
پاکستان کا دہشت گردی سے واسطہ مشرف دور میں ۱۱؍ستمبر کے حملوں کے بعد پڑا تھا، لیکن ترکی ۸۰ کی دہائی ہی سے دہشت گردی کی لپیٹ میں رہا ہے۔ ترکی میں ۱۹۸۴ء میں کردستان ورکرز پارٹی، جسے ’’پی کے کے‘‘ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے، نے دہشت گردی کا آغاز کیا۔ اس دہشت گرد تنظیم کی جانب سے اب تک ۴۵ ہزار سے زائدا فراد کو ہلاک کیا جاچکا ہے۔ اس دہشت گرد تنظیم سے ترکی کبھی بھی چھٹکارا حاصل نہیں کرسکا۔ اگرچہ دہشت گرد تنظیم نے کبھی یک طرفہ طور پر اور کبھی حکومت کے ساتھ طے پانے والے فائر بندی کے سمجھوتے کے بعد کچھ عرصے ہی کے لیے کنارہ کشی اختیار کی، لیکن ترک عوام کبھی بھی مستقل طور پر اس سے جان نہ چھڑا سکے۔ترکی کی یہ دہشت گرد تنظیم اس لحاظ سے دیگر دہشت گرد تنظیموں سے مختلف ہے کہ اس تنظیم کو اس کے قیام ہی سے کئی یورپی ممالک، جن میں جرمنی اور فرانس شامل ہیں، کی حمایت اور پشت پناہی حاصل رہی ہے۔
ان ممالک نے نہ صرف ان دہشت گردوں کو اپنے ہاں پناہ دی بلکہ یہ ان کی تربیت میں بھی کسی نہ کسی طرح ملوث رہے، اور ان دہشت گردوں کو دنیا بھر میں حریت پسندوں کے طور پر پیش کرتے رہے ہیں۔ اس طرح یہ ممالک ان دہشت گردوں اور مذہب کو استعمال کرنے والے دہشت گردوں کے درمیان فرق رکھتے ہوئے ترک عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کا سلسلہ آج بھی جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ترکی کی اس دہشت گرد تنظیم ’’پی کے کے‘‘ کو پروان چڑھانے میں ترکی کے ہمسایہ ملک شام نے بڑا اہم کردار ادا کیا اور اس تنظیم کے سرغنہ عبداللہ اوجالان کو اپنے ہاں طویل عرصے نہ صرف پناہ دیے رکھی بلکہ وادیٔ بقا میں قائم کیمپوں میں کرد باشندوں کو جنگ کرنے کی تربیت دی جاتی رہی۔
اب ترکی کے پاس شام کو اس کے کیے کی سزا دینے کے علاوہ کوئی اور چارہ کار باقی نہ بچا تھا، اس لیے ترکی نے شام پر فوج کشی کرنے کا فیصلہ کیا اور اپنی فوجوں کو شام کی سرحدوں پر لاکھڑا کیا تھا۔ تاہم مصر کے اُس وقت کے صدر حسنی مبارک نے دونوں ممالک کے درمیان جنگ کو روکنے کے لیے ثالث کا کردار ادا کیا اور ترکی کے شام پر حملے کو آخری وقت میں رکوادیا اور اس کے بدلے عبداللہ اوجالان کو شام سے نکلنے پر مجبور کیا۔ تاہم ترکی کی خفیہ سروس نے عبداللہ اوجالان کا تعاقب جاری رکھا اور امریکا سے تعاون کے نتیجے میں عبداللہ اوجالان کو کینیا کے ہوائی اڈے سے گرفتار کرتے ہوئے ترکی پہنچا دیا گیا۔ جیسا کہ عرض کرچکا ہوں اُس دور میں ترکی اور شام کے تعلقات بڑے کشیدہ تھے، لیکن صدر حافظ الاسد کی وفات کے بعد ان تعلقات نے نیا رخ اختیار کیا اور حافظ الاسد کے صاحبزادے بشار الاسد کے اقتدار میں آنے سے دونوں ممالک شیر و شکر ہو گئے اور ان میں اتنی گرم جوشی دیکھی گئی کہ دونوں ممالک کی کابینہ کے مشترکہ اجلاس منعقد ہونے لگے۔
اسی طرح دونوں ممالک کی مشترکہ کابینہ کے ایک اجلاس کے دوران تعاون کے ۵۲ مختلف سمجھوتوں پر دستخط کیے گئے۔ اُس دور میں دونوں ممالک کے رہنمائوں کے درمیان ذاتی مراسم اس قدر مضبوط ہوچکے تھے کہ دونوں رہنمائوں کے اہلِ خانہ اکٹھے ہی تعطیلات منانے لگے۔ تاہم مصر، مراکش اور تیونس جیسے عرب ممالک میں جمہوریت کو فروغ دینے کے لیے ’’بہارِ عرب‘‘ کے نام سے شروع ہونے والی تحریک نے جہاں تمام عرب ممالک کو اپنی لپیٹ میں لے لیا، وہاں شام بھی اس تحریک سے بُری طرح متاثر ہوا اور تحریک کی وجہ سے ترکی اور شام کے تعلقات بھی سرد مہری کا شکار ہوتے چلے گئے اور پھر شام خانہ جنگی کی لپیٹ میں آگیا۔ شام کی خانہ جنگی سے بھر پور فائدہ اٹھاتے ہوئے ’’دولتِ اسلامیہ‘‘ یا پھر ’’داعش‘‘ نے شام میں اپنی پوزیشن مضبوط بنا لی۔ ترکی نے ابتدا میں اس دہشت گرد تنظیم کے بارے میں جان بوجھ کر خاموشی اختیار کیے رکھی ( ترکی کے مختلف حلقے اور چند ایک مغربی ممالک ترکی پر دہشت گرد تنظیم داعش کی پشت پناہی کرنے کا الزام بھی لگا رہے ہیں)، جیسے پاکستان نے ابتدا میں طالبان کے وجود سے انکار کیا تھا، بالکل اسی طرح حکومتِ ترکی بھی داعش کے بارے میں خاموشی اختیار کیے ہوئے تھی، لیکن داعش نے اس دوران جنوب مشرقی اناطولیہ (ترکی کے شام کے ساتھ ملنے والے سرحدی علاقے ) میں اپنی موجودگی کا احساس سب کو دلوا دیا، بلکہ یہاں تک کہا جانے لگا کہ اس پورے علاقے کو داعش نے اپنے کنٹرول میں لے رکھا ہے۔
اس پورے علاقے میں آویزاں سائن بورڈ اور ٹریفک بورڈ تک بدل گئے اور ترکی زبان کے ساتھ ساتھ عربی زبان میں بھی یہ سائن بورڈ آویزاں کیے جانے لگے۔ ترکی داعش کے سحر سے اس وقت نکلا جب د اعش نے ترکی پر ہی حملہ کردیا اور اس کے صوبے شانلی عرفہ کے علاقے سورچ میں ۳۲؍ افراد کو خودکش حملے کا نشانہ بنایا گیا اور اس طرح پہلی بار حکومت کی سطح پر خطرے کی گھنٹی سنی گئی۔ علاقے کے عوام، جو پہلے عسکریت پسندوں کے علاج معالجہ پر خاموشی اختیار کیے ہوئے تھے، نے اتنا شدید ردِ عمل دکھایا کہ حکومت کو فوری طور پر ان دہشت گردوں کے خلاف اقدامات اٹھانے پڑے۔ ترکی کے ایف ۱۶ طیاروں نے شام کی ترکی کے ساتھ ملنے والی سرحدوں پر جہاں داعش کے ٹھکانے موجود تھے، کئی روز تک مسلسل بمباری کا سلسلہ جاری رکھا اور اس علاقے میں موجود داعش کے تمام ٹھکانوں کر تباہ کردیا گیا۔
ترکی نے جو اس سے قبل امریکا کے اتحادی ہونے کے باوجود داعش کے خلاف فوجی کارروائی کرنے سے کترا رہا تھا، صدر باراک اوباما اور صدر ایردوان کے درمیان ٹیلی فون پر ہونے والی بات چیت کے بعد اتحادی کے طور پر امریکا کے ساتھ مل کر فوجی کارروائی میں حصہ لینے کی یقین دہانی کروائی اور امریکا نے داعش سے خالی کروائے جانے والے علاقوں کوترکی کے مطالبے پر بفرزون بنانے کی حامی بھر لی ہے۔ ترکی اور امریکا کے درمیان شام کے بارے میں طویل عرصے سے اختلافات چلے آرہے تھے، ترکی علاقے میں بفر زون قائم کرنے اور اس کے ساتھ ہی ساتھ بشارالاسد حکومت کے خاتمے کے بارے میں اصرار کرتا رہا تو امریکا ترکی سے علاقے میں داعش کے خاتمے اور اتحادی ملک ہونے کے ناتے اتحادی قوتوں میں مؤثر کردار ادا کرنے پر زور دیتا رہا ہے۔ لیکن اب امریکا کی جانب سے بفرزون قائم کرنے کی یقین دہانی کروائے جانے کے بعد ترکی نے اتحادی قوتوں کی کارروائی میں حصہ لینے کی حامی بھر لی ہے اور حکومتِ ترکی نے قومی سلامتی کو لاحق خطرات کے علاوہ داعش اور کرد باغیوں کے خلاف کارروائی پر تبادلہ خیال کے لیے نیٹو کا ایک ہنگامی اجلاس طلب کیا ہے۔ اس میں نیٹو کو جہادیوں اور کرد باغیوں کے خلاف جاری عسکری کارروائی کے بارے میں تفصیلات بتائی جائیں گی۔
ترکی نے عراق میں دہشت گرد تنظیم ’’پی کے کے‘‘ کے خلاف بھی بڑے پیمانے پر فوجی کارروائی کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے۔ ترکی نے ’’پی کے کے‘‘ کے خلاف ۲۰۱۱ء میں آخری بار بمباری کی تھی اور بعد میں کرد رہنماؤں اور حکومت کے درمیان ’’مسئلہ کرد‘‘ کو حل کرنے کے لیے طے پانے والے سمجھوتے کے ذریعے فائر بندی قائم ہو گئی تھی۔ تب سے اس پر عمل درآمد ہو رہا تھا، لیکن اب ترکی کی جانب سے شمالی عراق میں ’’پی کے کے‘‘ کے ٹھکانوں پر کی جانے والے بمباری سے یہ فائر بندی اپنے اختتام کو پہنچ گئی اور ’’پی کے کے‘‘ نے بھی اس کارروائی کے بعد نئے سرے سے حملے شروع کردیے ہیں جس کے نتیجے میں کئی پولیس اور فوجی اہلکار شہید ہوگئے ہیں۔
ترکی نے اس وقت نہ صرف داعش کے ٹھکانوں پر بمباری کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے بلکہ دہشت گرد تنظیم ’’پی کے کے‘‘ کے خلاف بھی فوجی آپریشن جاری ہے۔ حکومتِ ترکی اس فوجی آپریشن کے ذریعے ترک قومیت پسندوں کی حمایت حاصل کرنا چاہتی ہے جو ’’مسئلہ کرد کے حل‘‘ کے لیے کرد رہنماؤں کے ساتھ ہونے والے مذاکرات کی وجہ سے کھو بیٹھی تھی۔ اس طرح بر سر اقتدار جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی ترک قومیت پسندوں کی حمایت حاصل کرتے ہوئے قبل از وقت انتخابات ہونے کی صورت میں دوبارہ سے تنہا اقتدار حاصل کرنے کی خواہاں دکھائی دیتی ہے۔
(بشکریہ: روزنامہ ’’جنگ‘‘ کراچی۔ ۲۹ جولائی ۲۰۱۵ء)
Leave a Reply