یورپی یونین: ترکی کی شمولیت کا قضیہ

وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ ظاہر کرنا دشوار تر ہوتا جارہا ہے کہ یورپی یونین سے ترکی کے مذاکرات اب تک درست سمت میں جاری ہیں۔ یورپی یونین میں ترکی کے دوست ممالک یہ سمجھتے ہیں کہ تاریخ ان کا ساتھ دے رہی ہے۔ ان قوم پرست سیاست دانوں، سفارت کاروں اور یورپی یونین کے عہدیداروں سے پوچھیے کہ کیا ان کے خیال میں ترکی کسی دن یورپی یونین کی مکمل رکنیت حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائے گا تو وہ کہیں گے کہ ترکی کو مکمل رکنیت ملنی ہی چاہیے۔ ان کا استدلال یہ ہے کہ ایک دو عشروں میں ترکی پر کیے جانے والے اعتراضات دم توڑ دیں گے، مسلم دنیا سے رابطے کے ذریعے کے طور پر، علاقائی سفارتی قوت کی حیثیت میں اور توانائی کے مرکز کی شکل میں اس کی تکوینی اہمیت اس قدر بڑھ چکی ہوگی کہ اسے نظر انداز کرنا ممکن نہ ہوگا اور اس کی معیشت نوجوانوں کے دم قدم سے غیر معمولی حد تک متحرک ہوچکی ہوگی۔ مگر جب یورپی یونین کی رکنیت کے لیے ترکی کے رسمی مذاکرات کی بات ہوتی ہے تو ترکی کے یہی دوست خطرے کی گھنٹی بجاتے دکھائی دیتے ہیں۔ اکتوبر دو ہزار پانچ میں جب یورپی یونین کی رکنیت کے لیے مذاکرات کا آغاز ہوا تھا تب سب کچھ ٹھیک چلتا دکھائی دے رہا تھا۔ ترکی کے اصلاح پسند عناصر یورپی یونین سے جاری مذاکرات کو ملک میں حقیقی تبدیلیوں کے لیے استعمال کر رہے تھے۔ یہ روش یورپی یونین کے عہدیداروں کے ذہنوں میں ترکی سے متعلق بدگمانیاں ختم کرکے یورپی یونین کی رکنیت کو قریب لانے اور اصلاح پسندوں کو مستحکم کرنے والی تھی۔ اس دور میں ایک جملہ بہت جذباتی انداز سے بار بار دہرایا گیا اور وہ جملہ یہ تھا کہ ترکی کے لیے سفر بھی اتنا ہی اہم ہے جتنی اہم منزل ہوسکتی ہے!

وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ ثابت ہوتا گیا کہ سفر کو اگر جاری رہنا ہے تو مسافروں کا منزل پر یقین محکم رہنا چاہیے۔ ترک باشندے بھی اخبار پڑھتے ہیں اور انہیں اندازہ ہے کہ نکولس سرکوزی جیسے یورپی لیڈر اس بات کو کہنے میں تذبذب محسوس نہیں کرتے کہ یورپی یونین کی مکمل رکنیت کے معاملے میں ترکوں سے جھوٹ بولنے کا سلسلہ اب رکنا چاہیے۔ نکولس سرکوزی کا کہنا ہے کہ ترکی ایشیائے کوچک میں ہے اور وہ فرانس کے بچوں کو یہ نہیں بتا سکیں گے کہ یورپ کی سرحدیں شام اور عراق تک پھیلی ہوئی ہیں۔ اس نوعیت کی کوئی بھی بات کہنے سے یورپی یونین کی کمٹمنٹ متاثر ہوگی!

ترکی کی بہسیشر یونیورسٹی کے پروفیسر چنگیز اختر؟ کا کہنا ہے کہ ترکی نے اگر ماحول سے متعلق یورپی یونین کے معیارات کو تسلیم کیا تو اسے ایک سو چالیس بلین یورو (دو سو بلین ڈالر) خرچ کرنا پڑیں گے۔ کوئی بھی ملک اتنی بڑی رقم اسی وقت خرچ کرے گا جب اسے یورپی یونین کی مکمل رکنیت کے حصول کا یقین ہو۔ چند مطالبات جارحانہ نوعیت کے ہیں۔ یورپی یونین کا ایک بینچ مارک یہ بھی ہے کہ ترک سرکاری مارکیٹ یورپی اداروں کے لیے کھول دی جائے۔ یہ مارکیٹ سالانہ ۶۰ ارب یورو کے مساوی ہے۔ جب تک نکولس سرکوزی کہتے رہیں گے کہ ترکی کو یورپی یونین کی رکنیت نہیں ملے گی تب تک یہ مارکیٹ یورپی اداروں کے لیے نہیں کھولی جائے گی۔ اس صورت حال نے ترکی میں اصلاحات کا عمل سست کردیا ہے اور یورپی یونین میں ترکی کے مخالفین کو یہ کہنے کا موقع مل رہا ہے کہ رکنیت کا اہل ہونے کے لیے وہ کافی اقدامات نہیں کر رہا۔

فن لینڈ کے سابق صدر مارٹی اہتساری کی سربراہی میں یورپ میں ترکی کے حامی سیاست دانوں اور دانش وروں کے ایک آزاد کمیشن نے ترکی کی ممکنہ رکنیت سے متعلق ایک رپورٹ میں تسلیم کیا ہے کہ چند بڑے یورپی لیڈروں کے اقدامات سے ترکی کے لیے رکنیت کی راہ مسدود ہوئی ہے۔ اور دوسری جانب، اس کے نتیجے میں، ترکی میں اصلاحات کی رفتار بھی کم ہوئی ہے۔ یورپی یونین کی رکنیت کے حوالے سے ترک عوام کی مایوسی کا گراف بلند ہوتا جارہا ہے۔ اہتساری اور ان کے ساتھیوں کا کہنا ہے کہ معاملات بگڑتے ہی جارہے ہیں۔

ترکی کو یورپی یونین کا حصہ بنانے کے لیے بات چیت کے ۳۵ ادوار ہوئے ہیں جن میں صرف ایک کی تکمیل ممکن ہوسکی ہے۔ بات چیت کے ۸ ابواب رسمی طور پر اس لیے غیر موثر ہیں کہ ترکی نے ۲۰۰۴ء میں یورپی یونین کی رکنیت پانے والے قبرص سے آنے والی پروازوں اور بحری جہازوں کے لیے اپنے ایئر پورٹس اور بندر گاہوں کو بند رکھا ہے۔ ترک حکومت قبرص کے یونان والے حصے کو ایک آزاد ریاست کی حیثیت سے تسلیم نہیں کرتی اور ترک اثرات کے حامل شمالی قبرصی علاقے کی ناکہ بندی کو بلا جواز قرار دیتی ہے۔ قبرص کے دونوں حصوں کا انضمام اس ناکہ بندی کو ختم کرسکتا ہے۔ ۲۰۰۸ء میں قبرص کے نئے صدر دیمیترس کرسٹوفس کی قیادت میں امن مذاکرات شروع ہوئے۔ قابل غور بات یہ ہے کہ یونانی قبرص میں اب بھی صورت حال کی نزاکت کا احساس نہیں پایا جاتا۔ یہ صورتحال ترک قبرص کے صدر محمد علی طلعت کے لیے خطرناک ثابت ہوسکتی ہے۔ انہیں آئندہ سال انتخابات کا سامنا کرنا پڑے گا اور اس مرتبہ شدت پسند عناصر زیادہ پرجوش دکھائی دیتے ہیں۔ آئندہ دسمبر میں یورپی کمیشن ایک رپورٹ کے ذریعے یورپی حکومتوں کو بندر گاہیں قبرص کے لیے کھولنے سے متعلق ترک اقدامات کے بارے میں رپورٹ دے گا۔ اس رپورٹ سے ایک نیا قضیہ جنم لے سکتا ہے۔

اہتساری کی قیادت میں قائم کمیشن چاہتا ہے کہ یورپی سیاست دان خاموش رہیں اور یورپی یونین کی رکنیت کی اہلیت ثابت کرنے سے متعلق ترک حکومت کے اقدامات کا جائزہ لیں۔ مشکل یہ ہے کہ ترک مخالف سیاست دانوں کو خاموش کرنا یا خاموش رکھنا بہت مشکل ہے۔ یہ اندرونی کھپت کا معاملہ بھی تو ہے۔ آسٹریا، جرمنی، ہالینڈ اور فرانس میں انتخابی مہم کے دوران ترکی پر تنقید ووٹروں کی توجہ حاصل کرنے کا اہم طریقہ ہے۔ اہتساری کو یقین ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ معاملات درست ہوتے جائیں گے۔ یورپ کی رکنیت سے متعلق مذاکرات طویل مدت تک چلیں گے اور تب تک نکولس سرکوزی نہیں رہیں گے۔ حکمران آتے جاتے رہتے ہیں۔ یورپ کو اپنا وعدہ نبھاتے ہوئے بات چیت بند نہیں کرنی چاہیے۔ مایوسی سے بچانے والی حقیقت یہ ہے کہ ترک اشرافیہ کو اب تک یقین ہے کہ یورپی یونین کی رکنیت سے متعلق بات چیت بار آور ثابت ہوسکتی ہے۔ ترکی میں اپوزیشن کی مرکزی جماعت نے یورپی یونین کی رکنیت کے حوالے سے مثبت رویہ اختیار کیا ہوا ہے۔ ترک حکومت نے آرمینیا سے تعلقات بہتر بنانے پر خاطر خواہ توجہ دی ہے۔

بری خبر یہ ہے کہ فرانس کے صدر جو کچھ کہہ رہے ہیں اس کے مفہوم سے بخوبی واقف ہیں اور اپنے موقف میں وہ خاصے سنجیدہ ہیں۔ جانکاروں کا کہنا ہے کہ فرانس آئندہ سال یورپی یونین کی رکنیت کے متبادل کے بارے میں ترکی سے مذاکرات کا خواہش مند ہے۔ فرانس ترکوں کے سامنے کئی متبادل بھی رکھنا چاہتا ہے اور ان پر دبائو ڈالنے کا خواہش مند بھی ہے۔ فرانس چاہے گا کہ اس معاملے میں اسے جرمنی کی حمایت بھی حاصل رہے۔ جرمنی میں آئندہ انتخابات کے نتیجے میں ایک ایسی حکومت کی تشکیل کا امکان ہے جو ترکی کے مسئلے پر منقسم ہوگی۔ اس سے ترکی کو فائدہ پہنچ سکتا ہے۔ ترکی کا موقف ہے کہ جرمنی بھی رکنیت سے متعلق مذاکرات کے جاری رکھنے کا حامی نہیں۔

پروفیسر اختر نے تجویز کیا ہے کہ یورپی یونین کے جو ارکان ترکی کے حق میں ہیں وہ ایک ڈیڈ لائن کا تعین کریں تاکہ ترکی کی رکنیت یقینی بنانے کے لیے جامع مذاکرات کیے جائیں اور نتائج حاصل کرنے میں دشواری پیش نہ آئے۔ اس کے لیے ۲۰۲۳ء کی ڈیڈ لائن بھی دی جاسکتی ہے، جب جدید ترکی کی سوویں سالگرہ ہوگی۔ انہیں اس بات کا اندازہ ہے کہ کسی ڈیڈ لائن پر پورا یورپ متفق نہیں ہوگا۔ مگر اس بات کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ کسی ڈیڈ لائن کے تعین سے حوصلہ ملے گا اور بات آگے بڑھے گی۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ترکی کا کیس مضبوط ہوتا جائے گا۔ ترکی میں مذاکرات کی سست رفتاری نے عوام کے ولولے کو کمزور کرنے میں مرکزی کردار ادا کیا ہے۔ اگر یورپی اور ترک قیادت بیچ میں کہیں مل لے تو نئی تاریخ جنم لے سکتی ہے۔

(بحوالہ: ’’دی اکنامسٹ‘‘ لندن۔ ۵ ستمبر ۲۰۰۹)

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*