نائب وزیراعظم ترکی بلند آرنچ نے روزنامہ ’’صباح‘‘ کے ساتھ ایک خصوصی انٹرویو میں کہا ہے کہ حکمران پارٹی نئے آئین کی تشکیل کے لیے جون کے پارلیمانی انتخابات میں کافی نشستیں حاصل کرنے کے بعد ملک میں ایک صدارتی یا نیم صدارتی نظام کے حصول کے لیے موجودہ سیاسی ڈھانچے کو تبدیل کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ نائب وزیراعظم اور حکومت کے ترجمان، بلند آرنچ ترکی کی سیاست میں ایک اہم شخصیت ہیں۔ ۵۰ سال سے سیاست میں ہیں اور ۲۰ سال سے پارٹی کے نائب صدر ہیں۔ ترکی میں انسانی حقوق کے تعین کے حوالے سے گزشتہ ہفتے جنیوا میں ہونے والے اجلاسوں میں انہوں نے ترکی کے وفد کی سربراہی کی۔ روزنامہ ’’صباح‘‘ نے جنیوا اجلاسوں سے لے کر ملکی سیاست اور دیگر مختلف موضوعات پر بلند آرنچ سے اہم بات چیت کی ہے، جو پیشِ خدمت ہے۔
سوال: صدر رجب طیب ایردوان نے صدارتی نظام کے نفاذ کے بعد ترکی کے مزید مضبوط ملک بن جانے کا دعویٰ کیا ہے۔ کیا آپ ان کے اس دعوی سے اتفاق کرتے ہیں؟
جواب: ہم اپنے لوگوں کی فطرت اور سوچ سے بخوبی آگاہ ہیں، اگر وہ سیاسی نظام میں مضبوط رہنماؤں اور حکومت کے لیے صدارتی نظام کی حمایت کرتے ہیں، تو میں نہیں سمجھتا کہ صدارتی نظام کامیاب تجربہ نہ ہو۔ جون کے انتخابات کا پہلا مقصد ایک نیا آئین بنانے کے لیے اکثریتی تعداد میں نشستوں کا حصول ہے۔ ایک نئے آئین کے بغیر، مطلو بہ صدارتی یا نیم صدارتی نظام ناممکن ہے۔ آئین اور انتظامی ڈھانچے میں مطابقت ہونی چاہیے، جو اِس وقت نہیں ہے۔ اس وقت ملک میں ایک مقبول اور منتخب صدر ہیں، جو پارلیمان کی طرف سے تفو یض کردہ اختیارات کا استعمال کر رہے ہیں۔ یو ں اس وقت ایک بیتال سننے کو مل رہی ہے جس سے مسائل پیدا ہو سکتے ہیں، لیکن ایک صدارتی یا نیم صدارتی نظام کے نتیجے میں حکومت کے تمام عناصر کو ایک نئے آئین میں مخصوص جگہ ملے گی۔ اگر لوگ اس نئے نظام کو قبول کرتے ہیں تو پھر اسے ہی لاگو کیا جانا چاہیے۔ ہم ایک ریفرنڈم کے ذریعے بھی یہ دیکھ سکتے ہیں۔ لوگ اگر تبدیلی نہیں کرنا چاہتے تو اسے بھی آئین کے مطابق دیکھا جانا چاہیے، وگرنہ موجودہ آئین حکومت اور صدر یا حکومتی اداروں کے درمیان کشیدگی کا سبب بن سکتا ہے۔
سوال: گزشتہ ہفتے انسانی حقوق کے اقوام متحدہ کے کمیشن نے Universal Periodic Review Mechanism میں ترکی میں انسانی حقوق کے حوالے سے دوسری بار جائزہ لیا ہے۔ آپ ہمارے وفد کے سربراہ تھے۔ آپ کس طرح اس اجلاس میں اپنے رابطوں اور کام کی کامیابی کا اندازہ کر سکتے ہیں؟
جواب: ترکی پر پہلا جائزہ ۲۰۱۰ء میں کیا گیا تھا اور ہر چار سال بعد کیا جاتا رہے گا۔ میں نے انسانی حقوق کے ذمہ دار ہونے کی حیثیت سے اس اجلاس میں شرکت کی ہے۔ ان ملاقاتوں کے پیچھے ہمارے کام اور رابطوں کے دو سال ہیں۔ ہم نے امورِ خارجہ، وزارت برائے خاندانی اُمور، سماجی پالیسیوں اور جسٹس کی مختلف وزارتوں کے متعدد نمائندوں کے ساتھ ملاقات کی ہے۔ دیگر ممالک کی طرف سے سوالات کے علاوہ کئی ایک موضوعات اور تازہ ترین صورتحال پر تبادلۂ خیال ہوا ہے۔ یہ ہماری کامیابی تھی۔ یونیورسل جائزہ میکانزم کے دوران ہمیں ترکی پر بہت سے سوالات کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ ۱۲۲؍ممالک کے نمائندوں نے ہم سے ۲۷۸ سوالات پوچھے یا تجاویز دیں۔ اجلاس کے بعد ۲۰ نمائندوں نے ہمیں مبارک باد بھی پیش کی۔ یہاں تک کہ کیوبا، سعودی عرب اور گیبون کے نمائندوں نے بھی آخر میں کہا کہ آپ کا دورہ بہت کامیاب رہا ہے۔
ترکی جن مسائل کو حل کرچکا ہے یا کرنے کے راستے پر ہے، اس کے حوالے سے ہمیں بڑے پیمانے پر اختلاف اور تنقید کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ پوچھے گئے سوالات ہمارے لیے فخر کا باعث تھے۔ ہم ایمانداری سے کہہ سکتے ہیں کہ ہم پہلے ہی ان کو لے کر گئے تھے اوراجلاس کے نتیجے میں ہم نے ۲۷۸ تجاویز اور سوالات میں سے ۱۹۹؍قبول کر لیے ہیں۔ ۵۲ سوالات پر ہم بحث کریں گے اور بعد میں کسی نتیجے پر پہنچیں گے۔ ہم نے ۲۷؍الزاما تی سوالات کی تردید کی ہے۔ ان الزامات میں قبرص، یونان اور مصر کی طرف سے ترکی پر لگائے گئے الزامات شامل ہیں۔ ہم سفارتی طور پر انہیں تسلیم نہیں کرتے۔
سوال: اس ملاقات میں، آرمینیا نے لفظ ’’نسل کشی‘‘ استعمال نہیں کیا اور صرف بین الاقوامی معاہدوں کا حوالہ دیتے ہوئے کئی ایک سوالات پوچھے تھے۔ کیا نسل کشی کے الزامات کے بعد سے، اس ’’مثبت‘‘ پیغام کو آرمینیا-ترکی تعلقات کو بہتر بنانے کی طرف ایک قدم کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے؟
جواب: آرمینی ترجمان ترکی پر الزام عائد کرنے کا ارادہ نہیں رکھتے تھے، ایک عام اظہار کے طور پر ’’نسل کشی‘‘ کے استعمال سے اصل میں وہ انسانی ہمدردی کے بارے میں کچھ ذکر کر رہے تھے۔ ہم نے انہیں بتایا کہ وہ ترکی کے ذریعے دیگر ممالک تک پہنچنے کے قابل ہیں۔ اس کے علاوہ، ترکی سے آرمینیا پروازیں بھی موجود ہیں۔ ہم نے انسانی ہمدردی کے مقاصد کے تحت ان کو مدد بھی دی ہے۔ ہم نے اپنے وژن سے آرمینیا کے ساتھ ایک اچھا پڑوسی اور دوست ملک ہونے کا اظہار کیا ہے۔ ۲۴؍اپریل ۲۰۱۵ء تارکینِ وطن کے لیے ایک اہم تاریخی دن ہے۔ ہم نسل کشی کے الزامات میں زیادہ تر تارکینِ وطن کی مکمل حمایت حاصل نہیں کر رہے ہیں۔ مجھے اپریل تک آرمینیا کے ساتھ تعلقات کو بہتر ہونے کی توقع نہیں ہے۔ تاہم، مستقبل میں مثبت پیش رفت ہو جائے گی۔ پانچ سال پہلے ہم نے سوئٹزرلینڈ میں آرمینیا کے ساتھ کچھ معاہدوں پر دستخط کیے۔ ہم آرمینیا کے ساتھ تعلقات قائم کرنے کے لیے تیار نہیں تھے، تاہم ہم نے سرحدوں کو کھولنے اور کچھ شرائط کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کر لیے۔ شرائط میں سے ایک ہمارے دوست اور پڑوسی ملک آذربائیجان کے ساتھ اس کا تنازع تھا۔ اس رشتے کی بہتری کے ساتھ، ہم کچھ اوراقدامات کرنے جارہے ہیں۔ آرمینی عوام اور حکومت ترکی کے ساتھ اپنے تعلقات کو مضبوط بنانا چاہتے ہیں۔ دونوں ملکوں کے درمیان ایک مشترکہ تاریخ ہے۔ آرمینی سلطنت عثمانیہ میں ’’وفادار لوگ‘‘ کے طور پر جانے جاتے تھے اور عثمانی سلطنت کے آخری عشروں میں آرمینی بغاوتوں کو ایک طرف رکھ کر ہمیں تاریخی ہم آہنگی جاری رکھنے کی ضرورت ہے۔ یہ یکجائی آرمینیوں کے لیے خصوصی نہیں بلکہ یہودیوں اور یونانیوں کے لیے بھی ہے۔ ہم ایک کثیر الثقافتی معاشرے میں رہتے ہیں۔ ہم سب کی مشترکہ ثقافت کی بقا اکھٹے رہنے اور ایک دوسرے کو برداشت کرنے میں ہے۔ یہ خصوصیت دنیا کے لیے قابلِ تقلید مثال ہے۔ یورپی یونین کو نمایاں کرنے کے لیے ترکی کو یورپ میں مکمل طور پر شامل ہونے دینا چاہیے۔
سوال: اگر آپ واقعی آرمینیا کے ساتھ تعلقات کے حوالے سے مثبت پیش رفت کی توقع کر رہے ہیں تو اس کے لیے آپ نے کیا تیاری کی ہے؟
جواب: یہ پہلے سے ہی ہماری روایتی خارجہ پالیسی ہے۔ ہم نے ہمیشہ اپنے ہمسایہ ممالک کے ساتھ ایسی پالیسی اپنانے کی کوشش کی ہے۔ اسی تناظر میں، ہم آرمینیا کے ساتھ فی الحال کسی نئے منصوبے میں نہیں ہیں۔ تاہم دوستی کرنے اور سفارتی تعلقات قائم کرنے کے لیے یہ اقدامات اپریل کے بعد کرنے چاہئیں۔ اپریل میں اگر وہ مناسب رویے کا مظاہرہ کرتے ہیں تو ہم ایک مثبت پیش رفت کے طور پر سوچنے اور دوستی کے لیے ہاتھ بڑھا سکتے ہیں۔
سوال: گزشتہ ہفتوں میں آپ نے مصر اور خلیجی ممالک کے ساتھ تعلقات کی بہتری کے حوالے سے ایک بیان دیاتھا۔ کیا ان بیانات کی تشریح کرنا ممکن ہے؟
جواب: بہت سے دیگر سیاست دانوں اور میرے مطابق، مصر اور ترکی کی تاریخ مشترک ہے اور مشرقِ وسطیٰ میں اپنے کردار کے حوالے سے دونوں ممالک کے درمیان ہمیشہ سے دوستانہ تعلقات موجود تھے۔ تاہم مصر میں حکومت کی تبدیلی کے بعد مصر کے بارے میں ہمارے صدر اور حکومت کا رویہ بڑا واضح ہے۔ ترکی، سعودی عرب اور مصر مشرقِ وسطیٰ میں اہم ممالک ہیں۔ اچھے تعلقات استوار نہ رکھنے پر مصر اور ترکی دونوں کو نقصان پہنچے گا۔ قطر نے اپنے تعلقات پر نظرثانی کی ہے اور مصر کے ساتھ کچھ حد تک اتفاق کیا ہے۔ ہم مصر میں منتخب حکومت ہٹا دینے سے اتفاق نہیں کرسکتے۔ ہم نے ہمیشہ مصر میں اس تبدیلی کے حوالے سے اختلاف کا اظہار کیا ہے۔ حقیقت میں ترکی اور مصر، دونوں ایک دوسرے پر انحصار کرتے ہیں۔ ان ممالک کے درمیان تعاون ہو رہا ہے۔ تاہم تمام تنازعات کو پُرسکون اور خطے میں امن کے حصول کے لیے حل ہونا ضروری ہے۔ اس کے لیے مَیں، صدر ایردوان کی سعودی بادشاہ کی نمازِ جنازہ میں شرکت کو درست اقدام سمجھتا ہوں۔ مجھے لگتا ہے کہ مستقبل قریب میں صدر یا وزیراعظم کی طرف سے سعودی عرب کے شاہ سلمان کے تخت سنبھالنے کی وجہ سے وہاں کا دورہ کیا جائے گا۔
ہم واپس اپنے موضوع، مصر اور ترکی کی طرف آتے ہیں۔ میرا خیال ہے کہ مصر میں جمہوریت کی بحالی کے لیے ایک تاریخ مقرر کر دینی چاہئے۔ مصر میں سیاسی جماعتوں کو سرگرمیوں کی اجازت بھی دینی چاہیے۔ مصری حکومت جیل میں ناحق قید محمد مرسی کو رہا کر دے۔ اسی طرح ایک ہزار سیاسی قیدیوں پر قتل کے مقدمات کرنے کی ہرگز اجازت نہیں دینی چاہیے۔ لہٰذا، ترکی اور مصر کے تعلقات بہتر بنانے کے لیے ہمیں عملاً نظر آنا چاہیے کہ مصر جمہوریت کی بحالی کی جانب مثبت اقدامات اٹھا رہا ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ مصر کے لیے ایسا کرنا ایک مشکل کام ہے۔ لیکن مصر کا رویہ درست کرنے کے لیے ’’محرک‘‘ ممالک کی ضرورت ہے۔ خطے اور دنیا، دونوں کو اس کی ضرورت ہے۔
سوال: آپ چونکہ نائب وزیراعظم ہیں اور اقلیتوں کے لیے ذمہ دار ہیں۔ کیا آپ مزید اقلیتی امیدواروں کو آئندہ پارلیمان میں دیکھ رہے ہیں؟
جواب: علوم و فنون وغیرہ کے میدان میں اقلیتوں کے بہت قیمتی لوگ ہیں، جون کے انتخابات میں اقلیتوں کے ساتھ ساتھ خواتین اور نوجوان امیدواروں کو بھی زیادہ تعداد میں شامل کرنا چاہیے۔ تاسیسی قانون کے مطابق پارلیمان میں، اقلیتی برادری میں سے ایک رکن موجود ہے۔ ہم ان کی موجودگی سے بہت فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ میں ذاتی طور پر وزیراعظم کے ساتھ اس بارے میں بات کروں گا۔ ماضی کی طرح ہمیں اس اتحاد کی بہتری کے لیے کام کرنا چاہیے۔ وزیراعظم نے ایک بہت ہی مثبت پیش رفت کی ہے اور اتین محچو پیان (Etyen Mahçupyan) کو مشیرِ خاص بنایا ہے۔ میں انتخابی عمل سے پہلے اس معاملے پر کئی اقدامات کی توقع کر رہا ہوں۔
(مترجم: آصف رضا)
“Turkish people’s nature is inclined to a presidential system”. (Daily “Sabah” Ankara. February 1, 2015)
Leave a Reply