
پچیس جنوری کو جنوبی امریکا کے ملک وینزویلا کی قومی اسمبلی کے رہنما جوآن گائیڈو نے عبوری صدر بننے کا اعلان کیا۔ امریکا، کینیڈا، امریکی ریاستوں کی تنظیم اور براعظم امریکا کے گیارہ ممالک تو گویا اس اعلان ہی کے منتظر تھے۔ انہوں نے فوری طور پر اس اعلان کی حمایت کا اعلان کردیا۔ دوسری طرف روس، چین، ایران اور کیوبا نے صدر نکولس مکدورو کی حمایت کا اعلان کردیا۔ ان میں ترکی کے صدر رجب طیب ایردوان بھی شامل ہوگئے۔
امریکا اور ترکی ایک بار پھر تصادم کی راہ پر ہیں۔ واشنگٹن نے انقرہ کو گھیرنے کی کئی کوششیں کی ہیں۔ ایک بڑا حملہ تو ترک معیشت پر کیا گیا، جو جھیل لیا گیا ہے۔ ترک صدر ایردوان کو اب امریکا سے الجھنے کا ہنر آگیا ہے۔ مجموعی کیفیت یہ ہے کہ وہ امریکا سے بہتر طور پر نمٹنے کے موڈ میں ہیں۔ وینزویلا کے معاملے میں ترک صدر نے ٹوئیٹ کیا کہ ’’ہم وینزویلا ہیں‘‘۔ یہ گویا اس امر کا اعلان تھا کہ امریکا جو چاہے کرلے، اُس کی مخالفت تَرک نہیں کی جائے، بالخصوص اصولوں کے معاملے میں۔ یہ ٹوئیٹ ترکی میں عمومی رجحان بن گیا۔ ترکی نے ایردوان کے دور میں روس، چین، ایران، وینزویلا اور ایسی ہی دیگر ریاستوں سے تعلقات بہتر بنائے ہیں جہاں مطلق العنان حکومتیں ہیں۔ وینزویلا سے تعلقات کو وسعت دینے میں ترکی نے بخل یا تامّل کا مظاہرہ نہیں کیا۔ دونوں ممالک نے حال ہی میں ایک وسیع البنیاد معاہدے پر دستخط کیے ہیں، جس کے تحت وینزویلا کے دارالحکومت کاراکس میں ایک مسجد تعمیرکی جائے گی اور ترک ایئر لائن کا دفتر بھی کھولا جائے گا۔ دونوں ممالک نے کئی برس پہلے ایک اور معاہدہ بھی کیا تھا، جس کا بنیادی مقصد دوطرفہ تجارت کو وسعت دینا تھا۔ امریکا نے وینزویلا کو مختلف حوالوں سے پریشان کرنا جاری رکھا ہے، جس کے نتیجے میں وہاں کے عوام کی مشکلات بڑھتی گئی ہیں۔ ایران سمیت کئی ممالک نے وینزویلا کو مشکل لمحات میں مدد دینا جاری رکھا ہے۔ اِسی روش پر گامزن رہنے کا یہ نتیجہ برآمد ہوا ہے کہ اب ترکی بھی وینزویلا کی مدد کرنے پر آمادہ ہے۔ گزشتہ جولائی میں وینزویلا کے اسٹیٹ بینک نے اعلان کیا کہ وہ ترکی میں قائم ایک بڑے کارخانے میں اپنے سونے کو بہتر شکل فراہم کرنے کی کوشش کرے گا۔ اس اعلان کے بعد وینزویلا سے سونا بڑے پیمانے پر ترکی منتقل کرنے کا عمل شروع ہوا۔ یہ عمل امریکا کے لیے بہت پریشان کن تھا کیونکہ وینزویلا اُس کے ہاتھ سے جارہا تھا۔ واشنگٹن نے پروپیگنڈا شروع کیا کہ انقرہ کی نظر کاراکس کے سونے پر ہے اور یہ کہ جو سونا انقرہ جارہا ہے وہ واپس نہیں آئے گا۔ یہ گویا وینزویلا کے عوام کو ورغلانے اور اکسانے کی ایک بھونڈی کوشش تھی۔
بات یہ ہے کہ وینزویلا کے پاس سونے کے معاملے میں ترکی پر بھروسا کرنے کے سوا آپشن نہ تھا کیونکہ یورپ نے قدم قدم پر امریکا کی ہم نوائی کا عندیہ دیا ہے۔ اس پر بھروسا کیا ہی نہیں جاسکتا۔ سوئٹزر لینڈ کے حوالے سے وینزویلا کے وزیر کان کنی نے شدید تحفظات کا اظہار کیا۔ اور یہ بات ایسی نہیں کہ سمجھی نہ جاسکے۔
حیرت انگیز بات یہ ہے کہ ۲۰۱۷ء میں دونوں ممالک کے درمیان سونے کی تجارت نہ ہونے کے برابر تھی مگر ۲۰۱۸ء کے ابتدائی ۹ ماہ کے دوران وینزویلا سے ۹۰ کروڑ ڈالر مالیت کا سونا ترکی منتقل ہوا۔ امریکی محکمۂ خزانہ کے معاون سیکریٹری برائے ٹیررسٹ فائنانسنگ مارشل بلنگزلی نے بتایا کہ سونا منتقل کرنے کے لیے وینزویلا کی قومی اسمبلی سے اجازت بھی نہیں لی گئی اور یہ کہ عوام کو صریح دھوکے میں رکھا گیا ہے۔ امریکا نے وینزویلا کے عوام کے حق میں چار آنسو بہانے کا ناٹک اِس طور کیا گویا وہ اب تک جو کچھ بھی کرتا آیا ہے، وہ اُن کے حق میں تھا اور ہے۔
جو سونا ترکی بھیجا گیا ہے وہ اب تک واپس نہیں آیا ہے، مگر وینزویلا نے عوام میں خوراک کی قلت دور کرنے کے حوالے سے ترکی سے بھرپور مدد لینے کا فیصلہ کیا ہے۔ یہی سبب ہے کہ ترکی سے خوراک کے لاکھوں ڈبّے وینزویلا پہنچ رہے ہیں۔ امریکی پابندیوں اور دیگر حالات و اقدامات کے نتیجے میں وینزویلا کو خوراک کی شدید قلت کا سامنا رہا ہے۔ صورتِ حال بہتر بنانے میں ایران اور ترکی نے کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ امریکا نے یہ خدشہ بھی ظاہر کیا ہے کہ وینزویلا کا جو سونا ترکی منتقل کیا گیا ہے اس کا کچھ حصہ شاید ایران بھی جارہا ہو۔ ایسا کرنا اُن پابندیوں کی خلاف ورزی میں شمار ہوگا، جو امریکا نے ایرانی حکومت پر عائد کی ہیں۔
ایک دلچسپ حقیقت یہ ہے کہ گزشتہ برس کے اوائل میں ترکی سے تجارت اور سرمایہ کاری کے حوالے سے تصادم کے بعد بھی امریکا نے ایران پر عائد کی جانے والی پابندیوں کے حوالے سے ترکی کو استثنیٰ دیا۔ ایران سے تیل خریدنے پر پابندی عائد کی گئی ہے، جو ۴ نومبر سے نافذ ہے۔ اس پابندی سے بھارت سمیت چند ہی ریاستوں کو تھوڑا بہت استثنیٰ دیا گیا ہے، جن میں ترکی بھی شامل ہے۔ گزشتہ برس کے اوائل میں ترک کرنسی کو بحرانی کیفیت سے دوچار کرنے پر امریکا کو دنیا بھر میں تنقید کا نشانہ بنایا گیا تھا کیونکہ اس کے نتیجے میں بھارت اور دیگر چند دوسرے ممالک میں بھی اسٹاک مارکیٹ بحران کا شکار ہوئی تھی۔ اس کے بعد یہ سوچا جارہا تھا کہ امریکی پالیسی ساز ایران کے معاملے میں ترکی کو کسی بھی نوع کی رعایت دینے سے گریز کریں گے۔ ایرانی تیل کے حوالے سے ترکی کو استثنیٰ دینے کے فیصلے نے دنیا کو حیران کردیا۔ اِسے امریکا کی کمزوری کے طور پر دیکھا جارہا ہے۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بہت سے معاملات میں بڑھک مارنے کے بعد پسپائی اختیار کی ہے۔ امریکا کے لیے ہر محاذ پر ڈٹے رہنا اب زیادہ ممکن نہیں رہا۔
وینزویلاکے معاملے میں ترکی ایک بار پھر کھل کر اور ڈٹ کر امریکا کے سامنے آگیا ہے۔ یہ گویا اس امر کا اعلان ہے کہ امریکی طاقت سے ٹکرانے میں کچھ زیادہ حرج نہیں۔ انقرہ کو معلوم ہے کہ واشنگٹن پر غیر معمولی دباؤ ہے۔ یورپ کی بہت سی مضبوط ریاستیں اپنی مرضی کے مطابق فیصلے کر رہی ہیں۔ ان کے لیے واشنگٹن کی دی ہوئی لائن پر چلنا لازم رہا ہے نہ ممکن۔ امریکی پالیسی ساز بھی جانتے ہیں کہ یورپ کو زیادہ دیر تک اپنے پَلّو سے باندھ کر رکھا نہیں جاسکتا۔ یہی سبب ہے کہ دیگر بہت سے ممالک کی طرح اب ترکی بھی اپنے حساب کتاب کے مطابق چلنے کی کوشش کر رہا ہے۔
(ترجمہ: محمد ابراہیم خان)
“Turkey Erdogan rushed to Maduro’s defense”. (“theglobalist.com”. January 27, 2019)
Leave a Reply