گزشتہ چند دنوں سے ترکی میں اسرائیل کے خلاف بڑے پیمانے پر احتجاجی مظاہرے جاری ہیں۔ ترکی نے اسرائیلی وزیر خارجہ Tzipi Livni کے دورۂ ترکی کی درخواست بھی مسترد کر دی۔ ترکی نے اعلانیہ کہا ہے کہ لیونی اُسی وقت ترکی کا دورہ کر سکتی ہیں جب حماس اور اسرائیل کے مابین فائر بندی کا معاہدہ طے پا جائے۔ ترکی کے وزیراعظم طیب اَردگان نے جلد ہی سبکدوش ہونے والے اسرائیلی وزیراعظم ایہود اولمرٹ سے ٹیلی فونک رابطے سے بھی انکار کر دیا ہے۔ اردگان نے لیونی کے اس سوال کا جواب دیتے ہوئے کہ ترکی غزہ کے بحران میں کس کے ساتھ کھڑا ہے، کہا کہ ترکی مظلوم فلسطینیوں کی حمایت کرتا ہے۔ علاوہ ازیں ترکی کا ایک پارلیمانی وفد غزہ کے دورے کی منصوبہ بندی کر رہا ہے۔ غزہ میں رونما ہونے والے حالات میں ترکی میں تین طرح کے ردعمل دیکھنے میں آئے ہیں۔
پہلا ردعمل صہیونی مخالف مظاہروں کی شکل میں سامنے آیا ہے جو ترکی میں ایران کے بعد سب سے بڑی تعداد میں ہو رہے ہیں۔ یہ مظاہرے غزہ میں اسرائیلی فوج کی زمینی کارروائی کے بعد اپنے نقطۂ عروج پر ہیں۔ ردعمل کی دوسری نوعیت سیاسی پارٹیوں اور غیر حکومتی گروہوں کی طرف سے احتجاج ہے۔ استنبول میں جو بڑے بڑے مظاہرے ہوئے ہیں وہ اسلامی سعادت پارٹی کی دعوت پر ہوئے ہیں جنہیں دسیوں سنڈیکیٹس کی حمایت حاصل رہی ہے اور یہ ایک اچھی علامت ہے۔ ردعمل کی تیسری قسم حکومتی افسران اور پارلیمنٹ کے احتجاجی موقف میں دیکھنے میں آتی ہے جو کہ عدیم المثال اور بے نظیر ہے۔ اردگان نے اسرائیلی مظالم کی واضح طور سے مذمت کرتے ہوئے کہاکہ یہ تاریخ کا سیاہ ترین باب ہے۔ اردگان نے شام، اردن، مصر اور سعودی عرب کا بھی دورہ کیا تاکہ ان ممالک کے حکام سے غزہ کے عوام کے خلاف اسرائیلی جارحیت کو رکوانے کے طریقوں پر سوچ بچار کیا جا سکے۔ غزہ کے واقعہ پر ان کے ردعمل کے نتیجے میں ترکی کے مختلف شہروں میں مظاہروں کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ یہ مظاہرے جو صہیونی حکومت کے حوالے سے حکومتی مؤقف کی مخالفت میں تھے۔ عوامی اعتراضات کی پروا کیے بغیر غزہ پر اسرائیل حملے سے چار یا پانچ روز قبل انقرہ میں ایہود اولمرٹ کو خوش آمدید کہا گیا تھا ۔ غزہ سے متعلق ترکی کے ردعمل کو مختلف زاویوں سے دیکھا جانا چاہیے کیونکہ یہ خطے میں جنم لینے والی تبدیلیوں کے حوالے سے ثالثی کا کردار ادا کرتا رہا ہے۔ مثلاً شام اور اسرائیل، الفتح اور حماس نیز ایران اور امریکا کے مابین ہونے والے مذاکرات میں۔ ۲۰۰۹ء کے آغاز سے یہ ملک اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کا غیر مستقل رکن بن چکا ہے۔ یہ اس وقت او آئی سی کا بھی چیئرمین ہے۔ مزید برآں ترکی نے غزہ کے تئیں عرب ریاستوں کی خاموشی اور سرد مہری کو مسلم دنیا میں اس کی مقبولیت کو فروغ دینے کے لیے بھی استعمال کیا ہے۔ درحقیقت ترکی مغربی دنیا، صہیونی ریاست اور مسلم دنیا تینوں کے لیے قابل قبول حیثیت کا حامل ہے۔ جبکہ آخری اور اہم بات یہ کہ ترکی کی رائے عامہ نے حکومت کو مجبور کیا ہے کہ وہ صہیونی مخالف مؤقف اختیار کرے۔ ادھر بلدیاتی انتخابات قریب آ رہے ہیں اور عالمی اقتصادی بحران کے اثرات کا بھی ترکی کو سامنا ہے ایسی صورت میں انصاف اور ترقی پارٹی کے لیے ضروری ہو گیا ہے اپنے اہم وعدوں کی تکمیل کرے تاکہ زیادہ سے زیادہ ووٹروں کی توجہ اپنی جانب مبذول کر سکے۔ صہیونی مخالف مظاہروں میں ترک عوام کے نعروں سے پتہ چلتا ہے کہ وہ تل ابیب کی جانب سے فلسطینیوں کی نسل کشی روکنے کے لیے انقرہ سے کسی سنجیدہ اور عملی اقدام کی توقع کرتے ہیں نہ کہ محض بے اثر سیاسی بھاگ دوڑ اور کھوکھلے نعروں کی۔ دو ہفتے کی جنگ گزرنے کے بعد اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے ۱۸۶۰ نمبر کی قرار داد پاس کی ہے جس میں اسرائیل سے کہا گیا ہے کہ وہ فوری طور سے غزہ پر حملے روک دے اور اس کا محاصرہ ختم کرے۔ ترکی نے بہرحال عملی اقدامات اب تک نہیں اٹھائے ہیں۔ مثلاً یہ کہ وہ انقرہ میں اسرائیلی سفیر کو طلب ہی کرتا۔ یہ مسئلہ جو کہ غزہ پر اسرائیل حملے سے چار پانچ روز قبل ایہود اولمرٹ کے ترکی کے دورہ سے اور بھی مشکوک ہو جاتا ہے متعدد شکوک وشبہات کو جنم دیتا ہے۔ بعض مبصرین کا خیال ہے کہ ترکی غزہ کے حوالے سے ایک بہت ہی سوچی سمجھی پالیسی پر عمل پیرا ہے اور وہ یہ ہے کہ ایک طرف وہ اپنے عوام کے جذبات کو مطمئن کرنا چاہتا ہے اور دوسری جانب تل ابیب اور واشنگٹن سے اپنے تعلقات استوار بھی رکھنا چاہتا ہے۔ یہ ایسی حالت میں ہے کہ ترکی کی رائے عامہ اور پارٹیاں انقرہ سے یہ چاہتی ہیں کہ وہ اسرائیل کے ساتھ ہر قسم کے فوجی معاہدات ختم کرلے۔ شام اور اسرائیل کے مابین ثالث کا کردار ادا کرنا چھوڑ دے، اسرائیلی سفیر کو ملک سے باہر نکال دے، اسرائیل میں ترک سفارتخانہ بند کر دے، اسرائیلی مصنوعات کا بائیکاٹ کرے اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں حماس کے مؤقف کی حمایت کرے۔
اگر ترکی اسرائیل مخالف دوسری مسلم ریاستوں کے ساتھ تعاون کرتا ہے تو غزہ بحران کو او آئی سی، غیر جانبدار ممالک کی تحریک، عرب لیگ اور مغربی تنظیموں کے فورم سے اچھی طرح نمایاں کیا جا سکتا ہے جس کے نتیجے میں صہیونی حکومت پر فلسطینی معصوم شہریوں کے بے رحمانہ قتلِ عام کو رکوانے کے لیے دبائو بڑھایا جا سکتا ہے۔
{}{}{}
Leave a Reply