
ترکی میں یکم نومبر ۲۰۱۵ء کو ہونے والے عام انتخابات کے لیے سیاسی مہم زوروں پر پہنچ گئی ہے۔ یہ انتخابات مقررہ مدت میں حکومت کی تشکیل نہ ہوسکنے کی وجہ سے دوبارہ منعقد ہورہے ہیں۔ ۷ جون ۲۰۱۵ء کو ہونے والے انتخابات کے نتیجے میں جسٹس اینڈ ڈیولپمنٹ پارٹی (اے کے پی) ۱۸؍نشستیں کم ہونے کے باعث اکثریتی حکومت نہیں بناسکی تھی اور دیگر جماعتوں نے اتحادی حکومت کی تشکیل کے لیے کسی بھی فارمولے کا کوئی مثبت جواب نہیں دیا تھا۔
گزشتہ تجربے کی روشنی میں طیب ایردوان حالیہ انتخابات میں بعد از انتخاب اتحاد کے بجائے قبل از انتخاب اتحاد کی سعی کر رہے ہیں۔ اس ضمن میں وہ سعادت پارٹی اور گرینڈ یونین پارٹی کے ساتھ اتحاد کے لیے کوششوں کا باقاعدہ آغاز کرچکے ہیں۔ ۷جون ۲۰۱۵ء کے انتخابات میں یہ دونوں جماعتیں ایک دوسرے کی اتحادی تھیں۔ لیکن انہیں حاصل ووٹوں کا تناسب ۰۶ء۲ فیصد تھا۔ تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ اگر یہ ۰۶ء۲ فیصد ووٹ جسٹس اینڈ ڈیولپمنٹ پارٹی کو مل جاتے ہیں تو وہ بآسانی اکیلے حکومت بنانے کا ہدف حاصل کرلے گی۔
دوسری جانب اس بات کی بھی توقع ظاہر کی جارہی ہے کہ گزشتہ انتخابات کے بعد اور دہشت گرد تنظیموں، کردستان ورکر پارٹی (PKK) اور داعش کے خلاف فوجی آپریشن کے آغاز سے طیب ایردوان کے ووٹ بنک میں تقریباً ۲ فیصد اضافہ ہوا ہے۔ ORC کے ۱۸؍ستمبر کو جاری ہونے والے سروے کے مطابق جسٹس اینڈ ڈیولپمنٹ پارٹی کے ووٹوں کا تناسب ۴۴ فیصد ہے۔ اسی طرح وریان ریسرچ کمپنی کے تازہ ترین سروے کے مطابق جسٹس اینڈ ڈیولپمنٹ پارٹی کے ووٹ ۹۰ء۴۳ فیصد بتائے گئے ہیں۔ سابقہ انتخابات میں یہ ۴۱ فیصد تھے۔
مختلف خبروں اور تجزیوں سے معلوم ہوتا ہے کہ طیب ایردوان سعادت پارٹی (SP) کے ساتھ اتحاد بنانے کے لیے زیادہ پُرجوش اور پُرعزم ہیں۔ دوسری طرف کئی ایک ذرائع سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اس اتحاد کے لیے سعادت پارٹی کے سابق چیئرمین اور بزرگ رہنما جائی قوطان بھی ذاتی دلچسپی لیتے ہوئے خصوصی کوششیں کر رہے ہیں۔ بعض سیاسی حلقے اس اتحاد کے جلد باقاعدہ اعلان کی توقع ظاہر کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ دونوں جماعتوں کے کئی رہنما طویل عرصے سے دوستانہ تعلقات رکھتے ہیں، یہ تعلقات بھرپور طور پر کام میں لائے جارہے ہیں۔
روزنامہ ’’صباح‘‘ اور روزنامہ ’’حریت‘‘ کے مطابق سعادت پارٹی نے ۲۰ نشستوں کا تقاضا کیا ہے۔ جبکہ جسٹس اینڈ ڈیولپمنٹ پارٹی اسے چھ سات نشستیں دینے پر راضی کرنا چاہتی ہے۔ جسٹس اینڈ ڈیولپمنٹ پارٹی ان نشستوں کے علاوہ نجم الدین اربکان کے بیٹے فاتح اربکان اور سعادت پارٹی کے چند دیگر رہنمائوں کو پہلے ہی پارٹی ٹکٹ کی پیشکش کرچکی ہے۔ سعادت پارٹی کے چیئرمین مصطفی کمالک نے اس صورتحال پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’’ہم ملک کو جنگ سے نکالنے والوں کے ساتھ اتحاد بنانے کے لیے تیار ہیں‘‘۔
نیشنلسٹ موومنٹ پارٹی (MHP) اور گرینڈ یونین پارٹی (BBP) کے اتحاد کی خبریں بھی گردش کر رہی ہیں۔ گرینڈ یونین پارٹی چھوٹے درجے کی جماعت ہے۔ اس کے ووٹوں کا تناسب ۰۲ء۰ فیصد ہے، اس لیے اصل اہمیت جسٹس اینڈ ڈیولپمنٹ پارٹی اور سعادت پارٹی کے اتحاد ہی کو حاصل ہوگی۔
آصف رضا
Leave a Reply