
موسمِ گرما کی شروعات افغانستان میں امریکا اور اس کے اتحادیوں کے لیے نیا امتحان لے کر آرہی ہے یہی وجہ ہے کہ ذرائع کے مطابق امریکا اپنے اتحادیوں سمیت افغانستان کے دور دراز علاقوں سے اپنی افواج کا انخلاء شروع کر کے انہیں بڑے بڑے عسکری اڈوں میں مجتمع کر رہا ہے اور ان کی جگہ افغان فوج کو تعینات کرنے کے مراحل کا آغاز ہو چکا ہے۔ یہ بھی کہا جارہا ہے کہ جولائی میں باقاعدہ امریکا اور اس کے صلیبی اتحادیوں کا انخلاء شروع کر دیا جائے گا۔ ایک ایسے موقع پر جب گرمیوں کی آمد پر افغان طالبان امریکا اور اس کے اتحادیوں پر نئے جان لیوا حملوں کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں تو دوسری جانب پاکستان میں امریکی جاسوس نیٹ ورک کی چابی ریمنڈ ڈیوس کی شکل میں پاکستان کے ہاتھ لگ چکی ہے اور امریکیوں کی بے چارگی میں کئی گنا اضافہ کر گئی ہے۔ امریکیوں کی اس وقت جان توڑ کوشش ہے کہ پاکستان افغانستان سے امریکا اور اس کے اتحادیوں کے انخلاء میں بھرپور معاونت مہیا کرے۔ لیکن کیا یہ پاکستان کے لیے ممکن ہو سکے گا؟ (تازہ اطلاعات کے مطابق ریمنڈ ڈیوس کو ۶ کروڑ روپے کا خون بہا ادا کرنے پر رہا کر دیا گیا ہے) خصوصاً ایسی صورت میں جبکہ امریکا کی افغانستان میں موجودگی سے فائدہ اٹھا کر اسرائیل اپنے حامیوں کے ساتھ افغانستان اور پاک افغان سرحد پر دہشت گردی کا مضبوط نیٹ ورک بنا چکا ہے۔
اس بات کو بھی ذہن میں رکھا جائے کہ خطے میں امریکا کے لیے اس نازک صورتحال کی موجودگی میں ہی شمالی افریقا میں عوامی ردعمل کا آتش فشاں ابل پڑا ہے۔ اہمیت کے لحاظ سے افغانستان اور شمالی افریقا دونوں خطے امریکا اور اس کے یورپی اتحادیوں کے لیے انتہائی اہمیت کے حامل ہیں۔ اور یمن کے صدر علی عبداللہ صالح کا یہ بیان نظرانداز نہیں کیا جاسکتا کہ عالم عرب میں عوامی شورش کو تل ابیب میں موجود ایک ’’دفتر‘‘ کے ذریعے کنٹرول کیا جارہا ہے۔ امریکی سینٹرل کمانڈ جس کا ہیڈ کوارٹر قطر کے دارالحکومت دوحہ میں قائم ہے اس وقت افغانستان اور شمالی افریقا کے درمیان شٹل کاک بنا دیا گیا ہے۔ سینٹرل کمانڈ کی ذمہ داری میں ایک طرف پاکستان اور افغانستان آتا ہے تو دوسری جانب مصر اس کی آخری حدود میں تصور کیا جاتا ہے، جبکہ بحیرہ روم کی جانب سے شمالی افریقا ناٹو کی کارروائیوں کی زَد میں تصور کیا جاتا ہے۔ ان دونوں عسکری کمانڈز میں اسرائیل کی حیثیت ایک غیر رسمی لیکن اہم ترین فریق کی سی ہے۔ بنیادی طور پر عسکری لحاظ سے یہ دونوں اہتمام اسرائیل کے تحفظ اور تیل پر اجارہ داری کے لیے ہی قائم کیے گئے تھے۔
بعض عرب صحافتی ذرائع کے نزدیک امریکا افغانستان سے جان چھڑا کر اب باقی توجہ شمالی افریقا پر مبذول کرنا چاہ رہا ہے اس سلسلے میں امریکا کے سب سے بڑے اتحادی برطانیہ نے ایک برس قبل ہی منصوبہ بندی شروع کر دی تھی۔ امریکا اور برطانیہ کا افغانستان میں بڑا منصوبہ یہ تھا کہ پاک افغان سرحد پر حالات خراب کر کے اور بلوچستان کا مسئلہ پیدا کر کے پاکستان کی جوہری صلاحیت کو ناکارہ بنایا جائے، اس سلسلے میں پاکستان میں ہر طرف دہشت گردی کا بازار گرم کیا گیا۔ پھر یہ پروپیگنڈا کیا جانے لگاکہ طالبان اسلام آباد پر قبضے کے لیے مارگلہ کے پہاڑوں تک آن پہنچے ہیں۔ لیکن پاک فوج اور پاکستان کے تحفظ کے ضامن اداروں نے بے پناہ قربانیاں دے کر اس سارے صہیونی منصوبے کو ناکام بنا دیا۔ مگر جس وقت صلیب اور مشرک و یہود کی اس دجالی مثلث کے تمام منصوبے ناکام ہونے لگے تو عالمی قوتوں کی زیر سرپرستی پاکستان کے اندر دہشت گردی کا نیا سلسلہ شروع کر دیا گیا۔
۲۰۰۸ء تک امریکیوں اور اس کے اتحادیوں کا خیال تھا کہ افغانستان سے بدحواسانہ فرار انہیں مشرقِ وسطیٰ اور شمالی افریقا میں انتہائی کمزور کر دے گا، اس کے ساتھ ساتھ اسرائیل کی مشرق وسطیٰ میں پوزیشن دفاعی ہو جائے گی اس لیے افغانستان سے جانے کے لیے اور شمالی افریقا میں نیا محاذ کھولنے سے پہلے افغان طالبان کے ساتھ خفیہ مذاکرات کا سلسلہ شروع کر دیا جائے اور اپنی شرائط پر انہیں ایسی پوزیشن لینے پر مجبور کیا جائے کہ دنیا کو امریکی شکست کا تاثر نہ مل سکے۔ لیکن افغان طالبان نے افغانستان سے امریکی انخلاء کی قیمت پر ان کے کسی بھی مطالبے کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا۔ ان کی بس ایک ہی شرط تھی کہ امریکا فوری طور پر غیر مشروط طور پر افغانستان سے چلا جائے۔
دوسری جانب اسرائیل کی جانب سے امریکا اور ناٹو پر دبائو تھا کہ پاکستان کے جوہری اثاثوں کے سلسلے میں کوئی ٹھوس قدم اٹھایا جائے کیونکہ صورتحال یہ ہو چکی تھی کہ افغانستان میں امریکا اور اس کے صلیبی اتحادیوں کی درگت مشرقِ وسطیٰ اور شمالی افریقا میں امریکا اور اسرائیل کے تاثر کو بری طرح کمزور کر رہی تھی۔ اس کے ساتھ ہی ان خدشات نے بھی سر اٹھانے شروع کر دیے تھے کہ جلدی اگر عالم عرب میں کسی بڑی تبدیلی کا ڈول نہ ڈالا گیا تو افغانستان سے امریکا کے انخلاء کے بعد جو ردعمل مشرق وسطیٰ میں سر اٹھائے گا وہ امریکا نواز حکمرانوں کو حکومتوں سے الگ کر کے امریکا اسرائیل مخالف حکومتوں کی تشکیل کا سبب بن سکتا ہے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ جس وقت سوویت یونین کی تحلیل کے بعد افغانستان کو اس کے حال پر چھوڑ دیا گیا تھا تو اس میں امریکا یا مغرب کوئی غفلت کے مرتکب نہیں ہو رہے تھے جیسے پاکستانی سیاستدان یہ رونا روتے ہیں کہ امریکا نے سوویت روس کے بعد افغانستان کو اکیلا چھوڑ دیا اور یوں یہاں انتہا پسندی نے جنم لیا۔ پارٹی وابستگیوں سے ہٹ کر پاکستانی سیاستدانوں کا نہ تو کوئی ویژن ہے اور نہ ہی ان کے دماغوں میں اتنی جگہ ہوتی ہے کہ یہ دور تک دیکھ یا سوچ سکیں۔
امریکا نے افغانستان کو سوویت یونین کی تحلیل کے بعد خاص منصوبہ بندی کے تحت اکیلا چھوڑا تھا۔ یہ بالکل ایسے ہی تھا جیسے وہ کویت کی نام نہاد آزادی کے لیے نوے کی دہائی میں مشرقِ وسطیٰ میں وارد ہوا اور صدام کو حکومت سے ہٹائے بغیر ہی واپس آگیا تھا یہ سب کچھ بھی ایک خاص منصوبہ بندی کے تحت تھا۔ کیونکہ اگلے بڑے حملے کے لیے صدام کو زندہ رکھنا اس کی دھمکیوں کی امریکا اور عالمی صہیونیت کو تاحال ضرورت تھی۔ کیونکہ اگر صدام کو پہلی خلیجی جنگ میں حکومت سے الگ کر دیا جاتا اور عوامی ووٹوں سے کوئی دوسری حکومت برسراقتدار آجاتی تو نائن الیون کے ڈرامے کے بعد امریکا کو مشرق وسطیٰ میں کوئی بڑا فریق نہ ملتا اور نہ ہی عراق کے تیل پر قبضے کا کوئی جواز ہاتھ آتا۔ یہی وجہ ہے کہ جس وقت بڑے منصوبے کا وقت آیا تو نائن الیون کے بعد اسے کمال ہوشیاری سے بڑا فریق بنا کر عراق پر حملہ کیا گیا اور تمام عرب حکومتوں کو سبق دے دیا گیا۔
ایسا ہی کھیل افغانستان میں کھیلا گیا تھا، اگر سوویت یونین کی تحلیل کے بعد افغانستان میں کوئی ایسی حکومت سامنے آجاتی جو مغرب اور مشرق دونوں سے متوازی اور اچھے تعلقات استوار کر لیتی تو پھر نائن الیون کے بعد امریکا کو ’’ہائی جیکر‘‘ کہاں سے ہاتھ آتے، اور پاکستان تک پہنچنے کا راستہ کہاں ملتا؟ اب صورتحال یہ ہے کہ افغانستان اور عراق کے بعد امریکا میں موجود انتہاپسند صہیونی لیبیا پر بھی افغانستان اور عراق جیسی عسکری مہمات چاہتے ہیں جبکہ اس حوالے سے امریکی وزیر دفاع رابرٹ گیٹس دبے الفاظوں میں خبردار کر چکے ہیں کہ ’’افغانستان کی جنگ کئی ٹریلین ڈالر کی جنگ تھی لیکن ہم اس کے باوجود طالبان کو شکست نہ دے سکے اسی طرح عراق میں جنگ پر کئی ٹریلین ڈالر صَرف ہوئے۔ لیکن یہاں پر بھی مقاصد حاصل نہ ہو سکے، اب ان دونوں مہمات کے بعد بھی کوئی امریکا میں یہ سوچتا ہے کہ لیبیا پر بھی ایسی ہی مہم جوئی کی جائے تو اسے چاہیے کہ اپنے دماغ کا علاج کرائے‘‘۔ لیکن اس کے باوجود بعض عرب ذرائع کا خیال ہے کہ امریکا لیبیا کے حوالے سے ۱۹۹۰ء کی عراق امریکا جنگ کے بعد جس وقت عراق کی صدام حکومت پر پابندیاں لگا دی گئی تھیں تو اس وقت جنوبی عراق میں عوامی بغاوت کا صدام انتظامیہ کو سامنا تھا اور اس زمانے میں صدام انتظامیہ نے اس بغاوت کو انتہائی بے رحمی سے کچل دیا تھا، لیکن اس کے باوجود امریکا اور اس کے صلیبی اتحادیوں نے اس سلسلے میں کوئی مداخلت نہیں کی تھی۔ بلکہ اس بغاوت کی شکل میں ردعمل کی چنگاری کو باقی رہنے دیا تھا تاکہ کسی بھی بڑی مہم کے دوران اس ردعمل کی چنگاری کو شعلے میں تبدیل کر کے اپنے لیے استعمال کیا جائے، اور ایسا فی واقع ہوا۔
جس وقت امریکا اور اس کے صلیبی اتحادیوں کی فوجیں کویت سے براستہ ام قصر عراق میں وارد ہوئیں اور عازم بغداد ہونے کے لیے انہیں تمام جنوبی عراق سے گزرنا پڑا تو یہ تمام علاقہ امریکی اور دیگر صلیبی افواج کے لیے مددگار ثابت ہوا اور انہیں یہاں کسی قسم کی مزاحمت کا سامنا نہیں کرنا پڑا تھا۔ مزاحمت کا آغاز بغداد سے شروع ہوا تھا اور اس کے بعد مجاہدین نے جدوجہد کی ایک نئی تاریخ رقم کی۔
یہی صورتحال امریکا اور اسرائیل اب لیبیا کے حوالے سے چاہتے ہیں امریکا کی خواہش ہے کہ جب تک افغانستان سے اسے ’’باعزت‘‘ انخلاء کا راستہ نہیں ملتا اس وقت تک لیبیا میں بغاوت کی چنگاری کو سلگنے دے۔ جیسے ہی حالات موافق ہوں تو ناٹو کی مدد سے بحیرہ روم کی جانب سے براستہ بن غازی طرابلس پر چڑھائی کر دی جائے۔ (لیکن وہ اس میں ناکام ہو چکا ہے) اس حوالے سے ایک پہلو اور بھی سامنے آچکا ہے اور وہ اسرائیل اور یورپ کے درمیان کچھ معاملات میں کھنچائو پیدا ہو چکا ہے۔ اس میں سب سے زیادہ جرمنی کا معاملہ ہے۔ یورپ کی صنعتی بھٹیاں زیادہ تر لیبیا کے ایندھن سے گرم ہیں۔ اٹلی، فرانس اور جرمنی براہ راست اس سے مستفید ہوتے ہیں۔ اب اگر لیبیا میں ایسی کوئی عوامی ہلچل مچتی ہے یا اس پر بین الاقوامی پابندیاں لگائی جاتی ہیں تو اس کا سب سے زیادہ نقصان یورپ کے ان ممالک کا ہوگا۔
مستقبل قریب میں اسرائیل، یورپ، چین اور جاپان کی اقتصادی شہ رگ اپنے ہاتھ میں لینا چاہتا ہے۔ امریکی ایوان نمائندگان اور امریکی سینیٹ میں بیٹھے صہیونی مہرے اس منصوبے پر خاموشی سے عمل پیرا ہیں، اس کے نتائج امریکا یا امریکی قوم کیا بھگتے گی؟ اس سے انہیں کوئی سروکار نہیں۔ اس حوالے سے ہم پہلے بھی مختلف انداز میں تجزیات پیش کر چکے ہیں کہ اسرائیل آئندہ قریبی وقت میں کیا کرنے جارہا ہے ۔
اس حوالے سے اس نے افغانستان کا ٹاسک امریکا کے حوالے کر رکھا تھا، اس کے بعد عراق کو تباہ کرا کر خطے کے ہی ایک اور ملک کے ’’ناقابل تسخیر‘‘ ہونے کا تاثر ابھارا جارہا ہے۔ اس لیے ایک یہ جواز اور دوسرا جواز عالم عرب میں ’’انتہا پسند مسلمانوں‘‘ کا اقتدار میں آنے کا احتمال ہے جسے دنیا کو بے وقوف بنانے کے لیے استعمال کیا جائے گا اور دفاع کے نام پر اسرائیل خلیجی تیل پر ہاتھ صاف کرنے کے لیے اور مغرب کی توانائی کی شہ رگ ہاتھ میں لینے کے لیے حملہ آور ہوگا۔ اس سارے صہیونی منصوبے کا ہراول دستہ امریکا اور اس کے صلیبی اتحادی ہیں۔ اس کے بعد اسرائیل خود خطے کے تمام امور اپنے ہاتھ میں لے لے گا۔
تاریخ نے مختصر عرصے میں اپنے آپ کو دہرایا ہے۔ یقینا نتائج بھی اب مختصر عرصے میں ہی ظاہر ہوں گے کیونکہ اکیسویں صدی کا گریٹ گیم انتہائی منصوبہ بندی سے افغانستان سے شمالی افریقا منتقل کیا جارہا ہے… عالم عرب کی اسلامی تحریکوں کو اس سلسلے میں انتہائی دانشمندی سے قدم اٹھانے ہوں گے۔
(بشکریہ: روزنامہ ’’المنصف‘‘ حیدرآباد دکن، ۲۱ مارچ ۲۰۱۱ء)
Leave a Reply