
عشق ممنوع ڈراما اْردو وَن نے ترکی سے حاصل کیا۔ سیکولر ترکی سے آنے والے اس ڈرامے نے دیکھنے والوں کی آنکھیں ہی چندھیا دیں۔ جن موضوعات پر کبھی کوئی شائستہ اطوار بات کرنے پر آمادہ نہیں ہو سکتا تھا۔ کبھی ذکر بھی ہوتا ہو گا تو سات پردوں میں، وہ ذکر ٹی وی اسکرین پر روز ہونے لگا۔ جس چینل کا کبھی ذکر نہیں ہوا تھا۔ کسی گنتی شمار میں نہیں تھا، ایک ڈرامے نے اسے دیکھتے ہی دیکھتے ڈرامے کے نئے رجحان کا امام بنا دیا۔ عشق ہمیشہ ممنوع ہوتا ہے، یہ الگ بات ہے اسے منع کرنے والے تھک جاتے ہیں اور کرنے والے سو راستے نکال لیتے ہیں۔ ملکوں معاشروں کی بنیاد، افکار سے زیادہ معاشرت اور اخلاقی فریم ورک پر ہوتی ہے جس میں ممنوع اور غیر ممنوع جلی الفاظ میں لکھے ہوتے ہیں۔
ذہنی پستی کے نہ رُکنے والے سفر کا کوئی پڑائو نہیں ہوتا، پاکستانی ڈرامے نے محبت کے نام پر گزشتہ کئی سال سے ہر حد توڑنے کا کام سنبھال رکھا تھا۔ عشقِ ممنوع اس سے بھی ایک ہاتھ آگے چلا گیا۔ اپنے ہی چچا کی بیوی سے عشق، محترم رشتوں کی تذلیل کے لیے کبھی کبھی تو کہانیاں گھڑنی نہیں پڑتیں بلکہ لگاوٹ اور بدمستی کی ایک نگاہ ہی کافی ہوتی ہے، مگر عشق ممنوع نے تو کئی حدیں توڑ دیں۔بدمستی کو مستی بنا کر یوں پیش کیا گیا کہ ڈرامے کا ہر ہر کردار اپنی حدود توڑنے پر آمادہ رہنے لگا۔ یہی سب کچھ نیا تھا۔ شاید روایت، اخلاق اور طے شدہ ضوابط کو کوئی خود توڑ نہ سکے تو دوسروں کو ایسا کرتے دیکھنے سے تسکین ہوتی ہو گی۔ وجہ کوئی بھی ہو، یہ ڈراما ہر جگہ موضوع بحث بن گیا۔
کیا یہ ڈراما ترکی کی نمائندگی کرتا ہے
یہاں سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ ڈراما ترکی کی نمائندگی کرتا ہے۔ میں نے ڈاکٹر درمش بلوگر سے رابطہ کیا وہ استنبول سے لاہور آئے ہیں، پنجاب یونیورسٹی کے اورینٹل کالج میں رومی چیئر کے سربراہ ہیں۔
وہ بولے:’’ ترکی میںایسا کلچر بے شک ہے مگر اس کی تعداد یا مقدار بہت کم ہے۔ یہ ڈراما جس ناول پر مبنی ہے وہ بھی کوئی سو سال پرانا ہے۔ اس پر پہلے فلم بھی بنی تھی۔ میں تو ہمیشہ اپنے جاننے والوں کو منع ہی کرتا رہا لیکن اس کو پسند کرنے والے تو موجود تھے۔‘‘ ان کا اصرار تھا کہ’’ ایسے ڈرامے بنانے والے معاشرے کو خراب کرنے کا باعث بنتے ہیں۔اسے دیکھنے والے بے شک ضرورہوتے ہیں مگر پسند اور ناپسند کرنے والوں میں بڑا واضح فرق ہوتا ہے۔ترکی میں یہ فرق موجود ہے اور موجود رہے گا۔‘‘
ڈاکٹر درمش نے افسوس سے کہا : ’’میرا احساس ہے کہ اس ڈرامے نے ترکی کا امیج بری طرح متاثر کیا ہے۔‘‘
عجیب بات یہ ہے کہ پاکستانی پرنٹ میڈیا میں صرف ایک اخبار نے اس ڈرامے کے معاشرے پر منفی اثرات کو موضوع بنا کر خبریں دیں۔ ورنہ باقی تو عشق ممنوع کے ہیرو، ہیروئن کی خوبصورتی اور بے پناہ مقبولیت کی خبریں ہی دیتے رہے۔ خواتین کے ایک نئے میگزین نے تو بیتر کی شادی کے حوالے سے معلوماتی تحریر بھی شائع کر دی ہے کہ بہلول اور بیتر آج کے پاکستان کے نئے ہیرو ہیں۔ اے ایف پی کے حوالے سے آنے والی ایک خبر ہمارے ہاں شائع ہوئی ہے کہ ترک صدر عبداللہ گل نے اس ڈرامے کا نوٹس لیا ہے۔ اس خبر کے بعد سے اس محاذ پر خاموشی ہے، نہ تو ترک سفارت خانے اور نہ ہی ترکی سے متعلق کسی سیاسی، سماجی یا کاروباری انجمن کا ہی کوئی بیان سامنے آیا ہے۔
عشق ممنوع ایک ناول نگار خالد ضیا اوشک کلیگل کے لکھے ہوئے ناول سے ماخوذ ہے۔ اس کی پروڈکشن، کردارسازی اور ماحول اس قدر خوبصورتی سے دکھایا گیا ہے کہ یہ ڈراما جہاں جہاں بھی گیا، ایک سحر طاری کرتا گیا۔ ترکی کے اعلیٰ طبقے کا رہن سہن ہمیشہ سے لوگوں کو Fascinate کرتا ہے۔ لوگ اس ماحول میں جینے کے آرزومند ہوتے ہیں۔ ہمارے ہاں طبقہ امراء کے لیے بھی یہ خبر تھی کہ ترکی میں لوگ ان سے بھی بہتر زندگی گزارتے ہیں۔
اس ڈرامے کی کامیابی پر ہمارا قومی ردعمل بہت ہی ’’شاندار‘‘ رہا۔ میڈیا نے ترکی کی طرف دوڑ لگا دی۔ تا کہ انہی اداکاروں کے مزید ڈرامے خریدے جا سکیں، جیو نے ’نور‘ خرید لیا جو وہاں پہلے ہی بے حد مقبول ہو چکا تھا۔ ایکسپریس نے ’مناہل اور خلیل ‘ کو پسند کیا۔ کم سے کم ۵ ڈرامے اس وقت آن ائر ہیں۔لاہور میں ایک پلازے میں کئی نئے اسٹوڈیوز وجود میں آگئے، وہاں صرف ترکی ڈراموں کی ڈبنگ ہوا کرے گی۔ ایک ترکی فلم کی ڈبنگ ہو بھی چکی۔ ایس ٹی وی اْردو (STV) کے نام سے ترکی کے ایک چینل کو بھی منظوری مل گئی ہے۔
دوسرا ردعمل کراچی اور لاہور کے اداکاروں اور پروڈکشن ہائوس کے مالکوں کا تھا۔ انھیںدکھ اس بات کا ہوا کہ ہمارے بنائے ڈرامے کی ایک قسط ۵،۶ لاکھ میں بکتی ہے اور ترکی والے ڈرامے کی قسط ایک لاکھ میں دستیاب ہے۔ معاشی طور پرچینلوں کو آسانی ہی نہیں بچت بھی ہو گی۔ یوں آنے والے دنوں میں یہ رجحان دنیا کے ہر اچھے بُرے ڈرامے کو یہاں لانے اور ڈبنگ کر کے دکھانے کی بنیاد بنے گا۔ یوں ان کو مالی نقصان ہو گا۔ ممکن ہے کسی دل والے نے ملک کی تہذیب، معاشرت یا اقدار کا بھی سوچا ہو مگر جو کچھ ان کے ہاتھوں انجام پا رہا ہے وہ اس سوچ کی تو نفی کرتا ہے۔ سو لمحہ بھر کو آئی خوش گمانی ٹھہرنے کی جگہ نہیں ڈھونڈ پاتی۔
تیسرا ردعمل عوامی ہے اور وہ بے انتہا کمال کا۔انھیں نئے اور خوبصورت ہیرو ہیروئن مل گئے۔ گاسپ(Gossip) کے لیے موضوع مل گیا اور دیکھنے کے لیے عمدہ اور خوبصورتی سے بنا ہوا ڈراما۔مقبولیت کے نئے ریکارڈ کیوں نہ قائم ہوتے؟
اس ساری صورت حال میں ایک بات بہت ہی اہم ہے کہ ثقافتی حملے میں یہ ہماری تیسری پسپائی ہے جو ہمیں بحیثیت قوم نصیب ہو رہی ہے۔ ان درآمدہ ثقافتوں سے اگر تو ملک و قوم کی کوئی بہت بہتری ہوئی ہوتی تو آج ہم بھی بامِ عروج پر پہنچے ہوتے اور دنیا کو اپنی ثقافت سے روشناس کرا رہے ہوتے۔ کہیں ہمارے ڈرامے چل رہے ہوتے۔ کہیں فلمیں پسند کی جا رہی ہوتیں، کہیں ہمارے مزاج و اطوار زیر بحث ہوتے۔ ہماری ثقافت کی خوبیاں اور خوبصورتیاں توجہ پا رہی ہوتیں تو یقینا اطمینان کا موقع ہوتا، مگر آج کا اہم ترین سوال یہ ہے کہ ان ۶۵ برسوں میں بطور قوم ہم نے اپنی کیا ثقافت طے کی ہے؟ اپنی ثقافت کی کون سی خوبیاں اور خوبصورتیاں ہیں، جن پر متفق ہوئے ہیں اور جن کو پذیرائی بخشی گئی اور پھر جسے لے کر ادب پارے، ڈرامے، فلمیں، شاعری، نثر کے شہ پارے تخلیق کیے گئے، ادارے بنائے گئے۔
لاتعلقی اور بے نیازی کی حد تو یہ ہے کہ پاکستانی ثقافت پر کوئی تحریر پڑھنی ہو تو فیض احمد فیض کی دو تین تقریروں والے ایک کتابچے کے علاوہ ڈھنگ کی کوئی کتاب نہیں ملتی۔اہل علم و اہل فکر ہی نہیں اہل دانش اور برسوں سے ملک و قوم کی ثقافت کے مظہر اور استعارہ بننے والے فنکار بھی بری طرح ناکام ہوئے ہیں۔ جنرل ضیاء کے زمانے میں بنے شاہین، آخری چٹان کے بعد کوئی تاریخی ڈراما تک نہیں بنا سکے۔ اچھے موضوع پہ فلم کا توسوچیے ہی نہیں، ہر قوم اپنی ثقافت، اقدار اور اطوار سے ہی اپنا کلچر طے کرتی ہے۔ مقامی ثقافتیں اور روایات اس میں شامل ہو کر اسے خوب تر بناتی ہیں۔ قوم کے مذہب کا مزاج اسے قبول صورت بننے میں مدد دیتا ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ اہلیت کے سارے سوتے یہاں خشک ہو چکے ہیں۔ ہاں سوچنے سمجھنے اور آگے بڑھ کر کچھ کرنے کا وقت ہم بار بار گنوا چکے ہیں۔ ڈرنے یا قوم کو دوسری تہذیبوں سے ڈرانے کا وقت بھی جاتا رہا۔ اب اس پر شاید چار لوگ رک کر بات بھی نہیں سنتے۔
ترقی کے شوقین معاشرے، ترقی کی دوڑ میں جب پیچھے رہ جاتے ہیں تو ہمیشہ سے ہوتا آیا ہے کہ وہ اپنے آس پاس سے آگے نکلتی ہر قوم کو، اس کی عادتوں کو، اس کے لباس، مزاج اور اخلاقیات کو ہی ترقی کا زینہ سمجھ لیتے ہیں۔ دینی اور مذہبی جماعتوں نے گزشتہ چھ دہائیوں سے اس ملک میں بیسیوں مواقع پر شور مچایا اور اس کے بعد لمبا وقفہ اس لیے دیا تا کہ نئے سیاسی ایشو پر صف بندی کی جا سکے۔
شاید ہی کو ئی سماجی یا معاشرتی مسئلہ ایسا ہو جہاں انھوں نے کوئی ایسا حل دیا ہو جسے معاشرے میں قبول عام حاصل ہوا ہو۔معاشرے کی بد صورتی نہ صرف قائم رہی بلکہ اس میں روز افزوں اضافہ ہوا۔ کاش یہ لوگ مل کر ہی سہی کوئی دو چار ڈرامے سیریل، فلمیں ہی بنوا دیتے، اس موضوع پر راہنمائی کے لیے کتابیں لکھی جاتیں۔ کھلی بحثیں ہوتیںاور ایک قابلِ قبول اور پسند کیا جانے والا کلچر سامنے آتا، ہر بار یہ تو نہ سننا پڑتا کہ لباس بھی کسی اور کا، زبان بھی، انداز بھی اور اطوار بھی۔ کوئی قوم کتنی ہی کمزور کیوں نہ ہو۔ بے زبان نہیں ہوتی۔ نہ اپنے ماضی سے کٹی اور خلا میں معلق ہوتی ہے کہ جہاں ہر طرف سے وہ ہر کلچر کی زد میں ہو۔ سکھوں نے یورپ جا کر نہ اپنی پگڑی چھوڑی نہ داڑھی، نہ روایت۔ شادی بیاہوں پر ویسے ہی بھنگڑے ڈالتے ہیں۔ جیسے امرتسر کی معاشرت میں بندھے ہوں۔اس سے وہ ہر جگہ پہچانے جاتے ہیں۔
ہم ڈراموں اور فلموں کو فوراً برا بھلا کہہ کر فارغ ہو جاتے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ اپنا فرض ادا کر دیا ہے، ہم نے تو پہلے ہی کہہ دیا تھا یہ غلط ہے۔ کہیں تو کسی چیز کی Replacement دی ہوتی۔ بُرا بھلا کہنے، الزام دینے میں ۶۰ برس گزر گئے خلا کو نہ پْر کیا۔ نہ کسی نے پْر کرنے کا سوچا، اب میڈیا پر جو آ رہا ہے، وہی کل سچ بن کر ڈسے گا۔معروف ماہر نفسیات ارشد جاوید کہنے لگے: ’’میرے پاس ایسے کتنے ہی نوجوان مریض آتے ہیں جنھوں نے انگریزی ناول پڑھے۔ وہاں محترم اور مقدس رشتوں پہ دست درازی یا آمادی کے ساتھ جنسی تعلق کی منظر کشی پڑھی اور پھر کسی کمزور لمحے اپنے ہی سگے رشتوں کے ساتھ ویسے کرنے کی کوشش کی۔ کامیابی اور ناکامی دونوں صورتوں میں ذہنی مریض بن کر پھر برسوں اپنا علاج کراتے ہیں مگر اس شرمندگی سے نہیں نکل پاتے‘‘۔
سیاسی و معاشی استحکام کے بعد دنیا پر ترک ثقافتی یلغار کیا رنگ لائے گی، اس کے اثرات ایک تجزیے میں سمیٹنے مشکل ہوں گے مگر یہ ضرور ہوا ہے کہ پاکستان میں ترکی کے لیے ہمیشہ سے موجود محبت اور احترام عشق ممنوع کے اخلاقیات و حدود و قیود سے بے نیاز کرداروں کے باعث مجروح بھی ہوا ہے اور متاثر بھی۔ بے شک بہت سے عام لوگوں نے اس ڈرامے اور اس کے بعد آنے والے ڈراموں کو آسانی سے قبول بھی کر لیا ہے۔ اسے اشتہار بھی مل گئے ہیں اور مقبولیت بھی۔ یوں ترکی ڈرامے لانے والوں کا جو ٹارگٹ یا مقصد تھا وہ بہرحال آسانی سے پورا ہو چکا۔ اب ڈراموں کے بعد لوگوں کا باہم رابطہ ہو گا تو اور کھل جائیں گے دو چار ملاقاتوں میں والا معاملہ ہو گا۔ یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ ترکی کی عام زندگی بھی یورپ کی قربت یا اس کا حصہ ہونے کے باعث ہم سے بہت مختلف ہے بلکہ دس بیس سال آگے ہے۔
اس ڈرامے نے جہاں مقبولیت کے نئے ریکارڈ قائم کیے ہیں۔ ریٹنگ میں ڈراما اور چینل کہیں آگے نکل گئے۔نئے ترکی کے ڈرامے نے بہت کچھ پچھاڑ دیا۔ ایک ایسی ثقافتی یلغار کا آغاز ہوا ہے، جس سے سرمائے کی آمد جڑی ہوئی ہے۔ اسی لیے اسے یہاں سے اپنے وکیل بھی آسانی سے مل جائیں گے جنھیں یہ غرض نہیں ہو گی کہ ان کی آمدن معاشرے کا حلیہ کس حد تک بگاڑ دے گی۔
میڈیا کو آزادی ملنے کے بعد ہر پروڈکشن ہائوس نے ان موضوعات کو چنا، جن پر بات کرتے ہوئے کبھی کانوں سے دھواں نکلتا تھا۔وفا گالی بن کر حماقت ٹھہری اوربے وفائی ادا۔ شادی کے بعد بھی خوش شکل انسانوں سے جسمانی ذہنی تعلقات کو دلیلوں کی بنیادیں فراہم کی جانے لگیں۔ گلے ملنے، ایک بستر پر سونے اور ذو معنی جملوں کی وہ بہتات ہوئی کہ فیملی ڈرامے کے نام پہ مقبول ڈرامے کے ایک کردار کو اس کی بیوی نے اپنے بیٹے اور بہو کی موجودگی میں کہا، ’’اب کمرے میں چلیں آرام کرتے ہیں۔‘‘ تو شوہر نے خاموشی سے اٹھ کر چلنے کے بجائے اپنے معمول کے مطابق یہ کہنا ضروری سمجھا کہ ’’کمرے میں جا کر ہم جو کچھ کریں گے اسے آرام کہتے ہیں؟‘‘
آپ اگر اس پورے منظر نامے سے واقف نہیں ہیں تو سچ کہوں آپ کا یہ روداد پڑھ کر دل پھٹنے کو آ جائے گا۔ ہمارا آج کن کے سپرد ہے اور ہم نے اپنے کل کی حفاظت کے لیے کن کو تیار کیا ہے؟ یہ کسی ایک دن کا شاخسانہ نہیں ہے۔ نہ کوئی اتفاقی حادثہ اور واقعہ ہے۔ جیسے ’جگ سا پزل‘ میں ایک تصویر مکمل نہیں ہوتی جب تک اس کے سارے حصے جو بخرے بخرے ہوتے ہیں، مکمل نہ کر لیے جائیں، ساتھ رکھے ہوئے نہ ہوں تو تصویر سامنے ہی نہیں آتی۔ترکی جیسے سیکولر ملک سے ڈرامے لانے، ان کو ڈب کرنے اور اس قوم کو اس تہذیب سے متعارف کرانے کا کارنامہ کرنے والے کسی اور ملک سے تو نہیں آئے ہوں گے۔ انھیں اس میں آسانی سے حاصل ہونے والی آمدن نظر آئی جو انھوں نے حاصل کر لی۔ اس کے جواب میں قوم کو کیا ملا۔ اس پر بات نہیں کرتے، اس مائنڈ سیٹ کو ضرور دیکھیے کہ ملک کے ہر چینل کی سربراہی پہ بیٹھے اعلیٰ دماغوں نے فوری طور اسے ایک موقع پایا اور ترکی سے نئے ڈرامے لانے کے لیے کود پڑے۔ شام کوٹی وی لگائیے تو ہر چینل پر ترکی چہرے اپنے کلچر کے لباسوں، عادتوں کے ساتھ اْردو میں سب کچھ مفت میں عطا کر رہے ہوتے ہیں۔
کچھ عرصہ پہلے انڈیا جانے کا اتفاق ہوا۔ رات شملہ کے ایک ہوٹل میں ٹھہرے۔ صبح چھ بجے اٹھ کر ٹی وی آن کیا تو یہ بھی تصدیق ہو گئی کہ پسندیدہ ملک والے ہمارا کوئی چینل بھی اپنے لوگوں کے لیے مفید نہیں سمجھتے۔ ڈرامے تو دور کی بات بے ضرر خبروں والے چینل بھی موجود نہیں تھے۔ ہاں ان کے ۱۸؍ چینل میں نے بدل بدل کر دیکھے۔ سب پر اپنے اپنے الگ الگ پنڈت، پروہت اور مردوخواتین پجاری گیتا پڑھ رہے تھے، ہندو دھرم اور انسانیت پر درس دے رہے تھے۔
ان کا کوئی چینل بھی ایسا نہ تھا جو اس وقت مذہبی نشریات کے علاوہ وقت پورا کرنے کے لیے کوئی گانا، ڈراما، ری ٹیلی کاسٹ (Repeat) نہیں کر رہے تھے۔ اگر میں ان کی اس ادا کی تحسین نہ کروں تو زیادتی ہو گی۔ انھوں نے میڈیا کے طوفان میں اپنے دھرم کو نہ تو خود روندا ہے نہ کسی کو روندنے کی اجازت دی ہے۔ مہا بھارت سے لے کر گیتا کی تعلیمات تک ڈرامے بنتے ہیں، ابھی حال ہی میں کامیاب ہونے والے شیوا سیریل کے علاوہ ہر ڈرامے، سوپ سیریل کو اس خوبصورتی سے مذہبی روایات، مندر، پنڈت سے جوڑا ہے کہ ان کی نئی نسل سے زیادہ ہماری نئی نسل شادی بیاہ سے لے کر مرنے تک کی تمام رسموں اور اشلوکوں سے واقف ہو چکی ہے۔ ہر کردار تھوڑی دیر بعد گھر کے مندر میں ہی ماتھا ٹیک رہا ہوتا ہے۔ دفتر جاتے ہوئے پرشاد لے اور دے رہا ہوتا ہے۔ اس طرح کے کسی سین پر اضافی پیسے خرچ نہیں ہوتے ہاں لکھنے والے اور بنانے والے کی اپنے مذہب، دھرم اور اس کی اخلاقیات سے مضبوطی سے جڑے رہنے کا ضرور پتا چلتا ہے۔
ہمارے ہاں کسی نے بہت کیا تو خواتین کے رسالوں سے خواتین رائٹر کو لیا اور ان کی طویل مختصر کہانیوں اور ناول پر ڈرامے بنا لیے۔ وہ تحریریں گھر کے کاموں سے تھکی ہاری خواتین کے وقت گزاری کے لیے بہترین ہوتی ہیں۔ سماج کی بہتری یا کسی واضح پیغام کی اس سے توقع ہی کم کی جاتی ہے۔
ابھی تو اور ڈرامے آئیں گے
ممتاز تجزیہ نگار فرخ سہیل گوئندی جو ۳۸ مرتبہ پاکستان سے ترکی جانے کا ایک منفرد اعزاز رکھتے ہیں۔ ان کی رائے بالکل ایک مختلف منظر دکھاتی ہے۔ ان کا کہنا تھا، ’’ترکی میں بننے والے ڈرامے عرب دنیا، روس، مشرقی یورپ اور دیگر ممالک میں اپنی منڈیاں بنا رہے ہیں۔ ان کی برآمد سے ترک میڈیا اربوں ڈالر کما رہا ہے۔ ان کے اس عمل سے ان کا نہ ایمان متزلزل ہوتا ہے اور نہ ہی عقیدہ کیونکہ وہ بلند اور مضبوط عقیدوں کے لوگ ہیں۔‘‘
ابھی تو ایک دو ڈرامے آئے ہیں پھر اور بھی آئیں گے۔ پہلے ہم کہتے تھے کہ مغرب کی یلغار ہے۔ یہود و ہنود کے کلچر سے بچیں۔ جو قومیں علمی، فکری اور نظریاتی طور پر کمزور ہوتی ہیں وہ ہمیشہ بیرونی نظریات کے خطرات سے دو چار رہتی ہیں۔ ہم نے شاعری اور ادب میں کتنے نجیب عمر پیدا کیے ہیں، کتنے محمود درویش اور اور مان پیدا کیے ہیں۔
ترکوں اور عربوں نے ادب اور شاعری میں بہت ترقی کی ہے۔ آج ہم انھیں صفائی کرنے کے لیے بلا رہے ہیں، اب ان کے ڈرامے بھی آ گئے۔ پہلے ہی یہ ڈرامے ملین ڈالر کما چکے ہیں۔میں آپ کو بتائوں ان کی وار ان بس یا میٹروبس آ گئی تو آپ کو اپنی ڈیوو بس بھی نیازی بس جیسی لگے گی۔ ہم اپنے شہر کی صفائی کرنے کے بھی قابل نہیں ہیں۔ نظریات کی حفاظت کیا کریں گے؟
ترکی ہمیں اگر آٹو موبائل کی ٹیکنالوجی دیتا تو مجھے زیادہ خوشی ہوتی۔ اصل میں ہم Psychological Colonialism کا شکار ہیں۔ ہمارے ہاں سب سے زیادہ پڑھا لکھا وہ ہے جو انگریزی بولے، کم پڑھا لکھا وہ ہوتا ہے جو اْردو بولے اور ان پڑھ وہ ہوتا ہے جو پنجابی بولے۔ طیب اردغان ترکی میں بولتا ہے، جبکہ ہمارا وزیراعظم چاہے انگریزی نہ بھی آئے تو بھی انگریزی میں لگا ہوتا ہے۔ میںاگر وزیراعظم بنوں تو مجھے انگریزی آتی بھی ہو تو اْردو میں بولوں گا۔ قوم بے زبان تو نہیں ہوتی۔ آج دنیا کا مسئلہ معاش ہے۔ آپ لوگوں کو روٹی دے دو لوگ کہیں گے پاکستان اچھا ہے، روٹی ترکی والے دے دیں وہ کہیں گے ترکی اچھا ہے۔ آپ پاکستان کو ایسا بنائو کہ کل بھارت والے کہیں کہ ہمیں پاکستان بنا دو۔
میں اللہ کا شکر گزار ہوں۔ میں خود کو Extra Ordinary ذہین نہیں سمجھتا مگر مجھ میں Clarity of Ideas ہے۔ اس کی وجہ مطالعہ اور مشاہدہ ہے۔ کتاب سے ترکی پڑھا اور آنکھ سے دیکھا۔ میں ترکوں کا دوست ضرور ہوں لیکن پہلے میںپاکستانی ہوں۔ میں نے بھارت میں کہا تھا کہ میں بھارت سے دوستی پاکستان کے لیے چاہتا ہوں بھارت کے لیے نہیں۔
سپریم کورٹ آف پاکستان نے صحیح کہا کہ رینٹل پاور والے کیس میں کیا ہم ترکوں کو پاکستان بیچ دیں۔ میں نے ترکوں، عربوں سے سیکھا ہے کہ اپنے وطن سے محبت کیسے کرتے ہیں؟ ہم تحریک خلافت کے زمانے سے ترکی کے ساتھ ہیں۔ ہم پاکستانیوں نے قبرص میں ترکوں کی حمایت کی۔ ہم پاکستانیوں نے سائپرس پر بلند اجوت کو سپورٹ کیا۔ جب ۱۹۸۹ء میں ترکی میں زلزلہ آیا تو ہمارا وزیراعظم نواز شریف خود جہاز میں ساتھ گیا۔ہم بے شک ترکی سے جڑے ہوئے ہیں مگر اپنا نقصان نہیں کرانا۔
آج کا ترکی
آج کا ترکی جس کی جڑیں بے شک اس کے ماضی میں پیوست ہیں مگر اس کی آنکھوں میں بہت دور کے خواب سمائے ہیں۔ اس کی ثقافتی یلغار کو سمجھنے سے پہلے نئے ترکی کی تفہیم بے حد ضروری ہے۔ ہمارے جو دوست وہاں کے اسلامی انقلاب سے شدید متاثر تھے، بار بار ایسے مواقع آ رہے ہیں کہ ان سے جواب نہیں بن پاتا۔ یہ مشکل ترکی نے پیدا نہیں کی، خود انھوں نے اپنے آپ کو اس مشکل میں ڈالا ہے۔
ترک وزیراعظم نے گزشتہ سال کی آخری سہ ماہی میں مصر کا دورہ کیا تو ارشاد فرمایا ’’یہ ایک سیکولر ملک کے مسلمان وزیر اعظم کا مشورہ ہے۔ ‘‘ وہ مصری صدر کی اپوزیشن سے بڑھتی ہوئی دوریوں اور شکوک وشبہات کے پس منظر میں بات کر رہے تھے۔یاد رہے کہ برسراقتدار جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی کے پاس پارلیمنٹ میں ۳۴۷ نشستیں ہیں۔ ۲۰۰۱ء میں بنی اس پارٹی نے ۲۰۰۲ء میں ۳۲۷ سیٹیں جیتیں۔ عبد اللہ گل وزیر اعظم بنے۔ ۲۰۰۷ء کے الیکشن میں ان کو مزید سراہا گیا۔ سیٹیں ۳۴۱ ہو گئیں، جے ڈی پی اچھی سوچ کی ایک پرو یورپ پارٹی ہے۔ پارٹی برسراقتدار آنے کا یہ مطلب نہیں کہ عام لوگوں کی زندگی اور پسند ناپسند بھی بدل جائے۔
(بشکریہ: ماہنامہ ’’اردو ڈائجسٹ‘‘ لاہور۔ جنوری ۲۰۱۳ء)