
ترکی ابھی تک ۷ جون کو ہونے والے انتخابات کے فوری سیاسی اثرات کی لپیٹ میں ہے، اس لیے یہ کہنا قبل ازوقت ہوگا کہ ان انتخابات کے ملکی خارجہ پالیسی پر کیا اثرات مرتب ہوں گے۔ تاہم جو چیز اب تک واضح ہوگئی ہے، وہ یہ کہ تنہا اے کے پارٹی اب ملکی مستقبل کی باگ ڈور اپنے ہاتھ میں نہیں رکھ سکے گی۔
اس کے باوجود، اگر مخالفین کی انتخابی مہم کو مدنظر رکھ کر دیکھا جائے تو گزشتہ دہائی میں واشنگٹن کے لیے پریشانی کا باعث بننے والی اے کے پارٹی کی خارجہ پالیسی شاید جاری رہے۔ گو کہ حزبِ اختلاف ایردوان کی خارجہ پالیسی کی ناکامیوں پر تنقید کرنے میں تیزی دکھاتی رہی ہے، پھر بھی ایردوان کی ابتدائی کامیابیوں کے پیچھے کارفرما اصولوں کو اب بھی تُرک ووٹروں کی کافی حد تک حمایت حاصل ہے۔ خاص طور پر، امریکا کے ساتھ اکثر تناؤ کا سبب بننے والی مسلمان اور عرب ہمسایوں میں تُرک حکومت کی دلچسپی سامراج مخالف دیرینہ قوم پرستی کو خوب بھاتی ہے۔ یہی چیز اے کے پارٹی کے عروج کا سبب بنی اور شاید یہی اسے مزید دوام بھی بخشے۔
نوآبادیاتی نظام سے چھٹکارا
حالیہ انتخابات سے قبل اپنی آزادانہ اور متحرک انتخابی مہم سے تُرک سیاست میں بھونچال پیدا کرنے والے کُرد رہنما صلاح الدین دیمرطاس نے ایردوان کو کھلا چیلنج دیا، ’’آئیے اکٹھے مصر چلتے ہیں اور اُس وقت تک وہیں رہتے ہیں، جب تک وہ مُرسی کی سزائے موت ختم نہ کردیں۔ آگے بڑھیے! ایک ساتھ غزہ چلتے ہیں‘‘۔ دیمرطاس کے بقول اگر ایردوان مسلم اتحاد کے لیے واقعی سنجیدہ ہیں اور اسے ووٹ حاصل کرنے کا بہانہ نہیں بنارہے تو دونوں رہنماؤں کو غزہ اور مصر جاکر ’’مزاحمتی رہنماؤں‘‘ کا کردار ادا کرنا چاہیے۔ ترکی کی مرکزی سیکولر حزب اختلاف کی جماعت کے سربراہ کمال کلچدار اولو (Kemal Kilicdaroglu) نے اس سے قبل خارجہ پالیسی کا اپنا تصور پیش کیا۔ انہوں نے امریکا اور اسرائیل کے ساتھ اچھے مراسم پر زور دیا تاہم اسی سانس میں وہ مصر، شام، عراق اور ایران کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے کی بات بھی کرگئے۔ ان کے بیانات نے خارجہ پالیسی کے حوالے سے ایردوان کے دستِ راست احمد داؤد اولو (جو بعد میں وزیراعظم بھی بنے) کی ’’ہمسایوں کے ساتھ کوئی جھگڑا نہیں‘‘ (Zero conflict with Neighbours) والی پالیسی کی یاد دلادی۔ یہ پالیسی ۲۰۰۳ء سے اُس وقت تک جاری رہی، جب اے کے پارٹی نے عرب بہار کے جواب میں مزید فیصلہ کن اقدامات کا تہیہ کرلیا۔
اے کے پارٹی کی خارجہ پالیسی سے متعلق بہت سی وضاحتیں پیش کی جاسکتی ہیں۔ ان میں سے کچھ جماعتی نظریات کے ساتھ مخصوص ہیں جیسے سیاسی اسلام، سلطنتِ عثمانیہ کی باقیات کا زندہ ہونا، اور داؤد اولو کی علمی توجیہات۔ دیگر کا تعلق مزید امید افزا عناصر سے ہے جن میں سیاسی نظام کا تسلسل، مضبوط ہوتی تُرک معیشت، طاقت، سلامتی کا احساس اور زیادہ عمومی انداز میں بات کریں تو خود اعتمادی۔ لیکن ترکی کی علاقائی پالیسی کے پیچھے ایک گہرا تاریخی تسلسل بھی ہے، یعنی سامراج مخالف دیرینہ مؤقف کے اثرات اور عرب دنیا کے بارے میں اس کا نقطۂ نظر۔ پہلی جنگِ عظیم سے لے کر آج تک، تُرک عوام عربوں کو سامراجی قوتوں کے رحم و کرم پر سمجھتے ہوئے ان سے بہت زیادہ ہمدردی رکھتے ہیں، لیکن جب یہی عرب ترکی کے سامراجی دشمنوں سے ساز باز کرتے ہیں تو یہ ہمدردی مخالفت میں بدل جاتی ہے۔ نتیجتاً عربوں کو اکثر اوقات اہمیت اُسی وقت دی جاتی ہے، جب دوسری طرف زیادہ طاقتور ممالک آکھڑے ہوں، یعنی پہلے برطانیہ، پھر سوویت یونین اور اب امریکا۔
معرکۂ گیلی پولی کے ۱۰۰ سال پورے ہونے پر منعقدہ تقریبات اس بات کی نشاندہی کرتی ہیں کہ جدید ترکی یورپی نوآبادیاتی طاقتوں کے خلاف مزاحمت کے نتیجے میں اس وقت تعمیر ہوا، جب وہ سلطنتِ عثمانیہ کو نگل لینے کے درپے تھیں اور یہ کہ اتاترک اس وقت مغرب کو جنگی محاذ پر شکست دینے کے قابل تھے جب عثمانی ناکام ہوچکے تھے۔ دوسرا نکتہ اتاترک کی مغربی اصلاحات کے حق میں عوامی رائے کو سمجھنے میں بھی مدد دیتا ہے۔ گو کہ اتاترک اور ان کے ساتھی عثمانی افسران برطانیہ اور فرانس کو اناطولیہ سے باہر نکال کر ایک نئی ریاست قائم کرنے میں کامیاب رہے، لیکن فوراً ہی ان کو اندازہ ہوگیا تھا کہ عرب مشرقِ وسطیٰ کو یورپی قبضے سے چھڑانا اب ممکن نہیں۔
ایک حد تک بہت سے ترکوں نے سوچا کہ عرب اسی سلوک کے مستحق تھے۔ پہلی جنگِ عظیم کے بعد ابھرنے والے تُرک رہنما اس بات پر بہت نالاں تھے کہ کچھ عربوں نے خلافتِ عثمانیہ کے خلاف بغاوت کرتے ہوئے برطانیہ کا ساتھ دے کر انہیں دھوکا دیا۔ مگر جب انہی میں سے کچھ رہنماؤں نے عراق اور شام میں عربوں کی برطانیہ اور فرانس کے خلاف ناکام مزاحمت دیکھی (جس کی قیادت بیشتر اوقات انہی عرب افسران نے کی جنہوں نے عثمانی فوج میں وفاداری کے ساتھ خدمات انجام دی تھیں) تو ان کی خالص ہمدردیاں بھی ان کے ساتھ تھیں۔ ایسے میں کہ جب ترکی ابھی کمزور ہے اور یورپی طاقتیں مشرقِ وسطیٰ کا انتظام سنبھالے ہوئے ہیں، ترکی کی علاقائی پالیسی اتنی زیادہ اہمیت نہیں رکھتی خواہ وہ غصے پر مبنی ہو یا ہمدردی پر۔ دو عالمی جنگوں کے درمیان انقرہ نے اپنی سفارتی کوششوں کا رخ یورپ کی بڑی طاقتوں کی جانب رکھا، جن کے اقدامات دوسری جنگ عظیم کی طرف بڑھنے والی دنیا کے لیے فیصلہ کن تھے۔ اس دوان مشرقِ وسطیٰ میں ترکی کا ایک باضابطہ سفارتی معاہدہ ۱۹۳۷ء میں عراق اور جزوی طور پر افغانستان اور ایران کے ساتھ ہوا جو کہ ایتھوپیا پر اطالوی چڑھائی کے بعد کیا گیا۔ اس کا مقصد دنیا کو یہ پیغام دینا تھا کہ ’’مشرقِ وسطیٰ کی چار آزاد ریاستیں کسی بھی یورپی طاقت کی جانب سے کسی ایک پر قبضہ کرنے کی کوششوں کے خلاف مزاحمت کریں گی‘‘۔
ناہموار پُل
دوسری جنگِ عظیم کے بعد برطانوی اور فرانسیسی طاقتوں کے زوال اور عربوں میں آزادی کی نئی لہر کو دیکھتے ہوئے ترکی ایک جامع علاقائی پالیسی مرتب کرنے پر مجبور ہوا۔ اس مرحلے تک، گزرتے وقت نے عربوں کی دھوکا دہی پر غصہ کچھ کم کردیا تھا جس سے برطانیہ مخالف اور عرب نواز جذبات کو ابھرنے میں مدد ملی۔ ۱۹۵۰ء کے انتخابات سے پہلے اور اس کے بعد بھی تُرک سیاسی قیادت پر ان لوگوں کا غلبہ رہا جو پہلی جنگِ عظیم میں شریک تھے اور ان میں کسی حد تک اشتراکِ کار بھی موجود تھا۔ ۱۹۵۰ء کی دہائی کے اواخر میں جب عرب قوم پرستی میں سوویت یونین کی حمایت کی آمیزش ہوئی تو تُرک سیاسی حلقوں میں بھی عربوں کے خلاف تعصب ایک بار پھر جھلکنے لگا۔
سرد جنگ کے ابتدائی برسوں میں امریکا نے مشرقِ وسطیٰ میں سوویت اثر و رسوخ کے خلاف متحدہ محاذ بنانے کی غرض سے عربوں اور اپنے یورپی اتحادیوں کے اختلافات دور کرنے کی کوشش کی۔ ترکی نے اس کوشش کی مکمل حمایت کی، مگر اس کی ہمدردیاں واشنگٹن کے طریقۂ کار سے اکثر ٹکراتی رہیں۔ مثال کے طور پر سوویت مخالف جنگ کے لیے عرب، امریکی اور تُرک افواج کے ایک برطانوی جرنیل کی زیرِ قیادت اکھٹے ہونے کے امکان کی سخت مخالفت کی گئی۔ تُرک سفارت کار نے کہا کہ عرب اس پر کبھی راضی نہیں ہوں گے اور نہ ہی تُرک عوام اسے مانیں گے۔ امریکی سفیر جارج واڈز ورتھ نے ہاتھ سے لکھی ایک تحریر میں بتایا کہ تُرک برطانویوں کو کیوں ’’ناپسند‘‘ کرتے ہیں۔ اس نے لکھا کہ پہلی جنگِ عظیم کے دوران برطانوی رویے کو تُرک ’’نہیں بھولے‘‘ اور وہ یہ سمجھتے ہیں کہ برطانیہ ’’مشرقِ وسطیٰ کے لیے اب بھی سامراجی مقاصد رکھتا ہے‘‘ اور ترکی اور دیگر اقوام کو اپنی ’’نوآبادیاں‘‘ سمجھتا ہے۔ اس دوران معروف جریدے ’’اکبابا‘‘ میں کارٹونسٹ عربوں کو خاموش رہ کر یورپی سامراجی تشدد برداشت کرنے والا دکھاتے رہے۔ کبھی کبھی عرب بالکل غائب ہوگئے کیونکہ یورپی منافقت پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے ایک کارٹون میں فرانس کو ایک ایسی دستاویز پر پیشاب کرتے ہوئے دکھایا گیا جس پر ’’انسانی حقوق‘‘ لکھا ہوا تھا۔
اس پورے عرصے کے دوران امریکی سفارت کار فلسطین کے لیے ترکی کی حمایت کو ایک طے شدہ امر سمجھتے رہے۔ مثال کے طور پر ۱۹۴۸ء میں ہی سفارتخانے نے ان غیرمصدقہ اطلاعات پر تشویش ظاہر کی تھی کہ رضاکارانہ طور پر عربوں کے شانہ بشانہ لڑنے کے لیے تُرک فوجی افسران استعفے دے رہے ہیں۔ اس وقت کے تُرک وزیر خارجہ نے بعدازاں امریکی سفیر کو باور کرایا کہ اسرائیل کی تخلیق ایک ’’غلطی‘‘ تھی۔ ادھر عربوں کے حق میں ہمدردانہ عکاسی کے برعکس، بہت سے تُرک کارٹونسٹ جنگ کو یہود مخالف مذاق دوبارہ اجاگر کرنے کا موقع سمجھ کر استعمال کرنے پر خوش تھے، مثلاً ایک کارٹون میں ایک صہیونی افسر کو جوانوں میں بھرتی کا شوق پیدا کرنے کی خاطر ہدفی مشق کے دوران ناخن سے سکہ کھرچتے ہوئے دکھایا گیا۔
اس کے باوجود، ۱۹۵۰ء کی دہائی سے پہلے اور بعد میں بھی امریکی اور تُرک سفارت کار مشرق اور مغرب کے درمیان پُل بننے کے تُرک کردار پر بات کرنا پسند کرتے تھے، لیکن طرفین کے نقطۂ نظر میں اختلاف پایا جاتا تھا۔ جب انگریزوں کی عربوں سے کشیدگی بڑھی، جیسا کہ سوئز بحران سے قبل کچھ برسوں میں ہوا، تو معاملات کو بہتر کرکے سوویت یونین پر توجہ دینے کا سوچنے والے امریکا (جس کی اپنی سامراج مخالف روایات تھیں) اور ترکی دونوں نے کسی حد تک خود کو درمیان میں پھنسا ہوا محسوس کیا۔ تُرک سفارت کاروں نے سمجھا کہ وہ امریکا پر عربوں کی تشویش دور کرنے کے حوالے سے دباؤ ڈال کر بات بنا لیں گے جبکہ امریکا کو انقرہ سے توقع تھی کہ وہ عربوں کو برطانیہ کے ساتھ تعاون کرنے کی ضرورت کا احساس دلائے گا۔ امریکی نقطۂ نظر سے ترکی کبھی کبھی غلط سمت سے پُل بنانا شروع کردیتا ہے۔ اسی طرح ۲۰۱۰ء میں ہوا جب واشنگٹن نے ایران کے ساتھ جوہری معاہدے کی انقرہ کی کوششوں کو یہ کہہ کر رد کردیا کہ اس میں بہت رعایتیں دی جارہی ہیں۔ ۱۹۵۲ء کے برطانیہ، ایران تنازع کے دوران بھی انقرہ امریکا کو اس بات پر قائل کرنے میں ناکام رہا کہ محمد مصدق کو تسلیم کرلیا جائے۔
تاہم ایک واضح فرق یہ تھا کہ ۱۹۵۰ء کی دہائی میں ترکی عموماً امریکا اور برطانیہ کے ساتھ قربت قائم رکھنے پر تیار رہتا تھا۔ مثلاً برطانیہ، ایران تنازع میں ترکی کی حیثیت بیان کرتے ہوئے ایک امریکی سفارتکار نے لکھا کہ اگر روس ایرانی تیل کی ترسیل روکنے پر آمادہ نظر آیا تو ترکی مغربی مداخلت کو ’’تسلیم‘‘ کرلے گا۔ بعد ازاں لفظ ’’تسلیم‘‘ کو کاٹ کر سفارتکار نے ’’قابلِ قبول‘‘ لکھا۔ مختصراً یہ کہ سرد جنگ کے دوران روس کا خوف ترکی کے لیے مغربی مداخلت ’’قابلِ قبول‘‘ بنا سکتا تھا۔ برطانوی سامراج کے بعد سوویت سامراج ترکی کے لیے پریشانی کی سب سے بڑی وجہ بن گیا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ عرب قوم پرستی اس کے لیے سامراج مخالف نہیں رہی تھی بلکہ ترکی کے سامراجی دشمن کے ساتھ ہونے والی ساز باز بن گئی تھی۔
اس وقت کے مشہور کارٹون اس بتدریج تبدیلی کو ڈرامائی انداز میں بیان کرتے ہیں۔ یورپی منافقت کو ہدفِ تنقید بنانے کے بجائے مصوروں نے عرب مخالف تعصب کی بھرپور عکاسی شروع کردی اور عرب رہنماؤں، مثلاً جمال عبدالناصر کو سوویت پٹھو کے طور پر دکھانے میں وہ ذرا نہیں ہچکچائے۔ اکثر عرب ممالک اور ان کے رہنماؤں کی گھوڑوں، خونخوار کتوں، باپردہ بیویوں، اونٹوں، مقید پرندوں یا سوویت راہنما نکیتا خروشیف کے گرد ناچتی گڑیوں کے طور پر تصویر کشی کی گئی۔ ۱۹۵۶ء کے ایک زیادہ واضح کارٹون میں برطانیہ اور سوویت یونین کو سڑک کنارے اپنے اپنے قحبہ خانوں کے دروازوں پر بیٹھا دکھایا گیا۔ برطانیہ کے چوبارے میں بیٹھی عورت کو اسرائیل اور روس کی کھڑکی سے جھانکتی عورت کو مصر سے تشبیہ دی گئی۔ سوویت یونین کے ساتھ تعلقات استوار کرنے پر عربوں کی بالکل اسی طرح مذمت کی گئی، جس طرح پہلی جنگِ عظیم میں برطانیہ کے ساتھ تعاون کرنے پر کی گئی تھی۔ اسرائیل کو، جس کے ساتھ ترکی کے تعلقات اُن دنوں بہتر ہورہے تھے، مثبت حیثیت میں دکھایا گیا۔ اور پھر ۱۹۸۰ء کی دہائی میں جب اسرائیل کے ساتھ عسکری تعلقات مضبوط کیے گئے تو متوقع طور پر سوویت مخالف سیکولر تُرک فوج کے لیے یہ سمجھنا آسان ہوگیا کہ اس کی دشمن پی کے کے کی طرح پی ایل او بھی روسی ایجنٹ تنظیم ہے۔ ستم ظریفی یہ کہ ۱۹۹۰ء کی دہائی میں شام کے حافظ الاسد کی مخالفت بھی ترکی اور اسرائیل کو قریب لے آئی، جس سے تُرک بائیں بازو میں شامی حکومت کے لیے ہمدردی پیدا ہوگئی، جو آج بھی باقی ہے۔
بنیادوں کی طرف واپسی
پھر سوویت یونین کے زوال اور مشرقِ وسطیٰ میں اکیلے امریکا کی بالادستی کا مرحلہ آیا۔ سامراج مخالف تُرک جذبات کا دھارا اسرائیل اور امریکا کی جانب بہنے لگا۔ ترکی کے منہ زور بائیں بازو کے سیاست دان اور اسلام پسند دونوں سامراج مخالف قوم پرستی کے جذبے کے تحت واشنگٹن کو سامراجی قوت قرار دینے لگے اور آج بھی بہت سے تُرک ووٹر خطے کے مسائل اور سیاست کو اسی زاویۂ نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ عربوں کو مظلوم گرداننے والے تمام مباحث کے تانے بانے امریکی پالیسی کی جائز تنقید، امریکا مخالف سازشوں، یہودیوں کی مخالفت اور اسرائیلی پالیسیوں پر کسی حد تک سمجھ میں آنے والے غصے سے جاملتے ہیں۔
اے کے پارٹی کی ابتدائی کامیابیوں نے اس کے اس خیال کو مضبوط کیا کہ خطے میں ہر ایک کے ساتھ اچھے تعلقات کے لیے ضروری ہے کہ خطے کے دیگر تمام ممالک بھی ایک دوسرے کے ساتھ مل جل کر رہیں۔ اگر انقرہ امریکا اور ایران یا اسرائیل اور شام کے درمیان صلح کروانے میں کامیاب ہوجاتا تو علاقائی مصالحت کار کے طور پر اس کی حیثیت مستحکم ہوتی اور اسے مزید دوام بھی ملتا۔ چونکہ یہ تنازعات تُرک رائے عامہ پر اثرانداز ہوتے ہیں، اس لیے ان کے تصفیے سے انقرہ کی متوازن کوششیں بارآور ہوتیں اور مغرب کے ساتھ مستقبل میں تعاون آسان ہوجاتا۔ بدقسمتی سے جب یہ کوششیں ناکام ہوئیں تو اے کے پارٹی نے رائے عامہ ہموار کرنے میں دلچسپی بھی ترک کردی اور عرب بہار کے بعد علاقائی تقسیم گہری ہونے کے ساتھ ہی ترکی کے مصالحت کار بننے کی امیدیں بھی دم توڑ گئیں۔
بہت سے لوگ ایردوان کی جارحانہ اندرونی سیاست اور ترکی کی بڑھتی ہوئی علاقائی تنہائی کا موازنہ کرتے ہیں۔ حالیہ انتخابات میں سامنے آنے والے ایردوان مخالف جذبات ان سے منسوب اے کے پارٹی کی پالیسیوں تک پھیلے ہوئے ہیں، جن میں شام میں اسد مخالف اسلام پسندوں کی کھلی حمایت شامل ہے۔ لیکن اگر جغرافیائی سیاست میں مزید ڈرامائی تبدیلیاں نہ آئیں تو امریکا اور عرب دنیا سے متعلق تُرک جذبات میں راتوں رات کسی تبدیلی کا امکان نہیں۔ مشرقِ وسطیٰ کے بارے میں مختلف آرا کے ہوتے ہوئے خطے میں مشترکہ مفادات اور اقدار کو فروغ دینے کی غرض سے تعاون کرنا واشنگٹن اور انقرہ کے سامنے ایک چیلنج رہے گا۔
گزشتہ سال ایردوان نے جدید دور کے لارنس آف عربیہ کے خلاف ایک طویل تقریر کرتے ہوئے اسے شام میں انتشار کے بیج بونے کا ذمہ دار قرار دیا۔ عمومی طور پر تُرک فوجیوں کو قتل کرانے میں کامیابیوں کے حوالے سے مشہور اس تاریخی کردار کے بارے میں ایردوان کے انتہائی منفی خیالات کچھ امریکی مبصرین کو حیران بلکہ پریشان کرگئے۔ امید ہے کہ انتخابی ناکامی کے بعد ایردوان کی مغرب مخالف تقاریر میں کچھ کمی آئے گی۔ لیکن امریکا میں کسی کو بھی یہ امید نہیں باندھنی چاہیے کہ تُرک عوام کسی ایسے رہنما کا انتخاب کریں گے، جو لارنس آف عربیہ کو اتنا ہی چاہتا ہو جتنا امریکی چاہتے ہیں۔
(مترجم: حارث رقیب عظیمی)
“Turkey’s anti-imperial agenda”.
(“Foreign Affairs”. June 14, 2015)
Leave a Reply