گزشتہ ماہ ترکی میں وہ ہوا جس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ چند ریٹائرڈ فور اسٹار جرنیلوں سمیت پچاس سے زائد اعلیٰ فوجی افسران کو حراست میں لے کر حکومت کا تختہ الٹنے کی ایک سازش کے حوالے سے پوچھ گچھ کی گئی۔ ’’سلیج ہیمر‘‘ کے خفیہ نام سے تیار کی جانے والی اس سازش کا بنیادی مقصد جسٹس اینڈ ڈیویلپمنٹ پارٹی کی حکومت ختم کرنا تھا جسے بہت سے سوشلسٹ کچھ زیادہ اسلامی قرار دیتے ہیں۔
ترکی میں فوج نے چند عشروں کے دوران چار منتخب حکومتوں کو ختم کیا ہے۔ فوج کی جانب سے منتخب حکومت کا تختہ الٹنا یا اس کی سازش کرنا کوئی حیرت انگیز نہیں۔ حیرت انگیز بات یہ تھی کہ اعلیٰ فوجی افسران کو حراست میں لے کر ان سے پوچھ گچھ کی گئی اور ان میں سے چند کو سزا بھی سنادی گئی۔ ترک مبصرین کہتے ہیں کہ اب یہ بات طے ہوگئی ہے کہ ترک سیاست پر فوج کا اثر و نفوذ برائے نام رہ گیا ہے۔ یہ بات سب کو محسوس کرنی چاہئے۔ ایک نامور لبرل دانشور گولے گوترک کا کہنا ہے کہ اب فوج کی بالا دستی کا دور ختم ہوچکا ہے۔ یہ بات اب کوئی بھی کہہ سکتا ہے کہ ترکی زیادہ جمہوری ہوتا جارہا ہے جہاں منتخب افراد کو حکومت کرنے کا موقع ملے گا، اپنے آپ کو قوم پر مسلط کرنے والوں کو نہیں۔
فوج کے سرپرستانہ نظام کی بنیاد اس مفروضے پر تھی کہ ترک عوام اور سیاست دان اتنے عقل مند نہیں کہ ملک کا نظام چلاسکیں۔ تمام جرنیلوں کا آئیڈیل کمال اتا ترک تھا جس نے پہلی جنگ عظیم کے بعد ترکی کو کسی بھی مغربی قوت کے ہاتھ میں جانے سے روکا اور ملک کو جدید، مغربی خطوط پر استوار کیا۔ اس نے ۱۹۲۳ء میں جدید سیکیولر ترک ریاست کی بنیاد رکھی تھی۔
مغرب میں لوگ اس بات کو سمجھنے سے قاصر رہتے ہیں کہ کمال اتا ترک نے جو مغرب نواز نظام متعارف کرایا اس نے خواتین کے حقوق اور تعلیم وغیرہ کے میدان میں تو بہتری پیدا کی تاہم یہ نظام نہ تو جمہوری تھا نہ لبرل۔ اس کا بنیادی سبب یہ تھا کہ بیسویں صدی کی دوسری اور تیسری دہائی میں یورپ کسی بھی اعتبار سے لبرل ڈیموکریسی کی جنت یا نمونہ نہیں تھا۔ کمال اتا ترک اور اس کے ساتھیوں نے مغرب کے اس وقت کے ماڈل کی تقلید کی۔ یورپ بھر میں آمرانہ حکومتوں کا دور دورہ تھا۔ مغرب کا آئیڈیل بنانے کی صورت میں انہی کی تقلید کی جاسکتی تھی۔
جدید ترکی کی بنیاد ایک ایسے نظام پر رکھی گئی جس میں ایک شخصیت مرکزی حیثیت کی حامل تھی۔ باقی سب اس کے گرد گھومتے تھے۔ معیشت میں حکومت کا کردار وسیع کردیا گیا۔ اور حقیقت تو یہ ہے کہ معاشی امور حکومت کے فیصلوں کے محتاج ہوکر رہ گئے۔ قوم پرستی کو غیر معمولی حد تک پروان چڑھایا گیا اور اعتدال پسند مذہبی گروپوں کے لیے بھی کوئی گنجائش نہیں چھوڑی گئی۔ شدید قوم پرستی کو پروان چڑھائے جانے کے باعث اقلیتی گروپوں بالخصوص کُردوں کے پنپنے کی گنجائش ختم ہوگئی۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد حالات تبدیل ہوئے تو ترکی میں بھی حکومتی نظام تبدیل کرنے کی ضرورت پیش آئی۔ کمال اتا ترک کے جانشینوں کو ملٹی پارٹی سسٹم کثیر جماعتی نظام قبول کرنا پڑا۔ تاہم کمال ازم بنیادی نظریے کے طور پر موجود رہا۔ منتخب حکومتیں بھی فوج کی دست نگر رہا کرتی تھیں۔ اگر کوئی منتخب حکومت بنیادی آئیڈیلز سے ہٹنے لگتی تھی تو خوں ریز بغاوت کے ذریعے اس کا خاتم کردیا جاتا تھا۔ بیسویں صدی کے بیشتر عرصے میں یہی کچھ ہوتا رہا۔ بیسویں صدی کے آخری عشرے میں البتہ اس نظام کی بنیادیں ہلنے لگیں اور ۲۰۰۲ء میں حکومت کی باگ ڈور سنبھالنے والی جسٹس اینڈ ڈیویلپمنٹ پارٹی نے اقتدار پر فوج کی گرفت ختم کرنے میں مرکزی کردار ادا کیا۔ یورپی یونین کی متعارف کی ہوئی اصلاحات نے بھی ترکی کو آمرانہ طرز حکومت سے الگ کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔
ترک معاشرہ بھی خاصا تبدیل ہوا ہے۔ قدامت پسند اسلامی کیمپ طویل مدت تک مغرب کو خرابی کا ذمہ دار اور کمال اتا ترک کے جانشینوں کو ظلم اور جبر کا مرتکب قرار دیتا رہا تاہم اس نے بعد میں محسوس کیا کہ مغرب کا لبرل ازم تو ایک نعمت ثابت ہوسکتا ہے۔ اسلامی کیمپ نے یورپی یونین سے الحاق کے عمل کو اپنایا۔ مسلم مڈل کلاس نے، جو تیزی سے ابھری، خود کو اسلامی کیمپ سے الگ کرکے مغرب کے لبرل ازم کو مثبت سوچ کے ساتھ اپنانے پر توجہ دی۔ اس کے جواب میں کمال اتا ترک کے جانشین کچھ زیادہ پیش رفت نہ کرسکے۔ قوم کے لیے ان کے پاس بظاہر کوئی پروگرام نہیں تھا۔
اب ایک نیا ترکی جنم لے چکا ہے۔ کمال ازم کو خیرباد کہا جاچکا ہے۔ اور ایسا کرنا درست ہی ہے کیونکہ اب سخت گیر اور آمرانہ حکومتوں کا دور رہا بھی نہیں۔ بعض مبصرین اس خدشے کا اظہار کر رہے ہیں کہ نئی اشرافیہ، جو مذہبی قدامت پسندوں پر مشتمل ہے، جرنیلوں ہی کی طرح سخت گیر ثابت ہوگی۔ یہ خوف غیر حقیقی اور مبالغہ آرائی پر مبنی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ترک معاشرے میں جمہوری روایات تیزی سے جڑ پکڑ رہی ہیں اور ایسے میں آمریت کی طرف پلٹنے کی ہرکوشش لا حاصل ثابت ہوگی۔ جسٹس اینڈ ڈیویلپمنٹ پارٹی کو امریکی طرز کی جمہوری پارٹی قرار نہیں دیا جاسکتا۔ اس میں بھی ترکی کی دیگر جماعتوں کی طرح حفظِ مراتب کا خاص خیال رکھا جاتا ہے، قدامت پسندی ہے، تنقید برداشت کرنے کی گنجائش کم ہے اور میڈیا کو استعمال کرنے کا طریقہ اسے خوب آتا ہے تاہم حقیقت یہ ہے کہ اس پارٹی نے اپنی کوتاہیوں پر غور کیا ہے، ان سے بہت کچھ سیکھا ہے۔ بہت سے معاملات میں اس کے قائدین نے لبرل طرز فکر اپنائی ہے۔ کُردوں اور عیسائیوں کے حقوق کا معاملہ اس سلسلے میں خاص طور پر قابل ذکر ہے۔
ترکی نے جمہوری میدان میں جو کامیابیاں حاصل کی ہیں ان کے تحفظ کے لیے ناگزیر ہے کہ ملک کا نیا آئین مرتب کیا جائے جس میں چیک اینڈ بلینس کا نظام موجود ہو۔ اس آئین میں حقوق و فرائض کی بہتر انداز سے صراحت کی گئی ہو۔ مرکز کو زیادہ طاقت نہیں ملنی چاہیے۔ اختیارات مقامی سطح پر منتقل ہوں۔ عدالتی نظام جامع ہو جس میں کسی کے بچ نکلنے کی گنجائش نہ ہو۔ سیاست دانوں اور بیورو کریٹس کا احتساب یقینی بنایا جائے تاکہ ملک بہتر ڈھنگ سے آگے بڑھ سکے۔ نئے آئین میں اس بات کی بھی صراحت ہونی چاہئے کہ ترک نظام حکومت عوام کی رائے سے قائم ہوگا اور انہی کے تعاون سے چلایا جائے گا۔
(مضمون نگار ترک صحافی ہیں جن کی کتاب ’’دی اسلامک کیس فار فریڈم‘‘ جلد شائع ہونے والی ہے۔)
(بشکریہ: ’’نیوز ویک‘‘۔ ۲۲ مارچ ۲۰۱۰ء)
Leave a Reply