
انتخابات اور انتخابی سرگرمیوں کے لحاظ سے یورپی (مغربی) اور ایشیائی ممالک کی فضا میں بڑا نمایاں فرق پایا جاتا ہے۔ یورپی ممالک میں تو انتخابات اور اس کے بعد نئی حکومتیں اس انداز سے ملکی نظم و نسق سنبھالتی ہیں کہ کسی کو گلہ یا شکایت کا کوئی موقع ہی نہیں ملتا ہے، بلکہ انتخابی نتائج کو بڑی خوش دلی سے قبول کرلیا جاتا ہے اور شکست پانے والے کسی بخل سے کام لیے بغیر کامیاب امیدواروں کو گلے لگا لیتے ہیں۔
ایشیا اور یورپ کے سنگم پر واقع ترکی بھی دیگر جمہوری ممالک کی طرح انتخابی تیاریوں میں مصروف ہے، لیکن یہاں انتخابی سرگرمیاں مغربی ممالک کے برعکس مشرقی ممالک کا منظر پیش کرتی دکھائی دیتی ہیں۔ اس کی ایک وجہ اس ملک کی سرزمین کے بڑے حصے کا براعظم ایشیا میں واقع ہونا ہے۔ ترکی کا کُل رقبہ آٹھ لاکھ چودہ ہزار مربع کلومیٹر ہے اور سات لاکھ ساٹھ ہزار مربع کلومیٹر علاقہ براعظم ایشیا میں واقع ہے۔ تو صرف چوبیس ہزار مربع کلومیٹر رقبہ براعظم یورپ کی حدود میں آتا ہے (یعنی آبادی کے لحاظ سے ۲۰ فیصد اور رقبے کے لحاظ سے تین فیصد حصہ یورپ میں واقع ہے)۔ اس طرح اس ملک کے رسم و رواج پر ایشیائی ممالک کی چھاپ کو واضح طور پر محسوس کیا جاسکتا ہے۔ ترکی میں جس طریقے سے انتخابی سرگرمیوں کو جاری رکھا گیا ہے اس میں پاکستان اور بھارت کی جھلک نمایاں ہے۔ پاکستان اور بھارت میں جس طریقے سے انتخابی مہم کے دوران انتخابی امیدوار ووٹ حاصل کرنے کے لیے عوام سے مختلف وعدے کرتے ہیں، بالکل اسی طرح کی صورتحال ترکی میں بھی ہے، بلکہ یہ کہنا زیادہ درست ہوگا کہ ترک سیاسی رہنما وعدوں کے لحاظ سے برصغیر کے سیاسی رہنمائوں کو بہت پیچھے چھوڑ جاتے ہیں اور بعض اوقات ایسے وعدے بھی کر جاتے ہیں جن کا پورا کرنا ممکن ہی نہیں ہوتا۔ مثال کے طور پر ترکی کے عمر رسیدہ سیاسی رہنما سلیمان دیمرل (جو بانوے سال کے ہیں اور اس وقت شدید علیل ہیں) جو ملک میں سات بار وزیراعظم اور ایک بار صدر کے طور پر فرائض ادا کر چکے ہیں، ماضی میں اپنی انتخابی سرگرمیوں کے دوران عوام سے یہ تک کہہ چکے ہیں کہ ’’مخالف جماعتوں کے رہنما آپ کو جو کچھ دیں گے، میں ان سے پانچ گنا زیادہ دوں گا‘‘۔ پھر جب اُن کو وعدے یاد دلائے گئے تو اس پر وہ یہی کہنے پر اکتفا کرتے رہے ’’کل، کل تھا اور آج آج ہے‘‘ یعنی بقول ان کے ’’رات گئی، بات گئی‘‘۔ سلیمان دیمرل نے ترکی میں انتخابی وعدوں کی ایسی بنیاد رکھی کہ ان کے بعد پارٹی کی سربراہ کا عہدہ سنبھالنے والی (ترکی کی پہلی اور واحد خاتون وزیراعظم) تانسو چیلّر اپنے ووٹروں کو یہ یقین دلاتی رہیں کہ وہ ملک کی وزیراعظم منتخب ہونے کی صورت میں تمام افراد کو دو دو چابیاں عطا کریں گی۔ ایک چابی گھر کی ملکیت کی تو دوسری نئی گاڑی کی چابی ہو گی۔ ان کے ساتھ حکومتی اتحاد بنانے والے مرحوم ایربکان پر بھی تانسو چیلّر کا رنگ غالب آگیا اور انہوں نے اقتدار حاصل کرنے کی صورت میں ملک میں سودی نظام ختم کرنے، منصفانہ اسلامی نظام متعارف کروانے، ملک میں تیزترین ریل کا جال بچھانے، ہر صوبے میں ایک ہوائی اڈہ قائم کرنے، ملک میں اپنی گاڑیاں خود تیار کرنے کے علاوہ ہر دیہات میں ایک ایک کارخانہ لگانے کا مژدہ بھی سنایا، لیکن جب وہ وزیراعظم بنے تو فوج نے ان کو دیوار کے ساتھ لگا دیا اور خود ان کا تختہ الٹنے کی بجائے صدر سلیمان دیمرل کو استعمال کرتے ہوئے وزیراعظم ایربکان کو مستعفی ہونے پر مجبور کردیا۔ (اس کو پوسٹ ماڈرن مارشل لاء کے نام سے بھی یاد کیا جاتا ہے) ۔ ترکی میں ۲۰۰۲ء میں قائم ہونے والی یوتھ پارٹی کے سربراہ جم اوزان تھے۔ انہوں نے عوام سے کیے گئے اپنے وعدوں کی وجہ سے چند ہی دنوں میں اتنی مقبولیت حاصل کرلی کہ دیگر تمام سیاسی جماعتوں کو اپنی بقا کا خطرہ لاحق ہوگیا۔ جم اوزان نے ملک کے گوشے گوشے میں لنگر کھول دیے، جہاں غریب افراد میں کھانا تقسیم کیا جانے لگا۔ ترکی کی سیاست میں پہلی بار جم اوزان نے یہ طریقہ متعارف کروایا تھا۔ انہوں نے بے روزگار نوجوانوں کو روزگار فراہم کرتے ہوئے ترکی کی سیاست میں ہلچل پیدا کردی۔ انہوں نے کسانوں کو ڈیزل صرف ایک لیرے میں دینے کا (جب ڈیزل چار لیرے فی لیٹر تھا) کا وعدہ کرنے کے ساتھ ساتھ یونیورسٹیوں میں بغیر کسی امتحان کے داخلہ دینے کا وعدہ کیا اور ان وعدوں کی بدولت سات فیصد تک ووٹ بھی حاصل کرلیے۔
موجودہ دَور میں بھی ترک سیاستدانوں نے عوام سے مختلف وعدے کرنے کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے۔ اس وقت انڈیپینڈنٹ ترکیہ پارٹی کے سربراہ حیدرباش نے ہر گھریلو خاتون کو گھر بیٹھے ۵۰۰ ترک لیرے تنخواہ کے طور پر دینے اور ہر بچے کی پیدائش پر پندرہ ہزار لیرے تحفے کے طور پر ماں کو دینے کا وعدہ کیا ہے، جبکہ ملک کی تیسری بڑی جماعت نیشنلسٹ موومنٹ پارٹی (MHP) کے رہنما ’’دولت بابچے لی‘‘ نے ۱۹۹۹ء کے انتخابات کے موقع پر عوام سے برسراقتدار آنے کی صورت میں کُرد دہشت گرد تنظیم (PKK) کے سرغنہ عبداللہ اوجالان کو پھانسی کی سزا دلوانے کا وعدہ کیا تھا، لیکن جب انہوں نے مرحوم وزیراعظم بلنت ایجوت کے ساتھ مخلوط حکومت تشکیل دی اور خود نائب وزیراعظم کے اختیارات سنبھالے تو انہیں مخلوط حکومت کی خاطر نہ صرف اپنے وعدے سے پیچھے ہٹنا پڑا، بلکہ ملک میں پھانسی کی سزا پر عملدرآمد کو روکنے کے بِل پر دستخط بھی کرنا پڑے۔ انہوں نے اُس دَور میں اپنی انتخابی مہم کے دوران ’’ہیڈاسکارف‘‘ پہننے پر عائد پابندی کو ختم کرنے کا بھی وعدہ کیا، لیکن جب ان کی جماعت کی ایک امیدوار نسرین اونال، جو ہیڈ اسکارف استعمال کرتی تھیں، رکنِ پارلیمان منتخب ہوئیں تو دولت بابچے لی نے اس رکنِ پارلیمان کے ہیڈ اسکارف اتروانے ہی کو اپنی جماعت کی کامیابی تصور کیا۔ ترکی کی حزب اختلاف اور دوسری بڑی جماعت ریپبلکن پیپلز پارٹی (CHP) کے رہنما کمال کلیچدار اولو کے عوام سے کیے گئے وعدوں کو اگر پیش نہ کیا جائے تو یہ ترکی کے ساتھ بہت بڑی زیادتی ہوگی۔ کمال کلیچدار اولو نے عوام سے خطاب کرتے ہوئے کئی بار اس بات کا برملا اظہار کیا ہے کہ ’’میرا نام کمال ہے اور مجھے اپنے وعدے پورا کرنے پر بھی کمال حاصل ہے‘‘ (یہ الگ بات ہے کہ وہ یہ کمال پہلے کبھی بھی نہیں دکھا پائے)۔ انہوں نے ہر غریب خاندان کو ۶۰۰ ترک لیرے دینے کے علاوہ ۳۶۰ لیرے کرایہ اور بِل وغیرہ کی ادائیگی میں مالی معاونت فراہم کرنے کا وعدہ کیا ہے۔ اس کے علاوہ انہوں نے ایک کروڑ ۶۰ لاکھ افراد کو مالی معاونت اور ہر ماں کو ۴۰۰ ترک لیرے بچے کو اسکول میں داخل کروانے کی صورت میں دینے کا وعدہ کیا ہے۔ انہوں نے کم سے کم تنخواہ کو ۱۵۰۰؍ترک لیرے مقرر کرنے کا بھی وعدہ کیا ہے تو عیدین پر دو اضافی تنخواہوں کی بھی یقین دہانی کرائی ہے، عمر رسیدہ افراد کو ہر تین ماہ بعد ۹۰۰ ترک لیرے کی امداد فراہم کرنے کا بھی وعدہ کیا ہے۔ کسانوں کو ایک لیرے میں ڈیزل دینے کے ساتھ ساتھ ٹھیکے پر کام کرنے والے مزدوروں کو مستقل کرنے کا بھی وعدہ کیا ہے۔ ترکی زبان کا محاورہ ہے ’’غیر شادی شدہ شخص کے لیے طلاق دینا آسان ہے‘‘۔ اسی لیے وزیراعظم احمد دائود اولو کہتے ہیں کہ اقتدار کا تجربہ نہ رکھنے والوں کے لیے وعدے کرنا بڑا آسان ہے۔ انہوں نے اس بات کا برملا اظہار کیا ہے کہ ’’ہمارا ماضی ہی ہمارے مستقبل کی عکاسی کرتا ہے۔ آپ ہماری پارٹی کے چار سو اراکین کو منتخب کریں، ہم ملک کو نیا آئین دیں گے اور صدارتی نظام متعارف کروائیں گے‘‘۔ انہوں نے مزید کہا کہ ’’حزب اختلاف کی جماعتوں اور ہماری آق پارٹی کے درمیان فرق بڑا واضح ہے۔ یہ جماعتیں صرف باتیں (وعدے) کرتی ہیں اور ہماری جماعت صرف کام کرتی ہے‘‘۔
(بشکریہ: روزنامہ ’’جنگ‘‘ کراچی۔ ۲۷ مئی ۲۰۱۵ء)
Leave a Reply