اکیسویں صدی کا پہلا عشرہ ایک ماہ قبل ختم ہوا ہے۔ اکیسویں صدی کے آغاز پر جن امیدوں کا اظہار کیا گیا تھا ان میں سے چند ہی پوری ہو پائی ہیں۔ اب پھر امید ظاہر کی جارہی ہے کہ رواں صدی کا دوسرا عشرہ بہت سی مثبت تبدیلیاں لائے گا۔ کیا واقعی ایسا ہوگا؟ کیا پہلا عشرہ ہر اعتبار سے صرف مایوس کرگیا ہے؟ امریکا نے پورے عشرے کے دوران قتل و غارت کا بازار گرم رکھا۔ کئی خطوں میں شدید عدم توازن پیدا ہوا اور عالمی معیشت بھی داؤ پر لگ گئی۔ ڈیڑھ سال قبل عالمی معیشت جس بحران سے گزری اس کے نتیجے میں کئی ممالک ایک بار پھر شدید بحرانوں میں گھر گئے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ اب ان کی معاشی بحالی کئی عشروں میں ممکن ہوسکے گی۔ عراق، افغانستان اور پاکستان میں جو کچھ ہوا وہ صرف مزید خرابیاں پیدا کرنے کا باعث بنا ہے۔ غزہ اور لبنان میں اسرائیل نے جو کچھ کیا وہ بھی کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔ امریکا نے دنیا کو جنگ کی بھٹی میں جھونکنے کی بھرپور کوشش کی ہے۔
اکیسویں صدی کے پہلے عشرے کے دوران بہت کچھ توقعات اور امیدوں کے مطابق نہ ہوسکا۔ عالمگیر معاشی بحران نے بیشتر امیدوں پر پانی پھیر دیا۔ نئے ہزاریے کے لیے جن اہداف کا تعین کیا گیا تھا ان میں سے بیشتر کے حاصل ہونے کی امید بر آتی دکھائی نہیں دیتی۔ دنیا بھر میں تقریباً ایک ارب افراد ایسے ہیں جو بیروزگاری، خوراک کی قلت، افلاس اور عدم استحکام کا شکار ہیں۔ یہ سب کچھ مایوسی میں اضافہ کر رہا ہے۔
کیا صورت حال ایسی ہے کہ صرف مایوس ہوا جاسکتا ہے؟ ایسا نہیں ہے۔ چند ایک محاذوں پر کامیابیاں بھی ملی ہیں۔
آئیے، ایک نظر ان پانچ بڑی اور نمایاں کامیابیوں پر ڈالیں جو گزرے ہوئے عشرے کے دوران ہمیں حاصل ہوئی ہیں۔
پہلی کامیابی
’’جی ٹوئنٹی‘‘ کے نام سے ترقی یافتہ اور ابھرتے ہوئے ممالک کا اتحاد اس امر کا غماز ہے کہ دنیا کو چلانے کے لیے ایک نیا میکینزم ابھر رہا ہے۔ معاشی میدان میں جی سیون نے بھی اہم کردار ادا کیا ہے۔ جی ٹوئنٹی کے بارے میں عمومی تصور یہ ہے کہ وہ معاشرتی استحکام پر توجہ مرکوز کیے ہوئے ہے۔ عالمی معیشت میں چند ممالک تیزی سے ابھرے ہیں اور بہت کچھ تبدیل کرنے کا عزم رکھتے ہیں۔ ان ممالک نے پس ماندگی کو شکست دے کر اب اپنی معیشت کو مستحکم کرنا شروع کردیا ہے۔ اس رجحان سے عالمی معیشت میں استحکام پیدا ہوا ہے۔
دوسری کامیابی
اکیسویں صدی کے پہلے عشرے میں برازیل کا ابھر کر سامنے آنا ایک صحت مند علامت ہے۔ ابھرتی ہوئی معیشتوں میں برازیل کا نمایاں مقام ہے۔ ۲۰۰۰ء میں برازیل کا پانچ سو سالہ جشن منایا گیا۔ اس کی غیر معمولی صلاحیتوں پر کسی کو شک نہیں۔ برازیل میں کئی حکومتوں نے قومی تعمیر اور ترقی کے حوالے سے بھرپور کوششیں کی ہیں جن کے نتیجے میں بے مثال ترقی دیکھنے کو مل رہی ہے۔
بیسویں صدی کے دوران برازیل میں میلے ٹھیلے عام تھے۔ سماجی انصاف دکھائی نہیں دیتا تھا۔ سیاسی بدنظمی اور بدعنوانی عام تھی۔ معاشی اور معاشرتی انتشار نمایاں تھا۔ معاشرہ جرائم سے اٹا پڑا تھا۔ ۱۹۹۴ء میں برازیل نے تبدیل ہونے کا فیصلہ کیا۔ ریئل پلان کے تحت مختلف حکومتوں نے ملک کے حالات بہتر بنانے پر توجہ دی اور محنت کی۔ ۱۹۹۵ء سے ۲۰۰۳ء تک کارڈوسو نے حکومت کی۔ اب لیولا کی حکومت ہے۔ جمہوریت کو مستحکم کرنے پر توجہ دی گئی ہے۔ متحرک سول سوسائٹی نے نے بھی معاشرے کو بہتر بنانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ افراط زر پر بہت حد تک قابو پالیا گیا ہے۔
برازیل میں سیاسی تبدیلیاں بھی تیزی سے نمودار ہوئی ہیں۔ مخالف نظریات کی حامل سیاسی جماعتوں کو اقتدار ملتا رہا ہے مگر قومی تعمیر اور ترقی سب کی ترجیح رہی ہے۔ معاشی عدم مساوات دور ہوتی جارہی ہے۔ ترقی کا عمل تیز تر ہے۔ غربت کا گراف گرتا جارہا ہے۔ بچوں کی تعلیم کے اخراجات حکومت نے اپنے ذمے لے لیے ہیں۔
تیسری کامیابی
جاپان نے کئی عشروں تک عالمی سیاست میں دوسرے اور تیسرے درجے کا کردار ادا کیا ہے۔ اس کی پوری توجہ معاشی امور کو بہتر بنانے پر مرکوز رہی ہے۔ جدید ترین ٹیکنالوجی کو پروان چڑھانے میں جاپان نے قائدانہ کردار ادا کیا ہے۔ دنیا کی دوسری بڑی معیشت ہونے کے ناطے جاپان آج بھی کئی خطوں کے لیے انتہائی اہم ہے۔ اکیسویں صدی کے پہلے عشرے میں ایک بڑی پیش رفت یہ ہوئی کہ جاپان میں پانچ عشروں سے چلا آ رہا لبرل ڈیموکریٹک پارٹی کا اقتدار ختم ہوا۔ ایل ڈی پی کے وزرائے اعظم بالخصوص کوزومی نے دوسری جنگ عظیم کے دوران جنگی جرائم میں مرتکب افراد کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے یاسوکونی کے مقبرے پر جانے کا سلسلہ جاری رکھا جس کے نتیجے میں چین اور شمالی کوریا ناراض ہوئے۔ اس پالیسی نے شمال مشرقی ایشیا میں پائیدار امن کے امکانات کو شدید نقصان پہنچایا۔
جاپانی وزیر اعظم یوکیو ہاتویاما نے چین کے نائب وزیر اعظم کی شہنشاہ ہیرو ہیٹو سے ملاقات کا اہتمام کیا۔ جاپان، چین اور شمالی کوریا کے درمیان خوشگوار تعلقات خطے ہی کے لیے نہیں بلکہ عالمی برادری کے لیے بھی غیر معمولی مثبت اثرات کے حامل ہوں گے۔ جاپان کا عالمی سیاست میں سرگرم ہونا کئی بڑی تبدیلیوں کی راہ ہموار کرسکتا ہے۔
چوتھی کامیابی
اکیسویں صدی کے پہلے عشرے کے دوران یورپ کے عالمی کردار کی راہ مسدود ہوئی، یا کم از کم تاثر تو یہی پایا جاتا ہے۔ یورپی یونین کی توسیع نے اس اتحاد میں جمہوریت کی راہ ہموار کی ہے۔ مشرق یورپ کی ریاستوں کو اتحاد میں شامل کیے جانے سے معاشی امکانات روشن تر بنانے میں خاطر خواہ مدد ملی ہے۔ یورپی یونین اب بھی غیر معمولی اہمیت کی حامل ہے۔ عالمی آبادی کا صرف ۷ فیصد اس وقت مجموعی عالمی خام پیداوار کا ۲۲ فیصد پیدا کر رہا ہے۔ یورپ اب عالمی سیاست میں کوئی بڑا کردار ادا کرنے کے قابل نہیں رہا۔ مگر اس کا یہ مطلب نہیں لیا جاسکتا کہ اس کا کردار ختم ہوکر رہ گیا ہے۔ یورپ آج بھی معاشی قوت ہے اور عالمی فیصلوں پر اثر انداز ہو رہا ہے۔ لیٹویا، ایسٹونیا، لتھوانیا، پولینڈ، ہنگری، چیک جمہوریہ، سلوویکیا، سلووینیا، بلغاریہ اور رومانیہ کو یورپی یونین کا حصہ بنانے سے مشرقی یورپ کی پس ماندگی دور کرنے میں غیر معمولی مدد ملے گی۔ اس سے خطے کی معاشی حالت ہی بہتر نہیں ہوگی بلکہ دوسرے خطوں کو بھی بہت کچھ ملے گا۔ پرتگال اور اسپین کو یورپی یونین پہلے ہی گلے لگاچکی ہے۔ پوری بیسویں صدی کے دوران یورپ میں اس نوعیت کی تبدیلی کے بارے میں سوچا بھی نہیں جاسکتا تھا۔
پانچویں کامیابی
جن چار تبدیلیوں یا کامیابیوں کا ذکر کیا گیا ہے وہ جغرافیائی اور سیاسی نوعیت کی تھیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اکیسویں صدی کے پہلے عشرے کی سب سے بڑی اور نمایاں کامیابی اور تبدیلی ٹیکنالوجی کے میدان میں رونما ہوئی ہے۔ اس تبدیلی کا کسی سرحد سے کوئی تعلق نہیں۔ اس کے اثرات دنیا کے ہر خطے، ہر ملک، ہر شہر اور ہر گائوں میں واضح طور پر محسوس کیے جاسکتے ہیں۔ دنیا کو کوئی بھی فرد اب اس کامیابی کے مثبت اثرات سے محروم اور منفی اثرات سے محفوظ نہیں۔ افریقا جیسے پسماندہ براعظم کے کروڑوں افراد کی زندگی میں بھی اس کامیابی نے بڑی تبدیلی کی راہ ہموار کی ہے۔ بات ہو رہی ہے موبائل ٹیلی فون ٹیکنالوجی کی۔ موبائل فون ٹیکنالوجی کیا آئی، سب کچھ بدل گیا۔ بنگلہ دیش جیسے کم ترقی یافتہ ممالک میں بھی اس ٹیکنالوجی نے بہت کچھ بدل دیا ہے۔
بیسویں صدی کے خاتمے تک یہ تصور عام تھا کہ موبائل ٹیلی فون صرف امیروں کے لیے ہے اور عیاشی کی ایک صورت ہے۔ جن کی آمدنی کم تھی وہ تو اس نعمت کے حصول کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتے تھے۔ کسی بھی دوسری ٹیکنالوجی کو اس تیزی سے فروغ نہیں ملا جس تیزی سے موبائل فون ٹیکنالوجی ہماری زندگی کا حصہ بنی ہے۔ رابطوں میں آسانی کے ساتھ ساتھ بہت سی دشواریاں بھی پیدا ہوئی ہیں۔ دنیا بھر کی خبریں موبائل ان باکس کے ذریعے تیزی کے ساتھ ہر شخص تک پہنچ جاتی ہیں۔ کسی بھی شخص سے کسی بھی وقت رابطہ قائم کرنا اب کوئی دشوار عمل نہیں رہا۔ بہت سے شعبوں میں اس ٹیکنالوجی کی بدولت پیداواری صلاحیت بہتر بنانے میں مدد ملی ہے۔ اس ایک ٹیکنالوجی کی بدولت کروڑوں افراد کو روزگار بھی ملا ہے۔
ہم اکیسویں صدی کے دوسرے عشرے میں جی رہے ہیں۔ اس عشرے میں بھی ہمارے لیے بہت سی مشکلات اور چیلنج ہیں۔ ان چیلنجوں سے کس طور نمٹا جاسکے گا، اس کا مدار بہت حد تک ہماری سوچ، ارادے اور عمل پر ہے۔ کئی بڑے واقعات رونما ہوسکتے ہیں۔ جن معیشتوں کو آج عروج نصیب ہو رہا ہے انہیں ایک عشرے کے دوران زوال کا سامنا بھی ہوسکتا ہے۔ ہوسکتا ہے کہ امریکا ایک عشرے کے دوران بھی افغانستان اور عراق سے مکمل انخلا کے قابل نہ ہوسکے۔
اکیسویں صدی کے پہلے عشرے کی پانچ بڑی کامیابیوں کو بنیاد بناکر کچھ کیا جائے تو چند بڑی کامیابیوں کی توقع رکھی جاسکتی ہے۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ دوسرے عشرے کے دوران یورپی یونین میں ترکی، یوکرائن، مولدووا، جارجیا، آذر بائیجان، سربیا، کوسووو، کروشیا اور بوسنیا ہرزیگووینا کو بھی شامل کرلیا جائے۔ بہت ممکن ہے کہ اکیسویں صدی کا دوسرا عشرہ یورپ کے زوال کے بجائے اس کی تقویت دیکھے۔
برازیل کا استحکام لاطینی امریکا اور دیگر خطوں کے لیے بھی مثبت اثرات کا حامل ثابت ہوسکتا ہے۔ یہ ممکن ہے کہ جی۔۲۰ کے پلیٹ فارم سے عالمگیر حکمرانی کے نئے سیٹ اپ کی بنیاد رکھ دی جائے۔ امید کی جانی چاہیے کہ اس عشرے کے دوران عالمگیر سطح پر غربت اور پس ماندگی ختم کرنے کے لیے ٹھوس اقدامات کیے جائیں گے۔
(بشکریہ: ’’دی گلوبلسٹ ڈاٹ کام‘‘۔ ۱۱ ؍جنوری ۲۰۱۰ء)
Leave a Reply