ترک جہاں رہے یا جہاں انہوں نے حکومت کی ان کا فعال دور رہا ہے! قلیل الفاظ کا حامل ترکی وزیر خارجہ احمد دائود اولو کا یہ بیان ترکی کے حجم کی ریاست کی بیرونی پالیسی کا واضح و دقیق ترین بیان ہے، یہ ان اصولوں کا اعلان ہے جو بیشتر ترک سیاستدانوں خاص طور سے حاکم جماعت العدالۃ والتنھیۃ کے مواقف و بیانات سے میل کھاتا ہے، اس سیاست (پالیسی) سے ترکی اپنے وطنی تشخص اور اسلامی نسبت پر زور دیتا ہے، جس کی وجہ سے اس کو دنیا اور خاص طور سے عرب اسلامی اقوام کی طرف سے عزت و احترام ملا، جو مقامی، اقلیمی اور عالمی سطح پر رسمی زعماء و قائدین کے فقدان سے دوچار ہیں، بہرحال مذکورہ پالیسی کے مطابق ترکی کے رسمی مواقف بہت ہیں، اور دلالتیں ان سے بھی زیادہ، ان میں سے بعض درج ذیل ہیں:
٭ ۲۸ ستمبر ۲۰۰۹ء کو اقوام متحدہ کے اجلاس عام میں اردوغان کا بیان جس میں انہوں نے اپنی امریکا میں موجودگی کی بھی پروا نہ کی اور سرخ خطوط سے تجاوز کرتے ہوئے۔ برسرعام اسرائیل کے نیوکلیائی اسلحے کے خطہ پر خطرہ کا اعلان ہی نہ کیا بلکہ (پُرامن) نیوکلیائی پروگرام کے بارے میں ایران کی مغرب سے ٹکر کے تنازع میں ایران کا دفاع کر کے سب کو چونکا دیا، پھر غزہ کے عوام کے المیہ کی طرف منتقل ہوتے ہوئے انہوں نے کہا: ’’غزۃ میں لوگ خیموں میں رہ رہے ہیں، پینے کے لیے ان کو پانی میسر نہیں ہے، کیا اس سلسلے میں ہم نے اپنا انسانی کردار ادا کیا؟ اقوام متحدہ یا بین الاقوامی سلامتی کونسل نے کیا کیا؟ کیا ان کے پاس پابندیاں عائد کرنے کی طاقت نہیں ہے؟‘‘ انہوں نے خطہ (مشرق اوسط) کے ساتھ معاملہ میں بڑی طاقتوں پر دوہرے معیار کا الزام لگایا، اور عالمی برادری پر بھی یہ الزام عائد کیا کہ اس نے غزہ کی تعمیر نو کے اپنے آٹھ ماہ قبل کے وعدے کو اسرائیل کی طرف سے تعمیری مواد کے گزرنے کی ممانعت کی وجہ سے پورا نہیں کیا۔
٭ ترکی وزیر خارجہ نے ایران کو اطمینان دلایا کہ ترکی کے پیٹریاٹ راکٹ سودے کی وجہ عرب علاقے کے بہت سے ممالک کی طرح ایران کے اسلحہ بندی پروگرام کا مقابلہ نہیں بلکہ ترکی کی سیکورٹی کی مضبوطی کے لیے اس کی دفاعی صلاحیت بڑھانا ہے۔
٭ ۲۰۰۹ء کی ابتدا میں غزہ پر حملے کے دوران جب صہیونی وزیر خارجہ لیفنی نے اسرائیل کے مؤقف کی وضاحت کے لیے ترکی جانا چاہا تو اردوغان نے یہ کہہ کر اس کے استقبال سے انکار کر دیا کہ ’’اگر وہ غزہ میں جنگ بندی کے علاوہ اور کوئی چیز ہم کو بتانے آنا چاہتے ہیں تو تشریف نہ لائیں۔‘‘
٭ اسی طرح غزہ پٹی پر حملے کے دوران ترکی کے وزیراعظم طیب اردوغان نے صہیونی وزیراعظم ایہود اولمرٹ کے ٹیلی فون کا یہ کہہ کر جواب دینے سے انکار کر دیا: ’’وہ غیر سچا (جھوٹا) آدمی ہے، اور اس نے ہم کو دھوکا دیا ہے۔‘‘
٭ استنبول یونیورسٹی کے چانسلر پروفیسر مسعود برلاق نے (ترکی سیلییت اخبار کے مطابق) انقرہ میں صہیونی سفیر اور مورد خامی قونصلر کو ان کے چانسلر کے ساتھ صہیونی تکبر و غرور کے ساتھ معاملے کی وجہ سے یونیورسٹی سے نکال دیا، اور ۲۲ نومبر ۲۰۰۸ء کو ان سے ملاقات شروع ہونے سے پہلے ہی ختم کر دی اور یہ مشہور الفاظ کہے: ’’یہاں سامراجی کالونی نہیں، یہاں ترکی جمہوریہ ہے، یہاں استنبول یونیورسٹی ہے!‘‘
یہ مؤقف صرف سیاست دانوں اور بڑے عہدیداروں پر موقوف نہیں تھے، بلکہ عام طور پر روح ترکی شخصیت پر حاوی تھی، اس کے ثبوت میں ترکی وزیر خارجہ کی چھوٹی بچی ہاجر بوکہ کا ردعمل دیکھیے جو اس نے غزہ ہولوکاسٹ کے دوران اپنے باپ کے نام ٹیلی گرام میں ظاہر کیا۔ اس نے لکھا: ’’میرے ابا! آپ نے اپنا فرض منصبی ادا نہیں کیا… آپ سے التجا کرتی ہوں کہ کچھ کریں!‘‘
بعض لوگ سوال کر سکتے ہیں کہ آخری برسوں میں اقتصادی، اجتماعی اور سیاسی بلکہ اقلیمی اور بین الاقوامی سطح پر ترکی میں اس نوعی تبدیلی کا کیا سبب ہے؟ جواب ہے: حریت و آزادی جس نے ترکی قوم کو اس کے نمائندے اور حکام چننے کا موقع دیا، اب یہ حکام و نمائندے اپنے عوام کی خواہش، شخصیت اور ارادہ کی سچی تعبیر کے علاوہ کچھ نہیں کر سکتے، ورنہ آئندہ ان کے لیے کوئی مقام و مرتبہ نہ ہو گا، بلکہ دوسروں کو لایا جائے گا، یہ ہے اصل بات!
(بحوالہ: ہفت روزہ ’’الامان‘‘ بیروت۔
بشکریہ: ہفت روزہ ’’دعوت‘‘ دہلی۔ ۲۸ نومبر ۲۰۰۹ء۔ ترجمہ: مسعود الرحمن خاں ندوی)
Leave a Reply