
دنیا بھر میں صدیوں سے وبائیں پُھوٹتی اور ہلاکت کا بازار گرم کرتی رہی ہیں۔ اِن میں کچھ تو بالکل اصلی تھیں، جیسا کہ چودھویں صدی عیسوی کی طاعون کی وبا تھی۔ اور بعض بالکل بے بنیاد اور جھوٹ پر مبنی بھی تھیں جیسا کہ گزشتہ برس کورونا وائرس کی وبا تھی۔
ایک وبا ایسی ہے جو کسی نہ کسی شکل میں وقتاً فوقتاً رونما ہوتی رہی ہے۔ کبھی اس نے چھوٹے پیمانے پر خرابیاں پھیلائیں اور کبھی بڑے پیمانے پر۔ کبھی اِس نے جنگِ عظیم دوم جیسی بھرپور تباہی پھیلائی اور کبھی کورونا ویکسین جیسی وبائیں آئیں، جن کے نتیجے میں ہوا کچھ زیادہ نہیں اور شور بہت مچایا گیا۔
مطلعق العنان حکومتیں جبرو استبداد کے ذریعے کام کرتی ہیں۔ ان کے ادوار میں لوگوں کے سروں پر خون، موت اور بدعنوانی کی تلواریں لٹکتی رہتی ہیں۔ آمرانہ و جابرانہ حکومتیں عوام کو حقیقی احترام سے محروم کرکے اُن کی راہ میں کانٹے بچھاتی ہیں۔ اب ویکسی نیشن کے ذریعے مطلق العنان حکومتیں ہم میں جینیاتی تبدیلیاں ممکن بناکر ہمیں انسان ہونے کے شرف سے بھی محروم کرنے پر تُلی ہوئی ہیں۔
کسی بھی معاشرے میں اکثریت کو دوسروں کی آزادی سلب کرنے اور جبر کے ذریعے اپنی بات منوانے کا شوق نہیں ہوتا۔ یہ تو چند ذہنی مریض ہی ہوتے ہیں جو تمام اختیارات اپنے ہاتھوں میں لے کر پورے معاشرے کو اپنی مرضی کے مطابق ہانکنا چاہتے ہیں۔ جو کچھ وہ چاہتے ہیں وہ صرف جبر کے ذریعے ممکن ہے۔ استبدادی ہتھکنڈے اختیار کرکے وہ لوگوں سے اُن کی آزادی چھین لیتے ہیں۔ وہ بھرپور کرپشن پھیلاتے ہیں اور کرپشن ہی کے ذریعے اپنے طرف داروں کی تعداد بڑھانے میں کامیاب رہتے ہیں۔ مطلق العنانیت کی راہ پر گامزن ہونے والے ذہنی مریض دراصل پورے معاشرے کے لیے سرطان پھیلانے والے خلیوں کی طرح ہوتے ہیں۔ یہ پورے معاشرے کو کھوکھلا اور تباہ کرکے دم لیتے ہیں۔ انسانی جسم کم بیش ۳۰ ہزار ارب خلیوں پر مشتمل ہوتا ہے۔ چند خلیوں میں جب خرابیاں پیدا ہوتی ہیں تو وہ باقی جسم سے مدد لے کر درست ہونے کے بجائے پورے جسم کو تباہ کرنے پر تُل جاتے ہیں۔
ایک بڑا المیہ یہ ہے کہ معاشرے کو اپنی مرضی کے مطابق چلانے والوں کا ساتھ دینے والے بھی سامنے آکر اُن سے مل جاتے ہیں۔ مطلق العنان حکمرانوں میں اُن کے لیے بہت کشش ہوتی ہے، جو کسی نہ کسی طور بہت کچھ حاصل کرنے کے متمنی ہوتے ہیں۔ یہی سبب ہے کہ آمرانہ و جابرانہ انداز سے حکومت کرنے والوں کو کہیں نہ کہیں سے ساتھی اور طرف دار مل ہی جاتے ہیں۔ ایسے لوگوں کے مطلق العنان حکمرانوں سے مل جانے سے معاشرہ بہت تیزی سے خرابی کی طرف جاتا ہے۔ اچھا خاصا پُرامن معاشرہ دیکھتے ہی دیکھتے خرابیوں کے گڑھے میں جا گرتا ہے۔
سیاسیات کے ماہر ریوڈولف رمیل (۱۹۳۲ء تا ۲۰۱۴ء) نے سیاسیات کو ’’ڈیموسائڈ‘‘ (democide) کی اصطلاح یعنی حکومت کے ہاتھوں لوگوں کا قتل کہا۔ رمیل نے حکومت کے ہاتھوں قتلِ عام سے متعلق ۸ ہزار رپورٹس کا جائزہ لیا اور اس نتیجے پر پہنچے کہ بیسویں صدی کے دوران حکومتوں کے ہاتھوں ہلاک ہونے والوں کی تعداد ۲۶ کروڑ ۲۰ لاکھ تھی، جو متعلقہ دور میں جنگوں میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد سے ۶ گنا تھی۔ اور اگر غیر ضروری جنگوں میں مارے جانے والوں کو شمار کیجیے تو معاملہ زیادہ سنگین ٹھہرتا ہے۔
پروفیسر رمیل کی تحقیق سے ثابت ہوا کہ آمرانہ اور مطلق العنان قسم کی حکومتوں کے تحت زیادہ ہلاکتیں واقع ہوتی ہیں۔ جہاں جوابدہی کا معیاری نظام کام کر رہا ہو وہاں سیاسی تشدد بھی کم ہوتا ہے اور اُس کے نتیجے میں ہونے والی اموات کی تعداد بھی خاصی کم ہوتی ہے۔ حکومت زیادہ طاقتور ہو جائے تو زیادہ خطرناک ہوتی ہے۔ چند افراد میں سیاسی قوت کا مرتکز ہو جانا روئے ارض پر خطرناک ترین معاملہ ہے۔
ایک اہم سوال یہ ہے کہ حکومتیں کس طور عوام کو اپنے جبر و استبداد کے ساتھ چلنے پر آمادہ کرتی ہیں۔ دوسرے امریکی صدر جان ایڈمز (۱۷۳۴ء تا ۱۸۲۶ء) نے کہا تھا کہ عوام کو نہ تو کسی بھی معاملے میں اتنا ڈرنا چاہیے کہ اپنی آزادی سے محروم ہونے پر آمادہ ہوجائیں اور نہ ہی کسی کی شائستگی سے نفسی طور پر مغلوب ہو جانا چاہیے کیونکہ انتہائی شائستگی محض منافقت اور بُزدلی ہے۔
مطلق العنان حکومتیں اخلاقی سطح پر بدحواسی پھیلاکر اپنے مقاصد حاصل کرتی ہیں۔ ہر حکومت عوام کی بدحواسی کا بھرپور فائدہ اٹھاتی ہے۔ اس کے نتیجے میں حکومت کی طاقت بھی بڑھتی ہے اور آمدن بھی۔ لوگ اپنی آزادی سے ہاتھ دھونے اور اپنی روح کو شیطان کے ہاتھ فروخت کرنے کے لیے تیار رہتے ہیں۔ مطلق العنان حکومتیں مختلف طریقوں سے لوگوں میں بدگمانیاں پروان چڑھاکر ایک دوسرے پر اعتماد مجروح کرتی رہتی ہیں۔ اخلاقی برائیوں کے خلاف چلائی جانے والی تحریکوں کو بھی آمرانہ وجابرانہ حکومت اپنے مفاد میں استعمال کرتی ہیں۔
جابر حکومتیں انصاف کے نام پر انتقام کی ذہنیت کو پروان چڑھاتی ہیں۔ یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ بُروں سے نجات کے لیے اپنی آزادی کو کسی بھی طور داؤ پر نہیں لگایا جاسکتا۔ آمر و جابر حکومتیں ریاست کے ہر فرد کو یہ باور کرانے کی کوشش کرتی رہتی ہیں کہ وہ تنِ تنہا کچھ نہیں کرسکتا اور یہ کہ کسی بھی بڑی مثبت تبدیلی کے لیے مل کر کوشش کرنے ہی سے دال گل سکتی ہے۔ اس حوالے سے کیا جانے والا پروپیگنڈا بسا اوقات اتنا طاقتور اور موثرثابت ہوتا تھا کہ گزرے زمانوں میں لوگ ملک و قوم کی بھلائی کے لیے اپنی اولاد کو بھی دیوتا یا مہنت کے قدموں میں قربان کرنے کے لیے تیار رہتے تھے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ بہت سے کام حکومتیں ہی کرسکتی ہیں۔ ملک میں حقیقی ترقی و استحکام کے لیے بھرپور نوعیت کا بنیادی ڈھانچا کھڑا کرنا حکومت ہی کے بس کی بات ہے۔ عام آدمی اس گمان میں مبتلا رہتا ہے کہ وہ خود کچھ نہیں کرسکتا، حکومت سے مدد لیے بغیر چارہ نہیں۔ حکومتیں اِسی ذہنیت کا فائدہ اٹھاتی ہیں۔ کوئی کیا پہنے گا، کیا کھائے گا، کس طور زندگی بسر کرے گا، کس سے ملے گا، کس سے نہیں ملے گا، کیا پڑھے گا، گزر بسر کے لیے کیا کرے گا یہ سب کچھ حکومت کے طے کرنے کا کام نہیں۔ یہ ہر فرد کے اپنے معاملات ہیں جو اُس سے چھینے نہیں جاسکتے۔
فی زمانہ شخصی آزادی کا تصور بہت حد تک دھندلا گیا ہے۔ مغربی معاشرے نے شخصی آزادی کو غیر معمولی قرار دیا تھا۔ اس کے نتیجے میں وہاں ہر فرد اپنے وجود کو نمایاں کرنے کی دُھن میں مگن ہوا مگر اب وہ دور لَد چکا ہے۔ اجتماعیت کو انفرادیت سے کہیں اہم قرار دینے کی بھرپور کوشش کی جارہی ہے۔ شخصی شناخت سے کہیں زیادہ اجتماعی شناخت کی اہمیت جتائی جارہی ہے۔ معاشرے کی ہر بات ماننا اور اُس کے رنگ میں رنگ جانا کسی بھی طور آزادی نہیں۔
کورونا کی وبا نے دنیا بھر کی جابر اور مطلق العنان حکومتوں کو نمایاں حد تک بے نقاب کر دیا ہے۔ کورونا کی وبا نے آج دنیا بھر کے لوگوں کو انفرادی حیثیت میں شدید دباؤ کا شکار کردیا ہے۔ اس ایک وبا کے حوالے سے اتنی متضاد باتیں کہی گئی ہیں کہ کچھ سمجھ میں نہیں آتا کہ کس بات کو درست مانا جائے اور کس بات کو یکسر مسترد کردیا جائے۔ جن لوگوں نے کورونا سے بچاؤ کی ویکسین لگوائی ہے اُنہیں خبردار کیا جاتا ہے کہ جنہوں نے ویکسین نہیں لگوائی ہے اُن سے بچیں، دور رہیں۔ سوال یہ ہے کہ اگر ویکسین کورونا سے بچاؤ کے لیے ہے تو موثر کیوں نہیں اور کیوں کورونا سے نہیں بچاسکتی۔ حقیقت یہ ہے کہ کورونا نام کی کوئی حقیقی وبا تھی، نہ ہے۔ کوئی ہنگامی حالت نہیں۔ ۲۰۲۰ء میں اموات کی شرح غیر معمولی نہیں رہی۔ اب لوگوں کو اندازہ ہو رہا ہے کہ کورونا کا تو محض نام لیا جارہا ہے، معاملہ کچھ اور ہے۔ ایک جابر عالمی حکومت کے قیام کی کوششیں تیز تر ہوگئی ہیں۔ ایک بنیادی سوال یہ بھی ہے کہ اگر کورونا سے بچاؤ کی ویکسین میں کوئی ایسی ویسی بات نہیں تو پھر امریکا میں ہزاروں ڈاکٹر، نرسوں اور پیرا میڈکس نے یہ لگوانے سے صاف انکارکیوں کیا۔ اگر ویکسین آپ ہی کو کورونا سے محفوظ نہیں رکھ سکی تو پھر اُن سے کیا ڈرنا جنہوں نے ویکسین نہیں لگوائی؟
۱۹۸۰ء کے عشرے میں اُس وقت کے امریکی صدر آنجہانی رونالڈ ریگن نے ایسی پالیسیاں کیوں اپنائیں، جن کا بنیادی مقصد لبرل اِزم کو سمیٹنا تھا۔ آج امریکی معاشرہ لبرل سے نیو لبرل ہوچکا ہے۔
ایک طرف تو معاشروں میں خرابیوں کا رونا رویا جارہا ہے اور دوسری طرف دولت کوچند ہاتھوں مرتکز رکھنے پر بھی زور دیا جارہا ہے۔ بل گیٹس اور وارن بفیٹ جیسے لوگوں کو بہت ہی بڑے پیمانے پر دولت جمع کرنے کا موقع مل گیا ہے۔ یہ سب کچھ بالکل غلط ہے۔ جبر اور دباؤ کے ذریعے کی جانے والی حکمرانی کے لیے بنیادی شرط یہ ہے کہ دولت چند ہاتھوں میں مرتکز رہے تاکہ اُسے کنٹرول کرنے میں زیادہ الجھن کا سامنا نہ کرنا پڑے۔
آج دنیا بھر میں حکمرانی کے لیے جبر کو ناگزیر سمجھ لیا گیا ہے۔ اس کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ لوگ اپنی آزادی سے زیادہ سے زیادہ محروم ہوجائیں اور پھر اُنہیں کنٹرول کرنا زیادہ دشوار نہ رہے۔ بیشتر معاملات میں تصنع عمومی چلن ہوکر رہ گیا ہے۔ چند ممالک کو انتہائی مضبوط بنانے کی کوشش کی جارہی ہے اور اس حوالے سے عالمی اداروں نے خاصا نمایاںکردار ادا کیا ہے۔ عالمی ادارۂ صحت نے کورونا ویکسین کے حوالے سے امتیازی نوعیت کا کردار ادا کیا ہے۔ بڑی اور مضبوط حکومتیںجو کچھ چاہتی تھیں وہ بخوشی کیا گیا ہے تاکہ اُن کے ایجنڈے کی تکمیل ہو۔ کمزور ممالک اور خطوں کو دباکر، دبوچ کر رکھنے کی پالیسی کو خوب عملی جامہ پہنایا گیا ہے۔
ترقی یافتہ معاشروں کے طاقتور اداروںکو زیادہ سے زیادہ کمانے کی کُھلی چُھوٹ دے دی گئی ہے۔ کوئی انہیں روکنے والا نہیں۔ یہ ادارے اتنے طاقتور ہیں کہ کسی بھی حکومت کو چلتا کرسکتے ہیں اور کسی کو بھی اقتدار سے بہرہ مند کرسکتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ دولت چند ہاتھوں میں مرتکز رہنے سے دنیا بھر میں غیر معمولی خرابیاں پیدا ہوئی ہیں۔ انتہائی مالدار افراد اور ادارے اپنے مفادات کو زیادہ سے زیادہ تقویت فراہم کرنے کے لیے سیاست دانوں اور بالخصوص حکومتی شخصیات کو خریدنے میں دیر لگاتے ہیں نہ بُخل سے کام لیتے ہیں۔
دنیا کا مفاد اِس امر میں پوشیدہ ہے کہ کوئی بھی حکومت اِتنی طاقتور نہ ہو کہ چھوٹے ممالک سے کِھلواڑ کرتے رہیں۔ انتہائی مالدار افراد اور اداروں کے لیے دولت کی حد مقرر کی جانی چاہیے۔ کاروباری ادارے درمیانے حجم کے ہونے چاہئیں۔ سرکاری مشینری کو رشوت دینے کی گنجائش نہیں ہونی چاہیے۔ اس بات کو بھی یقینی بنایا جانا چاہیے کہ کوئی بھی مالدار شخص یا ادارہ کسی سیاست دان یا حکومتی شخصیت کو رشوت نہ دے سکے۔
آج دنیا بھر میں حکومتیں مختلف سطحوں پر جبر و استبداد سے کام لے رہی ہیں۔ مطلق العنانیت کی بنیاد پر تمام معاملات کو اپنے ہاتھ میں لینے کی بھرپور کوشش کی جارہی ہے۔
(ترجمہ: محمد ابراہیم خان)
“Tyranny: The deadliest pandemic”.(“Global Research”. August 9, 2021)
Leave a Reply