
ترکی میں بلدیاتی انتخابات اور صدارتی انتخاب بالترتیب مارچ اور اگست ۲۰۱۴ء میں ہوچکے ہیں۔ جون ۲۰۱۵ء میں ہونے والے عام انتخابات کے بعد ۲۰۱۹ء تک انتخابی عمل نہیں ہوگا۔ اب جبکہ تُرک سیاسی نظام بنیادی تبدیلیوں کے لیے تیار ہورہا ہے، یہ انتخابات محض آئندہ چار برس تک نہیں بلکہ ان کے بہت بعد تک اثرانداز ہوں گے۔
صدر رجب طیب ایردوان پارلیمانی نظام کو صدارتی نظام میں تبدیل کرنے کی تجویز دہراتے رہے ہیں۔ آئین کی شق نمبر ۱۷۵ کے تحت آئینی ترمیم کے مسودے پر اُسی وقت غور کیا جاسکتا ہے جب پارلیمان تین پنجتائی اکثریت (Three-fifths majority یعنی ۳۳۰ ارکان) کے ساتھ خفیہ رائے شماری کے ذریعے اس کی منظوری دے۔ اس کے بعد پارلیمانی اسپیکر منظور شدہ مسودہ حتمی منظوری اور سرکاری گزٹ میں اندراج کے لیے صدر کے پاس بھیجتا ہے تاکہ وہ ملکی قانون کا درجہ حاصل کرلے۔
گوکہ ایک دہائی قبل اقتدار میں آنے کے بعد سے جسٹس اینڈ ڈیولپمنٹ (اے کے) پارٹی تمام انتخابات جیتتی رہی ہے، تاہم گزشتہ انتخابات میں اسے کچھ نشستوں پر شکست ہوئی اور اس کے پاس ۳۱۲ نشستیں رہ گئیں۔
استنبول میں مقیم قانون کے پروفیسر ایرسَن سَین (Ersan Sen) نے امکان ظاہر کیا کہ اے کے پارٹی آئینی ترمیم کے لیے درکار اکثریت شاید حاصل نہ کرسکے لیکن پھر بھی وہ کُرد نواز پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی (ایچ ڈی پی) کو ساتھ ملا کر مطلوبہ تعداد پوری کرسکتی ہے۔ تاہم ان کے بقول، ’’یہ ناممکن ہے کہ آئینی طور پر مطلوبہ ارکانِ پارلیمان کے نہ ہوتے ہوئے آئین میں ترمیم کرڈالی جائے یا کسی مسودے پر ریفرنڈم کرالیا جائے‘‘۔
اے کے پارٹی حکومت نے کُردستان میں دو سال قبل امن عمل کا آغاز کیا تھا۔ اس دوران کچھ اتار چڑھاؤ ضرور آئے مگر پھر بھی یہ عمل آگے بڑھ رہا ہے اور حکومت کو اس کے مؤقف کی وجہ سے کُردوں کی ہمدردیاں حاصل ہیں۔ ان حالات میں یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ آئندہ عام انتخابات میں اے کے پارٹی کی ممکنہ جیت اورمسلسل چوتھی مدت کے لیے اس کی حکومت کا قیام یہ ممکن بنادے گا کہ ایچ ڈی پی آئینی ترمیم کے لیے اس کے ساتھ مل جائے۔ ابھی یہ کوئی نہیں جانتا کہ نئے آئین کے خدوخال کیا ہوں گے لیکن توقع ہے کہ اس میں مقامی حکومتوں کو مضبوط بنانے کے بدلے تُرک انداز کا صدارتی نظام لانے کی ایردوان کی خواہش پوری کردی جائے گی۔
حزبِ اختلاف ہنوز تذبذب کا شکار ہے۔ مثال کے طور پر اپوزیشن کی مرکزی جماعت ریپبلکن پیپلزپارٹی (سی ایچ پی) کے رہنما کمال کلیچدار اولو (Kemal Kilicdaroglu) نے دعویٰ کیا ہے کہ اے کے پارٹی نے سی ایچ پی کی کردار کشی اور عوام میں اس کی ساکھ خراب کرنے کے لیے ملکی خفیہ ایجنسی ایم آئی ٹی میں ایک خصوصی یونٹ کے قیام کا حکم دیا ہے۔
کلیچدار اولو کا کہنا ہے: ’’جیسا کہ آپ جانتے ہیں، ایم آئی ٹی کو قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے بنایا گیا۔ گستاپو بھی قانون کے ذریعے تشکیل دی گئی تھی مگر اس کا اصل کام کیا تھا؟ جرمن قوم کے بجائے وہاں کی حکومت کے مفادات کا تحفظ کرنا۔ میں صرف یہ چاہتا ہوں کہ ایم آئی ٹی اپنے قانونی دائرئہ کار میں رہ کر کام کرے اور کسی سیاسی جماعت کی طرفداری کرنے، اور اندرونی معاملات میں الجھ کر موضوعِ بحث بننے کے بجائے پوری قوم کی نمائندگی کا کردار ادا کرے۔ اسے حکمراں جماعت کی ہدایات پر سی ایچ پی کے خلاف کارروائی کرنے سے گریز کرنا چاہیے‘‘۔
تاہم استنبول میں سی ایچ پی کے نمائندہ رِضا طُرمین (Riza Turmen) نے اپنے ہی رہنما کے الزامات کو مسترد کردیا۔ انہوں نے کہا: ’’پارٹی کے اندر ہمارے آپس میں ہی کافی تنازعات ہیں۔ میں نہیں سمجھتا کہ ہمیں ان تنازعات کو بڑھاوا دینے کے لیے ایم آئی ٹی کی ضرورت ہے‘‘۔
وزیراعظم احمد داؤد اولو اس سے اتفاق کرتے ہیں۔ ایک طرف جہاں انہوں نے کلیچدار اولو سے الزامات ثابت کرنے کا مطالبہ کیا، وہیں اُن پر زور دیا کہ وہ طرمین کی بات پر بھی توجہ دیں۔ انہوں نے کہا، ’’کلیچدار اولو کو یہ بحث چھیڑنے کی کوشش بھی نہیں کرنی چاہیے۔ ہماری قومی خفیہ ایجنسی بیرونِ ملک ہمارے شہریوں کی حفاظت کرسکتی ہے لیکن وہ سی ایچ پی کو نہیں بچا سکتی۔ کلیچدار اولو کو یہ امید نہیں لگانی چاہیے کہ ایم آئی ٹی پر الزامات لگانے سے انہیں زیادہ ووٹ حاصل کرنے میں مدد ملے گی‘‘۔
سی ایچ پی لوگوں کو اپنے اس ویژن سے آگاہ کرنے میں ناکام ہوگئی ہے کہ اقتدار میں آکر وہ ان کی بہتری کے لیے کیا کرے گی۔ لوگوں کے سامنے تاثر بہتر کرنے اور اپنا ایجنڈا مرتب کرنے میں ناکامی نے اس جماعت کے لیے یہ کہنا مزید مشکل کردیا ہے کہ ارکان کے مابین اختلافات ہوجانا جمہوریت میں ایک عام بات ہے۔ جیسے جیسے اے کے پارٹی اس پر دباؤ بڑھا رہی ہے، ویسے ویسے پی ایچ پی کے لیے مشکلات پیدا کرنے والے اس کے قوم پرست اور سخت گیر سیکولر ارکان بے نقاب ہوتے جارہے ہیں۔
سی ایچ پی سے مستعفی ہوکر نئی اناطولیہ پارٹی تشکیل دینے والے رہنما ایمن اولکر ترہان (Emine Ulker Tarhan) اس المیے کو کچھ یوں بیان کرتے ہیں، ’’سی ایچ پی کی قیادت میں مجھے کوئی ایک شخص ایسا دکھا دیں جو سمجھتا ہو کہ پارٹی ۲۰۱۵ء کے انتخابات جیت کر حکومت قائم کرے گی۔ اگر جماعت تقسیم ہورہی ہے تو اس کے ذمہ دار کو ہر کوئی جانتا ہے۔ آج ترکی ایک غیر معمولی دور سے گزر رہا ہے اور اے کے پارٹی ہر ممکن کوشش کررہی ہے کہ آئین میں ترمیم کرکے ریپبلکن دور کا بدلہ لے لے۔ ایسے میں حزبِ اختلاف کا اپنی صفوں میں اتحاد قائم نہ رکھ سکنا اور شور مچانا کہ دوسرے اسے تقسیم کرنے کی کوشش کررہے ہیں، اس کی ناکامیوں کی دلیل ہے۔ انہیں چاہیے کہ اپنے ارکان کے بجائے اے کے پارٹی کے خلاف طاقت کا مظاہرہ کریں‘‘۔
(مترجم: حارث رقیب عظیمی)
“Turkey’s next election could shape more than next four years”, (“al-monitor.com”. Nov.25, 2014)
Leave a Reply