یہ خیال کہ یورپی یونین میں ترکی کی عدم شمولیت یونین کی واضح عدم رضامندی کے سبب ہے نہ کہ مسلم عوام کی کسی عیسائی یونین میں شمولیت کے حوالے سے عدم دلچسپی کے باعث‘ اب نظرثانی کا محتاج ہے۔ یورپی یونین کے رکن ممالک کی ترکی کی یونین میں درخواستِ شمولیت کے خلاف واضح نفرت اور مشرقی یورپ کے ممالک کو یونین میں تیزی سے شامل کیے جانے کا عمل عجیب و غریب ہے۔ جبکہ ابھی حال تک مشرقی یورپ کے ممالک ترکی کے برعکس مغرب مخالف اور روس کے حامی رہے ہیں۔ اس صورت حال نے ترکی عوام کی عام سوچ کو بدل کر رکھ دیا ہے اور وہ حکومت کے عزمِ راسخ کے مخالف ہو گئے ہیں جن کا اظہار وہ یونین میں ترکی کو شامل کرنے کے حوالے سے کرتی رہی ہے۔ حتیٰ کہ وہ سیکولر گروہ بھی جو اس بات کے حامی تھے کہ ترکی کو اپنے مسلم ماضی اور حال سے جان چھڑا لینی چاہیے‘ اب حکومتی رویے کے ناقد ہیں۔ فوجی جنرلوں نے بھی یورپی یونین کو اس بات پر کھل کر اپنی تنقید کا نشانہ بنایا ہے کہ یونین ترکی پر بیرونی اقدار مسلط کرنے کے لیے کوشاں ہے۔ حالانکہ اس سے پہلے یہی فوجی جنرل سیاسی اقتدار پر اپنی خفیہ گرفت کے قائل تھے اور عوامی بیانات سے گریز ہی کیا کرتے تھے۔ حال ہی میں یورپی عدالت برائے حقوقِ انسانی کا یہ فیصلہ کہ ترکی حکومت کرد باغی عبداﷲ اوکلان پر دوبارہ مقدمہ چلائے‘ ترک عوام کو غم و غصے سے دوچار کر دیا ہے۔ ترکی کے عام لوگ جن کا ملک بہرحال ایک زمانے میں سپر پاور رہ چکا ہے اور یورپ کے بعض ممالک پر بھی حکمرانی کر چکا ہے‘ جنہیں اب یورپی یونین میں خوش آمدید کہا جارہا ہے‘ کا یہ احساس ہے کہ بروسلز ترکی کی درخواستِ شمولیت کے ساتھ جو سلوک روا رکھ رہا ہے‘ وہ انتہائی توہین آمیز ہے۔ اس کے خیال میں یورپی یونین ترکی کو Banana Republic کی حیثیت دے گا۔ واضح رہے کہ بنانا ریپبلک سینٹرل امریکا کا ایک چھوٹا سا ملک ہے جو سب سے غریب ہے اور بیرونی امداد پر زندہ ہے۔ مثلاً Sencan Bayramuglu جو کہ ایک ریٹائرڈ ٹیچر ہیں‘ کا ایک بیان ابھی حال ہی میں ایک امریکی میگزین میں نقل ہوا ہے۔ وہ فرماتی ہیں ’’ہم وہی کریں جو یورپ ہم سے کہے‘ یہ نہیں ہو سکتا۔ یورپ کا رویہ ہمارے ساتھ ایسا ہے گویا وہ ہمیں بنانا ریپبلک قسم کا کوئی ملک سمجھتا ہے‘‘۔ یہ حقیقت ہے کہ یورپی یونین کی عدالت برائے انسانی حقوق (ECHR) کے اوکلان پر مقدمہ چلانے کے مطالبے نے انہیں مشتعل کیا ہے۔ اس خاتون کا بیٹا ان ۳۰ ہزار لوگوں میں شامل ہے جو ۱۵ سالہ شورش کی نذر ہو گئے اور جن کا اختتام بالآخر ۱۹۹۹ء میں عبداﷲ اوکلان کی گرفتاری پر ہوا۔ لیکن جیسا کہ میگزین کا خیال ہے کہ اس خاتون کا غم و غصہ صرف کرد باغی رہنما کے خلاف نہیں ہے‘ جسے وہ اپنے بیٹے کے قتل کا ذمہ دار سمجھتی ہے بلکہ اس کا غصہ یورپی ادارہ کے بھی خلاف ہے جو ترکی سے یہ مطالبہ کرتا ہے کہ وہ یورپی یونین میں شامل ہونے کے لیے یورپی معیارات پر پورا اتر کر دکھائے جو کہ اس میں شامل ہونے کے لیے ایک لازمی شرط ہے۔ بہت سارے قومی سوچ کے حامل لوگ عدالت کے اس فیصلے کو کرد انتہا پسندوں کا کھیل کھیلنے سے تعبیر کرتے ہیں۔ انہیں یہ خوف ہے کہ اس فیصلے سے ترکی لسانی بنیادوں پر تقسیم ہو جائے گا۔ بہت سارے لوگ طلعت سلک کی رائے سے متفق ہیں جس نے ۱۹۹۹ء میں اوکلان پر مقدمہ قائم کیا تھا کہ اوکلان پر دوبارہ مقدمہ چلانے کے سنگین نتائج سامنے آئیں گے اور یہ کرد دہشت گردوں کے ہاتھ میں کھیلنے کے مترادف ہو گا کیونکہ اس طرح کرد باغیوں کو ملک کے بڑے شہروں میں احتجاجی مظاہرے منظم کرنے کا بہانہ ہاتھ آجائے گا۔ طلعت سلک کی رائے سے جو سیاستداں متفق ہیں‘ ان میں ایک Devlet Bahceli بھی ہیں‘ جنہوں نے اعلانیہ عدالت کے فیصلے کی مخالفت کی ہے۔ انہوں نے ECHR کے اس فیصلے کو ٹائم بم سے تعبیر کیا ہے اور اسے کشیدگی میں اضافے کا سبب قرار دیا ہے۔ لیکن ترک فوج کے سربراہ جنرل حلمی اوزکوک نے اس فیصلے کے جاری ہونے سے پہلے ہی اس کی سخت مخالفت کی تھی۔ اس نے اپریل ہی میں یہ کہہ دیا تھا کہ ’’بیرونی قوتیں ہماری قومی ثقافت کو تبدیل کرنے کی کوشش کر رہی ہیں‘ ہم پر ایسی بیرونی اقدار‘ فیشن اور زبان مسلط کرتے ہوئے جو ترکی کی اپنی روایات و اقدار سے قطعاً میل نہیں کھاتیں۔ جب فیصلے کا اعلان ہوا تو اس نے اسے ایک سیاسی بازیگری قرار دیا۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ شمالی قبرص میں ترکی کا سکیورٹی انٹرسٹ ہے اور یہ کہ ترکی پر ۱۹۱۵ء میں آرمینیائی عوام کی نسل کشی کا جو الزام عائد کیا جاتا ہے‘ وہ سراسر بے بنیاد ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ امریکیوں کو عراق میں کرد باغیوں سے نجات حاصل کرنے کی ذرا بھی فکر نہیں ہے۔ یہ کوئی قابلِ تعجب بات نہیں ہے کہ ترکی جنرل نے اس پر بھی اصرار کیا کہ سیکولرزم ترکی جمہوریت کی قوتِ محرکہ ہے اور یہ کہ ترکی کو متحد رہنا چاہیے۔ ترکی کی یورپی یونین میں شمولیت سے متعلق شرائط میں سے ایک شرط یہ بھی ہے کہ فوجی جنرلوں کی سیاست میں مداخلت ختم ہونی چاہیے۔ لیکن جنرل اوزکوک کی مداخلت پر کوئی تنقید نہیں ہوئی اور امریکیوں نے جنرل کی اس تنقید کو نظرانداز کر دیا کہ انہیں عراق میں کرد باغیوں سے نجات حاصل کرنا چاہیے۔ یورپی یونین اور امریکا‘ دونوں ہی ترکی کی سیاست میں فوج کے کردار سے مطمئن ہیں‘ اس لیے کہ اس صورت میں ترکی کا سیکولر اور مغربی نواز رہنا یقینی ہے۔ یہ دلچسپ بات ہے کہ اگرچہ جنرل اوزکوک ترکی حکومت کے یورپی یونین میں شمولیت کے پروگرام سے خوش نہیں ہیں‘ تاہم انہوں نے ترکی کی تاریخ ازسرِ نو رقم کیے جانے کے حوالے سے کچھ بھی نہیں کہا اور نہ ہی اماموں کے تربیتی پروگرام پر تنقید کی‘ جس کا مقصد یورپی یونین کے مطالبات سے ہم آہنگ ہونے کے لیے سیکولرزم کی جڑیں مضبوط کرنا ہے اور اگرچہ تعلیمی نظام میں حکومت کی مداخلت خالص سیاسی بنیادوں پر ہے لہٰذا اس کا جمہوریت سے دور کا بھی تعلق نہیں ہے اور یہاں بھی نہ ہی یورپ نے اور نہ ہی امریکا نے یہ اعتراض کیا کہ دوسرے لوگوں کی ثقافت اور مذہبی حقوق پر کلیت پسندانہ جارحیت کیوں کی جارہی ہے؟ یہ بڑے شرم کی بات ہے کہ قومی سوچ رکھنے والے جو بجا طور سے یورپی جارحیت اور اپنی حکومت کی سرنگونی و سپراندازی کی مخالفت کر رہے ہیں‘ سیکولر نواز پالیسیوں اور تعصبات سے عاجز معلوم ہوتے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ مغربی سیاستداں اور میڈیا وزیراعظم طیب اردگان کی حکومت کو اسلامی یا اسلام حامی قرار دے رہے ہیں تاکہ اس طرح وہ سیاست اور حکومتی پالیسیوں میں سیکولرزم کی بالادستی کو یقینی بنانے کے لیے دبائو برقرار رکھ سکیں۔ لیکن یونین میں شمولیت کے لیے سیکولرزم کئی مطالبوں میں سے صرف ایک مطالبہ ہے۔ حقوقِ انسانی کا احترام لسانی اقلیتوں کو مراعات بھی ان مطالبوں میں بہت اہمیت کے حامل ہیں۔ لیکن قومی سوچ رکھنے والے اور دیگر لوگ بھی یہ سمجھتے ہیں کہ یورپی یونین کو کردوں کی تقدیر اور نہ تمام ترکوں کے حقوقِ انسانی کی فکر ہے بلکہ یہ دونوں مسئلے کو ترکی کو یونین سے باہر رکھنے اور اسے کمزور کر کے لسانی ریاستوں میں تقسیم کرنے کے لیے غالباً استعمال کر رہا ہے۔ یہ بات مختلف پس منظر اور عقیدے سے تعلق رکھنے والے بہت سارے ترکوں کے نزدیک روز بروز واضح ہوتی جارہی ہے۔ جس کا نتیجہ یہ ہے کہ حکومت پر دبائو بڑھتا جارہا ہے‘ وہ الگ تھلگ رہے۔ چونکہ ترکی کا یونین سے الگ رہنا‘ مذہب و ثقافت کے اعلیٰ مفاد میں ہے‘ اس لیے ترک عوام کا افتخار اس میں ہے کہ قبل اس کے کہ وہ برسلز کے ذریعہ مسترد کر دیے جائیں‘ یونین سے باہر رہنے کا خود ہی رضاکارانہ فیصلہ کریں۔
(بشکریہ: ’’کریسنٹ انٹرنیشنل‘‘۔ ٹورانٹو۔ جون ۲۰۰۵ء)
Leave a Reply