ترکی کی تقلید آسان نہیں!

بہت سے معاملات میں محسوس ہوتا ہے کہ ترکی کے اسلام پسند عناصر اپنی بات منوانے اور سب کچھ درست کرنے میں کامیاب ہوگئے ہیں۔ فوج کی مشاورت سے تقویت پانے والے سیکولر ازم کے سائے سے الگ ہوکر ابھرنے میں انہیں خاصا وقت لگا۔

استنبول کی کامرس یونیورسٹی کے جواں سال پروفیسر باقر بیرت اوزیپیک کو مصر میں عوامی انقلاب کی لہر نے بہت متاثر کیا ہے۔ انہوں نے دو ساتھیوں کے ساتھ حال ہی میں قاہرہ یونیورسٹی کے تحت منعقدہ ایک کانفرنس میں شرکت کی جس میں سول ملٹری تعلقات کے حوالے سے ان کے خیالات کا خیر مقدم کیا گیا۔

ایک رات وہ قاہرہ کے مشہور زمانہ تحریر اسکوائر گئے اور وہاں انہوں نے دیکھا کہ نوجوان ٹریفک کنٹرول کر رہے ہیں۔ زندگی کی امنگ سے بھرپور نغمات گائے جارہے ہیں۔ ایک جوکر سابق صدر حسنی مبارک کی نقالی کرکے لوگوں کو محظوظ کر رہا تھا۔ پھر وہ ایک ریسٹورنٹ میں گئے جہاں حالات حاضرہ پر ان کی گفتگو میں چند مصری نوجوانوں کے ساتھ ساتھ ویٹر بھی شریک ہوا۔ ترک اسکالر کو ایسا محسوس ہوا جیسے وہ والٹیئر کے زمانے میں جی رہا ہے۔

کچھ دن قبل ہی ترک وزیر خارجہ احمد داؤتوغلو لیبیا گئے۔ وہاں انہوں نے باغیوں کے مرکز بن غازی جانے کا فیصلہ بھی کیا۔ بن غازی کے مرکزی چوک میں انہوں نے دیکھا کہ حکومت کے مخالفین اپنے نعروں میں ترک قیادت کو بھی خراج تحسین پیش کر رہے ہیں، جس نے انہیں کچھ کرنے کا حوصلہ عطا کیا۔ ترک وزیر خارجہ نے مجمع کو ترک وزیر اعظم رجب طیب اردگان کے خیالات سے آگاہ کیا جن کا کہنا تھا کہ تاریخ کی طرح ہم سب کا مستقبل بھی مشترکہ ہے۔

شمالی افریقا سے خلیج فارس تک پورا خطہ ترک تحریک سے گزرتا دکھائی دے رہا ہے۔ ترکی سے قبل انڈونیشیا اور ملائیشیا نے ایک واضح مثال پیش کی تھی کہ اسلام اور جمہوریت میں کوئی تنازع نہیں۔ اور یہ کہ جدید دور میں دونوں شانہ بہ شانہ چل سکتے ہیں۔ تاہم یہ سب کچھ چند ایک تحفظات کے ساتھ تھا۔ دنیا کو مختلف حوالوں سے تشویش ہی لاحق رہی۔ اور پھر عرب دنیا میں عوامی بیداری کی لہر اٹھی۔ گزشتہ موسم بہار میں اٹھنے والی اس لہر نے بہت کچھ تبدیل کردیا ہے۔ عرب دنیا میں ترکی کو اب جمہوریت کے حوالے سے ایک قابل تقلید نمونے کے طور پر دیکھا جارہا ہے۔ طیب اردگان کی قیادت میں ترک معیشت غیرمعمولی استحکام سے ہمکنار ہوئی ہے۔ جسٹس اینڈ ڈیویلپمنٹ پارٹی نے خاصی مہارت کے ساتھ ملک کو آگے بڑھایا ہے اور یہ بات پایہ ثبوت کو پہنچ چکی ہے کہ اسلامی تعلیمات پر عمل پیرا ہونے کا دعویٰ کرنے والوں کے برسر اقتدار آنے کا لازمی مفہوم یہ نہیں کہ مغرب سے تعلقات داؤ پر ہی لگ جائیں گے۔

چند ایک خامیوں کے باوجود ترک ماڈل نے اسلامی تعلیمات اور اصولوں پر مشتمل کسی بھی دوسرے نظام حکومت کے مقابلے میں زیادہ کارگر نمونے کی حیثیت اختیار کرلی ہے۔ ایران سے بہتر تعلقات اور فلسطینیوں کے معاملات میں بڑھ چڑھ کر کردار ادا کرکے ترکی نے مشرق وسطیٰ میں خاصی اہمیت حاصل کی ہے۔ مگر اس سے کہیں بھی یہ اشارہ نہیں ملتا کہ ترکی نیٹو کو چھوڑ دے گا یا چند اختلافات کے باوجود اسرائیل سے اپنے تعلقات ختم کرلے گا۔ اسلامی تعلیمات کے مطابق زندگی بسر کرنے والوں کے لیے معاملات ایسے کر دیے گئے ہیں کہ سیکولر عناصر یقیناً پسندیدگی کی نظر سے نہیں دیکھتے تاہم اس کے باوجود خواتین کو پردے پر مجبور کرنے یا ایران کی طرح تمام معاملات میں علماء کی رائے کو حتمی قرار دینے کی منزل سے ترکی بہت دور ہے۔

مشرق وسطیٰ کے امور پر نظر رکھنے والے مغربی مبصرین کی نظر میں ترکی کو سیاسی اور معاشی امور میں ماڈل کے طور پر اپناکر آگے بڑھنے سے خطے میں بہت سے دوسرے انتظامات کے مقابلے میں بہتر نتائج برآمد ہوں گے۔ عرب دنیا جس اکھاڑ پچھاڑ سے گزر رہی ہے کیا اس کی روشنی میں کوئی جواز ہے کہ وہ ترک ماڈل کو اپناکر بہتر زندگی بسر نہ کرے؟

ترک راہ پر گامزن ہونے کے معاملے میں عرب دنیا اگر تھوڑی محتاط ہے تو اس میں کچھ بھی حیرت انگیز نہیں۔ بات یہ ہے کہ ترکی میں اسلام نواز عناصر راتوں رات بہتر پوزیشن میں نہیں آئے۔ انہیں مختلف حوالے سے شدید مخالفت اور مزاحمت کا سامنا تھا۔ طاقت کا جواب طاقت سے دینے کے بجائے منطقی طریقہ اپنایا گیا اور یوں ایک نظام پروان چڑھتا گیا۔ ترک فوج خاصی مستحکم تھی اور سیکولر آئین کے دفاع کا بھرپور عزم رکھتی تھی۔ ابھی کچھ دن پہلے تک ترک فوج بہت سے معاملات میں اپنی بات منوانے کے لیے اڑ جایا کرتی تھی۔

ترکی اور مصر میں اسلام نواز عناصر کو جبر کا سامنا بھی کرنا پڑا اور سیاست میں ان کا کردار خاصا محدود تھا۔ مصر میں خاص طور پر اسلامی عناصر کے لیے پنپنے کی گنجائش کم تھی۔ ترکی میں اسلامی عناصر نے ۲۰۰۲ء میں اقتدار حاصل کرنے کے بعد بہت کچھ سیکھ لیا تھا۔ اور سیاسی اعتبار سے فعال دوسری بہت سی افواج کی طرح ترک فوج نے بھی سیاست میں زیادہ دلچسپی لینا ترک کردیا تھا۔ ۱۹۸۰ء میں اقتدار پر قابض ہونے کے بعد ترک فوج نے کثیر الجماعتی نظام اپنایا اور آزاد منڈی کی معیشت کی طرف تیز رفتار پیش رفت یقینی بنانے کی کوشش کی۔ اسکولوں میں اسلامی تعلیمات متعارف کرانے کی اجازت بھی دی گئی تاہم یہ ایک معمولی سی رعایت تھی جو خاصی مضبوط پوزیشن میں ہونے پر دی گئی۔ یہ اس زمانے کی بات ہے جب ترک فوج ملک میں سیاہ و سفید کی مالک تھی۔

عرب دنیا کے مقابلے میں ترکی میں سیکولر ازم کی جڑیں بہت گہری ہیں۔ ترک لیڈر مصطفی کمال پاشا نے ۱۹۲۳ء میں خلافت کے خاتمے کے بعد ترکی کو سیکولر ریاست میں تبدیل کردیا تھا۔ جدید ترکی کا ایک فیصلہ کن لمحہ ترک افواج کی شکست اور اسلامی عناصر کے خلاف جنگ کا اعلان بھی تھا۔ یونانی افواج کو شکست دینے سے سیکولر عناصر میں جو اعتماد پیدا ہوا وہ عشروں برقرار رہا اور اسی کی بنیاد پر انہوں نے اسلامی عناصر کو بیک فٹ پر رکھا۔

عقائد کے معاملے میں خاصی پختہ قوم کے باوجود ترکوں نے کوئی بڑا مذہبی لیڈر پیدا نہیں کیا کیونکہ ایسا کرنے کی صورت میں ریاست کے سیکولر آدرشوں سے تصادم کا خطرہ تھا۔ اور پھر قید و بند کی (غیر منطقی) صعوبتیں بھی تھیں۔ آج بھی ترکی کے سیاسی اور قانونی نظام پر سیکولر ازم کے عروج کے زمانے کے نقوش سلامت ہیں۔ بوسٹن (امریکا) کی نارتھ ایسٹرن یونیورسٹی کے تجزیہ کار برنا تورم کا کہنا ہے کہ ترکی کے اسلامی عناصر آج بھی ری پبلک (ریاست) کے فرزند ہیں۔

آج کے ترکی میں جس مذہبی رہنما کو غیرمعمولی مقبولیت اور اختیار حاصل ہے وہ فتح اللہ غلین ہیں جو امریکا میں سکونت پذیر ہیں۔ غیرسرکاری تنظیموں، اخبارات اور تعلیمی اداروں کے ایک بڑے گروپ کی سربراہی ان کے ذمے ہے۔ ترکی کے علاوہ دنیا بھر میں پھیلے ہوئے اسکول بھی اس گروپ کا جز ہیں۔ فتح اللہ غلین بالعموم مغرب نواز لہجے میں بات کرتے ہیں۔ ان کی گفتگو میں کاروباری اور جمہوری اداروں کے لیے مثبت اشارے پائے جاتے ہیں۔ مجموعی طور پر وہ مصالحت کی بات کرتے ہیں۔ عرب کے بیشتر اسلامی عناصر کے برعکس فتح اللہ غلین مغرب اور اسرائیل کے خلاف غیرضروری طور پر کچھ بھی کہنے سے گریز کرتے ہیں۔ بہت سے ترک اب بھی فتح اللہ غلین کے گروپ کو شک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ ان کے نزدیک یہ گروپ اعتدال پسند کم اور انتہا پسند زیادہ ہے۔ جن صحافیوں نے اس گروپ کے خلاف تحقیقات کی کوشش کی ہے انہیں مقدمات اور سزاؤں کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ اس گروپ پر تنقید کرنے والوں کو جلد ہی مخالفت کی لہر کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

فتح اللہ غلین کے پیروکاروں کاکہنا ہے کہ ۱۹۹۰ء کے عشرے میں فتح اللہ نے جو تقاریر کی تھیں ان سے طیب اردگان کو بہت کچھ سیکھنے کو ملا اور انہوں نے ترکی کو اسلامی ریاست میں تبدیل کرنے کا ارادہ ترک کیا۔ گزشتہ برس غزہ میں اسرائیلی فوجیوں کی فائرنگ سے ترکی کے ۹ امدادی کارکنوں کی شہادت کے بعد فتح اللہ غلین نے حکومت کی حمایت سے ہاتھ کھینچ لیا۔ ان کا کہنا تھا کہ زیادہ قصور وار ترکی تھا۔ ترک امدادی بیڑے کو اسرائیل کی سمندری حدود میں داخل ہونا ہی نہیں چاہیے تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ جب طیب اردگان کو اسلامی عناصر کی جانب سے شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑتا ہے تب معاملہ انقلابی یا انتہائی رنگ لیے ہوئے نہیں ہوتا بلکہ اس کے برعکس ہوتا ہے۔

ترک اسلام پسندوں کا ایک نمایاں وصف فتح اللہ غلین کی تحریک سے غیرمعمولی کاروباری روابط ہیں۔ مصر کے مقابلے میں ترک خام قومی پیداوار تین گنا ہے۔ ترکی میں دیہات سے تعلق رکھنے والوں نے آجرانہ انداز سے کام کرکے معیشت کو کہیں سے کہیں پہنچا دیا ہے۔ آج جسٹس اینڈ ڈیویلپمنٹ پارٹی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اشرافیہ میں اس کے تعلقات خاصے وسیع ہیں۔ اسلام پسند بھی چاہتے ہیں کہ بہتر معیار زندگی کے ساتھ جئیں۔ حکمراں جماعت کے کارکنوں میں بھی اب جدید ترین کاریں رکھنے کا رجحان پنپ رہا ہے۔ یہی گروپ ترک حکمراں جماعت اور اس کے ہم خیال حلقوں کے لیے حدود کا تعین بھی کرتا ہے۔ عرب دنیا میں متوسط طبقے کے لوگ ترک متوسط طبقے کے لوگوں کو رشک کی نظر سے دیکھ رہے ہیں۔

طیب اردگان کے ایک مشیر ابراہیم کلین نے بیسویں صدی کے دوران مصر اور پاکستان میں ابھرنے والے سیاسی اسلام اور ترک حکمراں جسٹس ڈیویلپمنٹ پارٹی کے درمیان ایک بنیادی فرق کی وضاحت کی ہے اور وہ فرق یہ ہے کہ نیت رہی ہو یا نہ رہی ہو، مصر اور پاکستان میں اسلامی تحاریک نے ریاست کے جدید ترین اطوار اپناکر اسلامی ریاست کے قیام کا خواب ضرور دیکھا۔ مسلم نظام نافذ کرنے کے لیے تعلیم کو بھی اہم ذریعے کے طور پر اختیار کرنے کی منصوبہ بندی کی گئی۔ دوسری طرف اے کے پی نے ایسا طریقہ اختیار کیا ہے جس میں وہ غیرسرکاری تنظیموں، نجی شعبے اور علمی اداروں اور شخصیات کو نسبتاً بڑا اور اہم کردار ادا کرنے کا موقع فراہم کرتی ہے۔

اے کے پی کے حلقوں میں دور جدید کے ساتھ ساتھ سلطنت عثمانیہ کے دور کا تذکرہ بھی ملتا ہے جب ہر مذہب کے لوگ اپنے تعلیمی ادارے آزادانہ طور پر چلایا کرتے تھے اور بیشتر خانگی امور میں وہ اپنے اپنے مذہب کے طے کردہ قوانین اور اصولوں کے مطابق فیصلے کیا کرتے تھے۔ کالم نگار علی بلاق کہتے ہیں کہ ترک باشندے سول مقدمات میں اسلامی اصولوں کو بھی اپنا سکتے ہیں اور سیکولر ازم کو بھی۔ ترکوں کے لیے مسلم جمہوریت اب بھی ایک عجیب چیز ہے جسے وہ مکمل طور پر اپنانے سے گریزاں ہیں۔

(بشکریہ: ’’دی اکنامسٹ‘‘۔ ۶؍اگست ۲۰۱۱ء)

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*