
یہ سوال بہتوں کے لئے پریشان کن ہے کہ ترکی کب تک یورپ کی جانب سے ذلت و رسوائی برداشت کرتا رہے گا او ریہ کہ اس کی قومی غیرت کب بیدار ہوگی۔ جس کے بعد وہ یورپ کو صاف صاف کہہ سکیں کہ ہمیں تمہاری یونین میں شمولیت نہیں چاہئے۔ ۴۰ سال سے زائد عرصے سے ترک قوم یورپی بلاک کے بند دروازے پر دستک دیتی آرہی ہے جس کے جواب میں یورپ ان سے بہ تکرار یہ کہتا رہا ہے کہ تم ایک بڑے‘ غریب اور مسلم ملک ہو اور یہ کہ ہمارے اور تمہارے درمیان کچھ بھی قدر مشترک نہیں ہے۔ لہٰذا یورپ میں تمہارے لئے کوئی جگہ نہیں ہے۔ کئی سالوں سے یورپ یونان کو استعمال کرتا رہا ہے جو کہ ترکی کا تاریخی حریف ہے تاکہ یورپی یونین میں شمولیت کے لئے درخواست کو مسترد کیا جاسکے۔ جب یونان کی رکاوٹ ترکی اور یونان سے تعلقات بہتر ہونے کے سبب ختم ہوگئی تو یورپ کی جانب جانے والی پرپیچ راہ میں دوسری کئی رکاوٹیں کھڑی کردی گئیں تاکہ ترکی اس سمت میں پیش رفت نہ کرسکے۔ یہ رکاوٹیں قبرص‘ حقوق انسانی‘ اصلاحات‘ آرمینیوں کی نسل کشی اور خصوصی تعلق کے عنوان سے کھڑی کی گئیں۔ یقیناً سب سے بڑی رکاوٹ جو سبھوں کے علم میں ہے اسلام ہے۔ یورپ کے بڑے ممالک مثلاً فرانس‘ جرمنی ‘ نیدر لینڈ اور آسٹریا مسلم ترکی کو یورپی بلاک میں شامل کئے جانے کے مخالف ہیں۔ جون میں فرانس اور نیدر لینڈ کی جانب سے یوپری یونین کے آئین کو منظوری نہ دیئے جانے کی اصل وجہ ترکی تھی آسٹریا جسے یقینا یورپی ممالک کی حمایت حاصل ہے ترکی کو یورپی یونین کی مکمل رکنیت دینے کے بجائے اس کے ساتھ ’’خصوصی تعلق‘‘ استوار کئے جانے کی بات کررہا ہے۔ گزشتہ ہفتے یورپی پارلیمنٹ نے ایک قرارداد منظور کی جس میں ترکی سے کہا گیا ہے کہ وہ یورپی یونین میں شمولیت سے پہلے آرمینیوں کی نسل کشی کے حوالے سے اپنے جرم کا اعتراف کرے۔ بروزلز کا اصرار ہے کہ ترکی اگر یورپی یونین میں شمولیت چاہتا ہے تو اسے قبرص پر یونان کی حکمرانی کو تسلیم کرناہوگا۔یورپی ممالک کو خوش کرنے کے لئے ترکی نے جو تازہ قدم اٹھایا ہے وہ یہ کہ اس نے اپنے ضابطہ تعزیری میں تبدیلی کردی ہے جس کے بعد زنا کو اب جرم تصور نہیں کیا جائے گا۔ علاوہ ازیں ترکی کی جانب سے اسرائیل و امریکی مفادات کو مستقل پروان چڑھانے کی کوشسیں بھی بے سود ثابت ہوئی ہیں۔ ترک وزیراعظم طیب ارزدگان کا تازہ بیان کہ ’’اگریورپی یونین کوئی مسیحی کلب نہیں تو اسے عملاً ثابت کرنا ہوگا‘‘ ان کی مایوسی کا غماز ہے۔ تجزیہ نگاروں کا اس پر اتفاق ہے کہ کروشیاجو کہ تازہ ترین امیدوار ہے بلغاریہ اور رومانیہ کو جلد یا بدیریورپی یونین میں ضرور شامل کرلیا جائے گا ۔ پھر یہ ثابت ہوجائے گاکہ یورپی یونین ایک مسیحی کلب ہے۔ اگرچہ یورپی یونین نے اس نکتے پر اتفاق کرلیا ہے کہ وہ ۳اکتوبر کو ترکی کی وابستگی پر مذاکرات کا آغاز کریں گے تاہم یہ گفتگو عمومی نوعیت کی ہوگی اور یہاں اس بات کی کوئی ضمانت نہیں ملے گی کہ ترکی کو یورپی یونین میں شامل کیا جائے گا۔ یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ یورپی ممالک بے شمار حربے اپنی بغلوں میں چھپائے بیٹھے ہیں جن کے ذریعہ وہ ترکی کے ساتھ مذاکرات میں مشکل کھڑی کرسکتے ہیں۔ وہ جب چاہیں گے حقوق انسانی ‘ اصلاحات اور مذہب کا مسئلہ کھڑا کردیں گے ۔ ارزدگان کا یہ دعویٰ کہ یورپی یونین میں ترکی کی شمولیت سے ترکی مسلمانوں اور یورپی یونین کے مابین پل کا کام کرے گا ابتک صدا بصحرا ثابت ہوا ہے۔ ترکی نے جب شمالی سیکولر نظریہ کو اختیار کرلیا تو دنیا میں اس کے اثرات زائل ہوگئے۔ اس کے علاوہ ارذگان حکومت کی خطے میں اسرائیلی مفادات کے تحفظ کی تازہ کوششیں جن میں پاکستانی اور اسرائیلی وزرائے خارجہ کے مابین گفتگو کا اہتمام شامل ہے‘ مسلمانوں کے ذہنوں میں ترکی سے متعلق شکوک و شبہات کو مزید ہوا دے گی۔ اگر ترکی اپنی توجہات اور کوشش یورپ کے بجائے مسلم دنیا کے ساتھ تعلقات استوار کرنے پر مرکوز کرتا تو اسے ابتک اس کے بے شمار فوائد ہاتھ آتے اوراس کو وقار اور احترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا ۔ سیکولر ترکوں کو بتدریج یہ سبق حاصل ہورہا ہے کہ یورپی انگور کٹھے ہیں۔
(بشکریہ : ایران ڈیلی)
Leave a Reply