
ایک اطلاع کے مطابق ترکی میں فوج اور حکومت کے درمیان کشمکش کے آثار ظاہر ہونے لگے ہیں‘ اس کی ایک مثال بری فوج کے سربراہ جنرل الکرباسبگ (Ilker Basbug) کی وہ دھمکی ہے جو انھوں نے ترکی ’’اعتدال پسند‘‘ حکومت کو دی ہے‘ اس حکومت کی ایک پہچان یہ بتائی جاتی ہے کہ یہ خود کو اعتدال پسند تو ضرور ظاہر کرتی ہے مگر اس کا جھکائومذہب کی طرف ہے‘ یعنی یہاں جس طبقہ کی حکومت ہے وہ اپنی بنیاد اور مزاج کے اعتبار سے دین پسند ہے‘ اس طبقہ کے بارے میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ وہ سابق وزیراعظم اور بزرگ رہنما پروفیسر نجم الدین اربکان کی ملی سلامت پارٹی کی باقیات میں سے ہے‘ اگرچہ اس نے خو دکو قابل قبول بنانے کی ہر چند کوشش کی ہے تاکہ وہ ترکی کے سیکولر سیاسی ماحول میں فٹ ہوسکے تاہم اس کا ماضی اس کے لیے ایک عیب بن گیا ہے اور کسی طرح اس کا پیچھا نہیں چھوڑ رہا ہے لہٰذا ترکی کے سیکولر طبقہ اور عناصر کو بھی اس حکمراں طبقہ سے ہر دم خطرہ لگا رہتا ہے اور مغرب تو پہلے سے ہی خوف میں مبتلا ہے‘ ترکی کے سیکولر (لادینی) کردار کا محافظ و نگراں فوج کو خیال کیا جاتا ہے ترکی کے موجودہ دستور میں بھی اس کے اس کردار کا تذکرہ موجود ہے اور اس کی ایک حیثیت متعین ہے‘ فوج کو اس کا شدت سے احساس ہے‘ ماضی میں وہ اپنے اس کردار کو متعددموقعوں پر ادا بھی کرچکی ہے‘ جب جب اسے محسوس ہوا ہے کہ ترکی کے سیکولر مزاج اور رنگ و آہنگ کو نقصان پہنچایا جارہا ہے وہ حرکت میں آئی ہے اور اپنے تئیں ٹھوس کارروائی کی ہے جس کے نتیجہ میں منتخب حکومتیں رخصت کی جاتی رہی ہیں‘ فوج انھیں برابر یاددلاتی رہی ہے کہ اسے جامے سے باہر نہیں آنا چاہیے اور خبردار کرتی رہے کہ ملک کے سیکولر کردار کو حکومت کی جانب سے نقصان پہنچانے کی کسی بھی کوشش کو برداشت نہیں کیا جائے گا اور ہر بار پھر اس نے یہ دستوری خدمت انجام دی ہے۔
ترک فوج کے افسران اعلیٰ کو خبردار کیاہے کہ ملک میں اسلام پسندوں کی طاقت بڑھتی جارہی ہے اگر اس پر قابو پانے کی کوشش نہیں کی گئی اور اسلام کو ایک بالادست سیاسی طاقت بنانے کی کوششوں کی روک تھام کے لیے موثر قدم نہیں اٹھایا گیا تو ملک کے لیے زبردست خطرہ پیدا ہوجائے گا‘ ترک جنرل کے خیال میں موجودہ حکومت اس پر خاطر خواہ توجہ نہیں دے رہی ہے یا کم از کم اس کے خیال میں اس کی کوششیں اطمینان بخش نہیں ہیں‘ ترک جنرل کا تو یہ کہنا ہے کہ اسلام کو نظام حیات بنانے کی کوشش ہی ملک کے موجودہ سیاسی ڈھانچے کے لیے تباہ کن ہے دستور کے منافی ہے اور اس پر نظر رکھنا فوج کا کام ہے‘ گویا انھوں نے حکومت کو خبردار کرکے کوئی غلط کام نہیں کیا ہے بلکہ ایک دستوری ذمہ داری نبھائی ہے اس نے وزیراعظم رجب طیب اردگان کی حکومت کو نہ صرف اس کی یاددہانی کرائی ہے کہ فوج کے اس کردار کو مدنظر رکھنا چاہیے بلکہ دوسرے الفاظ میں یہ دھمکی بھی دی ہے کہ اگر حکومت دستور کے منافی کوئی کام کیا اور فوج کو نظرانداز کیا تو فوج اپنی ’’دستوری ذمہ داری‘‘ ادا کرنے میں کوتاہی نہیں کرے گی۔ ترک جنرل نے یہ بات انقرہ میں واقع فوجی اکاڈمی میں منعقدہ فوجی نوجوانوں کے ایک پروگرام کے دوران کہی ہے‘ فوجی جنرل کا کہنا ہے کہ اسلام پسند ملک کے سیکولر نظام کو ڈھانے کی کوشش کررہے ہیں اور یہ بات ہرگز ہرگز قابل برداشت نہیں ہے اس کا کہنا ہے کہ ایسی صورت میں فوج خاموش نہیں رہ سکتی وہ لازماً حرکت میں آئے گی اور سیکولر ڈھانچے کو باقی اور محفوظ رکھنے کے لیے تمام ضروری قدم اٹھائے گی‘ یہ بات ہر کسی کو معلوم ہونی چاہیے اور حکومت کو تو اس کا خاص خیال رکھنا چاہیے۔ یہ خبر گارجین نیو ز پیپرز لمیٹڈ کے حوالے سے معاصر روزنامہ ہندو نے ۲۸ ستمبر کو شائع کی ہے۔
دریں اثنا ترک حکومت پر یورپی یونین کا دبائو بڑھ رہا ہے‘ یورپی یونین کا مطالبہ ہے کہ ترک حکومت اگر واقعی یورپی یونین کی رکنیت حاصل کرنے کی خواہشمند ہے تو اسے چاہیے کہ اصلاحات کے عمل کو تیز کرے۔
یورپی پارلیمنٹ کی طرف سے یہ مطالبہ پیش کیا گیا ہے اور ترک حکومت سے کہا گیا ہے کہ اس نے جو شرطیں تسلیم کی ہیں ان پر عمل پیرا ہو اور ان کے نفاذ کے سلسلہ میں ٹھوس قدم اٹھائے جن شرائط کو ترک حکومت نے قبول کیا ہے ان میں جمہوریت کی آبیاری اور بقا شامل ہے اور فوج کو سیاسی معاملات سے دور رکھنا اس کی بنیادی شرط ہے یورپی پارلیمنٹ نے اس سلسلہ میں ایک قرارداد بہ صورت رپورٹ پیش کی ہے۔ جن میں اس پر اپنے عدم اطمینان کا اظہار کیا گیا ہے کہ ترکی کی حکومت نے یورپی یونین کی رکنیت حاصل کرنے کے لیے جو شرطیں قبول کی تھیں اور جو وعدے کیے تھے اس کے سلسلہ میں ٹھوس کارروائی نہیں کی ہے‘ جب کہ اس سلسلہ میں بات چیت کا سلسلہ اسی وقت آگے بڑھایا جاسکتا ہے جب وہ اپنے وعدے پر عمل کرے گی اور اس کا ٹھوس ثبوت پیش کرے گی کہ اسے یورپی یونین کی رکنیت حاصل کرنے سے واقعی دلچسپی ہے۔ یہ صورتحال ترک حکومت کے لیے ایک بڑی عجیب و غریب صورتحال ہے‘ ایک طرف تو اسے باہر کا دبائو جھیلنا پڑ رہا ہے اور دوسری طرف اسے اندر سے دھمکیاں موصول ہورہی ہیں ‘ وہ سخت شش و پنج میں مبتلا ہے کہ کس کی چوٹ کھائے اور کدھر کی چوٹ بچائے ‘ اگر وہ فوج کو ناراض کرتی ہے تو خود اس کا وجود خطرے میں پڑسکتا ہے اور اگر یورپی یونین کی شرطوں پر کھری نہیں اترتی ہے تو اس کی دیرینہ آرزو پوری نہیں ہوسکتی فوج کا دبائو بڑھ رہا ہے اور ایک نئی کشمکش کے آثار ظاہر ہونے لگے ہیں‘ بری فوج کے افسر اعلیٰ کا اپنے جوانوں سے خطاب کے دوران یہ کہنا گویا فوج کو بھی ایک پیغام ہے کہ اسے ہر طرح کے حالات کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار رہنا چاہیے‘ دیکھنا ہے نیا سورج کیا پیغام لے کر آتا ہے۔
یہاں یہ بھی یاد رہے کہ ترکی ناٹو کابھی ممبر ہے‘ یہ بجائے خود غور و فکر کا ایک موضوع ہے کہ ترکی کو ناٹو میں کیوں شامل کیا گیا ہے یورپی یونین سے کیوں باہر رکھا جارہا ہے‘ فوج کو امریکی سرپرستی بھی حاصل رہی ہے۔ پچھلی بار جب فوج نے ملک کے سیکولر ڈھانچے کے تحفظ کے نام پر جو مداخلت کی تھی اس کا نتیجہ سامنے ہے‘ فوجی آمریت کی کسی بھی لحاظ سے تائید نہیں کی جاسکتی‘ یہ خود مغرب کے وضع کردہ ’’جمہوری اصولوں‘‘ کے سراسر منافی ہے‘ اس کے باوجود امریکا کی پالیسی ہمیشہ سے یہ رہی ہے کہ اگر اس کا مفاد فوج کو سیاست سے دور رکھنے میں نظر آتا ہے تو وہ جمہوری حکومت کے قیام کی پرزور تائید و حمایت کرتا ہے اور جب وہ یہ دیکھتا ہے کہ اس کا فائدہ فوج کو اقتدار تک پہنچانے میں ہے تو وہ اس کی تائید تک پہنچانے میں تو وہ اس کی تائید کرتا ہے ‘ یہ بھی ترکی کا ایک المیہ ہے‘ اس وقت بھی ترکی امریکا اور یورپ کے مفادات کے ٹکرائو کا مرکز بنا ہوا ہے فوج اپنا وزن کدھر ڈالتی ہے اس کے عمل سے ظاہر ہے۔
(بشکریہ: سہ روزہ ’’دعوت‘‘ نئی دہلی۔ شمارہ:۴؍اکتوبر۲۰۰۶)
Leave a Reply