پندرہ جولائی ۲۰۱۶ء کی رات ترکی میں عوام نے ایک آزاد ملک کی حیثیت سے زندگی اور موت کی جنگ لڑی۔ یہ بات ترکی سے باہر رہنے والوں حتیٰ کہ استنبول اور انقرہ سے باہر مقیم ترکوں کو بھی کچھ مبالغہ آمیز دعویٰ سی لگ سکتی ہے مگر اُس رات اگر قارئین کرام میں سے کوئی ایک ترکی کے اِن دو شہروں میں ہوتے تو تب اُن کو معلوم ہوتا کہ راقم الحرو ف کی زندگی و موت کی جنگ سے کیا مراد ہے۔
اُس رات دونوں شہروں میں فوجی باغیوں نے کسی بھی اشتعال کے بغیر ترکی کے نہتے عوام پر بے رحمانہ انداز میں فائرنگ کی، اُس رات باغی فوجیوں نے مرد یا زن، بوڑھے یا جوان کا کسی بھی طرح لحاظ کیے بغیرلوگوں کو ٹینکوں سے کچل دیا۔اُس رات فوجی غداروں نے ترکی کی پارلیمان پر ایف ۱۶ سے بمباری کی اور احتجاجی عوام پر فوجی ہیلی کاپٹروں سے ایسی مشین گنوں سے فائرنگ کی، جس کے استعمال کی اجازت صرف جنگوں میں دشمن فوجیوں سے لڑتے ہوئے ملتی ہے۔ مگر اُس رات ترکی کی فوج میں قدم بہ قدم انفلٹریشن کرکے اُسے اپنے مقاصد کے لیے بروئے کار لانے کی کوشش کرنے والی ایک طاقت کے ظالم غلاموں نے قتل عام کرکے ترکی کے عوام کے سر خم کرنے کا اقدام کیا۔ مگر یہ قوم جو صدیوں سے صلیبی جنگوں سے عہدہ برآ ہوئی اور بارہا مرتے مرتے پھر سے اُٹھ کھڑی ہوئی، اِس قوم نے ترکی کے اندرونی اور بیرونی دشمنوں کو یہ کردکھایا کہ ہمیں غلام بنانا ممکن نہیں ہے!
اُس رات جب غدار فوجی عام لوگوں کے اوپر ٹینک چلاکر جارہے تھے تو لوگ اُن کو روکنے کے لیے ٹینکوں کے نیچے لیٹ گئے مگر وہ رکے نہیں۔ ایک ٹینک نے ۳۲ سالہ خاتون کے اوپر سے ایک نہیں تین چار دفعہ گزر کر اُس کو کچل دیا۔ لوگ پھر بھی ڈرے نہیں اور زیادہ غصے سے ٹینکوں پر وار کیا اورٹینکوں کو روکنے کے لیے ان کے سامنے کھڑے ہوگئے۔ پھر کسی نے سوچا کہ اِس کے ایگزوسٹ پائپ میں کپڑا گھسا دیا جائے، ہوسکتا ہے کہ یہ رک جائے تو اُس نے اِس پر عمل کیا اور وہاں لوگوں نے اپنی قمیصوں کونکال کر ٹینک کے پائپ میں گھسادیا اور واقعی چند منٹ بعد ٹینک رک گیا اور اندر ٹینک میں، جو باغی تھے وہ دھوئیں کی وجہ سے باہر نکلنے پر مجبور ہوگئے۔ اور پھر کسی ایک جگہ کسی نے سوچا کہ اگر میں ٹینک کی بیلٹ کے اندر بڑا پتھر ڈالوں تو شاید یہ رک جائے۔ اُس نے بھی اِس پر عمل کیا اور لوگوں نے ٹینک کی بیلٹ کے اندر پتھر اور لوہے کے ٹکڑے ڈال دیے تو واقعتاً اُس ٹینک کی بیلٹ بھی خراب ہوئی۔ پھر اِس کی خبریں واٹس اپ کے ذریعے ایک دو منٹ میں تمام استنبول اور انقرہ میں پھیل گئیں اور لوگوں نے اِس پر عمل کرکے باغیوں کے کئی ٹینکوں کو ناکارہ بنایا۔ اب ترکی میں ہم سب کو علم ہے کہ اگرخدانخواستہ کوئی اور طاقت اِس طرح کی دیوانگی کرے تو ہمیں اُس کے ٹینکوں سے کس طرح نمٹنا ہے۔ پھر جب ایف ۱۶ سے باغیوں نے بالکل نیچے آکر لوگوں کے اوپر سے گزرنا شروع کیا، جس کی وجہ سے بم دھماکے کی آواز اور شاک پیدا ہورہا تھا تو کچھ لوگ اُونچی عمارتوں کے اوپر چڑھ گئے جب ایف ۱۶ عمارت کے نزدیک آتے، اُس کے اوپر وزنی چیزیں پھینکنے لگے، اُس رات ترکی کے لوگوں کے دلوں سے اللہ تعالیٰ نے ڈر اور خوف کو اُٹھا ہی لیا۔ میں اپنی بات دہرانا نہیں چاہتا، مگر سوچیے کہ مجھ جیسا پچاس سال کا آدمی ہو اور وہ کسی یونیورسٹی کا پروفیسر ہو اور اُس کے دو چھوٹے بچے ہوں اور اوپر سے وہ کمر کی بیماری کی وجہ سے بھاگ بھی نہیں سکتا ہو، اگر یہ آدمی اُس رات فائرنگ کرنے والوں کی جانب بھاگتے ہوئے جاسکتا ہے تو آپ اندازہ لگا لیجیے کہ اُس رات ترکی کے عوام پر کس طرح کا جذبہ طاری ہوا تھا کہ ہم سب ناقابل یقین قربانیاں دینے پر تیار ہوگئے۔
اِس سلسلے میں کوئی جو بھی چاہے کہہ سکتا ہے یا تجزیہ کرسکتا ہے، مگر میں کہتا ہوں کہ ہم یعنی ترکی کے عوام نے چاہے یہ ترکی کی اپنی ہی فوج کا ایک غدار ٹولہ یا پھر کوئی مذہبی لیڈر کیوں نہ ہو، یہ ٹھان لی تھی کہ وہ پھر سے کسی کے غلام نہیں بنیں گے اور ترک عوام کو اپنے منتخب صدر اور وزیر اعظم کو پھانسی میں لٹکتے دیکھنا ہرگز گوارا نہیں تھا ۔ تو پھر لاکھوں ترک باشندے مرنے پر تیار ہوکر سڑکوں پر آگئے۔ اس کے علاوہ ترکی کے عوام کے ساتھ ساتھ ترک پولیس نے اور جمہوریت کے حامی فوجیوں نے جو جو قربانیاں دیں اُن کی تفصیل سامنے آچکی ہے لہٰذااُن کو یہاں دہرانے کی ضرورت نہیں۔ مگر اُس رات واقعتاً ترکی میں موت اور زندگی کی جنگ ہوئی، جسے ترک عوام اپنی جانوں کے نذرانے پیش کرکے جیت گئے۔
اُس رات تقریباً ڈھائی سو افراد شہید ہوئے، جن میں سے ایک سو ساٹھ عام شہری اور باقی پولیس کے اہلکار ہیں اور دو ہزار سے زائد شہری زخمی ہوئے۔ اِس کے بر عکس صرف چوبیس پچیس(۲۴۔۲۵) باغی فوجی ہلاک ہوئے وہ بھی پولیس کے ساتھ فائرنگ کے تبادلے کے دوران۔ ترکی کے عوام نے ان کا ظالمانہ رویہ دیکھنے کے باوجود گرفتا ر ہونے والوں میں سے کسی ایک کو بھی قتل نہیں کیا۔ غصے میں آکر کچھ لوگوں نے اُن کو قتل کرنے کی کوشش کی مگر دوسرے لوگوں نے اُن کے سامنے آکر ’’یہ وطن کی اولاد ہیں!‘‘ کہہ کر اُن کو بچایا۔ حالانکہ وہ باغی تھوڑی دیر پہلے اِس وطن کی اولادوں کو بے دردی سے قتل کررہے تھے۔اِس کے باوجود اِس قوم نے اپنی روایتی شفقت اور رحم دلی کا مظاہرہ کرکے اُن کو کچھ نہیں کیا۔
شب خون مارکر ترکی پر قبضہ کرنے کا قدم اُٹھانے والے یہ لوگ کون تھے؟ یہ کون تھے جو خفیہ انداز میں نجانے کتنے سالوں سے ترکی کی فوج کے اعضا میں وباکی مانند پھیل گئے؟ اور یہ لوگ کون تھے اپنے ہی لوگوں سے دیوانگی کی حد تک نفرت کرکے بے دردی سے اُن پر فائرنگ کی اور ٹینکوں سے اُن کو کچل دیا؟یہ لوگ سیکولرازم کے حامی لوگ نہیں تھے، نہ ہی قوم پرست تحریک کے حامی۔ کیونکہ اُس رات ترکی کے سیکولر اور قوم پرست تحریکوں سے وابستہ لوگ بھی اِس فوجی بغاوت کے خلاف سڑکوں پر نکل پڑے۔تمام شواہد ایک ہی طرف اشارہ کررہے تھے اور وہ تھے فتح اللہ گولن صاحب اور ترک فوج کی طرح ترکی کے مختلف شعبہ ہائے زندگی میں رچے بسے ہوئے اُن کے کارکن۔
پھر سالوں سے امریکا میں مقیم اور بزعم خود اور اپنے پیروکاروں کے مطابق مہدیٔ زمانہ اِن محترم نے مغربی میڈیا والوں کو اپنے پاس بلاکر انٹرویو دیا۔ پہلے تو اُنھوں نے فرمایا کہ یہ میرے خلاف ایک سازش ہے اور ترکی کے صدر رجب طیب ایردوان کا خود ساختہ ڈراما ہے۔ چلیے ایک منٹ ہم نے اِس غلط بیانی کو سچ قرار دیا۔ مگر اس کے بعد اُنھوں نے اپنے انٹرویو میں جو باتیں کیں اُن کو سن کر تو عقل دنگ رہ جائے۔ واقعتاً اُن کی باتوں میں ترکی کی حکومت کو چھوڑیے بغاوت کو ناکام بنانے والے ترک عوام سے نفرت کا جو بیان تھا اور اُن کے چہرے کی حرکات و سکنات سے اپنی قوم سے دشمنی کا جو اظہار تھا، اُسے دیکھ کرتو میں وحشت میں پڑگیا کہ خدایا یہ کیا ہورہا ہے؟ ایک ایسی شخصیت جس کی رحم دلی اور شفقت کا پرچار سالوں سے نہ صرف ترکی میں بلکہ تمام دنیا میں کیا جاتا ہے، اُس شخص کی زبان سے اپنی ہی قوم کے لیے اِس انداز میں نفرت آمیز اور نازیبا الفاظ سننا تو سچ مچ انسان کے تمام تر انسانی اعتقادات و تیقّن کو مسمار کردیتا ہے۔ اگر کوئی میری بات پر یقین نہ کرے تو میں امریکا کے اِن عزیز مہمان کی ویڈیو یقین نہ کرنے والوں کی خدمت میں پیش کرسکتا ہوں۔ کیونکہ اگر یہ ویڈیو میں خود نہ دیکھتا تو شاید میں بھی یقین نہ کرتا، مگر اُن کے انٹرویو دیکھنے کے بعد اور اُن کے اپنے ہی منہ سے اپنی ہی قوم کے لیے نفرت بھرے الفاظ سننے کے بعد تب مجھے سمجھ آگیا کہ پندرہ جولائی کو باغی فوجیوں نے کس ذہنی محرک کی برانگیخت سے ترکی کے نہتے عوام کو گولیوں، میزائلوں اور ٹینکوں کے ذریعے وحشیانہ انداز میں قتل کیا کیونکہ اُن کے دل میں وہی نفرت تھی جس کا مظاہرہ امریکا کے اِن عزیز مہمان کے لہجے میں ہورہا تھا۔اور تب مجھے یقین ہوگیا ہے کہ اِس ناکام بغاوت کے پیچھے فتح اللہ گولن کا ہاتھ ہے اور تب مجھے سمجھ آگیا کہ ہمارے صدر جناب رجب طیب ایردوان، فتح اللہ گولن کی ’’خدمت تحریک‘‘ جسے اردو میں ترکی تلفظ کی رو سے ہزمت لکھا کرتے ہیں کو ’’دہشت گرد تنظیم‘‘ کے نام سے پکارتے ہوئے کیا کہنا چاہتے ہیں۔
امریکا کے یہ عزیز و محترم مہمان ایک ڈرامائی انداز میں اور درد بھرے لہجے میں مغربی میڈیا کو بتاتے ہیں کہ’’ناکام فوجی بغاوت کے بعد ترکی میں میرے کارکنوں کے گھروں کو نذر آتش کرتے ہیں اور اُن کو اپنے اپنے گھروں سے نکال کر ذبح کرتے ہیں!‘‘ سبحان اللہ! نعوذ باللہ من ذالک!جھوٹ ہو تو ایسا!
اُن کے مذکورہ جملے کو سننے کے بعد طبعی طور پر انسان کے ذہن میں ایک سوالیہ نشان پیدا ہوتا تھا کہ اگر ترکی میں فوجی بغاوت کے پس پردہ وہ ذات اقدس کارفرما نہیں تو وہ اپنے حامیوں کے ذبح ہونے کی کون سی بات کرتے ہیں؟ مرنے والے توتقریباً چوبیس پچیس باغی فوجی ہیں۔ خیر وہ بھی ہلاک تو ہوئے مگر ذبح نہیں ہوئے ۔ وہ ہلاک شدہ باغی اُن کے حامی یا کارکن ہیں تو ٹھیک ہے وہ اُن کا سوگ منائیں اوراِس کے برعکس اگر وہ باغی اُن کے کارکن نہیں تو پھر وہ کس کا سوگ مناتے ہیں؟اگر امریکا کے یہ مہمان عزیز سوگ مناتے ہیں تو پھر اس کا مطلب ہے کہ یہ ایک طرح کے جرم کا اقرار ہے کیونکہ اُن کا بالواسطہ کہنا یہ ہے کہ وہ باغی میرے کارکن تھے!
شاید جس ملک کے وہ عزیز مہمان ہیں اُس ملک میں ترکی میں ہونے والے خون خرابے کا ایک فیصد بھی کسی گروہ نے کیا ہوتا تووہ لوگ صرف کرنے والوں کو نہیں اُن کی اگلی پچھلی نسلوں کو بھی نہیں بخشتے لیکن ترکی میں ایسا کچھ نہیں ہوا اور نہ ہی ایسا کچھ ہوگا۔ بس اُن کے سرغناؤں کے لیے پھانسی کی سزا کی بات ہوتی ہے وہ بھی بس بات ہوتی ہے، قطعی کچھ بھی نہیں۔
پھر امریکا کے یہ پیارے مہمان اپنے بیان میں فرماتے ہیں کہ’’ترکی کے عوام’’ بھیڑوں کا گلہ‘‘ ہیں اورپھر اپنے پیروکاروں کے پرچاروں میں ایک چیونٹی کو مرتے دیکھ کر رونے والے اِس رحم دل عظیم انسان (خیر وہ بذات خود اپنے وعظ و تبلیغ میں اپنی رحم دلی کا ذکر بار بار دہراتے رہتے ہیں) آگے بڑھ کر ترکی میں جمہوریت کو بچانے کی خاطر سڑکوں پر نکل کر شہید اور زخمی ہونے والے ہزاروں کی طرف اشارہ کرکے فرماتے ہیں کہ ’’یہ احمقوں کا گروہ‘‘ اپنے صدر کے حکم سے یہ سب کچھ کرتے ہیں۔‘‘
پھر امریکا کے انسان دوست یہ محترم ترکی کے عوام کو بددعائیں دے کر دھمکیاں بھی رسید کرتے ہیں کہ یہ شروعات ہے، ترکی میں اِس سے بھی بدتر صورتحال پیدا ہوگی!‘‘
نعوذ باللہ من ذالک! ثم نعوذ باللہ من ذالک! یہ محترم اِس قدر عظیم اور رحم دل ہیں کہ اُن کے دہان مبارک سے مسلسل بددعائیں اور لعنت ملامت برس رہی ہے!
پھر امریکا کے یہ مہمانِ صد احترام اپنے روحانی انکشافات کو اپنے ہر دل عزیز مغربی میڈیا والوں کو پیش کرکے فرماتے ہیں کہ ’’ترک حکومت داعش کے دہشت گروں کو ترکی میں تعلیم و تربیت دینے کے بعدامریکا، فرانس اور برطانیہ بھیجتی ہے۔ ترکی کے اسپتالوں میں داعش کے دہشت گروں کا علاج معالجہ ہوتا ہے۔‘‘ نعوذ باللہ من ذالک! شاید اُنھوں نے اِس طرح کے واقعات کا عالم خواب میں مشاہدہ کیا ہوگا تو ہو!
یعنی گولن اپنے موقف کی سچائی دکھانے کے لیے اور ترکی کی حکومت کے خلاف مغربی ممالک میں رائے عامہ پیدا کرنے کی خاطر ترکی کو داعش کا مرکز بتارہے تھے۔مگر کیا اِن محترم کو یہ علم نہیں کہ ترکی میں امریکا جس کی مہمان نوازی سے وہ بہرہ ور ہیں کے کئی جاسوس شہر شہر کی گشت میں ہیں اور ترکی کے انجرلک کے ہیڈکوارٹر میں امریکی اور یورپی فوجی موجود ہیں، جو صرف دمشق اور عراق کیا، تمام ترکی میں جو بھی ہوتا ہے اُس پر اُن کی گہری نظر ہے۔ یعنی اگر ترکی میں سچ مچ داعش کی تربیت ہوتی تو اب تک امریکا نے ترکی کا حشر نشر کیا ہوتا۔ ہاں اِن محترم کے الزامات پر مغربی میڈیا اور کچھ پاکستانی اور عرب میڈیا بھی یقین کرلیتا ہے کیونکہ یہ اُن کے کام میں آتا ہے۔
میں پھر دہرارہا ہوں کہ اگر امریکا کے اِن محترم مہمان کا انٹرویو میں خود اپنے کانوں سے نہ سنتا اور ویڈیو نہ دیکھتا تو شاید یقین ہی نہ کرتا۔ کیونکہ اپنے آپ کو مصلح عہد حاضر اور مہدیٔ زمانہ قرار دینے والے ایک فرد کے دل میں اپنی قوم سے اور اپنے ملک سے اِس قدر لامتناہی نفرت و بغض موجود ہوگا، میں یقین ہی نہیں کرپاتا۔ مگر صد افسوس کی بات ہے کہ اُنھوں نے ایسے بیانات اپنے ملک اور قوم کے خلاف اپنے پیارے مغربی میڈیا والوں کے سامنے دیے ہیں۔حالانکہ اُنھیں علم ہے کہ عراق میں صدام حسین اور لیبیا میں معمر قذافی پر مغرب والوں نے جھوٹے الزامات کی بوچھاڑ کرکے اپنے ملکوں میں رائے عامہ تیار کی اور پھر اُن دونوں ملکوں کو برباد کرکے چھوڑدیا اور لاکھوں بے گناہوں کو قتل کیا۔ اگر اُن کے الزامات کے بل بوتے پر مغرب والے ترکی کے ساتھ یہ کرنے کی کوشش کریں گے اور ترکی کے لاکھوں بے گناہوں کو قتل کریں گے تو کیا یہ عمررسیدہ صاحب امریکا میں خوشی منائیں گے؟ اُنھیں ترکی کے معصوم عوام کے خون سے ہولی کھیل کر کس طرح کا سکون ملے گا اور وہ کس نفرت کا بدلہ لیں گے۔
در اصل باتوں باتوں میں وہ سچائی کی بات بھی کہے دیتے ہیں مگر طیش میں آنے کی وجہ سے اُنھیں پتا نہیں چلتا یا یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اُنھیں اِس کا پتا چلتا ہو مگر وہ اِس طرح سے قوم کو ہراساں کرنا چاہتے ہوں۔ واللہ اعلم بالصواب! خیر ویسے بھی ترکی کے سیکولرازم کی محافظ فوج کے چیف آف اسٹاف خلوصی آکار صاحب نے بتایا ہے کہ جس دن اُن باغی فوجیوں نے اُن پر تشدد کرنا شروع کیا تو اُن باغیوں میں سے ایک افسر نے اُن سے کہا کہ میں آپ کو اپنے ’’روحانی لیڈر‘‘ فتح اللہ گولن صاحب سے فون پر بات کراتاہوں، اُن سے بات کرنے کے بعد آپ بھی ہمارے ساتھ تعاون کے لیے تیار ہوجائیں گے!
تاکید فی تاکید، اقرار علی الاقرار! اِن کو سننے کے بعد راقم الحروف مزید اور کیا لکھے؟
پھر ترکی کی منتخب حکومت کو تو کیا کرنا تھا؟ ظاہر ہے کہ دنیا میں کوئی بھی ملک ہو بغاوت کرنے والوں کے خلاف، کارروائی کرے گا اور کرنے پر مجبور بھی ہے۔ ترکی کی حکومت نے بھی وہی کیا اور غداروں کے عزائم کی سد راہ کے لیے اقدامات شروع کیے، ویسے بھی اگر ترکی کی منتخب حکومت نے یہ اقدامات نہ کیے ہوتے تو یہ قوم اربابِ اقتدار کو کبھی معاف نہیں کرتی۔یہاں یہ واضح کرنا چاہیے کہ یہ اقدامات ترکی کی منتخب حکومت کی جانب سے لیے جاتے ہیں۔ براہ راست ترکی کے منتخب صدر رجب طیب ایردوان کی جانب سے نہیں اور اکثر اقدامات کو ترکی کی مخالف پارٹیوں کی حمایت بھی حاصل ہے۔ پھر مغرب کی زمین، جہاں ازل سے سورج غروب ہوتا ہے، میں یہ ضوفشانیاں کیوں ہونے لگی ہیں کہ ترکی حکومت کو اِس طرح کے سخت اقدامات یا پابندیاں نہیں لگانی چاہییں۔ یہ اقدامات بین الاقوامی انسانی حقوق اور اقدار کی خلاف ورزی ہیں۔ الا ماشاء اللہ! نہتے عوام کو قتل کرنے والوں کے لیے انسانی حقوق لازمی ہے مگر مرنے والے بے گناہ لوگ کیا اُن کا کوئی انسانی حق نہ تھا؟
مغرب کے ساتھ ساتھ اردو میڈیا میں بھی ایک گروہ جس کے مذکورہ ’خدمت تحریک‘ سے مختلف طریقوں سے مادی زیادہ اور معنوی کم روابط ہیں، وہ ترکی میں معطل ہونے والے گولن صاحب کے کارکنوں اور پیروکاروں کا نوحہ پڑھنے لگے کہ کیوں اتنی تعداد میں لوگ برطرف کیے جاتے ہیں، یہ صرف رجب طیب ایردوان کی انتقامی کارروائیاں ہیں۔ میں اُن کو میر تقی میر کے ایک شعر سے جواب دینا چاہوں گا کہ:
اک قیامت بپا ہے یاں سرِ راہ
کچھ چھپا تو نہیں رہا یہ راز
مزید بر آں معلوم گروہ کے پیروکاروں کے بچھائے جال میں پھنس کر اِس خونی بغاوت کو ترکی میں اسلام اور سیکولرازم کی پرانی تعبیرات سے بیان کرنے کی کوشش کرنے والے سیکولر خیالات کے پاکستانی تجزیہ کار دوستوں کو مطلع کرنا چاہتا ہوں کہ اپنے اپنے مکانوں میں بند رہ کر پرانے اقدار اور بھولی بسری تعبیرات کے ذریعے اِس غداری کو سیکولرازم اور اسلام کی لڑائی کی صورت میں پیش کرنے سے باز آئیں۔ اُن کو شاید یہ سن کر افسوس ہوگا کہ ترکی کی سب سے سیکولر پارٹی جو اپنے آپ کو ترکی میں سیکولرازم کی محافظ ٹھہراتی ہے اور رجب طیب ایردوان دشمنی سے تو بے مثال ہے، اِس پارٹی کے لیڈر محترم جناب قلیچ دار اوغلو نے بھی اِس فوجی بغاوت کی سخت مذمت کی اور اب کل ہی تقسیم اسکوائر میں جمہوری خلق پارٹی کے کارکنوں نے فوجی بغاوت کے خلاف ایک عظیم احتجاجی جلوس نکالا، جس میں لاکھوں افراد شریک تھے اور یہ بھی مد نظر رکھیے کہ غداروں کا ایف ۱۶ جب ترک پارلیمان پر بمباری کررہا تھا اُس دوران پارلیمان میں سیکولر جمہوری خلق پارٹی کے ممبر بھی فوجی بغاوت کی مذمت کے لیے اکٹھے ہوئے تھے۔
اِس لیے الانصاف میرے پیارے تجزیہ کار بھائیو، الانصاف!!! ترکی میں شہیدوں کے خون سے جمہوریت بچی اور ترکی کے عوام، سیکولر، مذہبی، ترک، عرب، کرد اور سنی اور شیعہ مل کر ایک جسم واحد کی صورت میں اِس غداری اور خونی بغاوت کے سامنے کھڑے ہوئے تو پھر آپ کو کیا غم ہے کہ اِس عظیم جد و جہد کو سیکولرازم اور مذہبی ٹکراؤ کا رنگ دینے کی سعی میں مبتلا ہیں اور کیوں اب تک آپ مہربانی کرکے ہمارے شہیدوں کے خون کا مذاق اُڑانے سے باز نہیں آتے؟
(۔۔۔ جاری ہے!)
Allah Turk nation ko salamat rakhy.awam khasi bakhaber aur bedar he.dushmanon me naseeb mein is baghawat ki Torah nakamian Hong.ameen.
ترکی کے اصل حالات اور بغاوت کے پس پردہ محرکات اور دیگر تفصیلات اردو زبان میں پیش کرنے کا بہت شکریہ
اگلی قسط کا انتظار رہے گا۔
معلوماتی ۔۔۔۔۔۔ بہت شکریہ
It’s an amazing article that answers & clarifies the many unknowns.
Masood Farooqi
East West Link