ترکی میں جمہوریت کو مضبوط بنانے اور کئی غیر جمہوری روایات کو ختم کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ مشرقِ وسطیٰ کے تمام ہی دوسرے ممالک کے مقابلے میں ترکی میں زیادہ اور مستحکم جمہوریت ہے۔
کئی وجوہ کی بنیاد پر اب ترکی پورے خطے کے لیے رول ماڈل نہیں رہا۔ مصر اور شام کی سیاست میں ترکی کے کردار نے بہت سے ممالک کو بدگمان کردیا ہے اور پھر یہ بات بھی ہے کہ ترک معاشرے میں اب مذہبی اقدار پر زیادہ زور دیا جارہا ہے۔
عرب دنیا میں بیداری کی لہر کے بعد جو جماعتیں اقتدار میں آئی تھیں، اُن کے اقتدار کا خاتمہ ہی ہمیں بتائے گا کہ خطے میں جمہوریت کس مقام پر ہے۔ کم از کم تیونس کا تجربہ تو یہی بتاتا ہے۔
“Turkey and the Development of Democracy in the Middle East”.
(“Middle East Monitor”. Feb. 1st, 2015)
Leave a Reply