
طویل شامی بحران کے خاتمے کی امریکی کوششوں میں شامل ایک سینئر سفارتکار کے بقول اوباما انتظامیہ اور اس کے یورپی و عرب اتحادی روس کو ایران سے دور کرنا چاہتے ہیں تاکہ بشار الاسد کو سہارا دینے والی شراکت داری ختم ہوجائے۔
یہ کوششیں اُس وقت آہستہ آہستہ سامنے آئیں جب مشرقِ وسطیٰ کے رہنما روسی صدر ولادی میر پوٹن سے ملے اور بشار الاسد کا عرصۂ اقتدار مختصر کرنے کے حوالے سے ماسکو کی حمایت حاصل کرنے کی کوشش کی گئی۔ یہ اقدام ابھرتے ہوئے بین الاقوامی اتحاد کو مضبوط کرے گا اور عراق و شام میں داعش کے مقابلے کے لیے عسکری کارروائیوں کو بھی سہارا دے گا۔ ایران کو اس حوالے سے اس لیے رکاوٹ سمجھا جاتا ہے، کیونکہ وہ اسد کی شدید حمایت کرتا ہے اور چاہتا ہے کہ کریملن بھی یہی کرے۔ اگر روس اسد اور ایران کی حمایت اسی طرح جاری رکھتا ہے تو بین الاقوامی اتفاق رائے کی امیدیں موہوم ہوجائیں گی۔
ایک سینئر امریکی عہدیدار کے بقول واشنگٹن نے ’’شام کے مستقبل سے متعلق روس اور ایران کے مابین بڑھتی ہوئی کشیدگی کو محسوس کیا ہے‘‘۔ امریکی و یورپی عہدیداروں نے یہ خیال بھی ظاہر کیا کہ ایرانی پاسدارانِ انقلاب نے حالیہ ہفتوں کے دوران محدود ہوتے وسائل کے باعث شام سے کچھ فوجیوں کو واپس بھی بلایا ہے۔
سینئر سفارتکار نے بتایا کہ پوٹن نے حالیہ ہفتوں کے دوران سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور اسرائیل کے رہنماؤں سے ملاقاتیں کی ہیں اور اس بات کا اشارہ دیا ہے کہ بحران کے مذاکرات پر مبنی خاتمے کے لیے ماسکو بھی یہی چاہے گا کہ ایران شام کے اندر مداخلت کم کردے۔
عرب حکام کہتے ہیں کہ سعودی عرب نے کریملن کو اس بات پر راضی کرنے کی کوشش کی ہے کہ وہ اسد کو زیادہ عرصے اقتدار میں رکھ کر ایران کو خطے میں اپنے قریب ترین اتحادی کی حیثیت سے مزید طاقتور نہ کرے۔
اسرائیلی وزیراعظم بنیامن نیتن یاہو کی ماسکو میں پوٹن سے ملاقات کا مرکزی نکتہ یہ رہا کہ ایران اور لبنانی ملیشیا حزب اللہ کو اتنا طاقتور نہ کردیا جائے کہ وہ شامی سرزمین اسرائیل پر حملے کے لیے استعمال کرنے لگیں۔
فرانسیسی صدر فرانکوئس اولاند چاہتے ہیں کہ ان کا ملک امریکا اور روس کے ساتھ مل کر ایک نئے بین الاقوامی اتحاد کی سربراہی کرے تاکہ پیرس حملوں اور مصر میں روسی طیارہ گرانے کی ملزم داعش کو سزا دی جاسکے۔
تاہم امریکی صدر براک اوباما کی طرح اولاند بھی طویل عرصے سے اسد کو شامی بحران کا سب سے بڑا ذمہ دار سمجھتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ شام کے زخم مندمل کرنے سے پہلے ان کی اقتدار سے رخصتی ضروری ہے۔ لیکن ماسکو اور تہران اسد کے پرانے حمایتی ہیں۔
داعش سے نمٹنے کے لیے بین الاقوامی اقدامات کے حوالے سے روس نے ۱۸؍نومبر کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں قرارداد پیش کی تھی۔ سفارتکاروں کے بقول سلامتی کونسل کے ارکان شام کے مسئلے پر یکسوئی کے خواہاں ہیں اور امکان ہے کہ فرانس بھی اس بارے میں قرارداد لائے گا۔
روسی قرارداد شام کے دہشت گرد گروہوں کو وسیع معنوں میں بیان کرتی ہے لیکن اس کا اصل ہدف داعش ہی ہے۔ فرانس کا مسودہ داعش کے حوالے سے مزید سخت ہوگا۔ اقوام متحدہ میں فرانسیسی مندوب نے کہا ہے کہ ان کا ملک اور روس اپنی اپنی قراردادوں پر کام کریں گے لیکن یہ پھر بھی واضح نہیں ہوسکا کہ دونوں قراردادوں کو یکجا کردیا جائے گا یا نہیں۔ اگر ایک قرارداد کی حمایت میں دوسری کو رد کردیا گیا تو کونسل ارکان کے مابین کشیدگی جنم لے سکتی ہے۔
امریکی، یورپی اور عرب حکام کے مطابق انہیں اب بھی یقین نہیں کہ پوٹن روس کو ایران اور اسد سے دور لے جانے کے خواہاں ہیں۔ روسی وزیر خارجہ سرگئی لاروف نے اپنی حکومت کا نکتۂ نظر دہراتے ہوئے ایک بار پھر کہا کہ شامی بحران کے خاتمے پر بات چیت کے دوران بشار الاسد کی رخصتی کے حوالے سے کوئی پیشگی شرط نہیں ہونی چاہیے۔ پھر بھی شام اور عراق میں داعش کے پھیلاؤ اور دہشتگردی کے حالیہ واقعات میں اس کے مبینہ کردار نے واشنگٹن اور یورپ میں اٹھنے والی ان آوازوں کو مضبوط کردیا ہے کہ روس کے ساتھ مل کر کوئی پوزیشن اختیار کی جائے۔
شام کے مسئلے پر ویانا میں ہونے والے حالیہ مذاکرات میں ایران نے ایسا کوئی عندیہ نہیں دیا کہ وہ بشارالاسد پر اقتدار چھوڑنے کے لیے کوئی دبائو ڈالے گا۔ لیکن امریکی اور یورپی حکام کو امید ہے کہ سفارتکاری آگے بڑھے گی تو کریملن بشار الاسد کے عرصۂ اقتدار سے متعلق لچک دکھائے گا۔
نئے مذاکرات دسمبر میں ہوں گے، اور امریکا اور روس نے کہا ہے کہ وہ داعش کے علاوہ دیگر مخالفین کے ساتھ بشار الاسد کی جنگ بندی کرانے کی کوشش کریں گے۔ اس حوالے سے سفارتکاری میں مصروف ایک یورپی سفارتکار نے کہا کہ ’’اس بات پر بہت دار و مدار ہوگا کہ روس اپنے مفادات کی خاطر کیا راستہ اختیار کرتا ہے‘‘۔
یورپی عہدیدار نے مزید بتایا کہ عرب ریاستوں نے پوٹن پر یہ واضح کردیا ہے کہ جنگ بندی کے لیے ان کی حمایت اسد کی رخصتی کے نظام الاوقات سے مشروط ہے۔ عہدیدار کے بقول دمشق میں ’’سیاسی تبدیلی کا واضح اشارہ ملنے تک وہ ایسا بالکل بھی نہیں کریں گے‘‘۔
سفارتکاری سے آگاہی رکھنے والے حکام کے مطابق پوٹن نے بحیرۂ اسود کے قریب سوچی کے مقام پر ۱۱؍اکتوبر کو سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے رہنماؤں کے ساتھ علیحدہ تبادلۂ خیال کیا۔ ان ملاقاتوں میں اماراتی ولی عہد محمد بن زاید النہیان اور سعودی نائب ولی عہد اور وزیر دفاع محمد بن سلمان نے بھی شرکت کی۔ یہ ملاقاتیں شام میں داعش کے خلاف امریکا اور اس کے اتحادیوں کے حمایت یافتہ جنگجوؤں کے مقابلے پر اسد کی مدد کے لیے روس اور ایران کی مشترکہ فوجی کارروائی کے کچھ ہفتوں بعد ہوئیں۔ سعودی حکام نے ماسکو کی مداخلت کے بعد اسے کھلے عام خبردار کیا کہ کریملن کی جانب سے شیعہ اکثریتی ایران اور بشار الاسد کے ساتھ اتحاد کرنے کے بعد اسے سنی ریاستوں کی برھتی ہوئی مخالفت کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔ سنی عرب رہنماؤں نے روس کو خبردار کیا ہے کہ شام میں اس کی فوجی مداخلت نے اسے خطے کی سنی اکثریت کے خلاف شیعہ ایران، بشار الاسد کے علوی فرقے، اور عیسائیوں کے ساتھ لاکھڑا کیا ہے۔
ملاقاتوں سے آگاہی رکھنے والے حکام نے بتایا کہ پوٹن نے یہ کہہ کر اپنے شاہی مہمانوں کو حیران کردیا کہ اس مہم کے ذریعے روس شام میں ایران کے کردار کو ختم کردینا چاہتا ہے۔
روسی حکام نے اس حوالے سے بات کرنے کی درخواستوں کا کوئی جواب نہیں دیا۔
کچھ ہفتوں پہلے پوٹن نے ماسکو میں نیتن یاہو سے یہ یقینی بنانے کے لیے ملاقات کی کہ شام میں روسی اور اسرائیلی افواج ایک دوسرے کو غلطی سے نشانہ نہ بنا بیٹھیں۔ لیکن پوٹن نے اسرائیلی رہنما کو بھی اسی طرح کا پیغام دیا کہ شام میں ان کے ملک کا کردار ایران اور حزب اللہ کی کارروائیاں محدود کرنے میں معاون ہوسکتا ہے۔
گزشتہ ہفتے واشنگٹن کا دورہ کرتے ہوئے نیتن یاہو نے اس بات پر اطمینان کا اظہار کیا کہ شام میں اسرائیلی مفادات کے تناظر میں ان کا ملک روس کے ساتھ ایک ہی صفحے پر ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’’اگر ایران گولان کی پہاڑیوں کے ساتھ جنوبی لبنان کی طرح کا دوسرا محاذ کھولنا چاہتا ہے تو ہم طاقت سے بھرپور کارروائی کریں گے، جیسی کہ ہم نے پہلے کی تھی‘‘۔
تاریخی اعتبار سے روس اور ایران تزویراتی حریف رہے ہیں۔ انیسویں صدی کے اوائل میں لڑی جانے والی جنگوں کے دوران زار کی زیر حکمرانی روس نے قفقاز اور آزربائجان میں سلطنت فارس کے علاقوں پر قبضہ کرلیا تھا۔
۱۹۷۹ء کے اسلامی انقلاب کے بعد ماسکو نے بوشہر میں جوہری پاور پلانٹ تعمیر کرنے کے لیے ایران کی مدد کی تھی مگر بعد میں اس کا جوہری پروگرام محدود کرنے کے حوالے سے امریکا کے ساتھ تعاون کیا تھا۔ سابق صدر دمتری میدی دیوف نے جوہری مواد کی پیداوار روکنے کے لیے تہران پر دباؤ ڈالنے والی اقوام متحدہ کی قرارداد کی حمایت کی تھی۔
لیکن ۲۰۱۲ء میں دوبارہ صدارت سنبھالنے والے پوٹن نے ایران کے ساتھ عسکری و معاشی معاملات کو فروغ دیا ہے۔ ماسکو نے حال ہی میں کہا ہے کہ وہ تہران کو میزائل شکن نظام فروخت کرنے کا عمل مکمل کرے گا۔ اور گزشتہ ایک سال کے دوران بشار الاسد کے دفاع میں دونوں ملکوں نے ایک دوسرے سے قریبی تعاون کیا ہے۔
پھر بھی امریکی اور یورپی عہدیداروں کو یقین ہے کہ ایران کو شام میں روس کی بڑھتی ہوئی عسکری موجودگی پر تشویش ہے کیونکہ اس سے دمشق میں اس کا اثر و رسوخ کم ہوسکتا ہے۔ حکام کہتے ہیں جوں جوں مذاکرات آگے بڑھیں گے، ماسکو اور تہران کے مابین یہ اختلافات مزید گہرے ہوجائیں گے۔
برطانوی وزیر خارجہ فلپ ہیمنڈ نے گزشتہ ہفتے کہا تھا کہ ’’ہم سمجھتے ہیں کہ روسیوں اور ایرانیوں کے درمیان کچھ اختلافات ہیں‘‘۔
(ترجمہ: حارث رقیب عظیمی)
“U.S. eyes Russia-Iran split in bid to end Syria conflict”. (“Wall Street Journal”. Nov.19, 2015)
Leave a Reply