
۷ جون کو ہونے والے ۲۵ ویں ترک پارلیمانی انتخابات کے لیے انتخابی مہم زوروں پر ہے۔ ترک سپریم الیکشن بورڈ نے بیرونِ ملک ترک ووٹروں کے لیے دنیا بھر میں پولنگ اسٹیشنز قائم کرنے کا اعلان کیا ہے۔ دنیا بھر میں ترک سفارت خانوں، قونصل خانوں اور دیگر سرکاری دفاتر میں قائم کیے گئے ان پولنگ اسٹیشنز پر ۸ مئی سے پولنگ شروع ہو گئی ہے، جو مختلف تاریخوں میں دنیا کے مختلف خطوں میں ۳۱ مئی تک جاری رہے گی۔ اس کے علاوہ سرحدی علاقوں پر بھی پولنگ اسٹیشنز کا خصوصی اہتمام کیا گیا ہے۔ واضح رہے کہ تقریباً ۳۰ لاکھ کے لگ بھگ ترک بیرون ملک رہتے ہیں اور تقریباً سب سمندر پار شہری ووٹنگ میں حصہ لیتے ہیں۔ سروے رپورٹوں کے مطابق ان کی بھاری اکثریت طیب ایردوان کی مداح ہے۔
ترک پارلیمانی انتخابات میں کُل ۱۹؍جماعتیں حصہ لے رہی ہیں۔ ترک آئین کے مطابق ۱۰؍فیصد ووٹ حاصل کرنے کے بعد ہی کوئی جماعت پارلیمان میں نمائندگی کا حق رکھتی ہے۔ لہٰذا ان ۱۹؍جماعتوں میں صرف ۵ ہی وہ قابلِ ذکر جماعتیں ہیں جو پارلیمان میں پہنچنے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔ سابقہ نمائندگی اور تازہ ترین تجزیوں کی روشنی میں سیاسی حجم کے لحاظ سے ان جماعتوں کی ترتیب کچھ یوں متوقع ہے:
۱۔ جسٹس اینڈ ڈیولپمنٹ پارٹی (AKP) طیب ایردوان کی پارٹی
۲۔ ریپبلکن پارٹی (CHP) کمال اتاترک کی جماعت
۳۔ نیشنلسٹ موومنٹ پارٹی (MHP) ترک قومیت پسند جماعت
۴۔ پیپلز ڈیموکریسی پارٹی (HDP) کرد قومیت پسند جماعت
۵۔ سعادت پارٹی (SP) نجم الدین ایربکان کی جماعت
سعادت پارٹی کے ساتھ الحاق میں دو اور سیاسی جماعتیں بھی شامل ہیں۔ امید ظاہر کی جارہی ہے کہ سعادت پارٹی اس الحاق کی مدد سے اس بار ۱۰؍فیصد ووٹ کی رکاوٹ عبور کرنے میں کامیاب ہو جائے گی۔
تمام جماعتوں نے اپنے اپنے انتخابی منشور جاری کر دیے ہیں۔ اپوزیشن جماعتوں کے منشور ’’دوگنی تنخواہ‘‘، ’’ترکی کی شناخت واپس دلانا‘‘ اور ’’ترکی کو اس کا مقام دلوانا‘‘ جیسے روایتی نعروں پر مشتمل ہیں۔ جب کہ طیب ایردوان کی جسٹس اینڈ ڈیولپمنٹ پارٹی کے ۵ بنیادی نکات ہیں:
۱۔ آئین میں تبدیلی جس کا مطلب ہے ترکی کی سیکولر شناخت کا خاتمہ
۲۔ ملک میں صدارتی نظام کا نفاذ
۳۔ ریاست میں قائم متوازی حکومت (گولن تحریک) کا خاتمہ
۴۔ عظمتِ انسانی کا احترام
۵۔ مساویانہ شہری حقوق
ترکی کا موجودہ آئین مصطفی کمال کے ساتھی جرنیلوں نے ۱۹۸۰ء میں اقتدار پر قبضہ کرنے کے بعد بنایا تھا۔ یہ آئین سیکولر شناخت کا حامل ہے۔ طیب ایردوان اس سیکولر شناخت کے حامل آئین کو اعتدال پسند آئین میں تبدیل کرنا چاہتے ہیں۔ طیب ایردوان ترکی کے پہلے براہ راست منتخب صدر ہیں۔ وہ پارلیمانی نظامِ حکومت کو صدارتی نظامِ حکومت میں بدلنے کا مصمم ارادہ رکھتے ہیں۔ انہوں نے تازہ بیان میں کہا ہے کہ ’’ملک میں صدارتی نظام کا تیر کمان سے نکل چکا ہے جو واپس نہیں آسکتا‘‘ اور یہ تبدیلی آئین میں ترمیم کے ذریعے ممکن ہوسکتی ہے۔
ترک پارلیمان ۵۵۰ نشستوں پر مشتمل ہے۔ اگر طیب ایردوان کی جماعت ۳۶۷ نشستیں لینے میں کامیاب ہو جاتی ہے تو بغیر کسی رکاوٹ کے دستوری ترامیم کرسکے گی اور اگر وہ ۳۳۵ نشستیں حاصل کرپاتی ہے تو اسے آئینی تبدیلیوں اور صدارتی نظام کے نفاذ کے لیے عوامی ریفرنڈم کے ذریعے توثیق کروانا پڑے گی۔
مختلف سروے اور تجزیہ نگار اس بات کا امکان ظاہر کررہے ہیں کہ طیب ایردوان کی جماعت ۳۳۵ اور ۳۶۷ کے درمیان نشستیں حاصل کرے گی اور نئے آئین اور صدارتی نظام کا فیصلہ ریفرنڈم کے ذریعے ہی ہوگا۔
جسٹس اینڈ ڈیولپمنٹ پارٹی کے منشور میں ’’گولن تحریک کا خاتمہ‘‘ سب سے اہم نکتہ ہے۔ ترکی کے حالات سے تھوڑا بہت باخبر شخص بھی یہ بات بڑے وثوق سے کہہ سکتا ہے کہ ایردوان حکومت کو اس وقت اگر کوئی خطرہ ہے تو وہ پولیس، عدلیہ اور میڈیا میں گولن تحریک کے گہرے نفوذ سے ہے۔ ترک وزیراعظم احمد دائود اولو نے گزشتہ ماہ منشور پیش کرتے ہوئے بار بار گولن تحریک کا نہ صرف ذکر کیا بلکہ اس کا مقابلہ کرنے کا بھرپور عزم بھی کیا اور اب اسے اپنی حکمت عملی اور منشور کا باقاعدہ طور پر حصہ بنا دیا گیا ہے۔
دسمبر ۲۰۱۳ء میں گولن پولیس افسران نے ایردوان سمیت حکومتی وزرا کی فون کالز اور انٹرنیٹ بات چیت کی جاسوسی کرکے کرپشن کا اسکینڈل گھڑا تھا۔ اس سازش میں ایردوان کے بیٹے سمیت متعدد وزرا کے بیٹوں اور عزیز رشتہ داروں کو گرفتار کر لیا گیا تھا۔ ایردوان کا کہنا ہے کہ یہ سب ایک گہری سازش کا حصہ ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ساری فون کالز جعلی ہیں۔
ایردوان حکومت اور گولن پولیس و عدلیہ کے مابین کشمکش اس وقت بھی جاری ہے۔ روزنامہ ’’زمان‘‘ ترکی کا سب سے زیادہ چھپنے والا اخبار ہے۔ یہ گولن تحریک کی ملکیت ہے اور آئے روز مختلف کہانیاں تراشنے میں مصروف ہے۔
’’دوان میڈیا گروپ‘‘ ترکی کا سب سے بڑا اور کامیاب میڈیا گروپ ہے جو اس کشمکش میں گولن میڈیا کا ہمنوا ہے۔ دوسری طرف ’’اناطولیہ ایجنسی‘‘ اور روزنامہ ’’صباح‘‘ حکومت مخالف یلغار کا مقابلہ کررہے ہیں۔
گولن تحریک سے وابستہ پولیس افسران، عدالتی اہلکاروں اور میڈیا کے کارندوں کی گرفتاریاں اور رہائی بھی ساتھ ساتھ جاری ہیں۔ دیکھنا اب یہ ہے کہ کیا ۷ جون کے بعد طیب ایردوان اس قابل ہوں گے کہ وہ گولن تحریک کا خاتمہ کرسکیں؟
Leave a Reply