
پروفیسر سید محمد سلیم رحمہ اللہ کا یہ مضمون۱۹۹۲ء میں تحریر کیا گیا تھا، مگر اس کا پیغام آج بھی تازہ ہے، ادارہ
ایچی سن کالج کی ایک تقریب میں تقریر کرتے ہوئے ۱۱مارچ ۱۹۹۰ء کو صدر مملکت جناب غلام اسحاق خاں نے فرمایا:
کیا محمد علی جوہر، علامہ اقبال، قائد اعظم اور تحریک آزادی کے دیگر معتبر اور محترم نام کہیں سے در آمد شدہ تھے؟ دورِ غلامی کا نظام تعلیم خواہ کیسے ہی منفی مقاصد کی خاطر مرتب ہوا ہو بہر حال فروغ علم کا ذریعہ تھا۔ بات دراصل اپنے اپنے ظرف کی ہوتی ہے اور یہ خود انسان پر منحصر ہے کہ وہ کسی نظام سے کیا فائدہ اٹھاتا ہے۔
دور غلامی کے معتبر اور محترم ناموں میں صرف تین افراد کا ذکر کیا گیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ہندو پاکستان کی مسلمان قوم کے اندر دورِ غلامی میں اتنی کثیر تعداد میں علماء و فضلا، محققین اور مغربی تعلیم یافتہ سر برآوردہ لوگ پیدا ہوئے کہ یہ عہد علم و فضل اور ہنر کی ایک فصلِ بہاراں نظر آتا ہے۔ بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ مسلمانوں کی ہفت صد سالہ تاریخ میں اتنے مشاہیر اور اس قدر اعاظم رجال پیدا نہیں ہوئے جتنے کہ انگریزی عہد میں پیدا ہوئے ہیں تو شاید یہ مبالغہ نہیں ہوگا۔
ذیل میں چند مشاہیر کے نام دیے جاتے ہیں:
۱۔ نواب عماد الملک بلگرامی متوفی ۱۹۲۶ء
۲۔ جسٹس امیر علی ۱۹۲۸ء
۳۔ مولانا محمد علی جوہر ۱۹۳۱ء
۴۔سرراس مسعود ۱۹۳۷ء
۵۔ علامہ اقبال ۱۹۳۸ء
۶۔جسٹس سر شاہ سلیمان ۱۹۴۱ء
۷۔نواب بہادر یار جنگ ۱۹۴۲ء
۸۔ سر عبدالقادر ۱۹۵۰ء
۹۔ حسرت موہانی ۱۹۵۱ء
یہ سب لوگ مسلمانانِ ہندو پاکستان کے مشاہیر رہنما ہیں۔مغربی قوم کی غلامی کے دور میں ان لوگوں نے ملت کی ہمہ جہت رہنمائی فرمائی۔ بجا طور پر یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ایسے باکمال افراد اب کیوں نہیں پیدا ہوتے؟ اب کون سی نئی خرابی پیدا ہو گئی ہے؟ اس کے جواب میں یہ کہہ دینا کہ یہ اپنے اپنے ظرف کی بات ہے کہ وہ کیا سیکھتا، کیا اخذ کرتا ہے، پوری طرح درست نہیں ہے۔
اس سوال کا جواب دینے کے لیے ہمیں افراد کی ذہنیت تشکیل دینے والے عوامل کو پیش نظر رکھنا چاہیے۔ بنائو اور بگاڑ میں ان عوامل کی اثر انگیزی بہت طاقتور ہوتی ہے۔
پہلی بات تو اس میں وہی ہے جس کا ذکر رسول ؐ نے فرمایا:ہر بچہ فطرت صحیحہ، اسلام پر پیدا ہوتا ہے۔ یہ اس کے والدین ہیں جو اگر یہودی ہیں تو یہودی بنا لیتے ہیں، نصرانی ہیں توعیسائی اور مجوسی ہیں تو مجوسی بنا لیتے ہیں۔
اس حدیث میں ماحول، خاص طور پر خانگی ماحول کی اثر آفرینی بیان کی گئی ہے۔ اس اصول کی رہنمائی میںجب ہم اپنا جائزہ لیتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ ہمارا معاشرہ اور خانگی ماحول عہد غلامی کے معاشرے اور خانگی ماحول سے یکسر تبدیل ہو چکے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ماضی کے کردار اور دل و دماغ کے مردانِ کاراب پیدا نہیں ہو رہے ہیں۔
چند حقائق ملاحظہ ہوں:
۱۔ جدید درس گاہوں کے فارغ مذکورہ چند مشاہیر میں خانگی ماحول کی حد تک کوئی خاص فرق نہیں تھا۔ گھر کا ماحول دینی تھا۔ گھر میں موجود بزرگ صوم و صلواۃ اور تلاوتِ قرآن کی پابندی کرتے تھے۔ بزرگ خواتین بچوں کو پاس بٹھا کر اسلامی قصے سناتی تھیں اور ان قصوں کا انداز اور آغاز یہ ہوتا تھا:
ایک تھا بادشاہ، ہمارا تمہارا خدا بادشاہ بچو! ایک بادشاہ تھا، ہمارا تمہارا بادشاہ اللہ تعالیٰ ہے۔
ایسے ایک ہی جملے میں اللہ تعالیٰ کی حاکمیت کی تخم ریزی نو خیز بچوں کے اذہان میں کر دی جاتی تھی۔ اس طرح قصے کہانی کی صورت میں دینی تعلیم کا آغاز ہو جاتا تھا۔ غیر رسمی تعلیم دادی اماں کے یہاں جاری رہتی تھی۔
۲۔ باقاعدہ تعلیم میں اولین قرآن مجید ناظرہ کی تعلیم تھی۔ یہ بات تقریباً نا ممکن تھی کہ قرآن مجید ناظرہ پڑھے بغیر دوسری کوئی تعلیم شروع ہو جائے۔ امرا کے بچے ہوں یا دھوبی، نائی، جولاہے کے لڑکے اور لڑکیاں، قرآن مجید ناظرہ ضرور پڑھتی تھیں۔ خواہ بعد میں کچھ پڑھیں یا نہ پڑھیں اور کام کاج میں لگ جائیں۔ مائیں عام طورپر تقویٰ و پارسائی کا نمونہ ہوتی تھیں۔ علامہ اقبال، مولانا محمد علی جوہر، سر سید احمد خان سب پر ان کی مائوں کے اثرات پڑے، جن کا انہوں نے تفصیل سے ذکر کیا۔
جدید تعلیم والے سر فضل حسین ہوں یا سر راس مسعود سب کے ہاں بچپن میں یہی ماحول تھا۔ کوئی شخص ایسا نہ تھا جس نے تعلیم کا آغاز قرآن مجید سے نہ کیا ہو۔
۳۔ اس دور کی جدید تعلیم میں بھی اساتذہ پرانے تربیت یافتہ ہوتے تھے۔ وہ مسلم تہذیب کے امین اور شوکت رفتہ کی گواہی دینے والے ہوتے تھے۔ اسی حیثیت سے طالب علم کے سامنے آتے اور اسے متاثر کرتے تھے۔
۴۔ اس دور کے طالب علم، سر سید، شبلی، نذیر احمد اور راشدی الخیری کو پڑھتے تھے۔ نظم میں ان کے سامنے حالی، شبلی، اکبر الہٰ آبادی اور اقبال ہوتے تھے۔ آپ ابتدائی اردو تدریس کی کتابیں اسماعیل میرٹھی کی پڑھ لیجئے یا انجمن حمایت اسلام لاہور کی دیکھ لیجیے، آپ کو محسوس ہو گا کہ یہ مسلسل اسلامی ذہن اور دینی روح کی تشکیل کرتی رہی ہیں۔
۵۔ اخباروں اور رسالوں کی دنیا میں آئیے۔ الہلال (ابو الکلام آزاد) مخزن (سر عبدالقادر) منادی (خواجہ حسن نظامی) عصمت (علامہ راشد الخیری) وغیرہ مشہور رسالے تھے۔ ان میں ان کے مضامین میں دینی،اخلاقی اور شرافت کی تربیت کی اہمیت اور اثر انگیزی آج بھی دیکھی جا سکتی ہے۔ اخبارات میں کامریڈ اور ہمدرد مولانا محمد علی جوہر، زمیندار، ظفر علی خاں اور انقلاب غلام رسول مہر نکالتے تھے۔دینی جذبہ نمایاں ہوتا تھا اور دین کے لیے قربانی کی درخشاں مثالیں پیش کرتے تھے۔
اس پس منظر میں اب ایک نظر آج پر دوڑا لیجئے!
آج سب سے بڑی تبدیلی یہ آئی ہے کہ خانگی اور معاشرتی تعلیم و تربیت کا نظام یکسر بدل چکا ہے:
۱۔ آج گھر وں میں بی اے، ایم اے،پی ایچ ڈی خواتین ضرور ہیں مگر وہ خواتین نہیں رہیں جو تقویٰ اور پارسائی کا نمونہ تھیں۔ نہ نماز، نہ قرآن کی تلاوت، نہ تہجد اور نہ خیرات و صدقات کا اہتمام، ہر جگہ ریڈیو اور ٹی وی کی حکمرانی ہے جو انتہائی ناشائستہ اور غیر اسلامی اخلاق وکردار پیش کرتے ہیں۔ مرد، عورت، بچے اور بوڑھے سب ریڈیو پر جھکے رہتے ہیں یا ٹی وی کے سامنے دست بستہ بیٹھے رہیں گے اخبارات نے تو جیسے دانستہ طے کر لیا ہے کہ قرآن پاک کے اس حکم کی بہر طور مخالفت کریں گے۔
ترجمہ: ’’اور اپنے گھروں میں جم کر بیٹھی رہو اور اسلام سے پہلے کے دور کی طرح بن ٹھن کر باہر نہ نکلو‘‘۔ (الاحزاب:۳۲)
معلوم نہیں مالکان اخبار کے پیش نظر کیا ہے؟ کیا وہ ساری قوم کو رومیو جولیٹ، لیلیٰ مجنوں اورہیر رانجھا بنانا چاہتے ہیں؟ اگران کے پیشرو بھی یہی کام کرتے تو کیا قوم انگریز سے آزادی حاصل کر سکتی تھی؟
۲۔ ایک تھا بادشاہ، ہمارا تمہارا خدا بادشاہ‘‘ کہنے والی زبانوں کی جگہ بھی اب جدید ترین فیشن کی نمائش کرنے والے ٹی وی نے لے لی ہے۔
۳۔ اساتذہ کے طبقے میں بھی دین داری اور تقویٰ کے حامل افراد اب خال خال رہ گئے ہیں اور جن میں کچھ دین داری پائی بھی جاتی ہے تو وہ اس خیال سے بے چین نظر نہیں آتے کہ زیر تعلیم طلبہ سے متعلق ان پر بھی کچھ ذمے داریاں عائد ہوتی ہیں۔
۴۔ حالی و اکبر و اقبال کو اب طبلے سارنگی والوں کے حوالے کر دیا گیا ہے۔
تو صدر صاحب! بات بڑی واضح ہے، دل بدل جائیں گے تعلیم بدل جانے سے۔ جس قوم کا خانگی، معاشرتی اور اجتماعی ماحول بگاڑ کی طرف دھکیلا جاتا رہے اور اس کام میں سب سے زیادہ بڑھ کر اس قوم کے ٹیکسوں سے چلنے والے سرکاری ذرائع ابلاغ کا ہاتھ ہو، ریڈیو، ٹی وی، اخبارات، رسائل و جرائد، فلم، تھیٹر سب مل کر ایک ہی کام کر رہے ہوں اور دوسری طرف نصاب تعلیم کو بے روح کر دیا گیا ہو، وہاں صرف ’’ظرف‘‘ کی بات کرنا پوری سچائی نہیں ہے۔ کیا خود حکمرانوں کا کوئی ظرف نہیں ہونا چاہیے؟
لاہور کی ایک منفرد علمی شخصیت خلیل الرحمن دائودی صاحب کی ہے جو کتابوں کی دنیا میں مگن خاموش زندگی بسر کر رہے ہیں۔ گزشتہ چالیس سال سے ان کا مشغلہ اور کاروبار قلمی کتابوں کی خرید و فروخت اور نقدو تحقیق ہے۔ قلمی کتابوں کی پر کھ میں ان کا خاص مقام ہے۔ دور دور تک ان کا نام ہے۔ وطن مالوف میرٹھ ہے۔ تعلیم علی گڑھ یونیورسٹی سے پائی ہے۔ عربی، فارسی کی اپنے طور پر تحصیل کی۔ اس ہفتے ایک دوست کی وساطت سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا۔ میں ان کے دولت خانے پر گیا۔ قلمی کتابوں کا انبار لگا دیکھا۔ نوادرات کی سیر کی۔ دوران گفتگو انہوں نے ایک خاص واقعے کا تذکرہ کیا۔ آج کی صحبت میں اس کا ذکر کرنا چاہتاہوں۔
لاہور آکر انہیں معلوم ہوا کہ نواب حبیب الرحمن خان شیروانی مرحوم کا مشہور معروف کتب خانہ ان کے صاحبزادے عبید الرحمن شیروانی علی گڑھ یونیورسٹی میں منتقل کرنے والے ہیں۔ یہ اس کتاب خانے کی اہمیت اور وسعت سے واقف تھے۔ علی گڑھ کے قیام کے زمانے میںکتب خانہ دیکھنے جایا کرتے تھے۔ انہیں علم تھا کہ کس طرح نادر کتابوں کی جستجو میں نواب صاحب کے فرستادے ہندوستان کی اطراف میں بلکہ ایران توران میں گھومتے پھرتے تھے۔ ہر ماہ آٹھ لاکھ روپیہ خرید کتب پر صرف کرتے تھے۔ ۶۵ سال تک ایک لگن کے ساتھ نواب صاحب کتب میں اضافہ کرتے رہے تھے اور ہندوستان کے چند گنے چنے کتب خانوں میں اس کا شمار ہوتا ہے۔
مذکورہ بالا خبر سن کر انہیں خیال آیا کہ اس کتب خانے کو پاکستان میں لانا چاہیے۔ ان کے صاحبزادے اس کتب خانے کو جب حبیب گنج سے باہر نکالنے پر آمادہ ہو گئے تو ان کے لیے برابر ہے خواہ وہ علی گڑھ جائے یا پاکستان آئے۔ علی گڑھ کا کتب خانہ پہلے ہی بہت بڑا ہے۔ وہاں مختلف ذرائع سے کتابین جمع ہوتی رہتی ہیں۔ پاکستان آ جائے تو یہاں اس کی غیر معمولی قدرو قیمت ہے۔ اس لیے کہ پاکستان میں ایک بھی معیاری کتب خانہ موجود نہیں ہے۔ اور ینٹل کالج لاہور میں پروفیسر وولز کا عمر بھر کا اندوختہ، سنسکرت زبان اور ہندو کلچر سے متعلق عظیم الشان ذخیرہ موجود ہے۔ وہ ہمارے کسی کام کا نہیں، ہندوستان میں اس کی بے حد قدر افزائی ہوگی۔ حکومتی سطح پر ان دونوں کتب خانوں کا تبادلہ ہو جائے۔ جب عمارات کے تبادلے کی اجازت ہے تو کتابوں میں کیا دشواری ہے۔
انہوں نے بتایا:میں نے مولانا غلام رسول مہر کو پہلے ہم خیال بنایا۔ پھر ان کے ہمراہ دہلی پہنچے۔ مولانا ابوالکلام آزاد و زیر تعلیم ہند سے ملاقات کی۔ مولانا کے سامنے اپنی تجویز پیش کی۔ تھوڑی دیر گفتگو کرنے کے بعد مولانا نے اس تجویز سے اتفاق کر لیا۔ پھر ہم نے عرض کیا کہ مولانا! جہاں نہرو کو رام کرنا آپ کا کام ہے، وہاں نواب صاحب کے خاندان سے آپ کے ذاتی مراسم ہیں، ان کوبھی ہم وار کرنا اور آمادہ کرنا آپ ہی کا کام ہے۔ آپ ہی کر سکتے ہیں۔ مولانا اس کے لیے بھی تیار ہو گئے۔ آخر میں مولانا نے فرمایا: مگر میرا گمان ہے کہ آپ کی حکومت راضی نہیں ہو گی۔
بہر کیف ہم دونوں خوش خوش لاہور واپس آئے اور یہاں آتے ہی سلسلہ جنبانی شروع کر دیا، اس زمانے میں پنجاب کی صوبائی حکومت کے وزیر تعلیم جھنگ کے کرنل عابد حسین تھے۔ میںمولانا مہر کو لے کر ان کی خدمت میں پہنچا۔ ہم نے کرنل صاحب کے سامنے اپنی تجویز رکھی۔ کرنل صاحب نے سنتے ہی بے ساختہ کہا: ’’ نابابا نا میں پرانی گلی سڑی کتابوں کے بدلے اپنی یونیورسٹی کی اچھی کتابیں کیسے دے دوں نا با بانا۔
ہم نے لاکھ سمجھایا، دلائل دیے، مگر ان کی ’’نابابانا‘‘ کی رٹ جاری رہی۔ اس پر مولانا غلام رسول مہر کو طیش آگیا۔ انہوں نے مجھ سے کہا: ’’ میں اس کے پاس آنا نہیں چاہتا تھا۔ آپ مجھے زبردستی یہاں لے آئے۔ ایسے لوگ کیا جانیں علم کیا ہوتا ہے۔‘‘ یہ کہہ کر وہ باہر نکل آئے۔ اس طرح نواب حبیب الرحمن خان شیروانی کا نادر کتب خانہ پاکستان آتے آتے رہ گیا۔
یہ واقعہ سن کر مجھے سخت افسوس ہوا:
حقیقت یہ ہے کہ پاکستان میں اول روز سے ایسے افرادکی اکثریت حکومت پر قابض رہی ہے جو ملک و ملت کے نفع و نقصان کا کبھی اندازہ نہ کر سکے۔ پاکستان کی بھلائی کی کتنی ہی تجویزیں نا کام ہوتی چلی گئیں۔ آج ان میں سے اکثر اقتدار والے دنیا میں موجود نہیں ہیں۔ لیکن یہ مظلوم ملک ان کے طرزِ عمل کا خسارہ اب تک برداشت کر رہا ہے۔
(بشکریہ: ماہنامہ ’’تعمیر ِ افکار‘‘ کراچی، جنوری ۲۰۰۴ء)
Leave a Reply