غزہ کے لیے امدادی سامان لے جانے والے بحری قافلے میں ترک صحافی بھی سوار تھا۔ اس نے قافلے پر اسرائیلی کمانڈوز کے حملے سے کچھ پہلے بتایا تھا ’’میں نہیں جانتا کہ کیا ہونے والا ہے مگر ہاں اتنا ضرور محسوس ہو رہا ہے کہ ایک نئی دنیا جنم لے رہی ہے۔‘‘
یہ الفاط بالکل درست ثابت ہوئے۔ اسرائیل اور ترکی کی دوستی دو عشروں پر محیط ہے اور امریکا نے انہیں ایک دوسرے سے قریب رکھنے میں مرکزی کردار ادا کیا ہے۔ اب ایسا لگتا ہے کہ یہ دوستی داؤ پر لگی ہے۔ ’’ماوی مرمارا‘‘ کے خلاف اسرائیلی کمانڈوز کی کارروائی کے نتیجے میں ۹ ترک رضاکاروں کی شہادت نے دونوں ممالک کو بدترین باہمی کشیدگی سے دوچار کردیا ہے۔ ترک وزیراعظم رجب طیب اردگان نے اسرائیلیوں کو یاد دلایا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو ملنے والے احکام عشرہ میں سے چھٹا یہ ہے کہ تم کسی کو قتل نہیں کروگے۔ انہوں نے اسرائیلیوں سے سوال کیا کہ کیا یہ حکم ان کی سمجھ میں نہیں آیا۔
معاملہ بس یہیں پر ختم نہیں ہوا۔ کچھ دن بعد ترکی نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں ایران پر پابندیوں سے متعلق امریکی تجویز کے خلاف ووٹ دیا۔ اس سے قبل ترکی کہہ چکا تھا کہ وہ برازیل کے ساتھ مل کر ایران کو کنٹرول کرنے کی کوشش کرے گا۔ اس حوالے سے اس نے چند تجاویز بھی پیش کی تھیں۔ اور پھر ترکی نے اردن، شام اور لبنان کے ساتھ مل کر اکنامک زون قائم کرنے سے متعلق پیکیج کا اعلان کیا۔ ترکی کے وزیر اعظم اردگان کا کہنا ہے کہ اب ترکی کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ کیا واقعی ترکی نے اپنا راستہ تبدیل کرلیا ہے؟ کیا امریکا کا پرانا اتحادی اور نیٹو کا دوسرا سب سے زیادہ آبادی والا ملک اب مشرق کی طرف دیکھ رہا ہے؟
ترکی کے وزیر خارجہ احمد داوتوغلو کا کہنا ہے کہ ایسا نہیں ہے۔ بات یہ ہے کہ ترکی اب خارجہ پالیسی کے معاملے میں امریکی اہداف سے کچھ اختلاف کی راہ پر گامزن ہے۔ ایران کے معاملے میں اس نے اپنی پالیسی تبدیل کی ہے۔ افغانستان، مشرق وسطیٰ، وسط ایشیا کے امور اور دیگر بہت سے معاملات میں ترکی نے اب امریکا کی ہم نوائی ترک کرکے اپنا راستہ الگ نکالا ہے۔ ٹائم سے ایک انٹرویو میں احمد داوتوغلو نے کہا تھا کہ ترکی ایک ایسا خطہ نہیں چاہتا جس میں سیکورٹی کامدار ایک دوسرے سے خوف کھانے اور ڈرانے دھمکانے پر ہو۔ احمد داوتوغلو نے کہا تھا کہ اتحادیوں میں اختلافات بھی ہوسکتے ہیں اور اسی صورت تعلق مزید مستحکم ہوتا ہے۔ دوسری جانب امریکا بھی ترکی کے بارے میں زیادہ بدگمانی پالنے کے موڈ میں دکھائی نہیں دیتا۔ واشنگٹن میں ایک امریکی اعلیٰ افسر نے کہا کہ چند ایک امور میں ترکی سے اختلافِ رائے ضرور ہے تاہم یہ نہیں کہا جاسکتا کہ تعلقات کشیدہ ہوگئے ہیں۔
ترکی اور امریکا خواہ کچھ کہیں، کچھ نہ کچھ تو ہے جو اندر ہی اندر پک رہا ہے۔ ۲۰۰۱ میں داوتوغلو نے اپنی کتاب ’’اسٹریٹجک ڈیپتھ‘‘ میں لکھا تھا کہ ترکی سلطنت عثمانیہ کا امین رہا ہے۔ ایک دور تھا جب اس کی سرحدیں ویانا کے دروازوں سے خلیج فارس تک پھیلی ہوئی تھیں۔ ترکی مشرق اور مغرب کا حسین ملاپ ہے۔ وہ مشرق و مغرب کو ملانے والے پل کا کردار ادا کرنے کے ساتھ ساتھ بھارت یا برازیل کی طرز پر خود بھی بڑی قوت بن سکتا ہے۔ احمد داوتوغلو نے دو سال کے دوران بلقان اور دیگر بہت سے خطوں کے کئی دورے کئے ہیں اور ۳۰ سے زائد سفارت خانے لاطینی امریکا اور افریقا میں کھولے ہیں۔ بہت سوں نے اس پورے عمل کو سلطنت عثمانی کے احیاء کی کوشش سے تعبیر کیا ہے۔ خود احمد داوتوغلو نے ایسا کچھ بھی کہنے سے گریز کیا ہے۔ امریکا کی رینڈ کارپوریشن کا تجزیہ یہ ہے کہ ترکی سرد جنگ کے بعد کے زمانے میں اپنے لیے نیا کردار تخلیق کرنا چاہتا ہے اور اس کی خواہش ہے کہ بین الاقوامی سیاست میں اس کی بات مانی جائے۔ خطے میں ترکی کا ایک شاندار ماضی ہے۔ وہ ثقافتی رشتے بھی رکھتا ہے۔ اب سوال صرف یہ ہے کہ ترکی اپنے آپ کو دوبارہ دریافت کی راہ پر کیوں گامزن ہوا ہے؟
ترکی میں جو کچھ ہو رہا ہے اسے سمجھنے کے لیے تاریخ پر ایک نظر ڈالنا ناگزیر ہے۔ پہلی جنگ عظیم کے بعد خلافتِ عثمانیہ کا خاتمہ ہوا۔ مصطفی کمال اتا ترک نے ترکی کو مغرب نواز بنانے کی بھرپور کوشش کی۔ اسلامی مدارس پر پابندی عائد کردی گئی۔ سیکولر ازم کو سرکاری سطح پر نافذ کیا گیا۔ خواتین کو ان کے بنیادی حقوق دیئے گئے۔ مصطفی کمال نے واضح کیا کہ اب ان کے ملک کو مہذب اقوام کی صف میں شامل ہونا ہے۔
کمال اتا ترک کو اس دنیا سے رخصت ہوئے ۷۲ سال ہوچکے ہیں مگر اب بھی اس کا طلسم برقرار ہے۔ جرنیلوں نے عدلیہ کی مدد سے اتا ترک کے نظریات (کمال ازم) کو کسی نہ کسی حالت میں زندہ رکھا ہے۔ ترک عدلیہ ہر اس اقدام کی مخالف رہی ہے جس سے سیکولر ازم پر زد پڑتی ہو۔ ترک فوج نے تین بار منتخب حکومت کا تختہ الٹا اور سیاسی امور میں درجنوں بار مداخلت کی۔ اس حوالے سے اسے امریکا کی حمایت حاصل رہی جس کے لیے سرد جنگ کے زمانے میں ترکی غیر معمولی اتحادی تھا۔ ترکی کے سینئر صحافی اور بائیں بازو کا اخبار شائع کرنے کے جرم میں ۸ سال جیل میں گزارنے والے اورال کیلسلر کا کہنا ہے کہ پورا نظام اس مفروضے یا نظریے کی بنیاد پر قائم تھا کہ عوام میں حکومت چلانے کی صلاحیت نہیں ہوتی۔ جرنیلوں اور ججوں نے قوم کے لیے جو بہتر سمجھا، کیا۔
دو عشروںکے دوران ترکی میں کمال ازم کی جڑیں متزلزل رہی ہیں۔ طیب اردگان کی اسلامی جماعت متوسط طبقے کی بھرپور نمائندہ بن کر ابھری ہے۔ یہ وہ لوگ نہیں ہیں جن کا ایک پاؤں یورپ میں اور دوسرا اناطولیہ میں ہے۔ یورپ آج بھی ترکی کا سب سے بڑا تجارتی شراکت دار ہے تاہم یورپی یونین مجموعی طور پر کساد بازاری کا شکار ہے۔ دوسری طرف وسط ایشیا اور افریقا سے ترکی کی تجارت تیزی سے پنپ رہی ہے۔ طیب اردگان نے کئی کمزور حکومتوں کی ناکامی کے بعد ۲۰۰۲ میں اقتدار کے ایوان میں قدم رکھا۔ وہ اسلام پسند عناصر کے نمائندے تھے۔ ان کے آنے سے تبدیلی کی امید جاگی کیونکہ کمزور حکومتیں کچھ دینے میں ناکام رہی تھیں۔ انہوں نے روایتی اسلامی مدارس میں تعلیم پائی تھی مگر حالات سے بہت کچھ سیکھا۔ انہوں نے سابق اسلام نواز جماعتوں کی طرح اینٹی سیکولر ازم کی پالیسی نہیں اپنائی بلکہ یہ واضح اشارہ دیا کہ وہ دائیں بازو کی اعتدال پسند پارٹی چلانا چاہتے ہیں۔ انہوں نے میڈیا سے محاذآرائی مول نہیں لی اور عندیہ دیا کہ وہ کاروباری دنیا کو ساتھ لیکر چلیں گے۔ انہوں نے وزیر اعظم کا منصب سنبھالنے سے قبل وائٹ ہاؤس میں جارج واکر بش سے ملاقات کی اور اپنی حکومت میں بائیں بازو کے عناصر کو شامل کیا تاکہ مغربی دنیا ان پر اعتبار کرے۔
طیب اردگان اور ان کے ساتھیوں کے لیے سب کچھ درست نہیں تھا۔ فوج کی سربراہی میں سیکولر اسٹیبلشمنٹ سے ان کا مقابلہ رہا ہے۔ اے کے پی نے ایک ایسے چیف آف اسٹاف کے سامنے جھکنے سے انکار کردیا جس نے ایسے صدر کے انتخاب سے متنبہ کیا تھا جس کی بیوی سر پر اسکارف رکھتی ہو۔ ایک بار ملک کی اعلیٰ ترین عدالت نے اسے اینٹی سیکولر ازم سے روکنے کے لیے تقریباً کالعدم قرار دے دیا تھا۔ چند سال قبل تک خارجہ پالیسی میں جرنیلوں کا عمل دخل اس قدر تھا کہ اسرائیل سے تعلقات میں دراڑ پیدا کرنے کے بارے میں سوچا بھی نہیں جاسکتا تھا۔ فوج کے ریٹائرڈ میجر جنرل ارمغان کلوغلو کہتے ہیں کہ اب بہت کچھ تبدیل ہوچکا ہے۔ ’’حکومت چند ایک معاملات میں فوج سے مشورہ ضرور طلب کرسکتی ہے تاہم اس پر عمل کی پابند نہیں۔‘‘ میڈیا نے بتایا ہے کہ فوج تو غزہ کا محاصرہ ختم کرنے اور امدادی سامان پہنچانے والے بحری قافلے کو روانہ کرنے کے حق میں بھی نہیں تھی۔
ترکی نے یورپی یونین میں شمولیت کی درخواست ۵۰ سال قبل دی تھی جب یہ ادارہ یورپی برادری کہلاتا تھا۔ پورے پچاس سال گزرنے پر یورپی یونین میں شمولیت سے متعلق بات چیت میں شریک ہونے کا موقع ترکی کو ملا۔ حکومت نے اس رکنیت کے لیے بہت سی اصلاحات نافذ کیں۔ فوج کے اختیارات بھی کم کئے گئے۔ معیشت کے فروغ کو بنیادی اہمیت دی گئی۔ معاشی نمو کی شرح ۶ فیصد تک پہنچائی گئی۔ اس صورت حال میں فوج کے ایک طبقے نے اے کے پی کا اقتدار ختم کرنے کی کوششوں کا آغاز کیا۔ فوج کا اب بھی یہ خیال ہے کہ اے کے پی انتہا پسند عناصر کو پال رہی ہے۔ اور یہ کہ ملک کو اسلامی نظام کا حامل بنانا اس کے ایجنڈے کا حصہ ہے۔ قتل، دھماکوں اور دیگر شر پسندانہ سرگرمیوں کے ذریعے معاشرے کو غیر مستحکم کرنے اور اے کے پی کی حکومت کا تختہ الٹنے کی ایک ایسی سازش سے متعلق مقدمہ اس وقت عدالت میں زیر سماعت ہے جس میں وکلا، فوجی اور کاروباری افراد ملوث پائے گئے ہیں۔
اردگان نے جو اصلاحات نافذ کی ہیں وہ دنیا کے کسی بھی دوسرے خطے میں غیر معمولی ستائش کے قابل ٹھہرائی جاتیں اور انہیں مثالی قرار دیا جاتا مگر خود ترک معاشرے کا معاملہ خاصا مختلف ہے۔ ترکی میں اردگان کے اقدامات کو سراہا جاتا ہے مگر ساتھ ہی ساتھ چند ایک معاملات میں شک کی نگاہ سے بھی دیکھا جاتا ہے۔ اردگان نے تنقید کرنے والے صحافیوں اور کارٹونسٹوں کو سزا دینے سے بھی گریز نہیں کیا ہے۔ استنبول کی بلغی یونیورسٹی میں سیاسیات کے پروفیسر سولی اوزیل کا کہنا ہے کہ جب فوج ترک معاشرے اور معیشت کے لیے ریڑھ کی ہڈی تھی تب اس نے اپنے نظریات تعلیم اور معیشت سمیت سبھی شعبوں میں متعارف کرائے تھے۔ ریڑھ کی وہ ہڈی اب ختم ہوچلی ہے۔ ایسے میں سوال یہ ہے کہ معاشرے کو سہارا دینے والے نظریات کہاں سے آئیں گے؟
اردگان کی لائی ہوئی اصلاحات کو اعتدال پسند ترکوں کی حمایت بھی حاصل رہی ہے۔ اصل مسئلہ یورپ یونین کی رکنیت کا ہے۔ فرانس اور جرمنی شکوک کا شکار ہیں۔ ان کا خیال یہ ہے کہ یورپی یونین میں ترکی کو خصوصی حیثیت میں شریک کیا جاسکتا ہے۔ یہ بات ترکی کو قبول نہیں۔ ۲۰۰۴ء میں ۸۰ فیصد سے زائد ترک یورپی یونین میں شمولیت کے حق میں تھے۔ یہ تناسب اب ۴۸ فیصد رہ گیا ہے۔ ۶۵ فیصد ترکوں کا خیال ہے کہ ان کے ملک کو یورپی یونین کی رکنیت کبھی نہیں مل سکے گی۔ یورپ نے ترکی کو دھوکا دیا ہے، اس کی امیدوں پر پانی پھیرا ہے۔ امریکی وزیر دفاع رابرٹ گیٹس کہتے ہیں کہ اگر آج ترکی مشرق کی طرف دیکھ رہا ہے تو کچھ حیرت کی بات نہیں۔ یورپ میں کئی قوتیں ایسی ہیں جنہوں نے اپنی طرز عمل سے ترکی کو ایسا کرنے پر مجبور کردیا ہے۔ ترکی کے پاس اب مشرق کی طرف دیکھنے کے سوا کوئی چارہ بھی نہیں۔
جو کچھ یورپ نے ترکی کے ساتھ روا رکھا ہے اس کے پس منظر میں اب اردگان نے کھل کر عوام کی رائے کے مطابق کام شروع کردیا ہے۔ وہ اسلام کو بنیادی ایجنڈا قرار دینے میں کوئی باک محسوس نہیں کرتے اور ساتھ ہی انہوں نے ترکی اور مشرق اور مغرب کے توازن پر توجہ دینا بھی کم کردیا ہے۔ اب تک ترکی میں مشرق اور مغرب کے مابین توازن پر خوب توجہ دی جاتی رہی ہے مگر فریڈم فلوٹیلا پر اسرائیلی کمانڈوز کے حملے کے بعد صورت حال بدل گئی ہے۔ کل تک ترکی چاہتا تھا کہ اسے یورپی یونین کی رکنیت ملے اور وہ اس معاملے میں یورپ کے معیارات اپنانے کے لیے بے تاب تھا۔ مگر اب سیاسی سوچ میں مشرق نوازی ابھر رہی ہے۔ ترک خارجہ پالیسی میں بھی مشرق و مغرب کا توازن اب کم ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ انٹرنیشنل کرائسز گروپ میں ترکی سے متعلق امور کے ڈائریکٹر ہیو پوپ کا کہنا ہے کہ ترکی مشرق وسطیٰ میں ایک مثالی ملک ہے اور اگر وہ اپنی حیثیت کو برقرار رکھنا چاہتا ہے تو اسے لازمی طور پر اپنی پالیسیوں اور بیانات میں توازن برقرار رکھنا ہوگا۔ کچھ عرصہ پہلے تک وہ خطے کے تمام اہم ممالک سے بات چیت میں خاصے توازن اور غیر جانبداری کے ساتھ بات کرنے کی صلاحیت رکھتا تھا۔ اب اسے یہ صلاحیت بحال کرنی ہوگی۔
امریکی صدر بارک اوباما نے ترکی میں رونما ہونے والی تبدیلیوں کو زیادہ اہمیت دینے سے گریز کیا ہے۔ فریڈم فلوٹیلا کے واقعے کے بعد انہوں نے پس پردہ سفارت کاری البتہ تیز کردی ہے۔ اردگان نے اس واقعے کے بعد اسرائیل کی جانب سے تحقیقات سے انکار پر وفد واشنگٹن بھیجا تھا۔ وزیر اعظم اردگان کی نظر آئندہ برس ہونے والے انتخابات پر بھی ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ انتہائی دائیں بازو کی جماعتیں اور کمال ازم کے حامی ابھر رہے ہیں۔ ۶۲ سالہ کمال کلکداروغلو کی صورت میں ایک متبادل لیڈر بھی تیار ہے۔ ایسے میں ترکی کے طول و عرض میں اسرائیل مخالف جذبات اسلام نواز اے کے پی پارٹی کی پوزیشن مستحکم کرنے میں اہم کردار ادا کریں گے۔ ایک امریکی عہدیدار کا کہنا ہے کہ ترکی ہمیشہ کئی شناختوں کا حامل رہا ہے۔ اب مغربی قوتوں کو بہت احتیاط سے کام لینا ہے۔ انہیں یہ ثابت کرنا ہے کہ ایک مسلم ملک بھی مغرب کا حصہ بن سکتا ہے۔ ترکی سے تعلقات اس نہج پر رکھنے ہیں کہ کسی بھی مرحلے میں بات نہ بگڑے۔ واشنگٹن نے معاملات پر اچھی طرح نظر رکھی ہوئی ہے۔
ترکی کو مغرب کا حصہ بنانے کی خواہش چند امریکی عہدیداروں کی ہوسکتی ہے مگر صرف خواہش سے کیا ہوتا ہے۔
(بشکریہ: ’’ٹائم میگزین‘‘۔ ۵ جولائی ۲۰۱۰ ء)
Leave a Reply