
ترکی سے ۳۱ مئی ۲۰۱۰ء کو غزہ جانے والے بحری جہاز کے سفر کے وقت کسی کو یہ اندازہ نہیں تھا کہ یہ جہاز اور اس سے جڑنے والے واقعات غیرمعمولی اہمیت اختیار کر جائیں گے اور یہ جہاز ان میں شمار ہو گا جو امداد لے کر غزہ کی ناکہ بندی توڑ کر محصورین کی امداد کرنا چاہتے تھے۔ اس پر اسرائیلی کمانڈوز نے حملہ کیا اور ۹ مسافر جاں بحق جبکہ تیس سے زائد شدید زخمی ہوگئے۔ اسرائیل کا اپنی سرحد سے ۷۷ میل دور پانی میں ترک امدادی قافلے پر حملہ ایک بے وقوفی تھی۔ جس پر ترک حکومت کی طرف سے بہت سخت اور ترش ردعمل سامنے آیا۔ ترکی کے جوابی اقدامات ایک سنگل میل کی حیثیت رکھتے ہیں اوراب ترکی کے اقدام کے بعد اسرائیل فلسطین تنازعہ پر طاقت کا توازن تبدیل ہو گیا ہے۔
خارجہ پالیسی سے متعلق نئی جہت
سرد جنگ کے زمانے سے بھی پہلے سے ترکی واشنگٹن کے ساتھ رابطوں کو مضبوط اور یقینی بنانے کے لیے امریکی خارجہ پالیسی پر عمل پیرا تھا۔ پھر سرد جنگ کے زمانے سے ترکی ناٹو ممالک کا بہت ہی اہم اور مرکزی ملک رہا ہے۔ اس زمانے میں بھی یورپ پر سوویت یونین کے ممکنہ حملوں کو روکنے اور کم کرنے میں ترکی کا اہم کردار رہا ہے۔ ترکی کے پالیسی سازوں کو اچھی طرح اندازہ تھا کہ امریکی حمایت کے حصول کے لیے اسرائیل سے اچھے تعلقات لازمی ہیں اور اسی لیے ۱۹۹۰ء کی دہائی میں ترکی نے اسرائیل سے اچھے روابط قائم کیے۔ گو کہ اس زمانے میں ترکی نے بہت معمولی سے فائدے بھی حاصل کیے، لیکن امریکا نواز پالیسیوں کی وجہ سے وہ خطے میں تنہائی کا شکار ہوا اور ساتھ ہی معیشت پر گہرے اثرات بھی مرتب ہوئے۔ عراق کے معاملے کی وجہ سے ترکی کو کرکوک یومرتا لک کی تیل کی پائپ لائن جس کی لاگت سو بلین امریکی ڈالر تھی وہ بند کرنا پڑی۔ ہمسایہ ممالک کے ساتھ چپقلش نے بھی ترکی معیشت پر اثرات مرتب کیے، بلکہ ان کی وجہ سے ۱۹۹۴ء، ۱۹۹۸ء اور ۲۰۰۱ء میں ترکی کو بحران کا سامنا بھی کرنا پڑا۔
نائن الیون کا واقعہ ترکی کی خارجہ پالیسیوں میں تبدیلی کا پیش خیمہ بنا۔ عراق اور افغانستان پر امریکی حملہ ترکی کے پالیسی سازوں کی سوچ میں تبدیلی کا باعث بنا۔ عراق کا عدم استحکام ترکی کے لیے تشویش کا باعث تھا۔ دوسری طرف وہ امریکا کے شام اورایران پر ممکنہ حملے سے بھی خوفزدہ تھے۔ اس کے ساتھ ہی خطے کے دیگر معاملات پر ترکی کی نظر تھی اور وہ ان سے آگاہ بھی تھا اور ترکی میں تبدیلی بھی آرہی تھی۔ اسی لیے اے کے پی کے اقتدار میں آنے سے پہلے ہی ترکی پالیسی سازوں نے خطے میں اپنی بقاء کے لیے پالیسیوں کو تبدیل کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ اس دوران سابقہ اکیڈمک اور موجودہ وزیر خارجہ احمد دائود اوغلو نے نئی جہت متعارف کروائی۔ انہوں نے ان خیالات کو اپنی کتاب ’’تزویرائی گہرائی‘‘ میں پیش کیا اور ۲۰۰۲ء میں اے کے پی کے اقتدار میں آنے کے بعد اس پر کام شروع کیا گیا۔
فارن پالیسی نامی جریدے میں چھپنے والے کالم میں وزیر خارجہ احمد دائود اوغلو نے ان نئے خیالات کی وضاحت کی ہے۔ ترکی کی نئی پالیسی بنیادی طور پر تین نکات پر ہوگی:
۱) ترکی اپنے آپ کو دفاعی پوزیشن میں رکھتے ہوئے مثبت طور پر خطے کے دیگر معاملات میں کردار ادا کرنا چاہتا ہے، جیسے شام اور اسرائیل کے مابین ثالثی کے طورپر یا فلسطین کے معاملات میں شمولیت، ایران کے جوہری ہتھیاروں اور عراق کے سیاسی گروہوں کے مابین معاملات طے کروانے میں حکمت عملی اختیار کر رہا ہے۔
۲) اس حکمت عملی کے مطابق باہمی اتفاق رائے سے مختلف پالیسیاں مرتب کی جائیں گی، اس حکمت عملی سے ایک خطے کے معاملات پر توجہ، دوسرے خطے کے معاملات متاثر نہیں کرے گی۔ ترکی کے مفادات محفوظ رہیںگے۔
۳) ان نئے سفارتی طور اطوار اپنانے سے ترکی کی مقامی معیشت کو مضبوط کیا جائے گا۔ ان تمام نئی پالیسیوں کا ایک مقصد خطے میں استحکام لانا بھی ہے اور ان تمام عوامل کی روک تھام بھی مقصود ہے جس کی وجہ سے ترکی کا ملّی اتحاد متاثر ہوسکتا ہے۔
مفاہمتی معاملات میں عدم دلچسپی
نئی خارجہ پالیسی کے مطابق ترکی فلسطین کی خراب صورتحال کو سمجھتا ہے اور ترکی کو اس بات کا اچھی طرح اندازہ ہے کہ مشرق وسطیٰ کا عدم استحکام فلسطین، اسرائیل تنازع کی وجہ سے ہے اور اسی لیے ترکی کی خواہش ہے کہ یہ بحران مذاکرات اور بات چیت سے حل کیا جائے۔ اسی مقصد کے ساتھ ترکی نے تمام اطراف گفت و شنید جاری رکھی۔ فلسطین میں ۲۰۰۶ء کے انتخابات میں حماس نے فتح حاصل کی تھی اور وہ اب فلسطین کی عوام کی نمائندہ تھی۔ اسی لیے ترکی نے ۲۰۰۶ء میں خالد مشعل کو ترکی آنے کی دعوت دی تھی۔
دوسری طرف ترکی اسرائیل سے اچھے روابط رکھنا چاہتا تھا اسی مقصد کی خاطر اسرائیل سے بھی گفت و شنید جاری تھی، لیکن ۰۹۔۲۰۰۸ء میں اسرائیل کی جانب سے غزہ پر حملے کے بعد ترکی نے اسرائیل، شام اور اسرائیل، فلسطین تنازع میں امن کے لیے جاری کوششیں روک دی۔ ترکی کے وزیراعظم رجب طیب ایردوان نے اسرائیلی صدر سائم پی رس پر ۲۰۰۹ء میں ایک کانفرنس میں شدید تنقید بھی کی تھی۔ یہ واقعہ اس بات کا پیش خیمہ ثابت ہوا کہ اب ترکی کو اندازہ ہے کہ خطے کے عدم استحکام اور مسائل کی جڑ اسرائیل ہے اور اگر مشرق وسطیٰ میں اپنے مفادات کا حصول مطلوب ہے تو جارح اسرائیل کی پالیسیوں کی نفی کرنا ہوگی۔ وزیراعظم رجب طیب ایردوان نے اسرائیل کی جانب سے غزہ پر حملے کے بعد اسے خطے کے امن میں بنیادی خطرہ قرار دیا۔ ان کا بیان تھا کہ ’’یہ اسرائیل ہی ہے جو خطے کے امن کے لیے خطرہ ہے۔ اگر وہ فلسطین میں، غزہ میں افواج کا وحشیانہ استعمال کریں گے اور فاسفورس بموں کی بارش کریں گے تو ترکی ’’سب اچھا‘‘ کسی بھی صورت میں نہیں کہہ سکتا ہے‘‘۔
تل ابیب پر دبائو کے لیے ترکی نے اسرائیل سے متعلق پالیسیوں میں تبدیلی کر لی تاکہ اسرائیل کو مزید جارحانہ اقدام سے باز رکھا جاسکے اور دوسری طرف ترک وزیراعظم رجب طیب ایردوان نے بین الاقوامی طور پر کوئی ایسا موقع نہ چھوڑا کہ جہاں فلسطین سے اظہار یکجہتی کیا جاسکتا۔ ہر موقع پر انہوں نے فلسطین سے بھرپور اظہار یکجہتی کیا۔ دوسری طرف غزہ پر حملے کے بعد ترکی نے اس معاملے میں گہرا کردار ادا کرنے کا فیصلہ کرلیا۔
بین الاقوامی سمندر میں اسرائیل کے ترکی کے جہاز پر حملے نے ترکی کو مزید طیش دلایا۔ گو کہ اسرائیل نے اس کو فاش غلطی تسلیم کیا تھا، لیکن ترکی نے اسرائیل مخالف پالیسی جاری رکھی اور اس واقعہ نے عالمی سطح پر بھی ترکی کو ہمدردیاں فراہم کیں۔ اس وجہ سے ترکی کا کردار مزید بنیادی اور گہرا ہوتا چلا گیا۔
اسرائیل کی تنہائی
اس میں کوئی شک نہیں کہ ترکی کی فعال شمولیت نے خطے میں طاقت کے توازن کو تبدیل کر دیا ہے۔ دوسرے عرب ممالک کے برعکس ترکی نے اپنے آپ کو اسرائیل کے لیے سخت ثابت کیا ہے اور اس کی وجہ اس کی مضبوط فوج ہی نہیں بلکہ عالمی معاملات میں اس کا کردار بھی ہے۔ ماروی مارمارا نامی بحری جہاز پراسرائیلی حملے کے بعد ترکی نے وقت کا ضیاع کیے بغیر سیاسی طور پر اپنی پوزیشن واضح کردی۔
وزیر خارجہ احمد دائود اوغلو نے کنال چوبیس نامی نجی ترکی ٹی وی کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ اگر اسرائیل نے بین الاقوامی تفتیش سے انکار کیا تو اس کو ہر طرف سے تنہا کر دیں گے۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے غیرمستقل ممبر کے طور پر ۳۱؍ مئی کو ترکی نے ہنگامی اجلاس بلایا۔ جس میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی طرف سے اسرائیل کے جارحانہ اقدام کی سخت مذمت کی گئی اور غزہ کی ناکہ بندی ختم کرنے کے لیے قرارداد پاس کی گئی۔ یہ قرارداد کونسل ریزولیشن ۱۸۶۰ کہلائی۔ اس واقعہ پر ترک وزیراعظم رجب طیب ایردوان کا ردعمل بہت شدید تھا اور انہوں نے سخت ترین الفاظ میں اسرائیل کی جارحیت کی مذمت کی۔ انہوں نے کہا کہ وہ کسی بھی صورت میں اسرائیلی پروپیگنڈا برداشت نہیں کریںگے۔ انہوں نے عالمی سطح پر اس مسئلے کو قوانین کی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے اسرائیل کے لیے سزا کا مطالبہ کیا۔
دبئی میں حماس کے لیڈر کے قتل میں ملوث ہونے کی وجہ سے اس کو دبائو کا سامنا تھا اور بین الاقوامی سطح پر اس کی ساکھ کو شدید نقصان بھی پہنچا تھا۔ غزہ پر حملے نے اسرائیل کو مزید نقصان پہنچایا، پھر امدادی بحری قافلے پر حملے نے اسرائیل کو مزید عالمی دبائو سے دوچار کر دیا۔ اسی وجہ سے اسرائیلی وزیراعظم نے کہا کہ ایسی فہرست کا اجراء ہونا چاہیے جس میں وہ چیزیں جن کی غزہ میں لے جانے کی ممانعت ہے وہ درج ہوں۔ اگر اس کا اطلاق ہوتا ہے تو پھر یہ فلسطین کی مشکلات کو کم کر دے گا اور مستقبل میں غزہ کی ناکہ بندی بھی ختم ہو سکتی ہے اور اگر ایسا ہوا توممکنہ حد تک ترکی کامیاب رہے گا۔ اب یہ عمل یقینی طور پرترکی کے خطے میں اثر و رسوخ کو بڑھائے گا۔ اسرائیلی اعلان ترکی کی کامیاب سفارتی پالیسیوں کا ثبوت بھی ہے جن کی وجہ سے درحقیقت اسرائیل تنہا ہوا ہے اور یہ بات دوسری طرف فلسطین کی جدوجہد آزادی میں بھی معاون ثابت ہوگی۔ تاہم اب اسرائیل کی کوشش ہے کہ وہ عالمی تنہائی کے جمود کو توڑتے ہوئے عالمی برادری کی حمایت حاصل کرے۔ اس کے لیے اسرائیل کی کوشش ہے کہ ترکی کو مزید جارحانہ اقدام سے روکا جائے۔
دوسری طرف امریکا میں موجود یہودی لابی نے ترکی کے عالم اسلام میںابھرتے ہوئے مثبت تشخص کو مسخ کرنے کے لیے اقدامات بھی شروع کر دیے ہیں۔ یہودی ادارہ برائے قومی سلامتی معاملات (JNSA) نے ایک تجویز دی ہے جس میں یہ شامل ہے کہ ترکی کو ناٹو ممالک سے خارج کر دیا جائے۔ JNSA نے کہا ہے کہ امریکا کو ترکی کے متعلق سنجیدگی سے سوچنا چاہیے اور اس کی فوجی شمولیت کو بھی ناٹو سے معطل کرتے ہوئے خارج کر دینا چاہیے۔
دوسری طرف ترکی کے برازیل کے ساتھ ایٹمی ایندھن سے متعلق معاہدے، ایران کے ساتھ بڑھتے ہوئے تعلقات نے واشنگٹن کے پالیسی سازوں کے لیے خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے اور وہ ترکی کے خطے میں بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کوگہری نظر سے دیکھ رہے ہیں لیکن جلد ازجلد اپنے گہرے اتحادی اسرائیل سے بڑھتے ہوئے ترکی کے فاصلے پر بھی امریکا کی نظریں ہیں اور درحقیقت ان ہی واقعات نے امریکا کے پالیسی سازوں کے لیے خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے۔
امریکا کے پاس ترکی کے خلاف کھیلنے کے لیے پتے ہی ہیں، کرک ایشو ایک کمزور معاملہ ہے جس کو امریکا اور اسرائیل زک پہنچا سکتے ہیں۔ ترک افواج پر حملوں کو وزیر اعظم رجب طیب اردوگان نے بیرونی اشاروں پر ہونے والے حملوں کا نام دیا ہے۔ ۱۷؍ جون کو دہشت گردی کے خلاف ہونے والے اجلاس کی ترکی کی جانب سے منسوخی کے بعد اب امریکا اپنے اگلے اقدامات کے لیے محتاط ہوگا اور امریکا ترکی کو دبائو میں لانے کی کوشش بھی کر سکتا ہے۔ اس کے لیے وہ ایوان سے خارجہ معاملات سے متعلق کوئی بل بھی پاس کر سکتا ہے۔ لیکن عراق میں موجود امریکی افواج کو جانے والی ۷۰ فیصد رسد ترکی کے ہوائی اڈوں سے جاتی ہیں۔ امریکا کو خطے کی ابھرتی ہوئی طاقت کے خلاف کوئی بھی قدم اٹھانے سے پہلے کئی مرتبہ سوچنا ہوگا، کیونکہ ترکی کے پاس بھی کئی مضبوط پتے اگلی چال چلنے کے لیے موجود ہیں۔
(بشکریہ: سہ روزہ ’’دعوت‘‘ دہلی۔ ۲۵جنوری ۲۰۱۱ء)
Leave a Reply