ترکی کے ایک غیر سرکاری ادارے نے وہاں پارلیمانی انتخابات کے انعقاد سے تین ماہ پہلے عوام کا رجحان معلوم کرنے کے لیے رائے عامہ کا ایک جائزہ لیا ہے۔ رائے عامہ کے اس جائزے کے نتائج سے ظاہر ہو رہا ہے کہ آئندہ جون میں منعقد ہونے والے عام انتخابات میں رجب طیب ایردوان کی جسٹس اینڈ ڈیولپمنٹ (انصاف و ترقی) پارٹی رائے دہندگان کے ۴۴ فیصد ووٹ حاصل کر کے اول نمبر پر کامیاب ہوگی۔ اور نتائج سے پتا چلتا ہے کہ ’’کمال داراوغلو‘‘ کی قیادت والی نیشنل ڈیموکریٹک (قومی جمہوری) بائیں بازو کی سیکولر پارٹی کو ۲۴ فیصد ووٹ ملنے کی توقع ہے اور یہ دوسرے نمبر پر ہوگی۔ اسی طرح دائیں بازو کی متشدد پارٹی نیشنل موومنٹ (قومی تحریک) کو ۱۴ فیصدی ووٹ ملنے کی امید ہے۔ اس پارٹی کے قائد ’’دولت باغجلی‘‘ ہیں۔
ایک عوامی جائزے کے مطابق جسٹس اینڈ ڈیولپمنٹ پارٹی کی انتخابی قوت کا مخزن شہر اور گائوں کی خواتین ہیں اور جمہوری پارٹی کا ووٹ بینک سرکاری ملازمین ہیں۔ اسی طرح قومی تحریک پارٹی کا انحصار ریٹائرڈ فوجیوں پر ہے۔
ایک سیاسی تجزیہ نگار کا کہنا ہے کہ ترکی میں اقتصادی و اجتماعی اور ٹرانسپورٹ اور مواصلات کی سطح پر جسٹس اینڈ ڈیولپمنٹ پارٹی کی کارکردگی اتنی نمایاں ہے کہ اسے آئندہ انتخابات میں تقریباً ۵۰ فیصدی ووٹ مل جائیں گے۔ اس طرح یہ پارٹی اس کامیابی سے قریب ہو جائے گی جو گزشتہ صدی کے نصف میں ’’عدنان مندریس‘‘ نے حاصل کی تھی۔ انہیں اس وقت کل رائے دہندگان کے ۵۱ فیصدی ووٹ ملے تھے۔
قابل ذکر بات یہ ہے کہ جسٹس اینڈ ڈیولپمنٹ پارٹی کے تین وزراء (وزیر مواصلات، وزیر انصاف اور وزیر داخلہ) ترکی کے آئین کی پاسداری کرتے ہوئے ۹ مارچ کو اپنے اپنے منصب سے مستعفی ہو گئے ہیں۔ ان کا یہ اقدام ترکی کے آئین کی اُس دفعہ کے عین مطابق ہے جس میں کہا گیا کہ عام پارلیمانی انتخابات کے انعقاد سے تین ماہ پہلے مذکورہ بالا وزارتوں کے وزیروں کو اپنے عہدوں سے استعفیٰ دینا ہوگا۔ تاکہ انتخابی نتائج کے غیر جانبدارانہ اور شفاف ہونے کی ضمانت فراہم کی جاسکے اور ترکی میں عام پارلیمانی انتخابات کی تاریخ ۱۲ جون ۲۰۱۱ء طے کی جاچکی ہے اس لیے ان وزراء کا استعفیٰ کسی سیاسی بے چینی کا غماز نہیں ہے بلکہ یہ ضابطے کا استعفیٰ ہے۔
وزیراعظم ’’ایردوان‘‘ جلد ہی اُن وزارتوں کے لیے تین ایسی غیر جانبدار شخصیات کا انتخاب کرنے والے ہیں جن کا کسی پارٹی مفاد سے کوئی تعلق نہ ہو، تاکہ وہ پارٹی اثرات سے بالاتر ہو کر اپنی منصبی ذمہ داریاں ادا کر سکیں اور انتخابی عمل کی شفافیت کی حفاظت کر سکیں۔
اس میں شک نہیں کہ رائے عامہ کے جائزے کے نتائج بڑے خوش آئند ہیں اور اس بنیاد پر بجاطور پر یہ توقع کی جاسکتی ہے کہ ترکی میں جسٹس اینڈ ڈیولپمنٹ پارٹی آئندہ جنرل الیکشن میں بھاری اکثریت سے حکومت سازی کی پوزیشن میں آجائے گی۔ مگر مذکورہ بالا جائزے کے نتائج کو دیکھ کر کسی صاحبِ نظر کو یہ دھوکا ہرگز نہیں ہونا چاہیے کہ رجب طیب ایردوان کی یہ ممکنہ کامیابی محض اس لیے ہے کہ انہوں نے اپنی سوچ اور طریقہ کار میں کوئی بڑی تبدیلی کرلی ہے۔ میرے خیال میں ان کے اور ان کے دوسرے رفقاء کار کے بارے میں یہ سوچنا بالکل غلط ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ رجب ایردوان نے اپنا مطمح نظر حاصل کرنے کے لیے کوئی ایسا طریقہ کار نہیں اپنایا ہے جو ان کی اسلامی فکر سے براہ راست متصادم ہو۔ جہاں تک ترکی میں اسلام پسندوں کی عوامی مقبولیت کا مسئلہ ہے تو یہ مقبولیت اس وقت سے نمایاں ہونے لگی تھی جب کمال اتاترک کے مرنے کے بعد اس کے نافذ کردہ سیکولرازم کے بھوت کا خوف ترک عوام کے دل و دماغ سے اُترنے لگا تھا۔
چنانچہ یہی وجہ ہے کہ گزشتہ صدی کے نصف کے لگ بھگ ہونے والے عام انتخابات میں ’’عدنان مندریس‘‘ کو ۵۱ فیصد ووٹ حاصل ہوئے تھے اور وہ ایک اسلام پسند شخص تھے۔ اُن کی اسلام پسندی کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ انہوں نے الیکشن میں کامیاب ہونے کے بعد سب سے پہلا کام یہ کیا کہ عربی زبان میں اذان دلوائی، جس پر کمال اتاترک نے پابندی لگا رکھی تھی اور نتیجتاً کمال سیکولرازم کی محافظ ترک فوج نے انہیں پھانسی دے دی تھی۔
رجب طیب ایردوان کی ترکی میں بے مثال کامیابی اُن کی مخصوص حکمت عملی کا نتیجہ ہے اور ملک کی تعمیر و ترقی کے لیے ان کی پارٹی کی بے پناہ خدمات ہیں، جسے ترک عوام کبھی فراموش نہیں کر سکتے ہیں۔ پھر اسلام پسندوں کی راہ کی سب سے بڑی رکاوٹ وہاں کی فوج تھی جس کے رگ و پے میں اسلام دشمنی رچی بسی تھی۔ طیب ایردوان نے فوج کے ساتھ ہر ممکنہ ٹکرائو سے بچتے ہوئے بڑی دانش مندی کے ساتھ اب اسے لگام دے دی ہے۔ اور وہ فوج جو پارلیمنٹ کی برتری کو تسلیم نہیں کرتی تھی اسے طیب ایردوان نے پارلیمنٹ کا تابعدار بنا دیا ہے۔
ہمارے سامنے بعض ایسے عملی شواہد ہیں جن سے اندازہ ہوتا ہے کہ طیب ایردوان عالمی سطح پر ایک خالص اسلامی قائد کے روپ میں نمایاں ہو رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے غزہ میں محصور اپنے فلسطینی بھائیوں کے ساتھ اسلامی اخوت کا مظاہرہ کرتے ہوئے ترکی سے فریڈم فلوٹیلا روانہ کیا۔ اور اسرائیلی جارحیت کے نتیجے میں فریڈم فلوٹیلا کے ترک ارکان کی ہلاکت کے بعد سے ترکی کے تعلقات اسرائیل سے خراب چلے آرہے ہیں۔ طیب ایردوان کا کہنا ہے کہ جب تک اسرائیل اپنی زیادتیوں کی ہم سے معافی نہیں مانگے گا ہمارے اس کے تعلقات بحال نہ ہو سکیں گے۔ ابھی حال ہی میں فرانس میں مسلمان عورتوں کے برقع پہننے پر جو پابندی عائد کی گئی ہے اس پر بھی طیب ایردوان نے کھلے لفظوں میں اعتراض کیا ہے۔ یہ اعتراض انہوں نے اس وقت جتایا جب انہیں جرمنی میں منعقد یورپی کونسل کی پارلیمنٹ کے اجلاس میں بولنے کا موقع دیا گیا۔ انہوں نے کہا ’’فرانس حکومت کا یہ اقدام صراحتاً مذہبی آزادی میں مداخلت ہے‘‘۔ انہوں نے مزید کہا ’’سارا یورپ یوں تو اپنے یہاں سیکولرازم کا دعویٰ کرتا ہے۔ لیکن عملاً سارے یورپی ممالک مسلمانوں کی مذہبی آزادی چھیننے کے درپے ہیں۔ رجب طیب ایردوان کی ترکی میں جاری پالیسیوں کے بارے میں ہم جو چاہیں اٹکلیں لگائیں لیکن مغربی مبصرین کہہ رہے ہیں کہ ترکی میں اسلام رینگتا ہوا آرہا ہے۔ جس کے لیے وہ Creeping Islam کا لفظ استعمال کر رہے ہیں۔
(بشکریہ: سہ روزہ ’’دعوت‘‘ دہلی۔ ۲۲؍اپریل ۲۰۱۱ء)
Leave a Reply