ترک فوج قابو میں، مگر۔۔۔

ترک سیاست دانوں اور جرنیلوں کے درمیان طویل مدت سے جاری کشمکش اب ختم ہوچکی ہے۔ سخت گیر سیکولر عناصر کے نزدیک یہ اتا ترک کے متعارف کرائے ہوئے نظام کی ایک شرمناک شکست ہے۔ اور جو عناصر اب تک اتا ترک کے نظام کی مخالفت کرتے آئے ہیں یا سیکولر عناصر سے منحرف ہوکر الگ ہوگئے ہیں ان کے نزدیک یہ جمہوریت کی فتح ہے۔ ۲۹ جولائی کو ترکی کی تینوں مسلح افواج کے سربراہوں کا مستعفی ہو جانا اس کشمکش کا نقطہ کمال تھا جو نو سال قبل اسلامی نظریات کی حامل جسٹس اینڈ ڈیویلپمنٹ پارٹی کے برسر اقتدار آنے سے شروع ہوئی تھی۔ ۱۹۶۰ء سے اب تک ترک فوج نے چار مرتبہ منتخب سویلین حکومت کو ختم کیا ہے مگر اب اس کی یہ حیثیت ختم ہوچکی ہے۔

سبکدوش ہونے والے چیف آف اسٹاف اسک کوسنر اور تینوں مسلح افواج کے سربراہوں نے اپنے استعفے میں قبل ازوقت ریٹائرمنٹ کی استدعا کرتے ہوئے لکھا ہے اسک کوسنر کے الفاظ میں کہ ’’ساتھیوں کی غیرمنصفانہ گرفتاری کے باعث میرے لیے کام کرنا ممکن نہیں رہا‘‘۔ ان کا اشارہ حکومت کا تختہ الٹنے کے الزام میں مقدمات کا سامنا کرنے والے ۲۵۰ حاضر سروس اور ریٹائرڈ فوجی افسران کی طرف تھا۔ معاملات اس وقت بگڑے جب جنرل کوسنر نے ان زیر حراست افسران میں بعض کو ترقی دینے کا فیصلہ کیا۔ وزیر اعظم رجب طیب اردگان نے ان ترقیوں کی منظوری دینے سے انکار کردیا۔ حکومت سے بہتر تعلقات کے حامل جنرل نزت اوزل کو چیف آف آرمی اسٹاف مقرر کردیا گیا ہے۔ غیرمعمولی بات یہ ہے کہ جنرل نزت اوزل نے کبھی نیٹو کے تحت خدمات انجام نہیں دیں۔

ترک مسلح افواج کے سربراہان کے استعفے اگر کچھ عرصہ قبل آئے ہوتے تو بحران پیدا ہوسکتا تھا، اب اس کی کوئی گنجائش دکھائی نہیں دیتی۔ اتا ترک کے حامی سڑکوں پر نہیں آئے۔ بازاروں کی سرگرمیوں پر کوئی منفی اثر مرتب نہیں ہوا۔ مجموعی طور پر پوری قوم نے اس تبدیلی کے حوالے سے خاصی ’’بے حسی‘‘ کا مظاہرہ کیا۔ سبھی نے یہ محسوس کیا کہ سویلین حکومت اور فوج کے درمیان کشمکش کا یہ آخری مرحلہ تھا۔ طیب اردگان استنبول کے میئر بھی رہ چکے ہیں۔ انہوں نے ۱۹۹۸ء میں ایک مظاہرے کے دوران خاصی جوشیلی نظم بھی پڑی تھی جس کی پاداش میں انہیں جیل بھیج دیا گیا تھا۔ جب وہ ۲۰۰۲ء میں اقتدار میں آئے تو فوج نے انہیں مختلف طریقوں سے پریشان کرنا شروع کیا۔ اس کے لیے سازش تیار کی گئی۔ مساجد کو شہید کرنے کے ساتھ ساتھ عیسائیوں کو ہلاک کرنے کی بھی منصوبہ بندی کی گئی۔جب جسٹس اینڈ ڈیویلپمنٹ پارٹی (اے کے) کی مقبولیت میں اضافہ ہونے لگا تو یہ کہتے ہوئے اس پر پابندی عائد کرنے کی کوشش کی گئی کہ وہ اسلامی نظام حکومت مسلط کرنا چاہتی ہے۔ ان تمام سازشوں سے طیب اردگان کی مقبولیت میں اضافہ ہوتا گیا۔ گزشتہ جون میں انہوں نے غیرمعمولی ترقی، جمہوری اصلاحات اور عالمی سطح پر بہتر ہوتی ہوئی ساکھ کی بدولت مسلسل تیسری بار انتخابی میدان فتح کرلیا۔ اس بار اے کے کو ملنے والے ووٹ ۵۰ فیصد تھے۔

جرنیلوں سے ٹکرانے والے طیب اردگان واحد وزیر اعظم نہیں۔ ۱۹۵۰ء میں پہلے کثیر الجماعتی انتخابات میں وزیر اعظم منتخب ہونے کے فوراً بعد عدنان میندریس نے حکومت کا تختہ الٹنے کی سازش کا ذکر کیا تھا۔ عدنان میندریس نے ۱۵ جرنیلوں اور ۱۵۰ افسران کو برطرف کردیا۔ طیب اردگان کی طرح عدنان بھی دیہی علاقوں میں بسنے والے مذہب پسند ترکوں کی آواز تھے۔ ان کی اقتصادی پالیسیاں کارگر ثابت ہوئیں تو قوم نے تین مرتبہ انہیں اقتدار سونپا۔ مگر ان کے خلاف بھی فوجی حلقے سرگرم رہے اور ۱۹۶۰ء میں ان کی حکومت کا تختہ نچلے درجے کے فوجی افسران نے الٹا اور اگلے ہی سال غداری کے الزام میں مقدمہ چلاکر پھانسی دے دی۔

طیب اردگان اکثر عدنان میندریس کی مثال دے کر کہتے ہیں کہ جرنیلوں سے مخاصمت مول لینے کا یہ انجام بھی ہوسکتا ہے۔ ویسے طیب اردگان کے ایسے کسی بھی انجام کا امکان موہوم ہے۔

طیب اردگان کو ملک میں سب سے زیادہ اصلاحات نافذ کرنے والے لیڈر کی حیثیت حاصل ہے اور اس میں کوئی شک بھی نہیں۔ ان کا سب سے بڑا کارنامہ تو یہ ہے کہ انہوں نے جرنیلوں کے غیرمعمولی اختیارات اور ان کی طرف سے منتخب حکومتوں کو لاحق خطرات ختم کر دیے۔ مگر خیر، میندریس کی مانند طیب اردگان بھی بعض معاملات میں برتری والی ذہنیت کے حامل دکھائی دیتے ہیں۔ میڈیا آؤٹ لیٹس کے مالکان وزیراعظم کی ناراضی سے بچنے کے لیے حکومت کے بارے میں مخاصمانہ رویہ رکھنے والے صحافیوں کو برطرف کرنے میں دیر نہیں لگاتے۔ کردوں سمیت بیشتر مخالفین کو طویل مدت تک کسی مقدمے کے بغیر مقید رکھنے سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ حکومت انصاف کی فراہمی سے زیادہ لوگوں کو خوفزدہ رکھنے میں دلچسپی لیتی ہے۔ امریکا کی سینٹ لارنس یونیورسٹی کے تاریخ دان ہاورڈ آئزنسٹیٹ کا کہنا ہے کہ جسٹس اینڈ ڈیویلپمنٹ پارٹی کی حکومت رفتہ رفتہ سنگل پارٹی اسٹیٹ کی حیثیت اختیار کرگئی ہے۔ ان تمام مشکلات اور پریشانیوں کو دور کرنے کا ایک بہتر راستہ یہ ہوگا کہ طیب اردگان ۱۹۸۰ء میں فوجی حکمرانوں کی جانب سے تیار اور منظور کرائے جانے والے آئین کو منسوخ کرکے نیا آئین نافذ کرائیں۔ مگر اس مقصد کا حصول سمجھوتے کا متقاضی ہے۔ جون کے عام انتخابات میں جسٹس اینڈ ڈیویلپمنٹ پارٹی نے ایسی واضح اکثریت حاصل نہیں کی کہ تن تنہا آئین پارلیمنٹ سے منظور کراسکے۔ طیب اردگان نے اس سلسلے میں اپوزیشن کی جماعتوں کے ساتھ مل کر کام کرنے کا عندیہ بھی دیا ہے۔ ان میں کرد نواز پیس اینڈ ڈیموکریسی پارٹی بھی شامل ہے۔ اس پارٹی نے انتخابات کے بعد سے اب تک پارلیمنٹ کا بائیکاٹ کیا ہے کیونکہ اس کے ۶ منتخب ارکان اب تک جیل میں ہیں۔

پریشان کرنے والی ایک بات اور بھی ہے۔ جرنیلوں کو سیاست سے مستقل دور رکھنا ناگزیر ہے۔ مگر فوج کہاں کھڑی ہے؟ ترکی میں امریکا کے سابق سفیر اور سابق امریکی صدر جارج واکر بش کے دور میں پینٹاگون کے نمبر ٹو ایرک ایڈلمین کہتے ہیں کہ ۱۲ فیصد جرنیلوں اور ایڈمرلز کے زیر حراست ہونے سے ترک فوج شدید دباؤ میں ہے اور اس کی کارکردگی بھی متاثر ہو رہی ہے۔ ایڈلمین کا استدلال ہے کہ نیٹو ارکان میں دوسری بڑی فوج رکھنے والا ترکی کمزور عسکری قیادت کے نتیجے میں خود بھی متاثر ہوگا اور نیٹو کے لیے بھی کمزوری کا باعث بنے گا۔ اور اس صورت حال سے خطہ بھی متاثر ہوگا۔ ترکی کے لیے غیرسیاسی فوج لازم ہے تاہم کمزور فوج خطے کے حوالے سے اس کے عزائم کے لیے نیک شگون نہ ہوگی۔

(بشکریہ: ’’دی اکنامسٹ‘‘۔ ۶؍ اگست ۲۰۱۱ء)

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*