
امریکا کی ڈیموکرٹک پارٹی نے نومبر ۲۰۰۶ء کے وسط مدتی انتخابات ٹیکنالوجی کی بدولت جیتے۔ اس سے مراد الیکٹرانک ووٹنگ مشینیں نہیں بلکہ انٹرنیٹ کی طاقت ہے جس کے جدید ترین استعمال سے شہریوں نے خود کچھ چیزیں تیار کرکے امیدواروں کے بارے میں اپنے خیالات کی تشہیر کی۔ انٹرنیٹ نے نہ صرف ایوان نمائندگان اور سینیٹ میں طاقت کا توازن تبدیل کرنے میں نمایاں کردار ادا کیا بلکہ اسی کے باعث وزیر دفاع رمسفیلڈ کو بھی اپنے عہدے سے سبکدوش ہونا پڑا۔ جمہوریت کے فروغ کے لیے انٹرنیٹ واقعاً ایک نیک شگون ہے۔
آخری بارٗ ۱۹۹۴ء میں جب کانگریس میں اکثریتی پارٹی اقلیت میں تبدیل ہوئی تو اس وقت انٹرنیٹ کا استعمال یونیورسٹیوں اور فوج تک محدود تھا۔ اس وقت انٹرنیٹ کی سہولت فراہم کرنے والی کمپنی اے او ایل کے دس لاکھ ممبر تھے جنہوں نے آن لائن دنیا میں اپنے کردار کی اہمیت منوائی۔ اس برس مارک انڈیسن جیسی کمپنی اسکولوں میں تربیتی خدمات انجام دینے کے ساتھ ساتھ نیٹ کیفے قائم کرنے کا بھی آغاز کررہی تھی جبکہ اس وقت گوگل‘ ابے اور امازون ڈاٹ کام کا وجود تک نہ تھا۔ بارہ برس کا مختصر سا عرصہ گزرنے کے بعد آج دنیا بھر میں ایک ارب سے زیادہ افراد انٹرنیٹ استعمال کررہے ہیں اور وہ اس سے زندگی کے تقریباً تمام شعبوں میں استفادہ کرنے کے علاوہ جمہوری عمل میں بھی محض انتخابی مہم کے زیر اثراپنا ووٹ کاسٹ کرنے کا فیصلہ نہیں کرتے بلکہ انٹرنیٹ کے ذریعے اس میں انتہائی فعال کردار ادا کرکے امیدواروں کے حق میں یا ان کے خلاف رائے عامہ پر بھی اثر انداز ہورہے ہیں۔
انٹرنیٹ کی طاقت سے مسلح شہریوں نے نومبر کے انتخابات میں بھی لوگوں کی رائے تبدیل کرنے میں زبردست کردار ادا کیا۔ اس مقصد کے لیے انہوں نے ایسا مواد تیار کرکے لاکھوں شہریوں تک پہنچایا جس نے ان کے ذہن بدل دیئے۔ یہ کام کرتے وقت انہوں نے کسی امیدوار سے اجازت حاصل کرنے کی بھی ضرورت محسوس نہ کی۔ لوگوں تک اپنا مواد منتقل کرنے کے لیے بلاگ‘ یوٹیوب اور پیغام رسانی کی سہولت سے استفادہ کیا گیا۔
اب آیئے ہم آپ کود و اہم حلقوں میں انٹرنیٹ کی کرشمہ سازی سے آگاہ کرتے ہیں۔ پہلے ہم مونٹانا میں سینیٹ کی نشست کے لیے ری پبلکن پارٹی کے امیدوار کو نرڈبرنز اور ڈیمو کریٹک پارٹی کے جان ٹسٹر کے مابین کانٹے دار مقابلے میں انٹرنیٹ کی کارستانی کا احوال بتاتے ہیں۔ اگر آپ یوٹیوب ڈاٹ کام پر کونرڈبرنز کی ویب سائٹ پر جائیں تو اس میں آپ کو ۱۳۰ ویڈیوز ملیں گی جن میں خاشامد کرنے کا کوئی شائبہ تک نہیں۔ ان میں سے Naptime (غنودگی کا وقت) نامی ویڈیو کو سب سے زیادہ مقبولیت ملی۔ اس میں پروڈکشن کے کوئی کمالات نہیں دکھائے گئے بلکہ یہ کیمرے کا ایک سادہ سا شاٹ ہے جس میں کانگریس کے اس اجلاس کے دوران جس میں مونٹانا کے معاملات زیر بحث تھے سینیٹر کونرڈبرنز کو سویا ہوا دکھایا گیا۔ اس ویڈیو کو ایک لاکھ سے زائد افراد نے دیکھا۔
برنز کے خلاف درجنوں دیگر ویڈیوز میں ان کی کئی فاش حرکتیں بھی دکھائی گئی ہیں جن میں کسی کا کام کرانے کے لیے رقوم کی وصولی بھی شامل ہے۔ ان ویڈیوز کو ہزاروں افراد نے دیکھا اور اور ان کے بارے میں اپنی رائے تبدیل کرلی۔ برنز کو الیکشن میں ۳۰۰۰ ووٹوں سے شکست ہوئی جس میں یوٹیوب کی ویڈیوز کا کردار کلیدی اہمیت کا حامل ہے۔ ڈیمو کریٹ امیدوار جان ٹسٹر کو ان ویڈیوز کی تشہیر کرنے والے شہریوں کا شکر گزار ہونا چاہیے۔
دوسری مثال ورجینیا میں حکمران پارٹی کے امیدوار جارج ایلن اور ڈیمو کریٹک پارٹی کے جیمز ویب کے مابین دلچسپ مقابلے کی ہے۔ اس نشست پرایلن کو ۹۰۰۰ ووٹوں سے شکست ہوئی جس میں ۴۰۰ ویڈیوز کا کردار ناقابل فراموش ہے۔ ان میں سے ۷۵ ویڈیوز ایسی تھیں جن میں ایلن کو جیمز ویب کے لیے کام کرنے والے ایک انڈین امریکن کے ساتھ انتہائی درشت اور ناشائستہ زبان استعمال کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔ ظاہر ہے کہ بندروں جیسی حرکتوں پر مشتمل یہ ویڈیو فوراً یوٹیوب کے ذریعے ملک بھر میں لاکھوں لوگوں کی کمپیوٹر اسکرین پر پہنچ گئی۔ صرف یہی نہیں بلکہ اس ویڈیو پر مبنی کئی تصاویر شہ سرخیوں کے ساتھ اخبارات کی زینت بھی بنیں۔ اس ویڈیو کو تقریباً تین لاکھ افراد نے دیکھا۔ اسی طرح ’’ایلن پر حملہ‘‘ نامی ایک دوسری ویڈیو کو ایک لاکھ اسی ہزار افراد نے دیکھا جس نے لوگوں کے ذہنوں پر گہرے اثرات مرتب کیے۔
وائرس کی طرح تمام نیوز نیٹ ورکس اور پوری دنیا میں برق رفتاری سے پھیلنے والی ویڈیوز کی اثر پذیری اس قدر بھرپور ہوتی ہے کہ انتخابی مہم کے منتظمین اس کے نقصانات کا بروقت ازالہ نہیں کرپاتے۔ ان ضررساں ویڈیوز کا باقاعدہ جواب عموماً اگلی صبح شائع ہونے والے اخبارات میں دیا جاتا ہے لیکن ستم ظریفی ملاحظہ کیجیے کہ اخبار میں یہ وضاحت پڑھے جانے سے پہلے یار لوگ کئی مزید انکشافات پر مبنی ویڈیوز جاری کردیتے ہیں جنہیں روزانہ ہزاروں افراد فوری طور پر دیکھ لیتے ہیں۔
سیل فون پر فوری پیغام رسانی (Instant Messaging) کی ٹیکنالوجی ۱۹۹۴ء میں زیادہ دستیاب نہیں تھی لیکن اس دفعہ شہریوں تک ایوان نمائندگان کی رکن مارک فولے کی کانگریس کے مرد ارکان کے ساتھ ناشائستہ گفتگو پوری تفصیلات کے ساتھ پہنچادی گئی ۔ ان کے علاوہ کانگریس کے کچھ او رکرپٹ ارکان کی اخلاق باختہ گپ شپ سیل فون پر پیغام رسانی کے ذریعے لاکھوں لوگوں تک پہنچائی گئی جس نے لوگوں میں قومی سطح پر اشتعال کی لہر دوڑا دی۔ جہاں تک فولی کا تعلق ہے انہوں نے اپنی ساکھ بچانے کے لیے فوری طور پر استعفیٰ دے دیا لیکن اس کے باوجود یو ٹیوب کی ۴۵۰ ویڈیوز پر ان کی اخلاق سوز باتیں چل گئیں۔
جدید امریکا کی سیاسی تاریخ میں شاید ٹیلی ویژن کی آمد کے بعد انتخابی مہم پر سب سے زیادہ انٹرنیٹ اثر انداز ہوا ہے۔ میری رائے میں ہماری جمہوریت کی طویل المیعاد صحت پر انٹرنیٹ کے مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔ اگرچہ اب بھی ٹیلی ویژن رائے عامہ کو کنٹرول کرنے اور اس میں
مرکزیت پیدا کرنے میں اہم کردار ادا کررہا ہے لیکن انٹرنیٹ نے ایکد وسری جہت سے اپنی اہمیت منوالی ہے۔ انٹرنیٹ شفافیت اور انتخابی مہم کی تقسیم کار میں زبردست حصہ لے رہا ہے۔ اس کا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ اس نے شہریوں میں ہر سطح پر انتخابی عمل کا حصہ بننے پر تیار اور اپنی طاقت کا احساس بیدار کردیا ہے۔ انٹرنیٹ کی بدولت اب انتخابات میں شہریوں کا کردار انفعالی نہیں بلکہ انتہائی فعال ہوگیا ہے اور وہ چشم زدن میں اپنی رائے ہزاروں لوگوں تک پہنچاسکتے ہیں۔
ابھی یہ تو واضح نہیں ہوسکا کہ آئندہ بارہ برسوں میں ٹیکنالوجی انتخابات پر کس قدر اثر انداز ہوگی لیکن سیاستدانوں کو ایک سبق تو ابھی سے ہی سیکھ لینا چاہیے اوروہ یہ کہ آج کی دنیا میں جہاں ایک سیل فون کیمرے اور ٹیپ ریکارڈ سے لیس ہے آپ جو بھی لفظ ادا کرتے ہیں یا کہیں اونگھ لیتے ہیں اسے آپ کو انتخابی مہم کے دوران یوٹیوب کی ویڈیوز پر دوبارہ بھی دیکھنا پڑے گا۔
[مضمون نگار سوفٹ ویئر فرم اوبجیکٹ ویڈیو کے چیف ایگزیکٹو اور واشنگٹن کیپٹیلز کے شریک مالک ہیں]
(ترجمہ: ملک فیض بخش۔۔۔ بشکریہ: ’’واشنگٹن پوسٹ‘‘)
Leave a Reply