مشرقِ وسطیٰ میں ترکی کا کردار

ترکی کے وزیر اعظم رجب طیّب اردوان کا یہ انٹرویو قطر کے ’الجزیرہ‘ ٹیلیویژن نیٹ ورک کے ٹاک شو Talk To Al-Jazeera کے لیے میزبان جمال الشایال نے لیا تھا۔ واضح رہے کہ یہ انٹرویو ۳۰ مارچ کوترکی میں ہوئے بلدیاتی انتخابات سے قبل لیا گیا تھا۔ (ادارہ)


جمال الشایال:

آپ کا کہنا ہے کہ آپ کی حکومت کی اقتصادی کامیابیوں کا راز یہ ہے کہ آپ نے کرپشن کو ختم کردیا ہے۔ آج ترکی کو اپنی تاریخ کے بڑے کرپشن اسکینڈل کا سامنا ہے۔ اب وزرا کرپشن میں ملوث ہیں۔ جوتے کے ڈبّوں میں رقم ملی ہے۔ کابینہ کے ارکان اپنے اختیارات کا ناجائز استعمال کر رہے ہیں۔ کیا آپ ایک کرپٹ حکومت کی قیادت کر رہے ہیں؟

رجب طیّب اردوان:

سب سے پہلے چند باتوں کی وضاحت بہت ضروری ہے۔ اس وقت ہماری حکومت کو جن مشکلات کا سامنا ہے، وہ پیدا کی گئی ہیں اور بدقسمتی سے یہ مشکلات ایک بغاوت کے انداز میں سامنے آئی ہیں۔ البتہ یہ کوئی مستقل اور دیرپا مسئلہ نہیں ہے بلکہ دراصل یہ ایک بہتان ہے۔ مجھے اس بات کا پورا یقین ہے کہ سرکاری خزانے سے کچھ نہیں چُرایا گیا۔ ہم نے جو کہا تھا، ہم اسی راہ پر گامزن رہے اور اسی کے نتیجے میں ہم کامیابی سے یہاں تک پہنچے ہیں۔ ہمارے پیشِ نظر تین مقاصد تھے: کرپشن، غربت اور پابندیوں کے خلاف جدوجہد۔ کرپشن کے خلاف کوششوں کے نتیجے میں ہم نے ترکی کی معیشت میں قومی آمدنی کے مقابلے میں تین گنا اضافہ کیا۔ ہماری GDP ۲۳۰ بلین ڈالر تھی، جو اَب ۸۰۰ بلین ڈالر ہے۔ کیا کوئی حکومت، جو کرپشن میں ملوث ہو، یہاں تک پہنچ سکتی ہے؟

ایک اور اہم پہلو یہ ہے کہ ترکی کی برآمدات کا حجم ۳۶ بلین ڈالر تھا، لیکن اب ترکی کی برآمدات ۱۵۲؍ بلین ڈالر ہیں۔ اس کی وجہ ہماری برآمدات کو فروغ دینے کی معاشی پالیسی ہے۔ ایک اور اہم بات یہ کہ ترکی اپنے واجبات کی ادائیگی میں اچھے مقام پر آگیا ہے۔ ہمارے مجموعی واجبات GDP کا ۷۳ فیصد تھے، جو کم ہو کر ۳۶ فیصد رہ گئے ہیں۔ کیا کوئی حکومت یا حکمراں جماعت کرپشن میں ملوّث رہتے ہوئے یہ کامیابیاں حاصل کرسکتی ہے؟

مثال کے طور پر، خرید پر سود کا ریٹ حکومت کے لیے ۳۔۶ فیصد تھا جو ۶۔۴ فیصد پر آگیاتھا، لیکن حالیہ صورت حال میں یہ پھر ۱۰ فیصد پر چلا گیا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ یہ دوبارہ کم سے کم سطح پر آجائے گا۔

سال ۲۰۱۳ء کی ابتدئی تین سہ ماہیوں میں ترقی کی شرح ۴فیصد رہی ہے اور مجھے یقین ہے کہ سال کے اختتام تک یہ شرح ۸ء۳ فیصد ہوگی۔ چنانچہ ہماری حکومت کرپٹ نہیں ہے۔ یہ ایک بہتان ہے اور جو لوگ اس بہتان کے پیچھے ہیں، انہیں قانون کے دائرے میں اس کی قیمت ادا کرنی ہوگی۔ کیا قومی خزانے پر ڈاکا ڈالا گیا ہے؟ جوتوں کے ڈبّوں سے متعلق معاملہ Halk Bank سے پیسے چرانے کا نہیں ہے۔ یہ Halk Bank وہ بینک ہے کہ جب ہم اقتدار میں آئے تو یہ دیوالیہ ہو چکا تھا۔ اب یہ Halk Bank پورے بالقان اور یورپ میں سب سے زیادہ منافع بخش بینک ہے۔ یہ لوگ ان سب چیزوں کو نظر انداز کر رہے ہیں۔ مثال کے طور پر، بینکوں کے ضابطوں اور نگرانی پر مامور ایجنسی نے جب بینک کا جائزہ لیا تو انہوں نے اپنی رپورٹ میں لکھا کہ بینک کے ساتھ کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ کیا ہم رپورٹ پریقین کر یں گے یا بہتان لگانے والوں پر؟

جمال الشایال:

اچھا تو آپ اُن لوگوں کے دعوئوں کے بارے میں کیا کہیں گے، جو کہتے ہیں کہ آپ نہ صرف کرپشن میں ملوّث رہے بلکہ آپ نے پولیس کے اعلیٰ عہدے داروں کے تبادلے کر کے قانونی امور کو اپنے ہاتھ میں لیا؟

رجب طیّب اردوان:

دراصل عدلیہ اور پولیس کے ایک طبقے کے مابین ملی بھگت ہے، جس کے نتیجے میں حکومت کے خلاف بغاوت کی کوشش کی گئی۔ میں اس کو ایک متوازی ریاست کہہ چکا ہوں۔ یقینا ہمیں اس متوازی حکومت کے خلاف لڑنا چاہیے۔ ہم اس ملک پر حکومت کر رہے ہیں۔ کل ہمارے لوگ اس بارے میں ہم ہی سے سوال کریں گے۔ چنانچہ ہمیں جاننا چاہیے کہ مسئلہ کہاں ہے۔ ہم نے یہ دیکھا ہے کہ جو فائلیں پولیس نے بنائیں اور جو عدلیہ نے بنائی ہیں، دونوں میں فرق ہے۔ دوسری طرف یہ فائلیں میڈیا کو جاری کردی گئیں۔ جن لوگوں پر الزامات لگائے گئے، وہ قابلِ احترام کاروباری حضرات اور سیاستدان ہیں، اور الزام، الزام ہوتا ہے، جب تک کہ وہ ثابت نہ ہو جائے۔ کیا آپ ان کا احترام لوٹا سکتے ہیں؟ کل ان لوگوں کو دوبارہ کاروبار کرنا ہے۔

مثال کے طور پر، ہمارے تیسرے ایئر پورٹ کی تعمیر پر ۴۲ بلین ڈالر لاگت آنا ہے۔ حکومت اپنے خزانے سے کوئی رقم نہیں دے رہی ہے۔ اب اس میں کرپشن کہاں ہے؟ اس ایئر پورٹ کو ۲۰ سال تک یہی کاروباری حضرات چلائیں گے اور پھر ریاست کے حوالے کر دیں گے۔ ان حضرات کو ۴۲ بلین ڈالر چاہئیں، جو وہ ترکی کے کمرشل بینکوں یا بیرونِ ملک سے حاصل کریں گے۔ لیکن اگر آپ یوں ان لوگوں پر بہتان لگائیں گے اور کیچڑ اچھالیں گے، تو کیا ان کی ساکھ متاثر نہیں ہوگی؟ کیا یہ غداری نہیں ہے؟ ہم جو اِقدامات اٹھا رہے ہیں، وہ قانون کے دیے ہوئے اختیارات کے تحت ہیں۔

میں یہاں ایک بات کہوں گا۔ یہ جو تقرریاں کی گئی ہیں، یہ محض تبادلے ہیں۔ کسی کو ملازمت سے فارغ نہیں کیا گیا۔ اور جب ہم دوبارہ ان کی تقرری کر رہے ہیں، تو وہ بھی قانون کے دیے گئے اختیارات کے تحت۔ ہم ریاست چلا رہے ہیں اور وہ ہمیں کامیابی سے چلانا ہے۔ اگر کوئی غلط کررہا ہو تو ہم پر واجب نہیں کہ ہم اسی جگہ پر اسے برقرار رکھیں۔ وہ پابند ہیں کہ کسی پر لگائے گئے الزامات کا حساب دیں۔ ہمارے یہاں ججوں اور استغاثہ کی ایک سپریم کونسل ہے، جس کے ذمّہ عدلیہ سے متعلق امور ہیں۔ ان لوگوں کا معاملہ اس کونسل کے سپرد کیا گیا ہے۔ یہی کونسل ان کی دوبارہ تقرریوں سے متعلق فیصلہ کرے گی۔ لیکن سلامتی سے متعلق امور ہمارے ذمہ ہیں اور وہ ہم کر رہے ہیں۔

جمال الشایال:

تو کیا آپ کو اپنے وزرا، کابینہ کے ارکان یا قریبی اتحادیوں پر اعتماد ہے کہ وہ کرپشن میں ملوّث نہیں ہیں؟

رجب طیّب اردوان:

کیا میں کسی ایسے شخص کو وزارت دوں گا جس پر مجھے اعتماد نہ ہو؟ میں نے ان کو اس لیے وزارتیں دی ہیں کہ مجھے ان پر اعتماد ہے۔ اگر میرے ان دوستوں نے کچھ غلط کیا ہوگا تو عدلیہ ان کے خلاف کارروائی کرے گی۔ ان دوستوں نے بڑے پن کا مظاہرہ کیا ہے۔ جب یہ مہم شروع ہوئی تو ہمارے دوستوں نے کہا کہ ہم وزیراعظم کے کہنے پر اپنے عہدوں سے استعفے دینے کو تیار ہیں۔ انہوں نے اپنی مرضی سے استعفے دیے اور مطالبہ کیا کہ ہمیں اپنی ذمہ داریوں سے فارغ کردیا جائے۔ اب عدالتی کارروائی ہورہی ہے، جس کے نتیجے میں ہم چیزیں زیادہ بہتر طور پر دیکھ سکیں گے۔

جمال الشایال:

کیا آپ جانتے ہیں کہ آپ پر صرف کرپشن ہی کے الزامات نہیں ہیں، بلکہ کچھ لوگ گزشتہ سال استنبول میں غازی پارک کے مظاہرین سے نمٹنے کے طریقے پر بھی تنقید کرتے ہیں۔ آپ ان لوگوں کے الزامات کے بارے میں کیا کہیں گے، جو کہتے ہیں کہ ترکی اب جمہوریت سے آمرانہ طرزِ حکومت کی جانب بڑھ رہا ہے؟

رجب طیّب اردوان:

ترکی، یورپی یونین کے تقریباً تمام ممالک سے زیادہ آزاد ہے۔ اب آپ غازی پارک کے واقعہ کی بات کر رہے ہیں۔ آپ کیوں فرینکفرٹ (جرمنی) میں ہونے والے واقعات کو نظر انداز کرتے ہیں؟ ابھی حال ہی میں ہیمبرگ میں ایک واقعہ ہوا ہے۔ کیوں آپ اس واقعہ کو نہیں دیکھتے؟ آپ نے دیکھا ہوگا، پولیس نے وہاں کیا کیا ہے۔

جمال الشایال:

لیکن اگر کوئی غلط کر رہا ہے تو اس کا مطلب یہ تو نہیں کہ آپ بھی غلط کریں؟

رجب طیّب اردوان:

میں یہ نہیں کہہ رہا۔ میں تو صرف یہ پوچھتا ہوں کہ غازی پارک کا واقعہ میڈیا کے ایجنڈے پر تھا یا نہیں؟ اس واقعہ کے پیچھے کوئی اچھے ارادے نہیں تھے۔ وہ صرف بارہ درختوں کے اکھاڑنے کا معاملہ تھا۔ آپ کو اس واقعہ کی حقیقت معلوم ہے؟ جو لوگ انتخابات میں ناکام ہوئے، انہوں نے کامیابی حاصل کرنے کے لیے دوسرے ذرائع اختیار کیے۔ اگر وہ جمہوریت پر یقین رکھتے ہیں اور آزادیٔ اظہار کا تحفظ چاہتے ہیں، تو کیا وہ پیٹرول بموں سے اور دکانوں اور املاک کو نقصان پہنچا کر یہ کام کریں گے؟ کیا آزادی کے لیے ایسے جدوجہد ہوسکتی ہے؟ میں آزادی کے لیے جدوجہد کرکے آیا ہوں۔ مجھے ایک نظم پڑھنے کی وجہ سے جیل میں ڈال دیا گیا۔ میں اس تجربہ سے گزرا ہوں اور میری کتاب میں کوئی بات ایسی نہیں کہ میں ان لوگوں کے خلاف کھڑا ہوں، جو آزادی کے لیے جدوجہد کر رہے ہوں۔ ہماری جماعت نے لوگوں کے پاس جاکر قوم کو متحرک کیا ہے۔ ہمیں مظاہروں سے کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ جو لوگ مظاہرہ کرنا چاہتے ہیں، وہ مقررہ مقامات پر مظاہرے کریں، نہ کہ جہاں ان کی مرضی ہو، اور وہیں پریس کے لیے اعلامیے جاری کریں۔ بلاشبہ یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم ان واقعات کی روک تھام کریں اور ان لوگوں کے خلاف کارروائی کریں، جو اربوں ڈالر مالیت کی عوامی املاک کو نقصان پہنچا رہے ہوں۔

جمال الشایال:

آپ یہ الزام لگاتے رہے ہیں کہ آپ کی حکومت گرانے کے لیے سازشیں ہو رہی ہیں۔ آپ کے خیال میں اس سازش کے پیچھے کون لوگ ہیں؟ آپ کی حکومت گرانے سے ان کو کیا فائدہ پہنچے گا اور اس الزام کا آپ کے پاس کیا ثبوت ہے؟

رجب طیّب اردوان:

جب ہماری پارٹی کی ایوان میں اتنی اکثریت تھی کہ ہم آئین تبدیل کر سکتے تھے، تو ہماری پارٹی پر پابندی لگانے کے مطالبات سامنے آنے لگے۔ اور آپ کو معلوم ہے کہ پابندی کا کیا جواز پیش کیا گیا؟ اخباری رپورٹس، اور بنیادی طور پر ایک اخبار کی رپورٹس۔

میں آپ کو ایک مثال دیتا ہوں۔ ایک رپورٹ جس کا بار بار حوالہ دیا گیا، وہ اسپین میں میری تقریر تھی، جو میں نے وہاں اُن لڑکیوں کے حق میں کی تھی جو اپنے عقیدے کی پیروی کرتے ہوئے سر پر حجاب لیتی ہیں۔ اس تقریر کو میری پارٹی پر پابندی کے لیے جواز بنایا گیا۔ کیا ایسا ہو سکتا ہے؟ یہ کسی کو اپنی مرضی کے مطابق اپنے مذہب پر کاربند رہنے کی آزادی تو نہیں ہے۔ بلکہ یہ ایک سوچ ہے، جو مذہبی آزادی کو برداشت نہیں کرسکتی۔ انہوں نے ہماری پارٹی پر پابندی لگانے کے لیے دوبارہ اس بند کیس کو کھول کر کہا کہ یہ سیکولرازم کے خلاف ہے۔ جب کہ میری پارٹی کے پروگرام میں سیکولرازم کی تعریف موجود ہے اور ہم نے اس پر مکمل عمل درآمد کیا ہے۔

اگر آپ مجھ سے پوچھتے ہیں کہ ہمارے نزدیک سیکولرازم کی تعریف کیا ہے ؟ تو ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ریاست کے نزدیک تمام عقائد کے لوگ برابر ہیں۔ خواہ وہ مسلمان ہوں، عیسائی ہوں یا بے دین۔ ان کا تحفظ ریاست کی ذمہ داری ہے۔ یہی ترکی میں ہماری حکومت نے کیا ہے اور میں یہ سمجھتا ہوں کہ ہم اس میں کامیاب ہیں۔ نہ تو جمہوریت اور ٹیوشن (Tuition) پڑھانے کا پیشہ دونوں برابر ہیں اور نہ ہی ملک کو کبھی ججوں کی حکومت کے حوالے کیا جاسکتا ہے۔ یہ ملک کے لیے برا ہوگا۔ ہم چاہتے ہیں کہ عدالت آزاد اور غیر جانبدار رہتے ہوئے کام کرے۔ عدلیہ خود کو قانون ساز اداروں اور حکومت سے زیادہ برتر نہ سمجھے، کیوں کہ اختیارات کی علیحدگی بنیادی اہمیت کی حامل ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ عوام کی خوشی اور امن کی ضمانت اس بات میں مضمر ہے کہ قانون ساز ادارے، حکومت اور عدلیہ ایک دوسرے کے امور میں مداخلت نہ کریں۔

جمال الشایال:

جناب وزیراعظم! قبل اس کے کہ ہم علاقائی مسائل کی جانب بڑھیں۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ آپ کے دور میں ترکی نے معاشی میدان میں ترقی کی۔ GDP میں چار گنا اضافہ ہوا، سیاحت پھلی پھولی اور کرپشن میں بھی اضافہ ہوا۔ لیکن اب ترک کرنسی لرا گزشتہ کئی سالوں کے مقابلے میں نیچے آگئی ہے۔ کیا آپ سمجھتے ہیں کہ آپ پر ہونے والی حالیہ تنقید آپ کی کامیابیوں کے باوجود موجودہ بحران کی وجہ سے ہے؟

رجب طیّب اردوان:

ہمیں اقتصادی مسائل، خاص طور پر بیرونی کرنسی کے تبادلے میں، مسائل کا سامنا نہیں ہے۔ کچھ مسائل تھے جو اب معمول پر آنا شروع ہوچکے ہیں۔ اگر پیش رفت ویسی نہ ہوئی، جیسی ہم چاہتے ہیں، تو ہم کچھ اقدامات اٹھائیں گے۔ ایک چیز جو ہمارے پیش نظر ہوتی ہے، وہ یہ کہ ترکی قرضے لے رہا ہے یا دے رہا ہے؟ ہم ان ممالک میں سے نہیں جو قرضے لے رہے ہیں۔ ہم اپنے قدموں پہ کھڑے رہ سکتے ہیں۔ ترکی نے اپنی سرمایہ کاری میں ذرا بھی کمی نہیں دیکھی ہے۔ یہ وہ ملک ہے جہاں سرمایہ کاری جاری ہے۔ یہ وہ ملک ہے جہاں امن کا ماحول کبھی ٹوٹا نہیں ہے اور ہم اسی عزم کے ساتھ آگے بڑھ رہے ہیں۔

ترک کرنسی لرا کا جہاں تک تعلق ہے تو اس کے نتیجے میں ہماری درآمدات مہنگی ہوگئی ہیں۔لیکن یہ میرے نزدیک مثبت پیش رفت ہے نہ کہ منفی۔ کیوں کہ اس کے نتیجے میں ہماری برآمدات میں اضافہ ہوا ہے۔ ترکی کی برآمدات اس وقت ماہانہ بنیادوں پر ریکارڈ بلندی پر ہے۔ ہم جس مقام تک پہنچ چکے ہیں، کوئی حکومت بغیر کچھ کیے یہاں تک نہیں پہنچ سکتی۔ گویا ترکی میں ترقی اور پیش رفت جاری ہے۔

جمال الشایال:

اب ہم کرد مسئلہ کے حوالے سے بات کرتے ہیں۔ آپ نے گزشتہ سال بڑی کامیابی حاصل کی، جب آپ نے کردوں کے ساتھ ایک معاہدے پر دستخط کیے، لیکن اس معاہدے نے معاملات کو ٹھنڈا تو کیا، پر حل نہیں کیا۔ میرا سوال ہے کہ اس مسئلہ کے مستقل حل کے لیے آپ کا کیا وژن ہے؟ اور کیا آپ کے اس وژن کے مطابق ترکی میں بسنے والے ’کرودوں‘ کو کسی قسم کی خود مختاری مل سکے گی؟

رجب طیّب اردوان:

پہلی بات تو یہ کہ ہمیں ترکی کے مختلف علاقوں کو خود مختاری دے دینے میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ ہم کسی صورت اس کی اجازت نہیں دیں گے۔ ترکی مجموعی طور پر ۷ لاکھ ۸۰ ہزار مربع کلو میٹر رقبہ پر محیط ایک ملک ہے۔ لیکن یہاں ۳۶ مختلف نسلوں کے لوگ آباد ہیں اور یہ ایک دوسرے کے بھائی ہیں۔ ہم سب اس مادر وطن کے بیٹے ہیں اور ایک پرچم کے نیچے اکٹھے ہیں۔ ہم سب جمہوریہ ترکی کے شہری ہیں۔

لہٰذا جب ہم کسی سے پیار کرتے ہیں تو انسانوں سے پیار کرتے ہیں اور اس پیار کرنے کی وجہ یہ ہے کہ انہیں ’خالق‘ نے بھیجا ہے۔ ہم نے کبھی لوگوں کے درمیان تفریق نہیں کی۔ چنانچہ کرد میرے بھائی ہیں اور ترک بھی میرے بھائی ہیں۔ اسی طرح لاز، چرکاسیّن، جارجین، ابخاز، بوسنین اور روما، یہ سب میرے بھائی ہیں۔ ترکی کو پہلے کبھی ایسی حکومت نہیں ملی۔ اس ملک میں پہلے کبھی کوئی ایسا وزیراعظم نہیں آیا جس نے اپنے مخالف نسل کے شہری کو اپنا بھائی کہا ہو۔ یہ روایت مجھ سے پڑی، کیوں کہ یہ میری اقدار میں شا مل ہے۔ اور چوں کہ یہ میری اقدار میں شامل ہے، لہٰذا میں انہیں کسی اور سمت نہیں دھکیل سکتا۔ خدا نے ہمیں اسی طرح بنایا ہے اور ہم کسی صورت اپنے درمیان تفریق نہیں کرسکتے۔ اور اگر آپ غور کریں تو رائے عامّہ کے جائزوں میں کرد شہریوں کے درمیان ہماری پارٹی سب سے زیادہ مقبول ہے، جسے سب سے زیادہ ووٹ ملے۔ دیگر پارٹیاں ہم سے بہت پیچھے ہیں۔ ایسا کیوں ہے؟ اس لیے کہ ہم لوگوں کے درمیان فرق نہیں کرتے۔ مثال کے طور پر، ہمارے کرد شہریوں کی اکثریت جنوب مشرقی اناطولیہ میں رہتی ہے۔ جمہوریہ ترکی کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ہمارے دور میں اس علاقے میں بے مثال سرمایہ کاری ہوئی۔ ملک کا یہ حصہ ریاست سے علیحدگی کے قریب کھڑا تھا۔ اگر اس علاقے میں پہلے کبھی مقامی یا بین الاقوامی سطح پر سرمایہ کاری ہوئی بھی، تو وہ بھی پرائیویٹ سیکٹر میں۔ لیکن بدقسمتی سے اس علاقے کو جتنا ملنا چاہے تھا، وہ نہ مل سکا۔

ہم نے ابھی تک اس کرد اکثریتی علاقے میں بنیادی ڈھانچے (Infrastructure) پر سرمایہ کاری کی ہے اور سرمایہ کاری کے لیے مراعات بھی دی ہیں۔ یہ خطہ ہماری ترجیح میں سرفہرست ہے۔ ہم نے وہاں ٹیکسوں اور توانائی میں چھوٹ دی، زمینیں تقسیم کیں اور سڑکیں اور سرنگیں بنائیں۔ ہم اس سرمایہ کاری کو مزید وسعت دینا چاہتے ہیں تاکہ بیروزگاری کم کی جا سکے۔ مگر لوگ کرپشن کا الزام لگاتے ہیں۔ کیا کرپشن میں ملوث کوئی حکومت یہ کر سکتی ہے؟

جمال الشایال:

شام میں جاری جنگ تیسرے سال میں داخل ہوچکی ہے اور آپ یہ کہتے رہے ہیں کہ اس جنگ کا ایک ہی حل ہے کہ صدر بشار الاسد کو اقتدار بدر کیا جائے۔ جب کہ آپ کے وزیر خارجہ احمد دائود اوغلو نے جنیوا میں ہونے والی کانفرنس میں شرکت کی، جس میں بشار الاسد بھی موجود تھے۔ کیا یہ اس بات کا اشارہ ہے کہ آپ کے موقف میں تبدیلی آئی ہے؟ مزید یہ کہ آپ کی نظر میں جنیوا میں ہونے والے مذاکرات سے کیا نتائج برآمد ہوں گے؟ کیوں کہ ہمیں تو ابھی تک کوئی نتیجہ دکھائی نہیں دے رہا۔

رجب طیّب اردوان:

بشار الاسد کے حوالے سے میری سوچ میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔ میری رائے میں موجودہ بشار الاسد اس سے مختلف ہے، جو وہ تین سال قبل تھے۔ اب یہاں ایک بے رحم شخص ہے جو لوگوں کو قتل کر رہا ہے۔ ایک آمر، اور یہ میں کھلے عام کہہ رہا ہوں۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ایک لاکھ ساٹھ ہزار لوگوں کو قتل کیا گیا ہے۔ جب کہ غیر سرکاری ذرائع اس سے دگنی، یعنی تین لاکھ ہلاکتیں بتارہے ہیں۔

یہ شخص، جس کی وجہ سے اور جس کے کہنے پر اتنے لوگوں کو مارا گیا ہے، قاتل نہیں تو اور کیا ہے؟ کیا جن لوگوں کو قتل کیا گیا، وہ بشار الاسد کے بھائی اور شہری نہیں تھے؟ کیسے ان لوگوں کو قتل کیا گیا؟ کیمیائی اور روایتی ہتھیاروں سے، اور اب وہ فاسفورس بم استعمال کر رہے ہیں۔ بندوقیں اور ٹینک استعمال کیے گئے۔ وہاں بچے، خواتین اور بوڑھے مارے گئے۔ اس آدمی کا دفاع کیسے کیا جاسکتا ہے؟ جو اس کا دفاع کرتا ہے، وہ اس جرم میں اس کا شریک ہے۔ اور ہم اپنے عزم پر قائم ہیں، جیسے پہلے تھے۔

اب میرے ملک میں شام سے آئے ہوئے ۷ لاکھ مہاجرین ہیں۔ ہمارے دروازے ان کے لیے کھلے ہیں اور ہم نے سرحدوں پر اپنے بھائیوں کا استقبال کیا ہے۔ ہم کچھ نہیں کرسکتے، سوائے ان کی مدد کے۔ اوران کی مدد کے لیے جو ہم کرسکتے ہیں، وہ کریں گے۔ اب تک ہم ڈھائی ارب ڈالر ان پر خرچ کر چکے ہیں، جب کہ بین الاقوامی برادری سے ہمیں ۱۳ کروڑ ڈالر ملے ہیں۔ ہمیں یہاں امداد کے بارے میں سوچنا ہوگا۔ میں یہاں یہ بات واضح کر دوں کہ قطر نے سب سے زیادہ تعاون اور مدد کی ہے، جب کہ جزوی طور پر سعودی عرب نے بھی تعاون کیا ہے۔ باقی تمام لوگ تماشائی ہیں۔ یہ ہے وہ صورتحال جس کا ہمیں سامنا ہے۔

اس تمام صورتحال پر ہم نے مغربی ممالک سے بات کی ہے۔ گزشتہ دنوں جب میں روس میں تھا، تو میں نے صدر پیوٹن سے بات کی۔ میں نے ان سے سوال کیا کہ کب ہم ان مسائل پر اقدامات اٹھائیں گے؟ اس سے قبل ایران میں آیت اللہ خامنہ ای اور صدر حسن روحانی کو ساری صورتحال سے آگاہ کیا۔ لیکن بدقسمتی سے میں یہ نہیں کہہ سکتا کہ میں نے ان کی جانب سے متوقع سنجیدگی محسوس کی۔

دوسری جانب جب ہم دیکھتے ہیں کہ پیش رفت کیا ہے، تو حلب شہر مٹ چکا ہے۔ جب کہ حمص میں نظر یہ آرہا ہے کہ جنگ بندی کے ذریعہ وہ راستہ کھول رہے ہیں۔ لیکن یہ صرف تین دن کے لیے کھلے گا۔ جنگ بندی کا دورانیہ بڑھنا چاہیے تاکہ راستہ کھلے۔ یرموک میں لوگ بھوک سے مر رہے ہیں، کیوں کہ وہاں انسانی بنیادوں پر امداد نہیں پہنچائی جا سکتی۔ ابھی حال ہی میں قتل کیے گئے ۵۵ ہزار افراد کی تصاویر آئی ہیں۔ کیا ہمیں نظر نہیں آرہا؟ کیا ہم انسان نہیں ہیں؟ ہمیں کب ہمارے احساسات اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا اجلاس بلانے اور ان مظلوم لوگوں سے اظہارِ یکجہتی کرنے پر آمادہ کریں گے؟ سلامتی کونسل دنیا میں امن کے لیے اپنا کردار ادا نہیں کر رہی ہے۔ اسے چاہیے کہ وہ اپنی ذمہ داری پوری کرے۔ اگر سلامتی کونسل اپنے فرائض سے عہدہ برآ نہیں ہوتی، تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اس میں اصلاحات ضروری ہیں۔ یہاں ساری انسانیت کا مستقبل ایک ملک کے ہونٹوں کے درمیا ن بند ہے جو قابلِ قبول نہیں ہے۔

جمال الشایال:

جب آپ اس مسئلہ پر بات کرتے ہیں تو آپ مثالی بات کرتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ شام کی حکومت کو ایران اور روس کی، جن سے آپ نے بات کی ہے، بھرپور مدد حاصل ہے۔ شام کو ایران اور روس کی جانب سے مسلسل اسلحہ مل رہا ہے، چنانچہ زمین پر ان کی پوزیشن مضبوط ہے۔ نیز شام کو اپنے اتحادیوں کی جانب سے ویٹو کی مدد بھی مل رہی ہے۔ جب کہ دوسری جانب شام کے شہریوں کے لیے آپ لوگوں کی مدد زبانی ہے، یا پھر وہاں سے آنے والے مہاجرین کی میزبانی کی حد تک محدود۔ آپ لوگوں کی جانب سے ان کی مدد کے لیے کوئی حقیقی قدم نہیں اٹھایا گیا۔ لوگ یہ سوال اٹھا رہے ہیں کہ جنیوا مذاکرات سے کیا نتیجہ بر آمد ہو گا، جب ایک حریف کو ہر قسم کی مدد میسر ہو اور دوسرا حریف اس پہلو سے کمزور ہو؟

رجب طیّب اردوان:

جی ہاں! کیوں نہیں؟ شام کی حکومت جب بات چیت کے دوسرے دور میں جنیوا آئی تو اس نے پہلی ملاقات میں کیے گئے فیصلوں کو ماننے سے انکار کردیا۔ جو حکام ملاقات کے دوسرے دور میں شریک ہوئے، ان کو صرف چند ملکوں کو نقصان پہنچانے کے لیے بھیجا گیا تھا۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا وہ کسی کو نقصان پہنچا پائیں گے؟ جب کہ خود ان کی مثال ’بادشاہ ننگا ہے‘ کی سی ہے۔ حقیقت میں وہ اپنا دفاع نہیں کرسکتے۔ اور کر بھی کیسے سکتے ہیں؟ آپ نے ایک ملک کو ختم کر دیا ہے۔ اس ملک کے لوگوں کو بالکل زمین سے لگا دیا ہے اور اب آپ کس چیز کا دفاع کرنا چاہتے ہیں؟ آج بشارالاسد اور ان کے ساتھیوں کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ کسی کی بے عزتی کریں۔ وہ شام میں حکومت نہیں کر پارہے۔ انہوں نے شام کو ڈبو دیا ہے اور لاکھوں لوگوں کے مستقبل کو تاریک کردیا ہے۔ وہ انسانیت سے اتنے عاری ہوچکے ہیں کہ انسانی بنیادوں پر بھیجی جانے والی امداد کو بھی راستہ نہیں دے رہے۔ میں اور کیا کہہ سکتا ہوں۔ البتہ ہمیں جو کرنا چاہیے، وہ ہم کر رہے ہیں۔ شام کے مسئلہ پر کچھ ممالک ہمارے ساتھ ہیں۔ جن میں سب سے پہلے قطر اور پھر سعودی عرب۔ ہم اس جدوجہد کو جاری رکھیں گے۔

جمال الشایال:

وزیراعظم آپ کی شام کے حوالے سے پالیسی میں تبدیلی آئی ہے۔ گزشتہ دنوں ترک فوج کی جانب سے یہ کہا گیا ہے کہ انہوں نے ترکی اور شام کی سرحد سے ملحقہ شام کے علاقے میں القاعدہ کے لوگوں پر فضائی بمباری کی ہے۔ یہ بھی غور کیا گیا ہے کہ اب لوگوں کی آمدورفت، اشیا اور اسلحہ کی ترسیل میں کمی واقعہ ہوئی ہے۔ جب کہ پہلے سب کچھ آزادانہ ہو رہا تھا اور ریاست نے آنکھیں بند کی ہوئی تھیں۔ کیا یہ سب کچھ ترکی اور ایران کے تعلقات کے درمیان بڑھتی ہوئی شدت کے باعث ہے؟

رجب طیّب اردوان:

جیسا کہ آپ کو معلوم ہے کہ شام کے ساتھ ہماری ۹۱۱ کلو میٹر طویل سرحد ہے۔ اس سرحد پہ مسلح تصادم ہوتا رہتا ہے، جس کے نتیجے میں مارٹر گولے ہمارے علاقے میں گرتے ہیں۔ سرحد پہ جہاں دہشت گرد گروہ موجود ہیں، وہاں مجبوراً ہماری مسلح افواج کو مداخلت کرنی پڑتی ہے۔ یہ دہشت گرد گروہ ہمارے علاقے میں نہیں آسکتے اور جب آتے ہیں تو ہم ضروری اقدامات اٹھاتے ہیں۔ اسی طرح کوئی دہشت گرد تنظیم کا رکن ہمارے ہاں سے شام میں نہیں جاسکتا۔ ہم کسی صورت اس کی اجازت نہیں دیں گے۔ بدقسمتی سے ابھی تک ان سرحدی علاقوں میں ۷۴ ترک شہری شہید ہوچکے ہیں۔ ان واقعات پر ہم ہاتھ پہ ہاتھ رکھ کر نہیں بیٹھ سکتے۔

جمال الشایال:

آپ نے گزشتہ دنوں ایران کا دورہ کیا اور وہاں آپ نے کہا کہ آپ ایران میں ایسا محسوس کرتے ہیں جیسے اپنے گھر میں ہوں۔ دونوں ممالک کے درمیان اس گرم جوشی کے پیچھے کیا ہے؟

رجب طیّب اردوان:

جب ہم اسلامی دنیا میں جاتے ہیں جہاں مسلمان آبادی ہے، ہم محسوس کرتے ہیں کہ ہم اپنے گھر میں ہیں۔ اس بات کو کوئی اور معنی دینا غلط ہوگا۔ غالباً تمام مسلمان جب ایک دوسرے کے ملک سفر کرتے ہیں تو وہ اسے اپنا دوسرا گھر سمجھتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں کہہ لیجیے کہ جب ہم خلیج یا قطر جاتے ہیں، میں خود کو اپنے گھر میں محسوس کرتا ہوں اور جب وہ آتے ہیں تو وہ بھی یہی کہتے ہیں۔ یہ وہ اچھے، مہذّب اور نرم دل الفاظ ہیں جس کا تبادلہ ہم آپس میں کرتے ہیں۔

جہاں تک ایران کا تعلق ہے، ہمارے بہت اچھے تعلقات رہے ہیں۔ خاص طور پر دو سال پہلے تک۔ بدقسمتی سے شام میں ہونے والی حالیہ پیش رفت نے کچھ برے اثرات مرتب کیے ہیں۔ مثال کے طور پر ہماری تجارت کافی نیچے چلی گئی ہے۔ سال ۲۰۱۲۔۲۰۱۳ء میں یہ کمی ۳۵ فیصد رہی۔ لیکن ۲۰۱۵ء میں ہمارا ہدف ہے کہ ہم تجارتی حجم کو ۳۰ بلین ڈالر تک لے جائیں۔ مجھے امید ہے کہ ہم یہ ہدف حاصل کرلیں گے اور اس خلا کو پر کرلیں گے۔ ہماری اسٹریٹجک پارٹنر شپ بھی موجود ہے۔ ہم ایران سے ۱۰ بلین کیوبک میٹر قدرتی گیس بھی خرید رہے ہیں اور تیل بھی درآمد کر رہے ہیں۔ یقینا یہ اسٹریٹجک شراکت دار ہونے کا حصہ ہے۔

جمال الشایال:

اب مصر کے حوالے سے کچھ بات کرتے ہیں۔ تاریخی طور پر ترکی کے مصر کے ساتھ اچھے تعلقات رہے ہیں لیکن اب اچھے نہیں ہیں۔ آپ اُن لوگوں میں سے ہیں جنہوں نے مصر میں فوجی بغاوت پر کڑی تنقید کی۔ جس کی وجہ سے اب وہاں موجودہ حکومت آپ پر الزام لگا رہی ہے کہ آپ مصر کے اندرونی معاملات میں مداخلت کر رہے ہیں اور سفارتی تعلقات کو ممکنہ حد تک نیچے لے گئے ہیں۔ آپ ان لوگوں کو کیا جواب دیں گے، جو الزام لگاتے ہیں کہ مصر کے حوالے سے آپ نے جو موقف اختیار کیا ہے، وہ آپ کے صدر محمد مرسی اور اخوان المسلمون کے ساتھ نظریاتی تعلق کا مظہر ہے، نہ کہ وہ موقف جو ترکی کے مفاد میں ہو؟

رجب طیّب اردوان:

میں بالکل کھلے اور واضح انداز میں یہ بات کہتا ہوں کہ مصر کے عوام کی بڑی اکثریت ہمارے بھائی ہیں۔ ہم مصرکے لوگوں کو کبھی نظرانداز نہیں کرسکتے۔ یہ ممکن ہی نہیں ہے۔ لیکن بطور AK پارٹی کی حکومت، ہم مصر کی حکومت کو قبول نہیں کرسکتے جو فوجی بغاوت کے نتیجے میں آئی ہو۔ یہ بغاوت کسی نے بھی کی ہوتی تو ہم اس کی مخالفت کرتے اور اس حکومت کو تسلیم نہیں کرتے۔ اگر ہم جمہوریت پر یقین رکھتے ہیں، تو جمہوریت میں یہ حق کسی کو حاصل نہیں کہ وہ جمہوری طریقہ سے ۵۲ فیصد ووٹ لے کر صدر منتخب ہونے والے محمد مرسی کا تختہ الٹ دے۔

جمال الشایال:

اگر جنرل سیسی صدر منتخب ہو جاتے ہیں، تو کیا ہوگا؟

رجب طیّب اردوان:

ان کے منعقد کردہ انتخابات سوالیہ نشان ہیں۔ کیا فوجی آمرکے لیے بھی کوئی الیکشن ہوتا ہے؟ وہ ایک فوجی آمر ہیں اور تاریخ میں یہی ان کی شناخت ہوگی۔ ایسی فوجی بغاوتیں ہم نے اپنے ملک میں بھی بہت دیکھی ہیں۔ جو لوگ بغاوت کرتے ہیں، اُن کو ۹۰ اور ۹۲ فیصد ووٹ ملتے ہیں۔ لیکن یہ تمام ووٹ خوف میں ڈالے جاتے ہیں اور بیشتر لوگ تو بیلٹ بکس تک جاتے بھی نہیں ہیں۔ مجھے یہ کہنے دیجیے کہ ہم نے کبھی مصر کے اندرونی معاملات میں مداخلت کا ارادہ نہیں کیا۔ جن لوگوں نے مصر کی آمرانہ حکومت کو تسلیم نہیں کیا، لوگ ان پر یہ الزامات لگاتے ہیں۔

جمال الشایال:

ایک اور اہم سوال جو میڈیا رپورٹس سے متعلق ہے کہ ۲۰۱۰ء میں بین الاقوامی سمندری حدود میں ترکی کے امدادی جہاز فریڈم فلوٹیلا پر اسرائیلی حملہ کے نتیجے میں ہونے والے نقصان، جس میں ۹ ترک شہری بھی شہید ہوئے تھے، کے ازالے پر اسرائیل تیار ہوگیا ہے۔ کیا یہ رپورٹس درست ہیں؟ اور کیا اس پیش رفت میں امریکی صدر براک اوباما اور امریکی نائب صدر جوئے بائیڈن کا کوئی کردار ہے؟ اگر اسرائیل اس حملے کا ہرجانہ ادا کرتا ہے تو کیا آپ تعلقات معمول پر لانے کے لیے تیار ہیں؟

رجب طیّب اردوان:

جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ یہ واقعہ بین الاقوامی سمندری حدود میں جہاز ماوی مارمرا کے ساتھ پیش آیا تھا۔ یہ جہاز انسانی ہمدردی کی بنیاد پر غزہ کی پٹی میں مقیم لوگوں کے لیے امداد لے کر جارہا تھا۔ اس جہاز کے خلاف آپریشن میں ۹ ترک شہری شہید ہوئے۔ اس دوران ۳۵ دیگر ممالک کے لوگ بھی جہاز میں سوار تھے، جو سب انسانی ہمدردی کی بنیاد پر آئے تھے۔ اگر آپ کہیں کہ ان لوگوں کی پذیرائی کرنی چاہیے، تو میں کہوں گا ضرور۔ کیوں کہ غزہ کے لوگوں نے ان سے توقعات باندھی تھیں۔ اورقافلے میں شامل لوگ اپنے ضمیر کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے انسانی بنیادوں پر ان کی مدد کے لیے آگے بڑھے تھے۔ ان نہتے لوگوں پر اسرائیل نے حملہ کردیا اور بدقسمتی سے اس حملے کے نتیجے میں ۹ لوگ شہید ہوگئے۔ جو لوگ زخمی ہوئے، ان میں اب بھی ایسے لوگ ہیں جو صحت یاب نہیں ہوسکے ہیں۔ ان میں سے ایک میرا پڑوسی ہے، جو ابھی تک اپنے حواس سے محروم کیفیت میں بستردراز ہے۔ آپ سوچیے جب سے اب تک کتنا وقت گزر چکا ہے۔ میں اس بھائی کے لیے اللہ سے دعا کرتا ہوں کہ وہ جلد صحت یاب ہو۔

جب یہ واقعہ ہوا تھا، اس وقت میں نے کہا تھا کہ حالات کو معمول پر لانے کے لیے اسرائیل کو تین اقدامات کرنا ہوں گے۔ پہلا یہ کہ اسرائیل اس واقعہ پر معافی مانگے۔ دوسرا، نقصان کا ازالہ کیا جائے اور تیسرا، غزہ کا محاصرہ ختم کیا جائے۔ ظاہر ہے معذرت کے لیے صدر اوباما نے کافی کوششیں کیں اور اس کا مثبت نتیجہ یہ برآمد ہوا کہ اسرائیلی وزیراعظم بن یامین نیتن یاہو نے معافی مانگی۔ میں نے پہلے صدر اوباما سے بات کی، پھر انہوں نے فون وزیراعظم نیتن یاہو کو دیا اور پھر ان سے بات ہوئی۔ اس طرح بات چیت کا عمل شروع ہوگیا۔ ہرجانے کے لیے ہمارے لوگوں نے کام مکمل کر لیا ہے اور ان کے پاس اعداد و شمار بھی ہیں۔ اسی طرح دوسری پارٹی کے پاس بھی کچھ اعداد و شمار ہیں۔ ہمیں یہ بتایا گیا ہے کہ بات چیت آگے بڑھی ہے لیکن کوئی حتمی بات ابھی تک طے نہیں ہوئی۔ لیکن یہ سب اقدامات کرتے ہوئے یہ ضرور کہوں گاکہ میں نے کہا تھا کہ محاصرہ بھی ختم ہونا چاہیے۔ اس کے لیے اگر کوئی پروٹوکول اختیار کیا جائے اور یہ اقدامات کیے جائیں تو ہم فوراً سفیروں کو تعینات کرکے حالات کو معمول پر لانے کا آغاز کر سکتے ہیں۔ لیکن بغیر محاصرہ ختم کیے نیز ترکی اور غزہ کے درمیان سمندری راستہ سے سامان کی بہ آسانی نقل و حمل پر پابندی اٹھائے بنا یہ ممکن نہیں۔

جمال الشایال:

پچھلے دنوں ذرائع ابلاغ میں کافی خبریں گردش کرتی رہیں، خاص طور پر یہاں عرب میڈیا میں کہ آپ نے متحدہ عرب امارات پر الزام لگایا ہے کہ وہ ترکی کے معاملات میں دخل دے رہا ہے۔ کیا آپ سمجھتے ہیں، ایسا ہے؟ اور کیا آپ کے پاس اس الزام کو ثابت کرنے کے لیے ثبوت ہیں؟

رجب طیّب اردوان:

نہیں! یہ وہ رویہ ہے جس کا انہوں نے بہت کھلے اور واضح انداز میں اظہار کیا ہے۔ متحدہ عرب امارات کے ساتھ ترکی کے تعلقات شاندار تھے۔ بدقسمتی سے انہوں نے اپنا رویہ تبدیل کرلیا۔ مصر میں جو واقعات رونما ہوئے، اس پر ہمارا اختلاف تھا، لیکن متحدہ عرب امارات نے تدبر کا مظاہرہ نہیں کیا۔ ہم پر لازم نہیں کہ ہم ہر مسئلہ پر ایک طرح سوچیں۔ ہم اختلاف رکھ سکتے ہیں اور ساتھ ساتھ اپنے تعلقات بھی برقرار رکھ سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر ہم شام کے مسئلہ پر روس سے اتفاق نہیں کرتے اور نہ ہی ایران اور چین سے۔ لیکن ان کے ساتھ ہمارے تعلقات قائم ہیں۔ ریاستی امور چلانا ایک مختلف کام ہے۔ متحدہ عرب امارات کو ریاستی امور کو الجھانے کی ضرورت نہیں ہے۔ امارات کا موقف غلط ہے اور ان کے اس موقف کا ترکی کو کوئی نقصان نہیں ہوگا۔

جمال الشایال:

جیسا کہ الزام لگایا گیا کہ متحدہ عرب امارات نے مصر میں فوجی بغاوت کے لیے رقم دی۔ کیا آپ نہیں سمجھتے کہ وہ یہی کام ترکی میں بھی کرسکتے ہیں؟

رجب طیّب اردوان:

جو بھی من گھڑت کھیل باہر سے کھیلا جارہا ہو، ہمیں چاہیے کہ ہم اپنے آپ کو مضبوط رکھیں۔ باہر بہت سی چیزیں پکائی جاسکتی ہیں، البتہ جب تک آپ چاق و چوبند ہوں تووہ دیوار عبور نہیں کرسکتے۔ لیکن ظاہر ہے ہم کبھی ایسا نہیں سوچیں گے اور نہ ہی ایسا سوچنا چاہتے ہیں۔

صدارتی انتخابات اگست میں ہیں۔ صدارتی انتخابات کے حوالے سے ہماری پارٹی جو فیصلہ کرے گی، وہ ہمارے لیے بہت اہم ہے۔ ہماری پارٹی کے اصولی فیصلے کے مطابق جو لوگ متواتر تین بار پارلیمان کو اپنی خدمات پیش کر چکے ہیں، ان پر لازم ہے کہ وہ ایک میقات کے لیے انتخاب نہیں لڑیں گے۔ اس کے بعد وہ دوبارہ امیدوار ہو سکتے ہیں۔ یہ شرط ابھی موجود ہے اور پارٹی کی جنرل اسمبلی ہی اس کو تبدیل کرسکتی ہے۔ اس کے علاوہ کسی اور باڈی کو یہ اختیار نہیں ہے اور نہ ہی میں یہ تجویز کروں گا۔

(مترجم: سید سمیع اﷲ حسینی)

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*