
ترک پارلیمانی انتخابات میں تقریباً ڈیڑھ ہفتہ باقی رہ گیا ہے۔ جوں جوں ان کی تاریخ (۷ جون) قریب آرہی ہے، سیاسی ماہرین اور تجزیہ نگار بنتے اور بدلتے منظرناموں کی گرہیں کھول رہے ہیں۔ مختلف سروے، تجزیوں اور اندازوں کی روشنی میں انتخابات کے نتائج سے تین بنیادی منظرنامے بنتے نظر آرہے ہیں:
پہلامنظر نامہ
ترک انتخابات میں پہلی اور سب سے زیادہ متوقع صورتحال یہ ہے کہ طیب اردوان کی جماعت جسٹس اینڈ ڈیولپمنٹ پارٹی ۴۵فیصد سے ۵۰ فیصد کے درمیان ووٹ حاصل کرے گی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جسٹس اینڈ ڈیولپمنٹ پارٹی ۵۵۰کے ایوان میں ۳۳۰ سے ۳۶۷ کے درمیان نشستیں حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائے گی۔ ایسا ہونے کی صورت میں (اس کے قوی امکانات ہیں) نئے آئین اور صدارتی نظام کے نفاذ جیسے مشکل اہداف کو آسانی سے حاصل کیا جاسکے گا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ آئندہ چار سال کے لیے (۲۰۱۹ء تک) ایوانِ صدر اور ایوانِ پارلیمان ایردوان اور جسٹس اینڈ ڈیولپمنٹ پارٹی کے زیر نگیں رہیں گے۔ اسی منظرنامے کی وجہ سے مصطفی کمال اتاترک کی جماعت ریپبلکن پیپلز پارٹی (CHP) اس بات کا ڈھنڈورا پیٹنے میں مصروف ہے کہ ۲۰۱۹ء کے بعد اسلام پسندوں کو ایوانوں سے باہر نکالنا ناممکن ہو جائے گا۔ CHP امریکا اور مغرب کو باور کروانے میں مصروف ہیں کہ طیب اردوان ترکی کی سیکولر شناخت کو اسلامی شناخت کے ساتھ تبدیل کردیں گے اور پھر کسی بھی صورت میں اس کو بدلا نہیں جاسکے گا۔
اسی خوف اور ڈر کی وجہ سے طیب اردوان کے خلاف ملکی (گولن میڈیا ہائوس اور دوغان میڈیا ہائوس) و غیر ملکی میڈیا نے پروپیگنڈے کا طوفان برپا کررکھا ہے۔ اس پروپیگنڈے کا واحد مقصد صرف اور صرف اردوان کے ووٹ بنک کو کم کرنا ہے تاکہ نئے آئین اور صدارتی نظام کے نفاذ کی راہ میں روڑے اٹکائے جاسکیں۔
اس وقت طیب اردوان کے خلاف گولن میڈیا ہائوس (خاص طور پر انگریزی روزنامہ ’’ٹوڈیز زمان‘‘) اور دوغان میڈیا ہائوس (خاص طور پر انگریزی روزنامہ ’’حریت‘‘) دن رات پروپیگنڈے اور کردار کشی میں مصروف ہیں۔ مثال کے طور پر گزشتہ دنوں محمد مرسی کی سزائے موت پر روزنامہ ’’حریت‘‘ نے ’’۵۲ فیصد ووٹ حاصل کرنے والے صدر کو سزائے موت‘‘ کی سرخی بار بار چلائی اور اس خبر میں زیادہ زور ’’۵۲ فیصد ووٹ حاصل کرنے والے صدر‘‘ پر رکھا۔ واضح رہے کہ طیب اردوان نے صدارتی انتخابات میں ۵۲ فیصد ووٹ حاصل کیے تھے۔
نیویارک ٹائمز کے ۲۲ مئی کے اداریے “Dark Clouds Over Turkey” واشنگٹن پوسٹ کے “Could Erdogan Lose upcoming Election” اور “The Sultan Emperor Erdogan Rule” اور دیگر کئی ایک ایسے عنوان اردوان کے خلاف امریکی اور مغربی عزائم کے عکاس ہیں۔
دوسرا منظرنامہ
ملکی وغیر ملکی میڈیا یلغار اور گولن تحریک کے عدلیہ اور دیگر سرکاری اداروں میں گہرے نفوذ کی وجہ سے شاید اردوان ووٹ بنک میں تھوڑی سی کمی آئی ہے۔ دوسرے منظرنامے کی صورت میں طیب اردوان کی جماعت جسٹس اینڈ ڈیولپمنٹ پارٹی ۴۰ فیصد سے ۴۵ فیصد کے درمیان ووٹ حاصل کرے گی۔ اس صورتحال کے نتیجے میں جسٹس اینڈ ڈیولپمنٹ پارٹی کے حصے میں ۲۷۰ کے لگ بھگ نشستیں آئیں گی۔ اتنی نشستوں کے ساتھ اکیلے حکومت تو بنائی جاسکتی ہے لیکن آئین کی تبدیلی اور صدارتی نظام کے نفاذ کے لیے کسی اور جماعت کے اتحاد کا سہارا لینا پڑے گا۔
تیسرا منظرنامہ
ترک سیاست میں چونکہ اس وقت دو ہی بلاک ہیں، ایک اردوان بلاک اور دوسرا اردوان مخالف۔ اس لیے اس بات کو رد نہیں کیا جاسکتا (لیکن اس کے امکانات نہ ہونے کے برابر ہیں) کہ تمام اپوزیشن جماعتیں حوصلہ افزا انتخابی نتائج کے بعد اکٹھی ہوکر اردوان کو حکومت کی بجائے اپوزیشن بنچوں پر بیٹھنے پر مجبور کردیں۔ اس وقت ریپبلکن پیپلز پارٹی ۲۵ فیصد، اور نیشنلسٹ موومنٹ پارٹی ۱۵؍فیصد اندازی ووٹوں کے ساتھ جسٹس اینڈ ڈیولپمنٹ پارٹی (AKP) کے بعد دو بڑی جماعتیں ہیں۔ ان جماعتوں کے علاوہ پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی (HDP) کی انتخابی کارکردگی ترکی کے مستقبل کا رُخ متعین کرے گی۔ پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی (HDP) اگر ۱۰؍فیصد ووٹ حاصل کرنے کی رکاوٹی لائن کو عبور کرنے میں کامیاب ہوجاتی ہے، تو اس کا براہ راست نقصان جسٹس اینڈ ڈیولپمنٹ پارٹی کو ہوگا اور وہ پہلے منظرنامے سے دوسرے منظرنامے میں چلی جائے گی۔ پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کے ۱۰؍فیصد ووٹ حاصل کرلینے کی صورت میں یہ ریپبلکن پیپلز پارٹی اور نیشنلسٹ موومنٹ پارٹی کے ساتھ سہ جماعتی اتحاد بنا کر جسٹس اینڈ ڈیولپمنٹ پارٹی کے حکومت بنانے میں رکاوٹ ڈال سکتی ہے۔
تینوں منظرناموں کے بعد اس بات کی وضاحت ضروری ہے کہ جسٹس اینڈ ڈیولپمنٹ پارٹی میڈیا یلغار اور گولن تحریک کا مقابلہ کرنے کے لیے ہر میدان میں نہ صرف موجود ہے بلکہ بہتر حالت میں ہے۔ میڈیا کے حوالے سے روزنامہ صباح اناطولیہ ایجنسی اور اب ترک ریڈیو اینڈ ٹیلی ویژن کا انگریزی آن لائن اخبار ہمہ وقت سازشوں کے سدباب میں مصروف ہیں۔ مثال کے طور پر نیویارک ٹائمز میں اردوان مخالف اداریے کی اشاعت کے تین روز کے اندر اندر صرف روزنامہ ’’صباح‘‘ میں دو درجن کے لگ بھگ مذمتی مگر مدلل مضمون شائع ہوچکے ہیں۔ اسی طرح روزنامہ ’’حریت‘‘ نے محمد مرسی کے حوالے سے خبر کے ذریعے اردوان کی تضحیک پر ان کے نام ایک خط شائع کیا ہے۔ یہ خط بظاہر تو ایک خط ہی ہے، لیکن اصل میں یہ معذرت و معافی نامہ ہے۔ یوں میڈیا کی سطح پر طیب اردوان حالات کو سنبھالتے نظر آرہے ہیں۔
***
Leave a Reply