
آج کا مشرقِ وسطیٰ اِخوان المسلمون کے حوالے سے منقسم ہے۔ دو مخالف اتحاد ابھر رہے ہیں۔ ایک ترکی، ایران اور قطر پر مشتمل ہے اور دوسرا سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور مصر پر مشتمل ہے۔ دو سال قبل سعودی عرب، مصر اور متحدہ عرب امارات پر مشتمل اتحاد کے مقابل ترکی اور قطر نمودار ہوئے تو ایران نے اُن کی بھرپور حمایت کی۔ یہ سب کچھ سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کی مہربانی سے ہوا، جنہوں نے دو سال قبل جولائی میں قطر کی اقتصادی ناکہ بندی کی اور ایران و ترکی سے اُس کے تعلقات کو شدید نقصان پہنچانے والی ۱۳ شرائط پیش کیں۔ سعودی عرب نے قطر پر دباؤ ڈالا کہ وہ ۲۰۱۵ء میں قائم کیے جانے والے ترک فوجی اڈے کو بھی بند کردے۔ قطر مخالف اتحاد نے یہ بنیادی الزام عائد کیا کہ وہ اخوان المسلمون اور دیگر شدت پسند اسلامی گروہوں کی مدد کرکے دہشت گردی کو ہوا دے رہا ہے۔
محمد بن سلمان نے قطر کے خلاف جاکر اپنی ریاست کی بنیادی پالیسی سے انحراف کیا۔ اُن سے پہلے تک سعودی عرب خطے کے سُنّی اکثریت والے ممالک کو ایران کے خلاف متحد رکھنے کے لیے کوشاں رہا ہے۔ محمد بن سلمان نے پالیسی سے جو انحراف کیا اُس نے قطر کو ایران اور ترکی کی طرف جانے پر مجبور کردیا۔ محمد بن سلمان نے جو کچھ کیا وہ اس لیے بہت عجیب تھا کہ قطر اور ترکی بھی سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور مصر کی طرح واضح سُنّی اکثریت والے ممالک ہیں۔
اب معاملہ یہ ہے کہ سعودی عرب، مصر اور متحدہ عرب امارات اخوان المسلمون کے خلاف ایک پلیٹ فارم پر کھڑے ہیں۔ ۱۹۲۸ء میں اخوان المسلمون کے قیام کے وقت اِس کے بانی حسن البناء نے کہا تھا کہ یہ تحریک زندگی کے تمام پہلوؤں پر محیط اصلاحی عمل کے لیے ہے۔ تب سے اب تک اس تنظیم کے نظریات سے متاثر ہوکر درجنوں تنظیمیں بنائی جاچکی ہیں۔ دنیا بھر میں اخوان سمیت تمام ہم خیال تنظیموں کو بڑے پیمانے پر فنڈ دیے جاتے ہیں۔ آج متعدد ممالک میں اخوان اور اس کی ہم خیال تنظیموں کے تحت اسپتال، اسکول اور دیگر فلاحی ادارے چلائے جارہے ہیں۔
اخوان نے مصر میں سیاسی بنیاد پر کیے جانے والے تشدد کو باضابطہ طور پر ترک کرکے سیاسی عمل میں حصہ لینے کی ابتدا کی۔ یہ ۱۹۹۰ء کے عشرے کی بات ہے۔ سیکولر جماعتوں سے اتحاد بھی کیا گیا۔ ۲۰۰۵ء میں قانون ساز ادارے کی ۴۴۴ نشستوں کے لیے انتخابی عمل میں حصہ لینے کی اجازت ملی تو اخوان نے ۶۰ فیصد نشستوں پر کامیابی حاصل کی، مگر اس وقت کے ڈکٹیٹر حسنی مبارک نے اخوان کی کامیابی کو تسلیم نہ کرتے ہوئے اُسے سختی سے کچلنے کی بھرپور کوشش کی۔ عرب دنیا میں جب بیداری کی لہر اٹھی تب اخوان نے خود کو الگ تھلگ رکھا تاکہ اتھارٹیز کو نئی تحریک کے خلاف طاقت کے بے محابا استعمال کا کوئی جواز نہ ملے۔ فروری ۲۰۱۱ء میں حسنی مبارک کے اقتدار کے خاتمے کے بعد اخوان نے کھل کر کام کیا۔ جون ۲۰۱۲ء میں مصر کے پہلے آزادانہ اور شفاف صدارتی انتخابات ہوئے تو اخوان المسلمون کے لیڈر محمد مرسی صدر منتخب ہوئے۔ صرف ایک سال کے اندر جرنیل متحد ہوئے اور جنرل عبدالفتاح السیسی کی قیادت میں محمد مرسی کی صدارت کا تختہ الٹ دیا۔ اخوان پر پابندی عائد کردی گئی اور اس کے اثاثے ضبط کرلیے گئے۔ سیکورٹی فورسز نے کسی جواز کے بغیر اخوان المسلمون کے پرامن مظاہرین پر پانچ مرتبہ فائر کھولا۔ ۱۱۵۰؍افراد شہید ہوئے اور ۶۰ ہزار سے زائد افراد کو جیل بھیج دیا گیا۔
یہ سب کچھ کرنے پر جنرل عبدالفتاح السیسی کی قیادت میں قائم حکومت کو سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کی طرف سے بھرپور مدد ملی۔ دونوں ممالک کے مطلق العنان آمر اسلامی شریعت کے اصولوں کی بنیاد پر حکومت کرنے کو ترجیح دیتے ہیں مگر وہ اِس بات سے خوفزدہ رہتے ہیں کہ اخوان المسلمون کے لیڈر بیلٹ بکس کے ذریعے بھی شرعی حکومت قائم کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ اور وہ یہ بات ثابت بھی کرچکے ہیں۔ سعودی عرب کے لیے دوسری پریشان کن بات یہ ہے کہ رجب طیب ایردوان کی قیادت میں ترکی کی حکمراں جماعت جسٹس اینڈ ڈیویلپمنٹ پارٹی (اے کے پی) بھی اخوان سے نظریاتی ہم آہنگی رکھتی ہے۔ اس جماعت نے بھی اسلامی شریعت کو بنیاد بناکر انتخابی کامیابی حاصل کی اور ترکی میں طویل المیعاد اقتدار بھی قائم کیا۔ سیکولر آئین کے ہوتے ہوئے ۲۰۰۲ء میں اے کے پی نے غیر معمولی انتخابی کامیابی حاصل کرکے دنیا کو حیران کردیا اور یوں ترکی میں مطلق العنان حکومتوں کی راہ مسدود ہوئی۔
ایران سے بھی اخوان المسلمون کے تعلقات بہت اچھے رہے ہیں۔ ایران میں انتخابات باقاعدگی سے ہوتے رہے ہیں اور ان میں اسلامی نظریات کی طرف واضح جھکاؤ رکھنے والے کامیاب ہوتے آئے ہیں۔ اخوان المسلمون کے کارکنوں اور قائدین کی واضح اکثریت سُنّی ہے تاہم وہ شیعوں کو بھی مساوی سمجھتے ہیں۔
۲۰۱۱ء میں جب عرب دنیا میں بیداری کی لہر اٹھی تو قطر کے حکمران حماد بن خلیفہ الثانی نے محسوس کیا کہ بیلٹ باکس کے ذریعے اخوان المسلمون اقتدار کے ایوانوں تک آکر سیاسی نظریات کے حوالے سے انقلاب برپا کرسکتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ریاست کی نگرانی میں کام کرنے والے چینل الجزیرہ نے اخوان کا ساتھ دیا۔ انقلاب کے رونما ہونے کے بعد جب جوابی کارروائیاں شروع ہوئیں تو اخوان کے متعدد رہنماؤں نے قطر اور ترکی میں پناہ لی۔
جون ۲۰۱۳ء میں قطری حکمران نے اپنے بیٹے تمیم کے حق میں اقتدار سے دست بردار ہونا گوارا کیا۔ اس کے بعد ۴۵ نشستوں والی مجلس شوریٰ کی دو تہائی نشستوں کے لیے انتخابات کے انعقاد کا منصوبہ ترک کردیا گیا۔ ۲۰۰۴ء میں منظور اور نافذ کیے جانے والے قانون کے تحت حکومت نئے قوانین اسمبلی میں بحث کے بعد ہی نافذ کرسکتی ہے۔ نئے حکمران نے موعودہ انتخابات کو کئی بار ملتوی کیا ہے۔ اب نئی تاریخ جون ۲۰۲۲ء کی دی گئی ہے۔ اس کے صرف پانچ ماہ بعد قطر میں فٹبال کا ورلڈ کپ منعقد کیا جانا ہے۔ یہ ایوان ترکی کے لیے بھی غیر معمولی دلچسپی کا ہے۔
سعودی عرب کی قیادت میں قطر کے خلاف سفارتی اور اقتصادی حملے سے صرف چار ماہ قبل ترکی کی تیکفن کنسٹرکشن کمپنی نے قطر کے دارالحکومت دوحہ میں ۴۰ ہزار نشستوں والا فٹبال اسٹیڈیم تعمیر کرنے کے لیے قطر کی الجابر انجینئرنگ کمپنی سے معاہدہ کیا تھا۔ یہ اسٹیڈیم ۲۰۲۲ء کے فیفا فٹبال ورلڈ کپ کے حوالے سے تعمیر کیا جانا ہے۔ یہ اسٹیڈیم تیزی سے تعمیر کیا جانا تھا۔ اس کے لیے خام مال کی فراہمی بھی تیزی سے کی گئی۔ جب سعودی عرب نے قطر کی اقتصادی ناکہ بندی کی کوشش کی تو ترکی نے خوراک اور دیگر ضروری اشیا سے بھرے ہوئے جہاز تیزی سے قطر بھیجے۔ ایران نے بھی ایسا ہی کیا اور یوں متعلقہ تجارت کا حجم تیزی سے بڑھ گیا۔ ایران کی فضائی حدود ہر روز قطر سے ۲۰۰ سے زائد اضافی پروازوں کی میزبانی کرنے لگیں۔ نومبر ۲۰۱۷ء میں ترکی، ایران اور قطر نے ایک سمجھوتے پر دستخط کیے، جس کے تحت ایران کو ترکی اور قطر کے درمیان تجارت کے لیے ٹرانزٹ کنٹری کا کردار ادا کرنا تھا۔ اگلے ہی مہینے انقرہ نے جنوبی دوحہ میں اپنے فوجی اڈے کے لیے مزید تین ہزار فوجی بھیجے اور اُس کے ٹینکوں نے قطری دارالحکومت کی سڑکوں پر گشت بھی کیا۔ اگست ۲۰۱۸ء میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ترکی سے اسٹیل اور المونیم کی برآمدات پر ٹیکس بڑھاکر ترکی میں کرنسی کا بحران پیدا کرنے کی کوشش کی۔ اس کا بنیادی مقصد عیسائی پاسٹر اینڈریو برنسن کو رہا کرانا تھا، جو دو سال قبل دہشت گردی میں ملوث ہونے کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا۔ قطر کے امیر فوری طور پر انقرہ پہنچے اور ترک مالیاتی مارکیٹ کو مضبوط کرنے کے لیے فوری طور پر ۱۵؍ارب ڈالر دینے کا اعلان کیا۔ اس کے نتیجے میں ترک لیرا مضبوط ہوا۔ قطری حکمران تمیم الثانی نے اعلان کیا کہ ہر مشکل گھڑی میں قطر اور ترکی ساتھ ساتھ ہیں۔
دسمبر ۲۰۱۷ء میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے اسرائیلی دارالحکومت تل ابیب سے مقبوضہ بیت المقدس منتقل کرنے کے اعلان پر ترکی کے صدر رجب طیب ایردوان نے ۵۷؍ارکان والی اسلامی کانفرنس کی تنظیم (او آئی سی) کا ہنگامی سربراہ اجلاس بلانے پر زور دیا تھا۔ اسرائیلی دارالحکومت کی منتقلی اقوام متحدہ کی ۱۰؍قراردادوں کی صریح خلاف ورزی تھی۔ او آئی سی کی سربراہ کانفرنس نے مشرقی بیت المقدس کو فلسطین کا دارالحکومت قرار دیا۔ اس کانفرنس میں ۵۰ سربراہانِ ریاست نے شرکت کی اور امیر تمیم بھی ان میں شامل تھے۔ خادم حرمین شریفین شاہ سلمان بن عبدالعزیز نے اس کانفرنس میں شرکت نہیں کی۔
اکتوبر ۲۰۱۸ء میں استنبول کے سعودی قونصلیٹ میں منحرف سعودی صحافی جمال خاشقجی کے قتل کے بعد انقرہ اور ریاض کے تعلقات مزید کشیدہ ہوگئے۔ اس قتل کی منصوبہ بندی کا الزام سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کے دفتر پر عائد کیا جاتا ہے۔ اس کے بعد مئی میں جب او آئی سی کی چیئرمین شپ سعودی عرب کو دینے کا موقع آیا تو کسی کو یہ دیکھ کر حیرت نہ ہوئی کہ ترک صدر رجب طیب ایردوان متعلقہ تقریب میں شریک نہ ہوئے۔ وزیر خارجہ میولوت کاؤتوغلو نے وزرائے خارجہ کے نچلے درجے کے اجلاس میں شریک ہوکر رسمی کارروائی کی۔ اس کے بعد علاقائی سطح پر کشیدگی بڑھی ہے۔ ۱۲؍ مئی کو امریکی پابندیوں کے نئے دور کی ابتدا کے بعد متحدہ عرب امارات کی بندر گاہ فجیرہ کے نزدیک ایران کے چار آئل ٹینکروں کو نقصان پہنچایا گیا۔ خلیج مجلس تعاون (جی سی سی) کے چیئرمین کی حیثیت سے شاہ سلمان بن عبدالعزیز نے ہنگامی سربراہ اجلاس طلب کیا جس میں اپنے قطری ہم منصب کو بھی بلایا۔ امیر تمیم نے وزیر خارجہ محمد بن عبدالرحمن الثانی کو بھیجا۔ دوحہ سے واپسی پر انہوں نے سربراہ اجلاس کے مشترکہ اعلامیے سے لاتعلقی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ’’انہوں نے ایران کے معاملے میں واشنگٹن کی پالیسی اپنائی ہے۔ ایران ایک پڑوسی ہے اور اس حوالے سے جو کچھ بھی سوچا جانا چاہیے وہ نہیں سوچا گیا‘‘۔
سعودی ولی عہد کے لیے مزید پریشانی کی بات یہ ہے کہ قطر نے امریکا سے تعلقات مزید بہتر بنالیے ہیں۔ جنوری ۲۰۱۹ء کے وسط میں قطری حکومت نے العدید کے فوجی اڈے کی توسیع کے لیے وزیر خارجہ مائک پومپیو کے دورے کے لیے گرین سگنل دے دیا۔ اس فوجی اڈے پر گیارہ ہزار امریکی فوجی تعینات ہیں اور یہ پینٹاگون کی سینٹرل کمانڈ کے فارورڈ ہیڈ کوارٹرز کے طور پر کام کرتا ہے۔ ایک ماہ بعد امیر تمیم نے ایرانی انقلاب کے چالیس سال مکمل ہونے پر ایرانی صدر حسن روحانی کو مبارک باد کا پیغام بھیجا، جو ٹرمپ انتظامیہ کے لیے چھوٹا سا تازیانہ ہی تھا۔
ٹرمپ انتظامیہ اب تک ریاض، قاہرہ، ابو ظہبی محور کے ساتھ ہے مگر وہ قطر اور ترکی کو بھی نظر انداز نہیں کرسکتی۔ ترکی معاہدہ شمالی بحر اوقیانوس کی تنظیم (نیٹو) کا واحد اسلامی رکن ہے اور اس اتحاد میں امریکا کے بعد سب سے بڑی فوج اُسی کی ہے۔ اور یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ قطر اور ترکی، امریکا کی ناراضی کی پروا کیے بغیر، ایران سے بہتر تعلقات کے حامل ہیں۔
(دلیپ ہیرو کی تازہ ترین، سینتیسویں کتاب ’’کولڈ وار اِن دی اسلامک ورلڈ : سعودی عربیہ، ایران اینڈ سی اسٹرگل فار سپریمیسی‘‘ ہے جو آکسفرڈ یونیورسٹی پریس نے شائع کی ہے۔)
(ترجمہ: محمد ابراہیم خان)
“Two opposing Middle East alliances for the US – “. (“Yale Global Online”. July 10, 2019)
Leave a Reply