ایک سال سے بھی زائد مدت سے عرب دنیا میں رونما ہونے والی انقلابی تبدیلیوں کے بعد مصر میں ابھرنے والی نئی قیادت اور علاقائی سیاست میں اس کے بحال ہوتے ہوئے کردار کا ترکی نے بھرپور خیرمقدم کیا ہے جسے خود بھی شام اور عراق کی بگڑتی ہوئی صورتِ حال کے باعث شدید دباؤ کا سامنا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ ایرانی پالیسیاں بھی ترک مفادات کے لیے خطرناک ہوتی جارہی ہیں۔
ترکی نے مصر میں رونما ہونے والی تبدیلیوں کو بر وقت محسوس کرتے ہوئے حسنی مبارک کے تیس سالہ اقتدار کے خاتمے کے لیے آواز اٹھائی۔ ۲ فروری ۲۰۱۱ء کو ترک وزیر اعظم رجب طیب اردغان نے پارلیمنٹ سے خطاب کرتے ہوئے حسنی مبارک کے آمرانہ اقتدار کے خاتمے کا مطالبہ کیا اور مصر کے عوام کو بھرپور حمایت کا یقین دلایا۔ ساتھ ہی انہوں نے ایک ہفتے بعد شروع ہونے والا مصر کا دورہ بھی منسوخ کردیا۔ قاہرہ کے تحریر اسکوائر میں ہزاروں افراد جمع ہو رہے تھے جب رجب طیب اردغان نے حسنی مبارک سے کہا کہ عوام کے دل کی آواز سنو، ان پر جبر بند کرو کیونکہ عوام کی طاقت کے آگے کوئی بھی ٹھہر نہیں سکتا۔
جون ۲۰۱۲ء میں اخوان کے سابق رہنما محمد مرسی نے صدر کا منصب سنبھالا۔ غالب امکان یہ ہے کہ وہ ترک وزیراعظم اردغان کے ساتھ بہتر تعلقات استوار رکھنے میں کامیاب ہوں گے، جو ۲۰۰۲ء کے اقتدار میں موجود جسٹس اینڈ ڈیویلپمنٹ پارٹی (اے کے پی) کے سربراہ ہیں۔ دونوں رہنما بیشتر علاقائی اور بین الاقوامی معاملات میں یکساں موقف کے حامل ہیں اور اس بات کا قوی امکان ہے کہ ان کی قیادت میں ترکی اور مصر تیزی سے اشتراکِ عمل اور ترقی کی راہ پر گامزن رہیں گے۔ مصری صدر محمد مرسی نے گزشتہ ماہ عرب لیگ سے پہلے صدارتی خطاب میں اس بات پر زور دیا کہ شام کا بحران حل کرنے کے لیے سعودی عرب، ترکی، مصر اور ایران پر مشتمل گروپ بنایا جائے۔ اس تجویز کا ترکی نے بھرپور خیر مقدم کیا ہے۔ اس کا ایک مفہوم یہ بھی ہے کہ مصر علاقائی سیاست میں اپنا قائدانہ کردار بحال کرنا چاہتا ہے اور ترکی اس تبدیلی کو قبول کرنے کے لیے تیار ہے۔
محمد مرسی کے صدر بننے سے پہلے بھی ترکی اور مصر بیشتر علاقائی اور عالمی امور میں ایک دوسرے کے موقف کی تائید کرتے آئے ہیں جو اس بات کی علامت ہے کہ دونوں ممالک کے تعلقات مستقبل قریب میں غیر معمولی رفتار سے بہتر اور مستحکم ہوں گے۔ مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقا میں ایران کے بڑھتے ہوئے اثر و نفوذ اور توسیع پسند پالیسی سے دونوں ممالک پریشان ہیں۔ ترکی اور مصر چاہتے ہیں کہ شام میں بشارالاسد حکومت کا خاتمہ ہو اور ایک مستحکم اور متوازن حکومت قائم ہو۔ محمد مرسی نے تہران میں ناوابستہ تحریک کی سربراہ کانفرنس سے خطاب میں بھی شام میں حکومت کی تبدیلی پر زور دیا جس سے ترک موقف کی بھی تائید ہوئی۔
عراق میں ایران کے بڑھتے ہوئے اثرات پر بھی مصر اور ترکی دونوں کو تشویش ہے۔ مصری سفارت کاروں کا کہنا ہے کہ عراقی وزیر اعظم نوری المالکی نے مصر کی جانب سے خلوص کے اظہار کے کسی بھی طریقے کو قبول کرنے سے انکار کردیا ہے۔ اسپتال یا اسکول تعمیر کرنے کی راہ میں بھی دیواریں کھڑی کی جارہی ہیں۔ عراقی وزیراعظم کے لیے مصر اور ترکی کی جانب سے دباؤ کا سامنا کرنا دشوار ہوگا اور وہ بہت جلد تہران میں مذہبی قیادت سے اس حوالے سے بات کرنے پر مجبور ہوں گے۔ علاقائی سیاست میں مصر کا بڑھتا ہوا کردار فلسطینی کاز کے لیے بھی بہت سود مند اور حوصلہ افزا ثابت ہوگا۔
ترکی اور مصر خطے میں استحکام کو بنیاد بناکر آگے بڑھنا چاہتے ہیں جبکہ ایران اور اسرائیل زیادہ سے زیادہ خرابی پیدا کرکے اپنے مفادات کو تحفظ فراہم کرنا چاہتے ہیں۔ ایسے میں یہ بات حیرت انگیز نہیں کہ ترک اور مصری معاشرے میں لسانی اور نسلی بنیاد پر نفرت پیدا کرنے کی سازشیں کی جاتی رہی ہیں اور کی جارہی ہیں۔ ترکی اور مصر دونوں ہی خطے میں ایٹمی ہتھیاروں کی دوڑ کے خلاف ہیں اور اسی لیے وہ نہیں چاہتے کہ ایران ایٹمی ہتھیار بنائے۔
سعودی عرب اور خلیجی ممالک کو خدشہ ہے کہ مصر میں رونما ہونے والا عوامی انقلاب ان کی حدود میں بھی مشکلات پیدا کرے گا مگر ترکی کو ایسا کوئی خدشہ لاحق نہیں کیونکہ وہ جمہوری معاشرہ ہے اور اسے اچھی طرح معلوم ہے کہ تیزی سے بدلتی ہوئی صورتِ حال کے مطابق کیا کرنا ہے۔ مصر میں جمہوریت کے پنپنے کے ساتھ ساتھ دونوں ممالک کے تعلقات میں مزید استحکام آئے گا اور وہ خطے میں جمہوری اقدار کے فروغ کے لیے مل کر کام کریں گے۔
سب سے زیادہ حوصلہ افزا بات یہ ہے کہ مصر اور ترکی کے درمیان معاشی روابط تیزی سے فروغ پا رہے ہیں۔ انقلاب کے زمانے میں بھی مصر اور ترکی کی تجارت پھلتی پھولتی رہی۔ دونوں ممالک ایک دوسرے کے ہاں سرمایہ کاری پر یقین رکھتے ہیں۔ معاشی تعلقات ہی سیاسی تعلقات کی اصل بنیاد ہوتے ہیں۔ معاشی روابط ہی کی بنیاد پر طے ہوتا ہے کہ دو ممالک ایک دوسرے سے کس حد تک قربت محسوس کرتے ہیں۔ ۲۰۱۱ء میں ترکی اور مصر کی تجارت ۴؍ ارب ۲۰ کروڑ ڈالر سے زائد ہوگئی۔ اس سے ایک سال قبل دوطرفہ تجارت کا حجم ۳؍ارب ۲۰ کروڑ ڈالر تھا۔ ۲۰۱۲ء کے ابتدائی سات ماہ کے دوران دونوں ممالک کے درمیان تجارت کا حجم تین ارب ڈالر سے زائد ہوگیا۔ سیکڑوں ترک کمپنیاں مصر میں کام کر رہی ہیں۔ وہ ایک طرف تو سرمایہ کاری بڑھا رہی ہیں اور دوسری طرف ٹیکسوں میں مکمل چُھوٹ کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ان تمام ممالک کو اپنا مال برآمد کر رہی ہیں، جن سے مصر نے شراکت کے معاہدے کر رکھے ہیں۔
شام کے خراب حالات کے باعث ترکی کے لیے اب شامی آبی راستوں کا استعمال ممکن نہیں رہا، اس لیے ترک مال کی ترسیل کے لیے مصر کی بندر گاہ مرسن (Mersin) استعمال کی جارہی ہے۔ اس سے دونوں ممالک کے درمیان تیزی سے پنپتے ہوئے معاشی روابط کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ ترک مال کو خلیجی اور افریقی ریاستوں تک پہنچانے اور وہاں سے مال منگوانے کے لیے مصر کے آبی راستوں کا استعمال ترک کمپنیوں کو خاصا آسان اور سستا پڑے گا۔ تین برِہائے اعظم کے لیے ترکی اور مصر کو تجارتی مرکزیت دینے سے دونوں ممالک کو بھرپور فائدہ پہنچے گا۔ دونوں ممالک چند دوسرے امور میں بھی تعاون کی راہ ہموار کر رہے ہیں۔ قاہرہ اور استنبول بہت سے معاملات میں بھی ایک دوسرے سے غیرمعمولی مماثلت رکھتے ہیں۔ ان کا نظم و نسق مشترکہ بنیاد پر کرنے کا منصوبہ بھی زیر غور ہے۔
دونوں ممالک نے گزشتہ ماہ اعلیٰ سطح کی اسٹریٹجک کوآپریشن کونسل بھی تشکیل دی ہے جو تجارتی اور دفاعی تعاون کو مستحکم کرنے میں مرکزی کردار ادا کرے گی۔
(“Turkey Hails Egypt’s Comeback”…
“Today Zaman” Turkey. September 7th, 2012)
Leave a Reply