
آج نیٹو کو سب سے بڑا چیلنج روس سے نہیں بلکہ اپنے اراکین کی جانب سے درپیش ہے۔ ترکی اور متعدد یورپی اتحادیوں کے درمیان تنازعات ایک بار پھر عروج پر ہیں، جس کی وجہ سے تنظیم کی اجتماعی فیصلہ سازی کی صلاحیت بُری طرح متاثر ہو رہی ہے، اگر ان مسائل کو بروقت حل نہیں کیا گیا تو دنیا کے طاقتور اتحاد کو شدید نقصان پہنچ سکتا ہے۔
تازہ ترین واقعہ ترکی کی جانب سے آذربائیجان کی جانب سے نگورنو کاراباخ پر قبضے کے لیے جنگ کی کھلی حمایت کرنا ہے۔ یہ جنگ روس کے زیر سرپرست ایک معاہدے کے بعد ختم ہوئی۔ اس جنگ میں ترکی کی جانب سے فوجی امداد اور شامی جنگجو بھیجے گئے، اور اپنے نیٹو اتحادیوں کو صرف دکھانے کے لیے معاملے کے پُرامن حل پر زور دیا گیا۔ معاہدے کے نتیجے میں آذربائیجان کو متنازع خطے کا قابلِ ذکر علاقہ حاصل ہوگیا۔ ترکی فاتح بن کر ابھرا اور اس کے مغربی اتحادیوں کا کردار محدود ہوگیا۔ یہ واقعہ اونٹ کی کمر توڑنے کے لیے آخری تنکے کا کردار ادا کرسکتا ہے۔
مغرب کی اپنے نیٹو اتحادی سے شکایت بڑھتی جارہی ہے۔ پچھلے ماہ ترکی کی جانب سے گیس کی تلاش کے لیے مشرقی بحیرۂ روم کے متنازع علاقوں میں بحری جہاز بھیجنے سے یونان سے ٹکراؤ کا امکان خطرناک حد تک بڑھ گیا تھا۔ اگرچہ بعد میں ترکی نے اپنا جہاز واپس لے لیا، لیکن ترکی کی جانب سے تحقیقاتی سرگرمیوں کے لیے دوبارہ جہاز بھیجنے کے اعلان سے ددنوں نیٹو اتحادیوں کے درمیان کشیدگی میں اضافہ ہوگیا، جس پر یونان کی جانب سے پابندیوں کا مطالبہ کیا گیا۔ آخر صورتحال اتنی دھماکا خیز کیوں ہوجاتی ہے؟ دراصل مشرقی بحیرۂ روم کی دو ریاستوں کے درمیان ۱۹۴۷ء سے قبرص کی تقسیم اور اس علاقے میں قدرتی وسائل کی دریافت پر تنازع چلا آرہا ہے۔ جون میں فرانس اور ترکی کے درمیان نوبت تصادم تک آپہنچی، جب فرانس کے جہاز نے لیبیا کو اسلحہ کی فراہمی پر اقوام متحدہ کی پابندیوں کے تناظر میں ترک جہاز کی تلاشی لینے کی کوشش کی۔ انقرہ نے فوری طور پر فرانس کا دعویٰ مسترد کردیا۔ دونوں ممالک لیبیا میں مختلف فریقوں کی حمایت کررہے ہیں۔ دونوں نیٹو اتحادی شام، لیبیا، نگورنو کاراباخ کے معاملے پر لفظی جنگ لڑتے رہتے ہیں۔ اس حوالے سے تازہ ترین تنازع فرانس کے صدر میکرون کی جانب سے توہین آمیز کارٹون بنانے کا دفاع کرنا ہے، جس کا جواب ترک صدر نے فرانسیسی مصنوعات کا بائیکاٹ کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے دیا۔ اس صورتحال میں نیٹو اتحاد کے اندر تناؤ اور الجھاؤ بڑھتا جارہا ہے۔ یورپی اتحادیوں کو اس بات سے مایوسی ہے کہ ترکی علاقائی سطح پر جارحانہ انداز اختیار کرتا ہے اور کوئی اقدام اٹھانے سے قبل مشورہ تک نہیں کرتا۔ ۱۹۵۲ء سے اس اتحاد میں ترکی کا ہمیشہ ایک منفرد کردار رہا ہے۔ اس کا حجم، فوجی وسائل اور ایشیائی دہلیز پر کلیدی حیثیت ترکی کی اہمیت کو بڑھاتی ہے۔ مشرق وسطیٰ میں بھی ترکی کو اسٹریٹجک حیثیت حاصل ہے۔ اگرچہ ترکی اور نیٹو کے تعلقات اکثر کشیدہ رہے ہیں، لیکن خاص کر ۲۰۱۶ء میں ترکی میں بغاوت کی کوشش کے بعد تو حالات بدترین ہوتے چلے گئے ہیں، جس کے خطرناک نتائج بھی ہوسکتے ہیں۔ اس پس منظر میں نیٹو کو اپنے وسائل سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے ارکان کے بگڑتے ہوئے تعلقات درست کرنے کی کوشش کرنی چاہیے اور اپنے سکیورٹی مفادات کو نئی جہت دینی چاہیے، تاکہ اتحاد میں مزید دراڑوں سے بچا جاسکے۔ جب بھی تناؤ بڑھتا ہے تو نیٹو کے ایک اتحاد کی طرح عمل کرنے کی صلاحیت متاثر ہوتی ہے، کیوں کہ اتحادکے اصولوں کے مطابق اتفاق رائے سے فیصلہ سازی کرنا ضروری ہے۔ نیٹو کے ہر فیصلے میں اتحادیوں کی اجتماعی خواہش کا اظہار ہوتا ہے، جس سے مطلوبہ نتائج کا حصول آسان ہوجاتا ہے۔
اقوام کے درمیان باہمی دلچسپی کے امور پربات چیت ایک پیچیدہ عمل ہوتا ہے اور خرابی یہ ہے کہ نیٹو کے ہر رکن کو کسی بھی معاملے میں ویٹو کرنے کا حق دیا گیا ہے۔ ریاستیں اس حق کو قومی مفادات کے حصول کے لیے استعمال کرسکتی ہیں۔ یورپی یونین کے اندر بھی یہ مسئلہ ہے کہ ہر چیز اتفاق رائے سے طے کی جائے گی۔ حال ہی میں قبرص نے بیلاروس کی حکومت پر پابندیوں کی حمایت سے انکار کرتے ہوئے پہلے ترکی کے خلاف پابندیوں پر اصرار کیا ہے۔ قبرص نے بحیرۂ روم کے پانیوں میں بحری جہاز بھیجنے پر ترکی کے خلاف بروقت اقدامات نہ کرنے پر یورپی یونین پر شدید تنقید بھی کی ہے۔ یورپی یونین کے برعکس نیٹو میں بات چیت بند دروازوں کے پیچھے کی جاتی ہے اور اختلاف رائے کی خبریں باہر نہیں آپاتی ہیں۔ اصولی طور پر کوئی بھی رکن ملک اتحاد کی اہم پالیسی یا اقدام کو روک سکتا ہے۔ پچھلے سال خبروں کے مطابق نیٹو سربراہی اجلاس میں ترکی نے بالٹک ریاستوں اور پولینڈ کے خلاف روسی جارحیت سے تحفظ کے اہم دفاعی منصوبے کو روکنے کی دھمکی دی اور اتحادیوں پر دباؤ ڈالا کہ کرد ملیشیا کو دہشت گردتنظیم قرار دیا جائے، حالانکہ کئی نیٹو ممالک کے کرد ملیشیا سے تعلقات ہیں۔ اسی طرح کچھ سال قبل جب آسٹریا نے یورپی یونین کی ممبر شپ کے حوالے سے انقرہ سے بات چیت معطل کرنے کا مطالبہ کیا تو ترکی نے آسٹریا کے ساتھ نیٹو کے تعاون کو ویٹو کردیا۔ اگرچہ دونوں معاملات بات چیت کے بعد طے کرلیے گئے، لیکن یہ صورتحال اتحادیوں کے درمیان بڑھتے اختلافات کو ظاہر کرتی ہے، جو بات چیت کے ماحول کو خراب کررہی ہے۔ ترکی کے خراب رویے کی وجہ سے نیٹو ارکان کا اپنے اتحادی کے ساتھ کام کرنا مشکل ہوتا جارہا ہے۔
۲۰۱۱ء میں عرب بَہار کے بعد ترکی کی سکیورٹی کے لیے چیلنج بڑھنے لگے اور یہ تاثر بھی گہرا ہوگیا کہ انقرہ کے اہم سکیورٹی مفادات کے تحفظ کے لیے مغربی اتحادی قابلِ اعتبار نہیں ہیں، جس میں یورپی یونین کا رکن بننے کے لیے بات چیت کا عمل روکنا، امریکا کی جانب سے مشرقِ وسطیٰ کے حالات سے لاتعلقی، کرد باغیوں کی حمایت کرنا اور فتح اللہ گولن کی حوالگی سے انکار کرنا شامل ہیں۔ فتح اللہ گولن کو ۲۰۱۶ء کی بغاوت کا ماسٹر مائنڈ قرار دیا جاتا ہے۔ اس صورتحال نے واضح کردیا کہ ترکی کی سلامتی کے لیے انقرہ کو خود اقدامات کرنے ہوں گے اور ایک منقسم اور ناقابلِ اعتبار مغرب پر بھروسہ غلط فیصلہ ہوگا۔ مجموعی طور پر ان عوامل نے انقرہ پر نیٹو کا اثر و رسوخ ختم کردیا ہے۔ ترکی نے شام میں اپنے کلید ی کردار اور خطے میں جغرافیائی برتری کی وجہ سے یورپ میں پناہ گزینوں کی آمد کے دباؤ کو کم کیا۔ نیٹو کی نظر میں ترکی جنوبی سرحد کا محافظ ہے۔ اسی لیے ترکی نے پولینڈ اور بالٹک ریاستوں کے تحفظ کی حمایت کے بدلے اتحاد کو اپنے دفاع کے لیے زیادہ مدد فراہم کرنے پر مجبور کیا۔ ترکی اس بات کا مطالبہ کئی برسوں سے کررہا تھا۔ ترکی میں دنیا بھر میں سب سے زیادہ چالیس لاکھ پناہ گزین موجود ہیں۔ یہی بات برسلز کو انقرہ کی بات سننے پر مجبور کرتی ہے، کیوں کہ ترکی دھمکی دے چکا ہے کہ وہ مہاجرین کے لیے یورپ کے دروازے کھول دے گا جو کہ یورپ اور ترکی کے درمیان ہونے والے معاہدے کی خلاف ورزی ہے۔ ان دھمکیوں کے نتیجے میں انقرہ کئی ممالک کی حمایت سے محروم ہوچکا ہے۔ ترکی کی جارحانہ حکمتِ عملی پلٹ کر خود اس کو بھی نقصان پہنچا سکتی ہے، جس کے نتیجے میں یورپ کی جانب سے پابندیاں لگائی جاسکتی ہیں اور مشکلات کا شکار ترک معیشت مزید بدترین حالات سے دوچار ہوسکتی ہے۔ نیٹو کو ایک اور چیلنج عظیم یورپ کی اسٹریٹجک خودمختاری کے مطالبے سے ہے، جس سے اتحاد کو نقصان پہنچ سکتا ہے، یورپ اور اٹلانٹک کے بگڑتے تعلقات کے پس منظر میں کئی رہنماؤں نے کھلے عام نیٹو کی افادیت پر سوال اٹھانے شروع کردیے ہیں۔ اسٹریٹجک خودمختاری کے اہم وکیل فرانس کے صدر میکرون نے لیبیا کو اسلحے کی فراہمی کے معاملے پر ترکی سے ٹکراؤ کے بعد نیٹو کو ایک ’’مردہ اتحاد‘‘ قرار دیا، جس کی وجہ سے وہ ترکی کی مہم جوئی کا راستہ نہیں روک سکتے۔
اپنے حالیہ انٹرویو میں آرمینیا کے صدر نے نیٹو کی ساکھ پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ اتحاد اپنے رکن کی قفقاز میں مداخلت روکنے میں ناکام رہا ہے۔ اگر نیٹو اپنے اندرونی اختلافات کی وجہ سے مزید مفلوج ہوجاتا ہے تو تنظیم کی افادیت پر شکوک میں اضافہ ہوگا اور یورپی ممالک اس اتحاد سے ہٹ کر اپنی سیکورٹی کا بندوبست کرنے کے لیے مزید متحرک ہوجائیں گے، جس کے نتیجے میں یورپی ممالک کی جانب سے ترکی کو باہر رکھ کر دیگر زیادہ قابلِ اعتبار ممالک سے سیکورٹی کے حوالے سے معاہدے کیے جاسکتے ہیں۔ یورپ اور ترکی کی کشیدگی کی ایک وجہ انقرہ اور ماسکو کے بدلتے تعلقات بھی ہیں۔ اگرچہ یہ تعلقات ۲۰۱۵ء میں ترکی کی جانب سے ایس یو روسی لڑاکا طیارہ گرائے جانے کے بعد کافی کشیدہ ہوگئے تھے، لیکن بعد میں دونوں نے بہتر سیاسی اور معاشی تعلقات قائم کرلیے، جس کے نتیجے میں ترکی نے روسی گیس لائن اور میزائل دفاعی نظام کی خریداری کے لیے کوششیں کیں، جس کی واشنگٹن اور نیٹو کے دیگر اتحادیوں نے سخت مخالفت کی۔ کچھ لوگوں نے اس کو ترکی کے مشرق کی جانب جھکاؤ کا نتیجہ قرار دیا۔ روس ترکی تعلقات میں سب سے خطرناک بات دونوں ممالک کا آمرانہ نظامِ حکومت تھا، جو نیٹو اتحاد کی بنیادی اقدار کے منافی ہے۔ اصل خوف یہ ہے کہ رکن ممالک کے درمیان دوطرفہ اختلافات نیٹو کو کمزور کردیں گے، جس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے روس ترکی کو مغرب سے مزید دور لے جاسکتا ہے اور اتحاد کی فیصلہ سازی کی صلاحیت کو شدید نقصان پہنچ سکتا ہے۔ ویسے روس اور ترکی کے درمیان دیرپا تعلقات کا امکان کم ہی ہے، کیوں کہ تاریخی طور پر دونوں ممالک کے تعلقات کم ہی اچھے رہے ہیں۔ حالیہ تعلقات کی بہتری کی وجہ ترکی کی پرانے اتحادیوں کو چھوڑ کر نئے دوست بنانے کی پالیسی سے زیادہ موقع پرستی اور کچھ مفادات ہیں۔ درحقیقت ترکی کا مسلسل جارحانہ رویہ روس سے تنازعات کو بڑھا رہا ہے۔
ترکی کی جانب سے آذربائیجان بھیجے گئے جنگجو روس کے ساتھ مسلح تصادم کا باعث بن سکتے ہیں۔ بہرحال اس صورتحال سے ہر ایک بچنا چاہتا ہے، کیوں کہ بہت کچھ داؤ پر لگا ہوا ہے۔ زیادہ امکان یہی ہے کہ روس اور ترکی اتحادی بننے کے بجائے متوازن تعلقات کو ترجیح دیں گے۔ حالانکہ نیٹو کے کئی ممالک انقرہ اور ماسکو کے تعلقات کو شکوک و شبہات کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ چونکہ ترکی اور یورپی یونین ایک دوسرے کے خلاف سخت بیان بازی کرچکے ہیں، اس لیے اس بحران کے حل کے لیے نیٹو سے بہتر کوئی پلیٹ فارم نہیں ہوسکتا۔ ترکی نیٹو کا رکن ہے اور اتحاد کے ارکان کے درمیان روزانہ کی بنیاد پر رابطے ہوتے ہیں۔ بہرحال یورپ اور ترکی کی بڑھتی کشیدگی کے تناظر میں نیٹو کو معاملات بہتر کرنے کی کوشش کرنی چاہیے، کیوں کہ سفارت کاری کے ذریعہ اکثر کامیابی حاصل ہوجاتی ہے۔ اس مقصد کے لیے اتحاد کو اپنے مشاورتی عمل سے فائدہ اٹھانا چاہیے، تاکہ تمام ارکان ساتھ بیٹھ کر قومی اور مشترکہ سلامتی کے امور پر بات چیت کرسکیں، جس کے ذریعے بڑے چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے اتفاق رائے پیدا کرنے کا طریقہ کار بہتر کیا جاسکے۔ نیٹو کے سیکرٹری جنرل جینس اسٹولٹن برگ کی جانب سے حالیہ اعلان کہ یونان اور ترکی کے درمیان فوجی تنازع سے بچنے کے لیے ایک طریقہ کار بنایا جائے گا، یہ سفارتی کوششوں کی کامیابی کی زبردست مثال ہے اور معلوم ہوتا ہے کہ دونوں ممالک بھی تعلقات بہت زیادہ خراب کرنا نہیں چاہتے ہیں۔ بہرحال یونان اور ترکی کے درمیان فوجی تصادم سے بچنے کا انتظام انقرہ اور یورپی ممالک کے درمیان سیاسی کشیدگی کو ختم نہیں کرسکتا۔ اس کے لیے نیٹو کو بات چیت کے ایک فورم کے طور پر کام کرتے ہوئے کردار اد اکرنا چاہیے اور جہاں رکن ممالک کی سیکورٹی کا معاملہ ہو، وہاں عملی اقدام بھی اٹھانے چاہییں۔ اگر سیکورٹی کی بدلتی صورتحال میں نیٹو ایک کارآمد اتحاد بنا رہنا چاہتا ہے تو یہی کامیابی کی کلید ہے۔کسی بھی معاملے میں مشاورت کی کلیدی اہمیت ہے، لیکن نیٹو کو بات چیت کے نتیجے میں ہونے والے فیصلوں پر عمل کی راہ بھی تلاش کرنی ہوگی۔ اس اتحاد کو حمایت اور مذمت کرنے کے کھوکھلے بیانات سے آگے بڑھنا چاہیے اور سوچنا چاہیے کہ آس پڑوس میں جاری بحرانوں سے کس طور نمٹا جائے۔ اس سے ترکی اور دیگر ممالک کے خدشات دور کرنے میں مدد ملے گی اور اسٹریٹجک فوائد ملنے سے اتحاد مزید مضبوط ہوگا۔
نیٹو اب تک کی تاریخ کا سب سے کامیاب اتحاد ہے، اس کامیابی کو برقرار رکھنے کے لیے اتحادیوں کو شام، لیبیا اور قفقاز میں سکیورٹی مفادات کے ٹکراؤ کے باوجود متفقہ موقف اختیار کرنا چاہیے، لیکن بدقسمتی سے ایسا ہو نہیں رہا۔ اگر ترکی اور مغرب کے درمیان تعلقات مکمل طور پر ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوجاتے ہیں تو نیٹو ممالک واشنگٹن معاہدے کے آرٹیکل چار کے تحت مشاورت طلب کرنے پر غور کرسکتے ہیں، جس کے تحت کسی بھی ممبر کی خودمختاری کو خطرے کی صورت میں مشاورتی اجلاس طلب کیا جاسکتا ہے۔ موجودہ ترکی اور یورپ تعلقات کے تناظر میں آرٹیکل چار کو استعمال کیا جاسکتا ہے، کیوں کہ ترکی پورے نیٹو کی یکجہتی کے لیے خطرہ بن چکا ہے، ویسے بھی ترکی کافی عرصے سے شام کے معاملے پر آرٹیکل چار کے تحت مشاورت کا مطالبہ کرتا رہا ہے، جس کے ذریعے نیٹو کی جانب سے ترکی کی حمایت کا مظاہرہ کیا جاسکے۔ آرٹیکل چار کے تحت مشاورت کی بڑی سیاسی اہمیت ہوگی اور بدمعاش ریاستوں کو ایک واضح پیغام بھی بھیجا جاسکے گا۔ موجودہ صورتحال میں سفارتی کوششوں کی کامیابی کے لیے ضروری ہے کہ دونوں فریق سمجھیں کہ تلخ بیان بازی اور پابندیاں لگانے کی دھمکیاں تقسیم کو بڑھاوا دیں گی اور ترکی کا یہ خیال مزید مضبوط ہو جائے گا کہ اس کے یورپی اتحادی انقرہ کے خلاف متحد ہوچکے ہیں۔ اس کے نتیجے میں انقرہ خود کو محاصرے میں سمجھ کر مشرق کی جانب مزید اتحادی تلاش کرے گا اور اتحاد اندرونی طور پر کمزور ہوجائے گا۔ یورپی ممالک کو چاہیے کہ وہ سمجھوتے پر رضامندی ظاہر کریں اور ترکی کو یقین دلائیں کہ اس کے تحفظات کو دور کیا جائے گا۔ یقینی طور پر سمجھوتا دوسرے فریق کو بھی کرنا ہوگا۔ ترکی کو بھی بلاشبہ تعلقات کو بہتر بنانے کے لیے اپنی خارجہ پالیسی کے کچھ بنیادی مقاصد سے پیچھے ہٹنا ہوگا، جس میں غیرممالک میں پراکسیز کا استعمال ترک کرنا اور روس اور نیٹو کے درمیان براہِ راست تصادم کا نتیجہ بننے والے اقدامات سے گریز کرنا شامل ہیں۔ سب سے اہم یہ کہ ترکی کو بحیرۂ روم میں تحقیق کے نام پر جہاز بھیج کر کشیدگی بڑھانے جیسے اقدام سے باز رہنا ہوگا۔ یہ انقرہ کے لیے سمجھوتے کا آسان ترین راستہ ہوسکتا ہے۔ یورپی ممالک کی اس شکایت پر بھی توجہ دینی ہوگی کہ ترکی مشاورت کے بجائے خارجہ پالیسی کے اہداف کے لیے یکطرفہ اقدامات کرتا ہے۔ ترکی کو اس طرح کے اقدام سے قبل شفافیت کے لیے مکمل مشاورت کرنی چاہیے۔ اس سارے عمل میں دو اضافی عوامل فیصلہ کن کردار ادا کریں گے۔ ایک نیٹو اور یورپی یونین کی اپنی حکمتِ عملی کو مربوط کرنے کی صلاحیت ہے، تمام فریقوں کو اتحاد کا مظاہرہ کرنا ہوگا، کیوں کہ اشتعال انگیزی سے مفاہمت کی کوششوں کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔
رواں برس دسمبر میں یورپی کونسل کے اجلاس میں ترکی کے ساتھ تعلقات کا معاملہ حل کیا جائے گا۔ اجلاس کے بعد صورتحال واضح ہوجائے گی کہ یورپی یونین کس طرح اس معاملے سے نمٹتی ہے اور کیا تمام یورپی ممبران ترکی کے خلاف پابندیوں پر متفق ہوجائیں گے، جس کے بعد ہی معلوم ہوسکے گا کہ ترکی سمجھوتا کرنے کے لیے کس قدر آمادہ ہے۔ جب ۱۹۷۴ء میں یونان اور ترکی قبرص کے معاملے پر جنگ کی لپیٹ میں تھے تو امریکا نے فیصلہ کن کردار ادا کیا تھا اور سختی کے ساتھ مراعات دیتے ہوئے براہِ راست تصادم کو روک دیا تھا۔ اگرچہ موجودہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ حالیہ بحران میں مکمل طور پر خاموش ہیں، لیکن آج بھی پہلے کی طرح واشنگٹن کا دونوں فریقوں پر اثر و رسوخ معاملے کے حل میں اہم کردار ادا کرسکتا ہے، تاکہ ماضی کی طرح نیٹو کو ناقابلِ تلافی نقصان سے بچایا جاسکے۔ ٹرمپ کے ایردوان کے ساتھ ذاتی تعلقات اور خطے سے عدم دلچسپی کی وجہ سے ایسا ممکن نہیں ہوسکا، لیکن جوبائیڈن کی سربراہی میں نئی امریکی انتظامیہ ممکنہ طور پر ترکی کے بارے میں سخت موقف اختیار کرتے ہوئے نیٹو ارکان کے درمیان بہتر تعلقات کی بحالی کے لیے فعال کردار ادا کرے گی۔
(ترجمہ: سید طالوت اختر)
“Turkey’s crisis with the West: How a new low in relations risks paralyzing NATO”. (“warontherocks.com”. Nov.19, 2020)
Leave a Reply