
ذرا سوچیے۔ آپ اس وقت کیا محسوس کریں گے جب آپ رات سونے کے بعد اٹھیں اور آپ کو یہ بتا دیا جائے کہ اب آپ پڑھنے اور لکھنے کے قابل نہیں ہیں، تو آپ کا کیا ردعمل ہوگا؟ ظاہر ہے آپ ایسی کسی بھی صورتحال کو قبول نہیں کریں گے اور اپنے پڑھے لکھے یا خواندہ ہونے کا ثبوت فراہم کریں گے لیکن اگر آپ سے تمام ہی ثبوت چھین لیے جائیں تو پھر آپ کے پاس سرِ تسلیم خم کرنے کے سوا کوئی اور چارہ کار باقی نہیں بچے گا۔ اسی قسم کی صورتِ حال کا سامنا ترک قوم کو ۱۹۲۸ء میں کرنا پڑا تھا۔ پڑھی لکھی قوم جب ایک رات کی نیند لینے کے بعد اٹھی تو اس نے اپنے آپ کو اَن پڑھ پایا جیسا کہ انگریزوں کے ہندوستان پر قبضے کے موقع پر مقامی باشندے ایک ہی رات میں اَن پڑھ قرار دے دیے گئے تھے اور ان کو سرکاری ملازمتوں سے نکال باہر کیا گیا تھا۔
سلطنتِ عثمانیہ کے زوال کے بعد غازی مصطفیٰ کمال اتاترک نے اسی سلطنت کے ملبے پر ایک جدید اور نئی مملکت ’’جمہوریہ ترکی‘‘ کے نام سے تشکیل دی اور جمہوریہ ترکی کو جدید خطوط پر استوار کرنے کے لیے ملک بھر میں انقلابات برپا کرنے کا سلسلہ شروع کردیا۔ ان برپا کیے جانے والے انقلابات میں سب سے اہم انقلاب ۱۹۲۸ء میں برپا کیا جانے والا ’’حرف انقلاب‘‘ تھا جس کے ذریعے ملک بھر میں استعمال کی جانے والی ترکی زبان (عثمانی ترکی زبان) کا، جو عربی رسم الخط میں تحریر کی جاتی تھی، رسم الخط تبدیل کرتے ہوئے لاطینی رسم الخط استعمال کرنے کے احکامات جاری کردیے گئے اور اس دن سے ملک بھر میں استعمال کی جانے والی ترکی زبان کو لاطینی یا پھر رومن رسم الخط میں تحریر کیا جانے لگا اور اس کو ملک بھر میں متعارف کرانے میں مصطفیٰ کمال نے خود بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور ایک معلم کی طرح ہاتھ میں چاک لیے اساتذہ کو تختۂ سیاہ پر نئے حروفِ تہجی کو متعارف کرانا شروع کردیا حالانکہ تقریباً تمام ہی ماہرین نے ان کو کم از کم دس سالوں کے اندر اپنی قوم کو نیا رسم الخط سکھانے میں کامیاب ہونے سے آگاہ کیا تھا لیکن اتاترک نے ان ماہرین کی رائے کی ذرا بھی پروا نہ کرتے ہوئے لاطینی یا رومن رسم الخط سے ناواقف ترک باشندوں کو نئے حروفِ تہجی ’’لاطینی یا رومن رسم الخط‘‘ کو سکھانا شروع کردیا اور چند ماہ کے اندر اندر لاطینی یا رومن رسم الخط کو سکھا کر ایک معجزہ کر دکھایا۔ اتاترک کو ترکی زبان کو رومن یا لاطینی رسم الخط میں لکھوانے کی ضرورت کیوں محسوس ہوئی؟ اس کی سب سے بڑی وجہ عثمانی ترکی زبان کا عربی رسم الخط میں تحریر کیا جانا تھا اور ترکی زبان کی اپنی مخصوص آوازوں کو بھی اس زبان میں تحریر کیے جانے کے باعث یہ زبان اور بھی مشکل بن گئی تھی جسے پڑھنے میں بڑی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا اور عوام کی اکثریت بلکہ نوے فیصد سے زائد آبادی ناخواندہ یا اَن پڑھ تھی جس کی وجہ سے ترکی یورپی ممالک کے مقابلے میں بہت پیچھے رہ گیا تھا اور ترکی کو اس وقت ’’مردِ بیمار‘‘ کے نام سے یاد کیا جانے لگا تھا۔ اس صورتحال کو دیکھ کر ہی اتاترک نے تعلیم کے شعبے میں اصلاحات لانے کا فیصلہ کیا اور پھر ملک میں شرح خواندگی جو کہ دس فیصد سے بہت کم تھی۔ چند سالوں کے اندر پچاس فیصد سے تجاوز کرگئی اور موجودہ دور میں یہ شرح تمام اسلامی ممالک میں سب سے زیادہ اور اس وقت سو فیصد کے لگ بھگ ہے۔ اس رسم الخط کو متعارف کروانے کی کئی اور وجوہات بھی تھیں جس کے بارے میں ترکی کے اس وقت کے وزیراعظم عصمت انونو نے کہا تھا کہ ’’حرف انقلاب‘‘ کا واحد مقصد حتیٰ کہ سب سے اہم مقصد ملک میں شرح خواندگی بڑھانا ہی نہیں ہے بلکہ ہمارا اصل مقصد نئی نسل کا ماضی سے رابطہ منقطع کرنا، ماضی کے دروازے بند کرنا اور عالمِ عرب سے اپنے تعلقات منقطع کرنا اور ترک معاشرے پر مذہبِ اسلام کی چھاپ اور اثر و رسوخ کو کمزور بنانا ہے۔ نئی نسل قدیم ترکی زبان سے لاتعلق رہے گی اور ہم اس نئے رسم الخط کے ذریعے نئی نسل پر اپنا کنٹرول قائم رکھیں گے۔ نئی نسل مذہبی کتابوں کو عربی رسم الخط میں پڑھنے سے یکسر محروم رہے گی اور اس طرح ان پر براہ راست مذہب اثرانداز نہیں ہوسکے گا‘‘۔ (یادداشتِ عصمت انونو، جلد دوئم، ص۲۲۳)
عصمت انونو نے مئی ۱۹۶۰ء کے مارشل لا کے بعد بیان دیتے ہوئے کہا تھا کہ ’’انقلابات دراصل دنیا کے قدیم اور فرسودہ نظریات کو ایک طرف رکھتے ہوئے جدید حالات کے مطابق پیش کیے جانے والے نظریات ہی کو انقلاب کہا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر حرف انقلاب قدیم ترکی زبان کے رسم الخط کے مشکل ہونے کی وجہ سے برپا نہیں کیا گیا ہے کیونکہ جاپان اپنی ۴۰۰ کریکٹروں یا الفاط پر مشتمل زبان آج بھی استعمال کررہا ہے۔ ہم نے حرف انقلاب ایک خاص ذہن (اسلامی) اور نظریات کو ختم کرنے کے لیے برپا کیا ہے۔ (یادداشتِ عصمت انونو۔ جلد سوئم، ص۲۶۸)
اب آتے ہیں اُس موضوع کی جانب کہ ترکی میں کیونکر ترکی زبان کو ایک بار پھر عربی رسم الخط میں تحریر کیے جانے کی ضرورت محسوس کی جا رہی ہے؟ اس بارے میں گزشتہ دنوں ترکی کے صدر رجب طیب ایردوان نے بیان دیتے ہوئے کہا کہ ’’دنیا میں مجھے ایسی کوئی قوم بتا دیں جو اپنی تاریخ اور تہذیب کے اصلی نسخوں ہی کو پڑھنے سے محروم ہو؟ کیا دنیا میں ایسی کوئی قوم ہے جو اپنے باپ دادا کی قبروں کے کتبوں کو پڑھنے کی صلاحیت ہی سے عاری ہو ’’کیا دنیا میں ایسی کوئی قوم ہے جو اپنے قابلِ فخر شعرا ادیبوں، مصنفین، مفکرین اور عالموں کے تحریر کردہ شاہکاروں کو پڑھنے ہی سے قاصر ہو؟ زبان انسانوں کے درمیان رابطے کا کام بھی سر انجام دیتی ہے۔ اگر آپ کسی معاشرے سے ان کی زبان کو تحریر کرنے کا حق چھین لیں تو وہ معاشرہ اپنی زبان، مذہب، فن و ادب سے بھی محروم ہو جاتا ہے۔ ہماری تہذیب نے تلواروں یا قوتِ بازو سے فروغ نہیں پایا ہے بلکہ یہ تہذیب الفاظ، تحریر، کاغذوں اور کتابوں سے پھلی پھولی ہے۔ استنبول ہمیشہ ہی مختلف تہذیبوں کا گہوارہ رہا ہے۔ اس کے تمام گوشے تحریر اور خطاطی سے اَٹے پڑے ہیں لیکن بدقسمتی سے خطاطی کے ان نمونوں کو قوم سمجھنے ہی سے قاصر ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم اپنی نئی نسل کو عثمانی ترکی زبان سیکھنے کا موقع فراہم کریں۔ ہمیں تو عثمانی ترکی زبان سیکھنے کا کوئی موقع ہی فراہم نہیں کیا گیا ہے لیکن اب ہماری نئی نسل کو اس حق سے محروم نہیں رکھا جانا چاہیے‘‘۔ صدر ایردوان کے اس بیان کے بعد ملک بھر میں اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں عثمانی ترکی زبان کو پڑھانے اور خاص طور پر مذہبی اسکولوں میں (جنھیں امام خطیب اسکولوں کے نام سے یاد کیا جاتا ہے) اور یونیورسٹیوں کے سماجی علوم کے شعبوں میں لازمی طور پر عثمانی ترکی زبان کے پڑھانے کے احکام جاری کیے گئے ہیں جس پر ملک بھر میں نہ ختم ہونے والا بحث مباحثہ شروع ہوگیا ہے۔ حزب اختلاف کی جماعت ری پبلکن پیپلز پارٹی نے ایردوان کے اس بیان اور احکامات کے بعد اپنے شدید ردِعمل کا اظہار کرتے ہوئے اسے سیکولرازم پر کاری ضرب قرار دیا ہے اور پارٹی کی جانب سے جاری کردہ بیان میں کہا گیا ہے کہ اب ماضی کے گڑے مردے اکھاڑنے کے بجائے ملک کو تیزی سے ترقی کی راہ پر گامزن کرنے کی ضرورت ہے۔ جبکہ صدر ایردوان اس بات پر زور دے رہے ہیں کہ ماضی میں تحریر کردہ شاہکاروں کو قوم براہ راست پڑھنے سے قاصر ہے اور پھر ان شاہکاروں کو ترکی کے جدید رسم الخط میں تحریر کرتے ہوئے شائع کیا جاتا ہے اور ایسا کرتے ہوئے کئی ایک غلطیوں کا احتمال بھی پایا جاتا ہے اور پھر ان کو جدید رسم الخط میں شائع کرنے کے لیے کافی وقت درکار ہوتا ہے جس کی وجہ سے ابھی تک لاکھوں کی تعداد میں عربی رسم الخط میں تحریر کی گئی کتابوں کو جدید ترکی زبان میں نہیں ڈھالا جاسکا ہے۔ علاوہ ازیں مذہب سے لگائو رکھنے والے افراد کو بھی قرآنِ کریم کو پڑھنے میں دشواری کا سامنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس کا بہترین حل یہ ہے کہ جدید رسم الخط کو جاری رکھنے کے ساتھ ساتھ اس کے پرانے رسم الخط یعنی عربی رسم الخط کو بھی سیکھنے کا موقع فراہم کیا جائے تاکہ ماضی کے تمام ورثے تک رسائی حاصل ہوسکے اور لوگ کسی کا سہارا لیے بغیر خود قرآن کریم پڑھ سکیں۔
(بشکریہ: روزنامہ ’’جنگ‘‘ کراچی۔ ۱۷؍دسمبر ۲۰۱۴ء)
Leave a Reply