
ترکی میں ایک بار پھر سیاسی تحرک کا گراف بلند ہوگیا ہے۔ قبل از وقت انتخابات کے اعلان نے سیاسی جماعتوں کو اتحاد قائم کرنے اور ووٹ بینک زیادہ سے زیادہ مضبوط بنانے کی راہ پر گامزن کردیا ہے۔ تمل کرم اللہ اولو کی چھوٹی سی سعادت پارٹی اچانک ابھر کر سامنے آئی ہے۔ یہ پارٹی پندرہ سال سے اقتدار کے ایوانوں میں موجود اے کے پی کی متبادل ثابت ہوسکتی ہے؟ اس سوال پر ترکی میں زبردست بحث ہو رہی ہے۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ترک سیاست میں تھوڑی بہت ہلچل ضرور مچے گی۔ ملک کو سیاسی اعتبار سے تبدیلی کی ضرورت ہے مگر خیر، سعادت پارٹی کے حوالے سے بہت زیادہ توقعات نہیں لگائی جاسکتیں۔
کرم اللہ اولو ۷۶ سال کے ہیں۔ ان کی پارٹی کا ووٹ بینک زیادہ مضبوط نہیں۔ ملک بھر میں ان کی بنیاد بھی زیادہ وسیع نہیں مگر اس کے باوجود میڈیا میں انہیں غیر معمولی کوریج مل رہی ہے۔ المانیٹر سے انٹرویو میں کرم اللہ اولو نے کہا کہ ’’ہمیں اس بات کا اندازہ ہے کہ انتخابی میدان میں ہماری پوزیشن زیادہ مضبوط نہیں مگر اتنا ضرور ہے کہ ہم ملک میں سیاسی محاذ آرائی کو لگام دینے کی کوشش کرسکتے ہیں۔ ہم کسی سے بھی بات کرسکتے ہیں، مخالفین کا نقطۂ نظر جان کر ہم حالات کو بہتر بنانے کی طرف جاسکتے ہیں۔ ہم سوشل ڈیموکریٹس، نیشنلسٹ، کرد اور ایسے دیگر تمام ووٹروں کے لیے پلیٹ فارم بن سکتے ہیں جنہوں نے پہلے اے کے پی کو ووٹ دیا تھا مگر بعد میں اُس کی کارکردگی سے مایوس ہوگئے۔ ہمیں امید ہے کہ ہم ملک میں سیاسی محاذ آرائی کے زہر کا بہترین تریاق ثابت ہوسکتے ہیں‘‘۔
سعادت پارٹی کو اب بھی ووٹوں میں اُتنا حصہ نہیں مل سکا ہے، جو اُسے پارلیمان میں نمائندے بھیجنے کے قابل بناسکے۔ مگر اتنا ضرور ہے کہ اس کی بنیاد مضبوط سے مضبوط تر ہوتی جارہی ہے۔ سیاسی سرگرمیوں میں تیزی آنے سے سعادت پارٹی کو ملک بھر میں نوٹس کیا جارہا ہے۔ عوام میں اس پارٹی کی جڑیں گہری ہو رہی ہیں۔ صدارتی انتخاب میں سعادت پارٹی کا ووٹ شیئر خاصا اہم کردار ادا کرسکتا ہے۔ ۲۰۱۵ء تک اے کے پی کی حکومت کے لیے مشیر کی حیثیت سے کام کرنے والے معروف اخباری کالم نگار Etyen Mahcupyan نے المانیٹر سے انٹرویو میں کہا ’’بہت سے ووٹر اے کے پی سے نالاں ہیں۔ خاص طور پر دو ڈھائی برس کے دوران اس پارٹی نے جو سمت اختیار کی ہے، اس سے بہت سے ووٹر مطمئن نہیں۔ اب مسئلہ یہ ہے کہ ان کے پاس ڈھنگ کا متبادل پلیٹ فارم نہیں۔ اگر سعادت پارٹی اپنی چند ایک بنیادی کمزوریوں کو دور کرلیتی ہے تو حکمراں جماعت سے نالاں بہت سے ووٹروں کو اپنی مرضی کا پلیٹ فارم میسر ہوگا، جس کے ذریعے وہ اپنی بات کہہ بھی سکیں گے اور انتخابی نتائج پر اثر انداز بھی ہوسکیں گے‘‘۔
ایسا نہیں ہے کہ حکمراں جماعت نے سعادت پارٹی کو یکسر نظر انداز کر رکھا ہے۔ صدر رجب طیب ایردوان نے مارچ ۲۰۱۹ء میں میئرز کے انتخابات کے اعلان کے ساتھ ہی پارٹی کو انتخابات کی تیاریوں کا حکم بھی دے دیا ہے۔ ایردوان نے انتہائی دائیں بازو کی قوم پرست جماعت ایکشن پارٹی سے اتحاد کیا ہے۔ اس کے نتیجے میں ترکی میں سو سال پرانے پارلیمانی نظام کا ڈھانچا ختم ہوجائے گا اور رجب طیب ایردوان وسیع تر اختیارات کے ساتھ نمایاں ہوں گے۔
سعادت پارٹی کو اندازہ ہے کہ حکمراں جماعت کے لیے معاملات آسان نہیں۔ اس لیے قبل از وقت انتخابات کا اعلان کرنا پڑا ہے۔ کرم اللہ اولو کہتے ہیں ’’معیشت اور خارجہ پالیسی کے شعبے میں ملک کو چیلنجز کا سامنا ہے۔ ایردوان پر دباؤ ہے۔ اے کے پی کی پوزیشن پہلی سی نہیں رہی اس لیے انہیں انقلابی نوعیت کے اقدامات کی طرف جانا پڑے گا۔ ہم کسی بھی تبدیل شدہ صورت حال میں بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کرنے کے لیے پوری طرح تیار ہیں‘‘۔
ترک سیاسی جماعتیں صدارتی امیدواروں کو حتمی شکل دینے میں مصروف ہیں۔ ری پبلکن پیپلز پارٹی نے Eskisehir کے بائیں بازو کے مقبول میئر کو صدارتی امیدوار کی حیثیت سے سامنے لانے کا فیصلہ کیا ہے۔ دوسری طرف سعادت پارٹی بھی صدارتی امیدوار لانے کی تیاری کر رہی ہے۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ وہ سابق صدر عبداللہ گل کو اپنا صدارتی امیدوار بنالے۔ ساتھ ہی ساتھ کسی مشترکہ صدارتی امیدوار کی حمایت کا عندیہ بھی دیا جارہا ہے۔
کرم اللہ اولو نے کرد سیاسی جماعتوں کے خلاف کریک ڈاؤن کی بھی مذمت کی ہے۔ انہوں نے حال ہی میں کردش پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی (ایچ ڈی پی) کے سابق سربراہ Selahattin Demirtas سمیت ۹ کرد قانون سازوں کی گرفتاری کو بھی افسوسناک قرار دیا ہے۔ کرم اللہ اولو کہتے ہیں کہ ایچ ڈی پی میں بہت سے مسائل ہیں اور ان مسائل کو حل کرنے کے حوالے سے ہم پارٹی کی قیادت سے بات کریں گے۔
سعادت پارٹی اور اے کے پی دونوں ہی نجم الدین اربکان کی تحریک کی پیداوار ہیں۔ ۲۰۰۱ء میں رجب طیب ایردوان اور اُن کے رفقا نے سعادت پارٹی چھوڑ کر جسٹس اینڈ ڈیویلپمنٹ پارٹی (اے کے پی) کے پلیٹ فارم سے نیا سیاسی سفر شروع کیا۔ اور تب سے اب تک اے کے پی ترکی میں اقتدار میں ہے۔
ایردوان نے گزشتہ ماہ کرم اللہ اولو سے ملاقات کی تھی۔ یہ ملاقات یقینی طور پر اس لیے تھی کہ رجعت پسند جماعتوں کا مضبوط اتحاد سامنے آئے۔ بکھری ہوئی اپوزیشن کے مقابل ایردوان اپنی پوزیشن کو زیادہ سے زیادہ مضبوط رکھنا چاہتے ہیں۔
کرم اللہ اولو اور اے کے پی کے درمیان اختلافات خاصے وسیع البنیاد ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ دو چار ملاقاتیں تمام معاملات کو درست کردیں۔ کرم اللہ اولو کہتے ہیں ’’ہم مسجد میں ایک صف میں کھڑے ہوکر نماز پڑھتے ہیں۔ یہ اچھی ہم آہنگی ہے مگر یہ ہم آہنگی مسجد کی صف تک ہی ہے۔ ہم سرمایہ کاری، خارجہ پالیسی اور دیگر بہت سے معاملات میں اے کے پی کی پالیسیوں کی حمایت کیوں کر کرسکتے ہیں۔ چند ایک معاملات میں ہم آہنگی ضرور پائی جاتی ہے مگر اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ ہم اختلافی امورکو نظر انداز کردیں۔ بہت سے معاملات میں شدید نا انصافی کا ارتکاب کیا جارہا ہے۔ یہ سب کچھ ختم ہونا چاہیے۔
سعادت پارٹی اور اے کے پی میں بنیادی نظریات کا اختلاف گہرا ہے۔ اے کے پی نے مغرب کی جدید لبرل اکانومی کو اپنایا۔ سرکاری اداروں کو خطیر رقوم کے عوض نجی شعبے کے حوالے کردیا گیا اور کسانوں کو دی جانے والی رعایت بھی ختم کردی گئی۔ اس وقت ترکی کو خارجہ پالیسی کے محاذ پر شدید مشکلات کا سامنا ہے۔ شام کی صورتِ حال نے ترک حکمرانوں کے لیے بھی فیصلے کرنا مشکل بنادیا ہے۔ یورپی یونین کی رکنیت کا حصول یقینی بنانے کے حوالے سے ترکی کی تمام کوششیں لاحاصل دکھائی دے رہی ہیں۔ مالیات میں بھی ابتری نمایاں ہے۔ بے روزگاری کی شرح ۱۰ فیصد تک ہے۔ ایردوان کے لیے سب کچھ آسان نہیں۔ مسائل بڑھتے جارہے ہیں اور ان کا فوری حل بھی تلاش کرنا ہے۔
ترکی میں نظریات کی بحث اب تک موجود ہے۔ کرم اللہ اولو بھی اس بات کو سمجھتے ہیں کہ ترکی میں سیکولر ازم کے حامی اب تک مضبوط ہیں۔ ایک ایک قدم پھونک پھونک کر رکھنا پڑتا ہے۔ کرم اللہ اولو کہتے ہیں کہ سیکولر ازم ترک معاشرے کی قدر نہیں اس لیے اب اس سے جان چھڑالینی چاہیے۔ سعادت پارٹی سماجی انصاف کو غیر معمولی اہمیت دیتی ہے۔ کرم اللہ اولو کا کہنا ہے کہ لوگوں کو ان کی مرضی کے مطابق زندگی بسر کرنے کا اختیار ملنا چاہیے۔ اگر کوئی عورت اپنا سر ڈھانپنا چاہتی ہے تو اُسے ایسا کرنے کی اجازت دی جانی چاہیے۔ کسی پر کوئی بھی چیز مسلط نہیں کی جاسکتی۔ ترک معاشرے میں بہت کچھ ہے جو لوگوں کو بلاجواز برداشت کرنا پڑتا ہے۔ سیکولرازم کی جڑیں اب تک گہری ہیں۔ بہت کچھ ہے جو لوگوں کی مرضی کا نہیں۔
ترک معاشرے میں مذہبی شدت پسندی یا بنیاد پرستی کی گنجائش نہیں۔ ایک عشرے سے بھی زائد مدت کے دوران یہ تصور ابھرا ہے کہ اسلامی شناخت کو اعتدال کے ساتھ اپنائے جانے کی صورت ہی میں بہتری آئے گی۔ ترکی میں اسلام پسندوں کی نئی نسل چاہتی ہے کہ دین کے معاملات میں شدت نہ اپنائی جائے۔ تبدیلی کا عمل معتدل ہونا چاہیے۔ کسی پر کوئی بھی بات مسلط نہ کی جائے۔
ترکی میں سیاسی سرگرمیوں کی رفتار بڑھ گئی ہے۔ انتخابی ماحول میں بہت سے عوامل نمایاں ہوکر سامنے آرہے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ مذہب اس وقت بہت پیچھے ہے۔ مجموعی سیاسی و انتخابی ماحول ایسا ہے کہ مذہب کی بحث ایک طرف ہٹادی گئی ہے۔ انتخابات کے بعد ہی واضح ہوسکے گا کہ ترک معاشرہ اب کس سمت رواں ہے۔
(ترجمہ: محمد ابراہیم خان)
“Turkey’s tiny Saadet Party emerges as potential kingmaker”.(“al-monitor.com”. March 21, 2018)
اللہم ارحم امة محمد صلى الله عليه وسلم
اللهم انصر الاسلام والمسلمين
اللہمن أعز الإسلام والمسلمين
اللهم أذل الشرك والمشركين
اللہم اهلك اليهود والنصارى والمشركين والمنافقين