
امریکا کے لیے بری خبر یہ ہے کہ اس کا اتحادی ترکی خطے میں اپنے لیے نئے اتحادی تلاش کر رہا ہے۔
امریکی صدر اوباما مشرقی بحیرہ روم اور مشرق وسطیٰ میں اپنی حکمت عملی کے سلسلے میں ترک وزیر اعظم رجب طیب اردوان پر بھاری انحصار کرتے آئے ہیں، دوسری طرف ترکی امریکا کی زیر قیادت نیٹو کی دوسری سب سے بڑی فوج ہونے پر فخر کرتا رہا ہے، تاہم اب اردوان ایسے نئے اتحادی تلاش کر رہے ہیں جن میں امریکا کے تجارتی و سیاسی حریف بھی شامل ہیں، اور طویل مدتی دشمن بھی۔
خارجہ پالیسی کے بعض ماہرین کے بقول، امریکا نے مشرق وسطیٰ سے گریز کا جو رویہ اپنایا ہے، اس پر اردوان نے مایوس ہو کر چین اور ایران کی طرف اپنا ہاتھ بڑھایا ہے۔ اردوان کے حالیہ اطوار امریکا کے لیے پریشان کن ہیں۔ انہوں نے امریکا کے اسلحہ ساز اداروں کی گرم جوشی کے جواب میں سرد مہری اختیار کی، ایران کے وزیر خارجہ کی میزبانی کی اور اپنے سابق اتحادی اسرائیل کے ساتھ کشیدگی بڑھائی۔ دیگر ماہرین کے مطابق اردوان اپنی ناکام سمجھی جانے والی سابقہ پالیسی کی طرف لوٹ رہے ہیں، یعنی یہ پالیسی کہ ہر ہمسایہ اور اس کے پار ملک کے ساتھ تعلقات بڑھائے جائیں۔
پالیسی میں ڈرامائی تبدیلی کا ایک مقصد یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اردوان اپنے لیے نیا سیاسی کردار تلاش کر رہے ہوں، یعنی ترکی کو اس کے ایک صدی قدیم سیکولرازم سے دور لے جانا، جمہوریت پر حاوی رہنے والے اسلام کا نیا ماڈل بنانا، تاکہ وہ نیٹو کا محض ایک رکن ملک بن کر نہ رہے بلکہ ایک بڑی عالمی طاقت بنے جس کے دنیا بھر کے ساتھ تعلقات ہوں۔
اوباما نے اردوان کی اسلام پسند انصاف و ترقی پارٹی کی پالیسیوں کو پسند کیا اور اسے ایسا ماڈل سمجھا جو دنیا پر ثابت کر سکتا تھا کہ اسلام اور جمہوریت ایک دوسرے کے ساتھ ساتھ چل سکتے ہیں۔ چنانچہ اس پسندیدگی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اردوان نے اوباما سے خصوصی تعلقات قائم کر لیے۔ تاہم جب اوباما نے شام کی خانہ جنگی میں مداخلت سے گریز کیا تو اردوان اس پر ناخوش ہوئے۔ ان کے بعض حالیہ سفارتی اقدامات پر امریکا میں تشویش پائی گئی۔
کونسل آف فارن ریلیشنز، ترکی کا مطالعہ کرنے والا قدیم ادارہ ہے، اس کے ایک ماہر کا کہنا ہے کہ ’’ترک امریکا تعلقات اچھے ہیں تاہم امریکا کے خارجہ پالیسی کے حلقوں میں ایک سلگتا ہوا سوال اٹھ کھڑا ہوا ہے اور وہ یہ کہ ترکی اب ہمارے لیے کیا کر سکتا ہے؟‘‘
ترکی ایک طرف نئے اتحاد بنانے کے لیے کوشاں ہے، اور دوسری طرف اردوان کے اندرون ملک اور بیرون ملک مخالفین نے ان کی عثمانی خلافت کے احیا کی کوششوں پر سوال اٹھائے ہیں۔ ترکی کی نئی خارجہ پالیسی کی نقشہ گری کے مرکزی کردار وزیر خارجہ احمد دائود اوغلو ہیں، جو ایک سابق استاد ہیں اور خلافت عثمانیہ کی اکثر یاد دلاتے ہیں۔ انہوں نے حال ہی میں اعلان کیا ’’ہم جنگ کیے بغیر پھر سے سرائیوو کو دمشق سے ملا دیں گے، بن غازی کو ارضورم سے، اور باتومی (Batumi) سے‘‘۔
اتاترک اور اردوان
جدید ترکی کے بانی مصطفی کمال اتاترک نے خلافت عثمانیہ کی شکست کے بعد ایک صدی پہلے جو سیکولر روایات قائم کی تھیں ان سے ترکی اب جان چھڑاتا معلوم ہو رہا ہے۔ اردوان کو اتاترک سے اتنی چڑ ہے کہ ’’استنبول اتاترک ایئرپورٹ‘‘ جیسے الفاظ بولنا بھی ان کو گوارا نہیں۔ ترکی کے سیکولر راستے سے ہٹنے کا ایک اور اشارہ گزشتہ ہفتے ملا، جب استنبول میں اردوان کی طلبہ سے ایک بات پر بحث ہو گئی۔ دراصل طلبہ کو خدشہ تھا کہ اردوان نوجوان لڑکے لڑکیوں کے ایک ہی اپارٹمنٹ میں ساتھ رہنے پر پابندی لگا دیں گے، کیونکہ وزیراعظم کے بعض ساتھی اس طرح کی مخلوط رہائش کو غلط اور غیر اسلامی سمجھتے ہیں۔
ترکی اور ہمسایہ ممالک
ترک وزیر خارجہ نے ابتدا میں یہ خیال ظاہر کیا تھا کہ ترکی کے مستقبل کا انحصار اس بات پر ہے کہ تمام ہمسایہ ملکوں کے ساتھ اس کے تعلقات اچھے ہوں اور کوئی تنازع نہ ہو، تاہم وزیر خارجہ کی یہ خواہش پوری نہیں ہوئی۔ نیویارک میں موجود ترک صحافی Razi Canikligil جو ترک اخبار ’’حریت‘‘ کے نمائندے بھی ہیں، نے تبصرہ کیا کہ ایسی خارجہ پالیسی کاغذ پر تو اچھی معلوم ہوتی ہے اور مغربی ذرائع ابلاغ نے بھی اس کا خیر مقدم کیا تھا تاہم اب امریکی اور مغربی ذرائع ابلاغ اردوان کی خارجہ پالیسی پر تنقید کر رہے ہیں۔
ہمسایوں کے ساتھ تنازعات کی موجودہ صورت یہ ہے:
☼ اردوان اپنے سابق اتحادی شام کے صدر بشار الاسد کو ہٹانا چاہتے ہیں۔
☼ اردوان مصر کی اخوان المسلمون کے پرجوش حمایتی ہیں، جسے چند ماہ قبل اقتدار سے الگ کیا گیا تھا، چنانچہ اب اردوان موجودہ حکمراں جنرل سیسی کے مقابل آ کھڑے ہوئے ہیں۔
☼ محمود عباس کی فلسطینی اتھارٹی بھی اردوان کو شک و شبہ سے دیکھتی ہے کیونکہ وہ اس کی حریف حماس کے مضبوط پشتیبان ہیں۔
☼ سعودی عرب کے ساتھ اردوان کے تعلقات سرد ہیں جس کا جزوی سبب یہ ہے کہ سنی اکثریت والے ترکی نے شیعہ قوتوں کے ساتھ تعلقات جوڑنے شروع کر دیے ہیں جن میں نہ صرف عراقی وزیر اعظم نوری المالکی شامل ہیں بلکہ امریکا کے لیے سب سے پریشان کن ایرانی علما کے ساتھ ترکی کے روابط ہیں۔
ترک ایران قربتیں
حال ہی میں استنبول میں ایرانی وزیر خارجہ جواد ظریف کے ساتھ مشترکہ پریس کانفرنس کے دوران ترک وزیر خارجہ دائود اوغلو نے اعلان کیا کہ ’’بعض حلقے ہم دونوں کو حریف ہمسایہ ظاہر کرنا چاہتے ہیں، جبکہ بعض کی خواہش ہے کہ ایسا ہو جائے (یعنی ہم حریف بن جائیں)، اس کے برعکس ترکی اور ایران ایک دوسرے کے حریف نہیں بلکہ دوست ہیں‘‘۔
طویل عرصے کی سردمہری کے بعد ترکی اور ایران کی بڑھتی ہوئی قربت پر مغرب میں پریشانی محسوس کی جا رہی ہے اور اسے خطرناک رجحان سے تعبیر کیا جا رہا ہے۔ اس پریشانی کا آغاز اس وقت ہوا تھا جب ترکی نے میزائل ڈیفنس سسٹم کی تیاری کے لیے ایک چینی کمپنی کے ساتھ ۴ء۳؍ارب ڈالر کا معاہدہ کیا تھا، اس پر امریکا اور دوسرے نیٹو اتحادی دنگ رہ گئے تھے۔
چینی کمپنی سے اسلحہ خریداری
امریکا کے بڑے اسلحہ ساز اداروں ریتیان (Raytheon) اور لاک ہیڈ مارٹن (Lock head Mortin) پر ایک چینی کمپنی کو ترجیح دینا یقیناً امریکا کی توجہ مبذول کرانے کے لیے کافی تھا۔ ویسے بھی چینی ساختہ سسٹم نیٹو کے ایئرڈیفنس کے ساتھ ساتھ نہیں چل سکتا، جبکہ نیٹو کا ڈیفنس سسٹم جلد ہی ترکی میں نصب ہونے والا تھا۔ امریکا کی تشویش بجا تھی کیونکہ مذکورہ چینی فرم اُس فہرست میں شامل تھی جس میں شامل کمپنیوں پر امریکا نے پابندیاں عائد کر رکھی ہیں۔ چنانچہ ترکی میں تعینات امریکی سفیر نے اس معاہدے پر ردعمل میں گزشتہ ماہ کہا کہ ’’اتحادی میزائل ایئر ڈیفنس سسٹم کی تنصیب کے نزدیک اس (معاہدے) پر ہمیں سنگین نوعیت کی تشویش لاحق ہے‘‘۔
اسلحہ کا آزادانہ سپلائر بننا ترکی کا پرانا مقصد ہے، اور اس مقصد کے حصول کے لیے وہ بعض اوقات ان سخت پابندیوں کی زد میں بھی آیا جو امریکی ہتھیاروں کی دوسرے ملکوں کو فروخت سے منسلک ہیں۔ ۱۹۶۰ء کی دہائی میں امریکی صدر جانسن نے ترکی کو خبردار کیا تھا کہ وہ قبرص میں جنگ کے دوران نیٹو کا اسلحہ استعمال نہیں کر سکتا۔ واشنگٹن کے ایک پالیسی ساز ادارے کے ایک تجزیہ کار کا کہنا ہے کہ ترکی غیر مغربی اسلحہ ساز اداروں سے ہتھیار خریدنے کی طویل عرصہ تک کوشش کرتا رہا۔ تجزیہ کار کا کہنا ہے کہ اردوان سمجھ چکے ہیں کہ امریکا شام کی خانہ جنگی میں نہیں کودے گا اور انہیں بشارالاسد کا اقتدار برداشت کرنا ہو گا چنانچہ اسی لیے وہ شام میں اپنی مشکلات کو کم کرنے کی غرض سے ایران سے قریب ہو رہے ہیں۔
اسرائیل کی ناراضی
ایران سے قربت کا ایک اور نتیجہ اسرائیل کی ناراضی ہے، اسرائیل کے ساتھ ترکی کے تعلقات طویل عرصے سے خراب ہوتے جا رہے ہیں۔ ’’واشنگٹن پوسٹ‘‘ کے کالم نگار David Ignatius نے گزشتہ ماہ خبر دی کہ ترکی کے انٹیلی جنس حکام نے اپنے ایرانی ہم منصب افراد کو ایران میں سرگرم ان ایجنٹوں کی شناخت سے آگاہ کر دیا ہے جنہیں اسرائیل نے خفیہ کارروائیوں کے لیے بھرتی کیا ہے، قبل ازیں یہ ایجنٹ ترک سرزمین پر اپنے اسرائیلی کنٹرولر سے ملاقات کرنے آئے تھے۔
اسرائیل کی خفیہ ایجنسی ’’موساد‘‘ کے سابق سربراہ ڈینی یاتوم نے اسے ترکی کا ’’گھٹیا پن‘‘ (Despicable) قرار دیا اور کہا کہ ’’مجھے اس بارے میں اخبارات سے پتا چلا اور اگر یہ درست ہے تو ترکی کو ایجنٹوں کے بارے میں اسرائیلیوں ہی سے پتا چلا ہو گا۔ اتحادی خفیہ ادارے ایک دوسرے کو روایتی طور پر ان روابط سے مطلع کرتے رہتے ہیں جو وہ ایک دوسرے کی سرزمین پر انجام دیتے ہیں۔ موساد کے سابق سربراہ نے مزید کہا کہ خفیہ اداروں میں اپنے طویل تجربے کے دوران میں نے کسی نام نہاد دوست ادارے کی جانب سے اتنی شدید بے وفائی کبھی نہیں سنی۔ انہوں نے ترکی کو دھمکی بھی دی کہ یہ واقعہ اس کو مشکلات میں ڈال دے گا اور اتحادی ممالک مستقبل میں ترکی کے ساتھ خفیہ معلومات کے تبادلے میں جھجک محسوس کریں گے۔
ترکی نے Ignatius کی مذکورہ رپورٹ کی تردید کی۔ تاہم ترک وزیر خارجہ نے جواد ظریف کے ہمراہ استنبول میں ہونے والی پریس کانفرنس میں زور دے کر کہا کہ ترک حکومت نے کسی مسلم ملک کے خلاف اسرائیل کے ساتھ کبھی تعاون نہیں کیا، اور نہ کبھی کرے گا۔
اردوان سے مایوس مغرب
اردوان نے اپنی پالیسیاں بار بار بدل کر اپنے مغربی دوستوں کو مایوس کیا ہے۔ خود ترکی میں گزشتہ موسم گرما میں غازی پارک کے مسئلہ پر مظاہرین کو روکنے کے انداز اور آزادی اظہار اور شہری حقوق کی خلاف ورزیوں پر وہ اپنے بہت سے حامیوں کو مایوس کر بیٹھے ہیں۔ ان کے عہدے کی مدت ۲۰۱۵ء میں ختم ہو رہی ہے، انہوں نے ملک کا صدارتی انتخاب لڑنے سے پہلے صدارتی اختیارات بڑھانے کے اپنے منصوبے کو بظاہر خطرے میں ڈال دیا ہے۔
ایک مبصر کے بقول ’’اردوان فی الوقت پسپا تو ہو سکتے ہیں لیکن میں نہیں سمجھتا کہ وہ منظر سے غائب ہوں گے، دراصل وہ بہت عمدہ سیاست داں ہیں‘‘۔
(ترجمہ: منصور احمد)
(“Cold Turkey”… “Newsweek”. Nov. 8, 2013)
Leave a Reply