
ترکی ایسے کئی سنگین مسائل سے دوچار ہے جن کے حل نہ ہو پانے کی صورت میں امریکا سے اس کے تعلقات پٹڑی سے اتر سکتے ہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ ترک وزیراعظم رجب طیب اردوان کو اس وقت اپنے قریب ترین لوگوں کے حوالے سے بدعنوانی کے الزامات کا سامنا ہے مگر یہ بھی سچ ہے کہ ترکی کے مسائل صرف اندرونی سطح پر نہیں بلکہ بیرونی سطح پر بھی ہیں، جس کے باعث اس کی بیرونی مشکلات میں بھی اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ ترکی کو ایسے کئی معاملات میں مسائل اور پیچیدگی کا سامنا ہے جن کے باعث امریکا اور نیٹو سے اس کے تعلقات داؤ پر لگ سکتے ہیں۔
امریکی محکمۂ خزانہ میں ٹیرر ازم فائنانس کے سابق تجزیہ کار جوناتھن شینزر نے ’’بزنس انسائڈر‘‘ کو بتایا: ’’یہ محض ترک انڈر ورلڈ کا مسئلہ نہیں۔ اس کا تعلق عالمگیر سطح پر بدمعاش ریاستوں اور غیر ریاستی دہشت گرد عناصر سے ہے‘‘۔ جوناتھن شینزر نے اپنے وسیع تجربے کی بنیاد پر ترکی میں چند ماہ کے دوران چند ایسی علامات کی نشاندہی کی ہے جن سے ترک مغربی تعلقات بھی خطرے میں پڑ سکتے ہیں۔
٭ گزشتہ برس دہشت گردوں کو مالیاتی وسائل کی فراہمی کے نیٹ ورکس پر نظر رکھنے والی فائنانشل ایکشن ٹاسک فورس نے اصولوں اور قواعد کا احترام نہ کرنے پر ترکی کو اپنی بلیک لسٹ پر تقریباً رکھ ہی دیا تھا۔ جوناتھن شینزر نے، جو اَب فاؤنڈیشن فار ڈیفنس آف ڈیموکریسیز میں تحقیق کے شعبے کے نائب صدر ہیں، کہا کہ ترکی کے خلاف انتہائی اقدام اس لیے ناگزیر سا ہوگیا تھا کہ اس نے مسلسل سات سال تک تنظیم کے اصولوں سے روگردانی کی ہے۔ اس وقت صرف ایران اور شمالی کوریا فائنانشل ایکشن ٹاسک فورس کی بلیک لسٹ پر ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ اس وقت ترکی غزہ کی پٹی کے حکمران گروپ حماس کا سب سے بڑا مالی معاون ہے۔ مساجد اور اسکول تعمیر کرنے کے علاوہ ترکی نے حماس کو سالانہ ۳۰ کروڑ ڈالر کی امداد بھی جاری کر رکھی ہے گوکہ اس کی تصدیق نہیں ہوسکی۔
شینزر کا یہ بھی کہنا ہے کہ اگر یہ بات ثابت ہوجائے کہ حماس کو ترکی کی طرف سے مالی امداد مل رہی ہے اور یہ کہ حماس کے بعض نمائندے ترکی میں تعینات ہیں تو ترک حکومت کے لیے یہ واقعی پریشان کن بات ہونی چاہیے۔ شینزر کا یہ بھی کہنا ہے کہ حماس میں نمبر پانچ یا چھ کی پوزیشن کے رہنما صلاح العروری اس وقت ترکی میں تعینات ہیں۔
صلاح العروی نے دریائے اردن کے مغربی کنارے کے علاقے میں حماس کے عسکری بازو قسام بریگیڈ کی بنیاد رکھی تھی۔ قسام بریگیڈ نے نومبر ۲۰۱۲ء میں اسرائیل کے خلاف آٹھ روزہ لڑائی میں حصہ لیا تھا اور اب بھی اسرائیلی علاقوں پر راکٹ اور میزائل داغتی رہتی ہے۔
جوناتھن شینزر کے نزدیک ترکی کا حماس سے تعلق انتہائی حیرت انگیز ہے کیونکہ ایک طرف تو ترکی یورپی یونین اور امریکا سے بہتر تعلقات کے قیام کے لیے کوشاں رہتا ہے اور دوسری طرف وہ دہشت گردی کے خاتمے کی امریکی کوششوں کا تمسخر اڑا رہا ہے۔ امریکا نے حماس کو دہشت گرد تنظیم قرار دے رکھا ہے۔
شام کے معاملے میں بھی ترکی کا رویہ مغرب اور بالخصوص امریکا کو پریشان کرنے والا رہا ہے۔ ایک طرف تو اس نے شام کی اپوزیشن کو مالی امداد جاری رکھی ہے۔ دوسری طرف اسلحہ بھی بھیجا جاتا رہا ہے۔ اب تک انسانی اسمگلنگ بھی روکی نہیں جاسکی ہے۔ شام میں القاعدہ کے ایک بڑے فائنانسر اور سہولت کار عبدالرحمٰن النومی کو دہشت گردوں کی فہرست میں شامل کیا ہے۔ وہ جنیوا میں قائم انسانی حقوق گروپ کا قطری سربراہ ہے۔ ’’فائنانشل ٹائمز‘‘ نے جب استنبول میں رابطہ کیا تو عبدالرحمٰن النومی نے شام میں القاعدہ کو مالی امداد دیے جانے میں کوئی کردار ادا کرنے سے انکار کیا۔ جوناتھن شینزر کا کہنا ہے کہ اگر ان تمام معاملات کو ملاکر دیکھا جائے تو ایسا کچھ بھی نہیں جو آسانی سے سمجھ میں نہ آسکے۔ مگر یہ سب کچھ ترکی کے لیے انتہائی خطرناک ہے۔ سفارتی امور کے تجزیہ کار حیران ہیں کہ ترکی ایسے خطرات کیوں مول لے رہا ہے۔
مشہورِ زمانہ سعودی عرب پتی یٰسین القاضی سے بھی ترک وزیراعظم رجب طیب اردوان کے تعلقات ہیں۔ واضح رہے کہ القاعدہ، حماس اور دیگر جہادی گروپوں کی فنڈنگ کے الزام میں امریکی محکمۂ خزانہ نے اکتوبر ۲۰۰۱ء میں یٰسین القاضی کو ’’اسپیشل ڈیزگنیٹیڈ گلوبل ٹیررسٹ‘‘ کی حیثیت سے دہشت گردوں کی فہرست میں شامل کر رکھا ہے۔
حیرت انگیز بات یہ ہے کہ یٰسین القاضی کو جب پہلی بار دہشت گردوں کی فہرست میں رکھا گیا تب اس کے تمام ادارے ترکی میں کام کر رہے تھے۔
اردوان نے ایک عشرے سے بھی زائد مدت تک یٰسین القاضی کا دفاع کیا ہے۔ انہیں غیر معمولی مراعات حاصل ہیں۔ وہ پاسپورٹ یا ویزا کے بغیر ترکی جاسکتے ہیں۔ بدعنوانی کے الزامات میں ترک عدلیہ نے جن چند شخصیات کی گرفتاری کا حکم دیا، ان میں یٰسین القاضی کا نام بھی شامل تھا مگر اس حکم پر عمل نہیں کیا گیا۔ یٰسین القاضی کا اردوان کے بیٹے بلال سے قریبی تعلق ہے۔
جوناتھن شینزر کا کہنا ہے کہ اب تک یہ بات سمجھ میں نہیں آسکی کہ ترک وزیراعظم اور ان کے بیٹے سے یٰسین القاضی کا کیا تعلق ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ گیارہ بارہ سال سے وہ ترکی میں ہے اور اسے ہر سطح پر غیر معمولی تحفظ حاصل ہے۔
جن دنوں ایران پر امریکا نے سخت اقتصادی پابندیاں عائد کر رکھی تھیں، تب ایران نے مارچ ۲۰۱۲ء سے اکتوبر ۲۰۱۳ء تک ’’گیس فار گولڈ‘‘ مہم چلائی، جس کے دوران اس نے کم و بیش ۱۳؍ارب ڈالر حاصل کیے۔ اس معاملے میں اسے ترک حکومت کی طرف سے غیر معمولی معاونت حاصل رہی۔ ترکی نے اقتصادی پابندیاں ناکام بنانے میں ایرانی حکومت کی مدد کی۔
بات یہیں پر ختم نہیں ہوتی۔ ترکی نے ایک ایسی چینی کمپنی سے میزائل خریدنے کا معاہدہ کیا ہے، جسے امریکا نے جوہری پھیلاؤ کے حوالے سے واچ لسٹ پر رکھا ہے اور جس کے خلاف کارروائی کا حکم بھی دیا جاچکا ہے۔
ترک حکمراں جماعت اے کے اور فتح اللہ گولن کی تحریک کے درمیان کشیدگی پائی جاتی ہے۔ جب تک رجب طیب اردوان اندرونی مسائل سے نمٹیں گے، تب تک بیرونی محاذ پر بھی انہیں متوجہ اور متحرک ہونا پڑے گا۔ امریکا اور یورپ کو ناراض کرنے والے اقدامات اور حقائق سے جسٹس اینڈ ڈیویلپمنٹ پارٹی کی مشکلات میں محض اضافہ ہوگا۔ امریکا نہیں چاہتا کہ ترکی اُسی راہ پر چلتا رہے، جس پر وہ چل رہا ہے، کیونکہ اس کے نتیجے میں خطے میں امریکی مفادات کو شدید نقصان پہنچنے کا احتمال ہے۔
اگر رجب طیب اردوان چاہتے ہیں کہ امریکا سے تعلقات بہتر رہیں تو لازم ہے کہ وہ القاعدہ اور حماس کی حمایت سے گریز کریں اور مالی تعاون کے بارے میں بالکل نہ سوچیں۔ امریکا اس معاملے میں بہت حساس ہے اور ترک حکومت کو اس کا اندازہ ہونا چاہیے۔ جوناتھن شینزر کا کہنا ہے کہ اگر اردوان نے معاملات کو درست کرنے پر توجہ نہ دی تو امریکی کانگریس میں ان کے مخالفین کی تعداد بڑھتی جائے گی اور ایسا وقت بھی آسکتا ہے، جب ترکی کو ان ممالک کی فہرست میں شامل کردیا جائے جو دہشت گرد تنظیموں کی معاونت کر رہے ہیں۔ اگر ترک حکومت نے معاملات کی نزاکت کو سمجھنے میں تاخیر یا غلطی کی تو نتائج بہت خطرناک برآمد ہوں گے۔
امریکا کے لیے سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ترکی نے مشرق وسطیٰ کے حوالے سے اس قدر متنوع خارجہ پالیسی اپنا رکھی ہے کہ وائٹ ہاؤس اب تک اردوان انتظامیہ پر زیادہ اثر انداز ہونے کی پوزیشن میں نہیں آسکا۔ شینزر کا کہنا ہے کہ شام کے معاملے میں امریکی پالیسی ناکام رہی۔ ایران سے متعلق پالیسی اپنے ہی منہ پر طمانچے کے مترادف ہے۔ اور پورے خطے میں امریکا کی انسدادِ دہشت گردی پالیسی بھی زیادہ کارگر ثابت نہیں ہوسکی۔ ہوسکتا ہے اب لوگ یہ سوچ رہے ہوں کہ کہیں ان تمام معاملات کی پشت پر ترکی تو نہیں۔
(“There are much bigger problems in Turkey that could derail its alliance with America”… “Business Insider”. Jan. 12, 2014)
Leave a Reply