
ترک ناول نگار اورہان پاموک پر مقدمہ چلائے جانے کے بارے میں خبریں پڑھ کر دو باتیں ضرور ذہن کو کھٹکتی ہیں۔ پہلی یہ کہ ملکی قوانین کو ایک نامناسب وقت پر بے رحمی سے استعمال کیا جارہا ہے۔ دوسرے درجنوں لکھنے والوں اور صحافیوں کی طرح مسٹر پاموک پر بھی ’’ترکیت کی اہانت‘‘ کے جرم میں مقدمہ چلایا جارہا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ انہوں نے اپنی تحریروں میں پہلی عالمی جنگ کے دوران آرمینیائی اور گذشتہ دہائی میں کُرد باشندوں کے قتلِ عام کا ذکر کر دیا ہے۔ دوسری بات اس کی حیرت انگیز‘ سراسر حماقت ہے۔ وہ اس لیے کہ ماضی میں قتلِ عام کے ان واقعات کو زندہ کرنے کا نہایت کارگر طریقہ یہی ہے کہ ملک کے اس پہلے ناول نگار کے خلاف قانونی کارروائی شروع کردی جائے جس نے ان کا ذکر کیا ہے۔
ترک حکومت پر جو یورپی یونین کا حصہ بننے کی تیاریوں میں مصروف ہے‘ منکشف ہوگا کہ یونین کے دیگر رکن ممالک نے اس طرح کی چیزوں کو دبانے کے لیے اس سے زیادہ موثر طریقے تلاش کرلیے ہیں۔ قانونی کارروائی کیے بغیر او رمصنفین کو گھروں سے نکالنے پر احتجاج کرنے والے لوگوں کے ہجوم کو کنٹرول کرنے کی بجائے ہم نے اپنے مظالم کو فراموش کر دینے کی تقریباً لامتناہی استعداد حاصل کرلی ہے۔۔۔ مظالم؟۔۔۔ کون سے مظالم؟
جب ایک ترک مصنف لفظ ’’مظالم‘‘ استعمال کرتا ہے تو ترکی کا ہر شخص شدید انکار کے باوجود اچھی طرح جانتا ہے کہ وہ کیا کہنا چاہ رہا ہے لیکن برطانوی لوگ اس پر آپ کو خالی خالی آنکھوں سے دیکھنے لگ جاتے ہیں۔ آیئے میں آپ کو دو مثالیں دیتا ہوں اور دونوں آرمینیا کے قتل عام کی طرح مسلمہ دستاویزات پر مبنی ہیں۔
مائک ڈیوس ۲۰۰۱ء میں شائع ہونے والی اپنی کتاب ’’عہد وکٹوریہ کے آخری ایام میں قتل عام ‘‘ (Late Victorian Holocausts) میں قحط کی داستان سناتے ہوئے لکھتا ہے کہ اس کے نتیجے میں ایک کروڑ بیس لاکھ سے دو کروڑ نوے لاکھ افراد بھوک کی وجہ سے تڑپ تڑپ کر مرگئے۔ مائک لکھتا ہے کہ یہ لوگ برطانیہ کی سرکاری پالیسی کی وجہ سے موت کی وادی میں اتر گئے کیونکہ ۱۸۷۶ء میں جب دکن النینو کی وجہ سے خشک سالی کا شکار ہوا تو اس وقت بھارت میں گندم اور چاول کے وافر ذخائر موجود تھے۔
اس وقت ہندوستان کے وائسرائے لارڈ لٹن نے اصرار کیا تھا کہ انگلستان کو برآمدات کسی بھی صورت میں بند نہ کی جائیں۔ چنانچہ ۱۸۷۷ء اور ۱۸۷۸ء میں جب قحط زوروں پر تھا‘ غلے کے بیوپاریوں نے ۶۴ لاکھ ٹن گندم برآمد کی تھی‘ ان دو برسوں کے دوران جب کسان بھوک سے مررہے تھے‘ برطانوی حکام نے ہر ممکن طریقے سے امدادی سرگرمیوں کی حوصلہ شکنی کی تھی۔
امتناع خیرات کے ایکٹ مجریہ (Anti-Charitable Contributions Act 1877) کے تحت نجی سطح پر ایسے عطیات دینے پر قید کی سزا مقرر کی گئی تھی جن سے غلے کی قیمتیں مقرر کرنے میں خَلَل پڑتا ہو۔ اکثر اَضلاع میں امداد فراہم کرنے کی واحد اجازت لیبر کیمپوں کا قیام تھا اور ان میں سے بھی ان لوگوں کو نکال دیا جاتا تھا جو بھوک کی وجہ سے مرنے کے قریب پہنچتے تھے۔ ان کیمپوں کے محنت کشوں کو قیدیوں سے بھی کم غذا فراہم کی جاتی تھی۔
ان کیمپوں میں ۱۸۷۷ء کے دوران اموات کی شرح ۹۴ فیصد سالانہ کے برابر ہوگئی تھی۔
جب لاکھوں لوگ بھوک سے مر رہے تھے‘ سرکار انگلیسیہ نے فوج کے ذریعے ان ٹیکسوں کے واجبات وصول کرنے کی مہم شروع کردی جو زمانۂ قحط میں ادا نہیں کیے جاسکے تھے۔
اس دوران وہ رقم قحط زدگان سے وصول کی گئی ( جو اگر چھوڑ دی جاتی تو شاید وہ زندہ بچ جاتے) وائسرائے لٹن نے افغانستان میں جنگ پر خرچ کی۔
حال ہی میں شائع ہونے والی تین کتابوں
(1) Britain`s Gulag by Caroline Elkins.
(2) Histories of the Hanged by David Anderson.
(3) Web of Deceit by Mark Curtis.
نے بڑی وضاحت سے لکھا ہے کہ سفید فام آباد کاروں اور برطانوی فوجوں نے کس طرح ۱۹۵۰ء کے عشرے کے دوران کینیا میں ماؤ بغاوت کو کچلا۔ جب انہیں اپنی بہترین اراضی سے نکال دیا گیا اور انہیں سیاسی حقوق سے بھی محروم کردیا گیا تو ’’کی کویو‘‘ نے نوآبادیاتی نظام کے خلاف منظم ہونا شروع کر دیا اور ان میں سے کچھ لوگوں نے تشدد کا راستہ بھی اختیار کیا۔
برطانوی حکام نے پُرتشدد احتجاج کی یوں سرکوبی کی کہ ان میں سے تین لاکھ بیس ہزار افراد کو کیمپوں میں بند کردیا گیا۔ تقریباً دس لاکھ سے زائد افراد کو بستیوں میں محصور کرلیا گیا۔ تفتیش کے دوران ان قیدیوں کے کان کاٹ دیے جاتے تھے۔ ان کے کانوں کے پردے پھاڑ دیے جاتے تھے‘ بعض پر اتنے کوڑے برسائے جاتے تھے کہ وہ مرجاتے تھے‘ بعض مشکوک افراد پر کیمیاوی مادہ چھڑک کر زندہ جلا دیا جاتا تھا اور کچھ لوگوں کے کانوں میں سلگتے ہوئے سگریٹ داخل کرکے سماعت کے پردے جلا دیے جاتے تھے۔
برطانوی فوجیوں کو اجازت دے دی گئی تھی کہ وہ جسے چاہیں موت کے گھاٹ اتار سکتے تھے‘ بس اس کے لیے شرط یہ ہے کہ وہ سیاہ فام ہو۔ ایلکن نے اپنی کتاب میں ثبوتو ں کے ساتھ تحریر کیا کہ ایک لاکھ سے زائد ’’کی کویو‘‘ باشندوں کو قتل کر دیا گیا یا وہ مہلک امراض کا شکار ہوگئے یا پھر وہ کیمپوں میں بھوک کے مارے تڑپ تڑپ کر مرگئے۔ ڈیوڈانڈرسن نے لکھا کہ ۱۰۹۰ مشکوک باغیوں کو تختہ دار پر لٹکا دیا گیا ۔ یہ تعداد اُن فرانسیسیوں سے زیادہ ہے جنہیں الجزائر میں قتل کیا گیا تھا۔ برطانوی فوجیوں نے ہزاروں افراد پر کھڑے کھڑے سمری عدالتوں میں اس جرم کی پاداش میں سزائے موت سُنا دی کہ انہیں رُکنے کے لیے کہا گیا تو انہوں نے یہ حکم ماننے سے انکار کردیا۔
میں نے برطانوی حکومت یا نوآبادیوں میں سفید فام آبادکاروں کے بڑے پیمانے پر رَوا رکھے گئے ۲۰ میں سے صرف دو مظالم کی مثال دی ہے ۔ دیگر مظالم میں سمانیوں کا قتل عام‘ ملایا میں اجتماعی سزاؤں کا استعمال‘ اومان کی بستیوں پر بمباری‘ شمالی یمن کی غلیظ جنگ اور ڈیگوگارشیا میں سے مقامی باشندوں کا اِخراج شامل ہیں۔ ان مظالم کے بارے میں چند ہزار افراد کو کچھ نہ کچھ اندازہ ہو گیا‘ ورنہ اکثر لوگوں کو یہ بھی معلوم نہیں ہوتا کہ میں کس کے بارے میں کیا بات کررہا ہوں۔ دوسری جانب میکس ھیسٹنگز اس بات پر اظہار افسوس کرتا ہے کہ ہمیں اسٹالن اور ماؤ کے مظالم جاننے میں کوئی دلچسپی نہیں ہے‘ پھر بھی ہمیں اجمالی طور پر اتنا اندازہ ضرور ہے کہ یہ واقعات وقوع پذیر ہوئے تھے۔
انگریزی روزنامہ ’’ایکسپریس‘‘ میں مورخ انڈریو رابرٹس نے اپنے ایک مضمون میں لکھا ہے کہ برطانوی سلطنت اپنے پانچ صد سالہ دور اقتدار میں خدائی طاقت کی ایک مثال تھی۔ انہوں نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ انگریزوں نے کسی خونریزی کے بغیر اپنی سلطنت کے بہت بڑے حصے کو آزاد کردیا۔ اس طرح انہوں نے اپنی جانشین حکومتوں کے لیے جمہوریت اور منتخب اداروں کو مضبوط کرنے کی روشن مثالیں چھوڑیں۔ اس مصنف نے ’’سنڈے ٹیلیگراف‘‘ میں شائع ہونے والے ایک مضمون میں لکھا کہ برطانوی سلطنت کے دور میں ترقی کی شرح حیران کن حد تک بہت زیادہ تھی۔ اب آپ ان کے اس دعوے کا تقابل مائک ڈیوس کی کتاب میں دیے گئے حقائق سے کیجیے کہ ہندوستان میں ۱۷۵۷ء سے ۱۹۴۷ء تک فی کس آمدنی میں ذرّہ برابر بھی اضافہ نہیں ہوا۔ یا اس دعوے کو پرسنن پر تھا سراتھی کی کتاب میں دیے گئے ان حقائق کی بنیاد پر بھی پرکھیے کہ: ’’اٹھارہویں صدی کے دوران (برطانوی راج سے پہلے) جنوبی بھارت کے محنت کشوں کی آمدنی برطانوی ہم عصروں سے زیادہ ہوتی تھی اور وہ خوشحال اور پُرامن زندگی بسر کرتے تھے۔
جان کیگن نے ڈیلی ’’ٹیلی گراف‘‘ میں لکھا ہے کہ برطانوی سلطنت اپنے آخری برسوں کے دوران بڑی فیاض اور اعلیٰ اخلاقی اَقدار کی حامل ہو گئی تھی‘ وکٹوریہ دور میں نوآبادیوں میں تہذیب و تمدن اور گڈ گورننس پر خاصی توجہ دی گئی۔
اورہان پاموک پر مقدمہ چلانے سے یورپی یونین میں ترکی کی شمولیت کے عمل کو نقصان پہنچے گا۔ اس کا سبب یہ نہیں ہوگا کہ ترک مظالم منظرعام پر آگئے ہیں بلکہ اس کی وجہ یہ ہوگی کہ وہ اپنے لکھاریوں کو ان کے خلاف اپنے غم و غصے کے اظہار کی اجازت کیوں نہیں دیتے۔ اگر ترک حکومت چاہتی ہے کہ آرمینیائی باشندوں کے قتل عام کو بھلا دیا جائے تو اسے چاہیے کہ وہ اپنے سنسر شپ قوانین واپس لے لے اور لوگوں کو وہ سب کچھ کہنے دے جو وہ کہنا چاہتے ہیں۔ میں ترک حکومت کو مشورہ دوں گا کہ اگر وہ اپنے ملک کے اخبارات رچرڈ ڈسمنڈ اور بار کلے برادرزکو خریدنے کی اجازت دے دے تو پھر ماضی کبھی بھی اسے تنگ نہیں کرے گا۔
(ترجمہ: ملک فیض بخش۔ بشکریہ: ’’دی گارڈین‘‘)
Leave a Reply