
افغانستان کا المیہ یہ ہے کہ اُس کے بیشتر مسائل کو دیرپا اور موزوں انداز سے حل کرنے کے بجائے فوری حل تلاش کرنے کی کوشش کی جاتی رہی ہے۔ راتوں رات سب کچھ درست کرنے کی ذہنیت یا خواہش نے افغانستان کے مسائل کو حل کرنے کے بجائے اُن میں اضافہ ہی کیا ہے اور اُن کی پیچیدگی بھی بڑھائی ہے۔ امریکا اور نیٹو نے افغانستان میں اربوں ڈالر لگائے ہیں۔ ہزاروں اتحادی فوجیوں کی جانیں بھی افغانستان میں گئی ہیں۔ یہ سب کچھ اِس لیے تھا کہ افغانستان میں جمہوریت پروان چڑھے اور ریاستی ادارے مستحکم ہوں، مگر بیشتر معاملات کا فوری حل تلاش کرنے کی خواہش اور کوشش نے اتحادیوں کی بیشتر کاوشوں کو ناکامی سے دوچار کیا ہے یا اُنہیں دھندلا دیا ہے۔ عاجلانہ اقدامات اور افغان حکومت میں لیڈر شپ کی کمزوری نے افغانستان میں دیرپا امن اور حقیقی استحکام کے قیام کے خواب کو شرمندۂ تعبیر ہونے کی منزل سے اب تک دور رکھا ہے۔
۲۰۰۱ء میں جرمن شہر بون میں طے پانے والے معاہدے کے تحت افغانستان میں چند گروپوں اور شخصیات کو عبوری انتظامات سونپے جانے تھے۔ یہ بنیادی غلطی تھی۔ افغانستان میں حقیقی استحکام یقینی بنانے کے لیے ناگزیر ہے کہ معاشرے کے تمام طبقات اور لسانی گروپوں کو عبوری اور منتخب سیٹ اپ میں خاطر خواہ نمائندگی دی جائے۔ حقیقی نمائندگی یقینی بنائے بغیر افغانستان میں امن اور استحکام کا سوچا بھی نہیں جاسکتا۔ سب سے ضروری اقدام تو یہ تھا کہ جن لسانی، ثقافتی، نسلی یا مذہبی اکائیوں کو بون مذاکرات میں خاطر خواہ نمائندگی نہیں دی گئی تھی، اُنہیں عبوری حکومتی سیٹ اپ میں بھی آگے اور نمایاں رکھا جاتا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ایوانِ صدر، پارلیمان اور صوبائی کونسلوں میں نمائندگی کی بنیاد وسیع کرنے کی کوشش کی گئی مگر اس کے باوجود حقیقی کامیابی مل نہ سکی اور اقتدار و اختیار چند گروپوں اور شخصیات کے ہاتھ میں رہا، جو ریاستی وسائل کو اپنے ذاتی اور گروہی مفادات کے لیے دل کھول کر استعمال کرتے رہے۔ کوئی انہیں ٹوکنے والا تھا نہ حساب مانگنے والا۔ افغانستان میں ہر سطح کے سرکاری افسران نے قومی وسائل کی لوٹ مار کا جو بازار گرم کیا، اُس سے عالمی برادری نے چشم پوشی کی اور کسی سے کوئی پوچھ گچھ نہیں کی گئی۔ ہر طرح کی بے قاعدگی اور بے ضابطگی سے چشم پوشی برتنے کو افغانستان میں معاملات جوں کے توں رکھنے اور استحکام یقینی بنانے کا بہترین طریقہ سمجھ لیا گیا۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ افغان حکومت کی غیر معمولی کرپشن، بے قاعدگی اور اقربا پروری ہی نے ملک کے معاملات کو خراب کرنے اور بالخصوص طالبان کو دوبارہ مستحکم کرنے میں مرکزی کردار ادا کیا ہے۔
امریکا اور اس کے اتحادیوں نے کئی مواقع پر جان بوجھ کر ان لوگوں کو اقتدار میں رکھا ہے جن کی کرپشن اور انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ خیال یہ تھا کہ اِن لوگوں کو اپنی صفوں میں رکھ کر زیادہ آسانی سے قابو میں رکھا جاسکتا ہے۔ مگر یہ لوگ سرکاری ٹھیکوں اور منشیات کی تجارت کے ذریعے مزید دولت مند ہوئے تو اِن کے اثرات اور اختیارات میں غیر معمولی اضافہ ہوا۔ پھر تو وہ اور زیادہ بے خوف ہو کر اپنی مرضی کے مطابق کام کرتے گئے۔ عجلت کے عالم میں کیے جانے والے اقدامات مزید پیچیدہ مسائل کی راہ ہموار کرنے کا باعث بن گئے۔
بون معاہدے کے کچھ ہی دنوں کے بعد، ۲۰۰۲ء میں، افغانستانی معاشرے کو وسیع پیمانے پر پائے جانے والے تشدد سے پاک کرنے کے لیے سابق مجاہدین اور موجودہ طالبان کو غیر مسلح کرنے کا عمل شروع ہوا۔ اس عمل کے ذریعے معاشرے کو دوبارہ ہم آہنگی سے ہمکنار کرنا مقصود تھا۔ مگر اُسی دور میں امریکا اور اس کے اتحادیوں نے افغانستان کی دیگر ملیشیاؤں کو ہتھیاروں اور مالیاتی وسائل کی فراہمی جاری رکھی اور انہیں سکیورٹی کے حوالے سے وسیع تر ذمہ داریاں اور اختیارات سونپ دیے۔ صدر حامد کرزئی نے چند انتہائی متنازع شخصیات کو اہم عہدوں پر فائز کیا۔ عالمی برادری نے ایک طرف تو افغانستان میں جدید خطوط پر پولیس فورس تیار کرنے کا عمل شروع کیا اور دوسری طرف انتہائی کرپٹ عناصر اور معاشرے میں فساد پھیلانے والوں کو متوازی پولیس فورس کی حیثیت سے کھڑا کیا۔ ایک طرف افغان لوکل پولیس تھی اور دوسری طرف افغان پبلک پروٹیکشن فورس۔ ایک بار پھر وہی غلطی کی گئی جو اَب تک افغانستان کے معاملات کو اُلجھاتی آئی ہے۔ یعنی انتہائی پیچیدہ مسئلے کو فوری طور پر حل کرنے کی کوشش کی گئی۔
تمام معاملات کو تیزی سے درست کرنے کی ذہنیت نے جو خرابیاں پیدا کی تھیں، وہ خرابیاں اب بھی پیدا ہو رہی ہیں۔ تازہ ترین مثال حالیہ صدارتی انتخاب ہے۔ اس انتخاب نے افغانستان میں ریاستی اداروں کی ساکھ کو ایک بار پھر بُری طرح داؤ پر لگا دیا ہے۔ ملک میں ایک بار پھر سیاسی تعطل پیدا ہوا ہے۔ اشرف غنی اور عبداللہ عبداللہ کے درمیان شراکتِ اقتدار کا معاہدہ ہوگیا ہے مگر اب بھی پورے یقین سے یہ بات نہیں کہی جاسکتی کہ معاملات کب تک درست ہو پائیں گے۔ افغانستان کو ایک ایسی حکومت کی ضرورت ہے جو ہر اعتبار سے قانونی، نمائندہ اور مستحکم ہو۔ ایک مضبوط افغان حکومت ہی عالمی برادری اور علاقائی قوتوں سے معاملات طے کرسکتی ہے۔ کوئی مضبوط حکومت ہی ایک عشرے سے بھی زائد مدت کے دوران ہونے والی تھوڑی بہت ترقی کی ضامن ہوسکتی ہے۔
انتخابات کی نگرانی کرنے والے اداروں اور قواعد کو نظر انداز کیا گیا۔ الیکشن کمیشن نے قومی اور بین الاقوامی دباؤ کے آگے ہتھیار ڈال دیے اور اقوام متحدہ کے تحت نگرانی قبول کرلی۔ یہ نگرانی آڈٹ کی شکل میں تھی۔ افغان صدارتی انتخاب کے بعد جو غیر معمولی سیاسی تعطل پیدا ہوا، وہ اندرونی معاملہ تھا مگر اس میں غیر ملکی اداروں اور شخصیات کا عمل دخل قبول کر لیا گیا۔ بین الاقوامی مبصرین کی آمد و رفت شروع ہوگئی۔ کئی ممالک کے سربراہانِ مملکت و حکومت نے افغانستان کے سیاسی تعطل کو دور کرنے میں بڑھ چڑھ کر اپنا کردار ادا کیا۔ اس کے نتیجے میں افغانستان کے اداروں کی ساکھ مزید کمزور ہوگئی۔ اگر سیاسی تعطل کو افغان ادارے دور کرتے تو اچھا تھا۔ عوام کے اعتماد کی سطح بھی بلند ہوئی ہوتی۔ اشرف غنی اور عبداللہ عبداللہ کے درمیان معاملات طے پانے والے معاہدے میں غیر ملکی اداروں اور شخصیات کے کردار نے عوام کو بھی اپنی سیاسی قیادت سے بدظن کیا ہے۔ وہ یہ سوچنے پر مجبور ہوئے ہیں کہ ان کے معاملات میں بیرونی قوتوں نے غیر معمولی دلچسپی لی اور اپنی بات منوائی۔
امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے ۱۲؍جولائی کو جو سمجھوتا کرایا، اُس کے تحت دونوں صدارتی امیدواروں اشرف غنی اور عبداللہ عبداللہ نے اس نکتہ پر رضامندی ظاہر کی کہ ۸۰ لاکھ ووٹوں کے آڈٹ کے تحت جو بھی صدر منتخب قرار پائے گا، اُسے صدر کے منصب پر فائز کیا جائے اور رنر اپ خود یا اس کی نامزد کردہ شخصیت چیف ایگزیکٹیو کے منصب پر فائز ہوگی۔ یہ جو کچھ بھی ہوا ہے، اُس نے افغان عوام کو انتخابات کے بارے میں اپنا نظریہ تبدیل کرنے کی تحریک دی ہے۔
افغان عوام نے متعدد گروپوں کی طرف سے ملنے والی دھمکیوں کے باوجود قطار بند ہو کر ووٹ ڈالے۔ صدارتی انتخاب کے حوالے سے جوش و جذبہ اِس خواہش کے تحت تھا کہ افغانستان میں آنے والی نسلوں کو بہتر مستقبل کی نوید ملے اور ملک میں جمہوری کلچر پروان چڑھے۔ مگر ووٹ آڈٹ کا مرحلہ دو ماہ پر محیط ہوجانے سے بہت سوں کو شدید مایوسی ہوئی ہے۔ اُنہیں اندازہ نہیں تھا کہ اُن کے ڈالے گئے ووٹ بھی معاملات کو آسانی سے درست نہیں کر پائیں گے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ انتخابی عمل کو اپنا کام کرنے دیا جاتا اور معاملات کو ازخود درست ہونے کی راہ دی جاتی مگر اس کے برعکس ایک بار پھر عالمی برادری نے مداخلت کرتے ہوئے ایک پیچیدہ مسئلے کا فوری حل مسلط کر ڈالا ہے۔
صدارتی انتخاب میں ڈالے جانے والے ووٹوں کے آڈٹ اور سمجھوتے کی کوششوں سے ایک بار پھر اس خدشے کو تقویت ملی ہے کہ افغانستان کے مسائل کا فوری حل تلاش کرنے کا سلسلہ جاری رہے گا اور عاجلانہ اقدامات کے ذریعے بیرونی قوتیں معاملات کو خراب کرتی ہی رہیں گی۔ اب افغانستان میں بہت حد تک قومی حکومت کے تشکیل پانے کا عمل جاری ہے۔ قابلِ غور بات یہ ہے کہ صدر اور چیف ایگزیکٹیو کے درمیان اختیارات کی تقسیم کا معاملہ کیا ہوگا۔ دونوں ہی اپنی پوزیشن سے زیادہ سے زیادہ استفادہ کرنا چاہیں گے۔ اگر اس معاملے میں توازن برقرار نہ رکھا گیا اور اعتدال سے کام نہ لیا گیا تو خرابیاں بڑھتی ہی چلی جائیں گی۔
افغانستان میں شراکتِ اقتدار کا معاملہ ہمیشہ پیچیدہ رہا ہے اور اب بھی ہے۔ لسانی، نسلی، ثقافتی اور مسلکی طور پر بٹے ہوئے لوگ اقتدار کو جس طریقے سے آپس میں بانٹتے ہیں، وہ معاملات کو درست کرنے کے بجائے مزید بگاڑتا ہے۔ ہر فریق چاہتا ہے کہ اقتدار میں اُس کا حصہ زیادہ سے زیادہ ہو۔ یہ خواہش جب عمل کی دنیا میں قدم رکھتی ہے تو ہر طرف سے اُلجھنیں پیدا ہوتی ہیں۔ ایک دوسرے کے مفادات کو برداشت کرنے کی روش عام نہیں۔ ہر لسانی، ثقافتی یا نسلی اِکائی چاہتی ہے کہ اُسے اقتدار میں زیادہ حصہ ملے اور اُس کے مفادات غیر معینہ مدت تک محفوظ رہیں۔ یہ کوئی ایسا آسان کام نہیں۔ عالمی برادری کی طرف سے مداخلت نے اس معاملے کو ہمیشہ مزید الجھایا ہے۔
افغانستان کا آئین بالکل واضح ہے۔ صدر جن وزرا اور صوبائی منتظمین کو مقرر کرتا ہے، اُن میں اختیارات تقسیم ہوتے چلے جاتے ہیں۔ زمبابوے، کمبوڈیا، کینیا اور آئیوری کوسٹ سمیت جن ممالک میں بھی عالمی برادری نے اقتدار میں شراکت کا کوئی طریقِ کار نافذ کیا ہے، وہاں طویل المیعاد بنیاد پر صرف مسائل بڑھے ہیں۔ اقتدار میں شراکت کا کوئی بھی فارمولا اگر مسلط کیا جائے یا تھوپا جائے تو مختلف طبقات اور برادریوں کے درمیان معاملات کو مزید الجھاتا ہے۔ افغانستان میں بھی یہ تجربہ اب تک تو ناکام ہی رہا ہے۔ افغانستان ہی کی ایک کہاوت ہے کہ ہزار بھکاری تو ایک سائبان تلے رہ سکتے ہیں مگر دو بادشاہ ایک چھت تلے نہیں رہ سکتے۔ عالمی برادری جو کچھ افغانستان میں کر رہی ہے، وہ اُس کے مسائل کو مزید پیچیدگی کی طرف لے جارہا ہے۔ ایسی حالت میں افغانستان کا آئین مزید غیر فعال ہو کر رہ جائے گا اور اُس پر عمل کرنا مشکل سے مشکل تر ہوتا جائے گا۔
“Two Kings can’t share Afghanistan’s Kingdom”. (“Foreign Policy”. Sep. 18, 2014)
Leave a Reply