
مشرقِ وسطیٰ کے لیے امریکی افواج کے کمانڈر جنرل ابی زید نے گذشتہ دنوں ہارورڈ یونیورسٹی کے کینیڈی اسکول میں خطاب کیا۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق اس خطاب میں جنرل ابی زید نے کہا ہے:
☼ بڑھتی ہوئی اسلامی عسکریت پسندی کو نہ روکا گیا تو دنیا کو تیسری عالمی جنگ کا سامنا کرنا پڑے گا جو بہت طویل ہو گی۔
☼ انتہا پسندی کے نظریات کا سامنا کرنے کے لیے ہم نے خود کو تیار نہ کیا تو دنیا بہت جلد تیسری عالمگیر جنگ کی لپیٹ میں آجائے گی۔
☼ انتہا پسندوں کو نہ روکا گیا تو انھیں بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کی تیاری کا وقت اور محفوظ جگہوں پر چھپنے کا وقت مل جائے گا۔
☼ یہ ساری صورت حال ۱۹۲۰ء اور ۱۹۳۰ء میں ابھرنے والی فاشزم سے مماثلت رکھتی ہے۔
☼ اسلامی انتہا پسندی کا راستہ روکا جائے اور ایران سے معاملات طے کیے جائیں۔ کیونکہ وہ ایٹمی طاقت بننے کی کوشش کر رہا ہے۔
جنرل ابی زید کے یہ خیالات محض خیالات نہیں ہیں بلکہ ایک بھرپور منصوبہ بندی پر مرحلے وار عمل درآمد کا اعلان ہے۔
☼ جس تیسری عالمی جنگ کی جانب اشارے کیے گئے ہیں اس کی تیاری آج کی سب بڑی عالمی طاقت یعنی امریکا کر چکی ہے اور وہ اپنے منصوبے کے تحت ’’اسلامی عسکریت‘‘ پسندوں کے ٹھکانوں کو نشانہ بنائے گی۔
طریقہ کار وہی ہے جو امریکا نے عراق پر حملے کے لیے جواز کے طور پر استعمال کیا تھا یعنی یہ کہ ’’بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کی تیاری ہو رہی ہے۔ اسے نہ روکا گیا تو تباہی پھیل جائے گی‘‘۔
☼ آج کی صورتحال کو ۱۹۲۰ء اور ۱۹۳۰ء میں یورپ میں ابھرنے والی فاشزم سے مماثل قرار دینا یورپی طاقتوں کو مسلمانوں سے ہی نہیں بلکہ اسلام سے بدظن کرنے کی کوشش ہے۔
ہر دور میں خیر اور شر کی طاقتوں کے درمیان تصادم ہوتا رہا ہے اور جب تک دنیا قائم ہے ایسا ہوتا رہے گا۔ دو متصادم طاقتیں جب آمنے سامنے ہوں تو دونوں بیک وقت درست نہیں ہو سکتیں، انسانی تاریخ کا ایک دور ایسا بھی تھا جب باطل طاقتیں مادیت پرستی پر فخر کرتی تھیں بلکہ اسی بنیاد پر خدائی کی دعوے دار بن جاتی تھیں۔
قرآن پاک میں اس کی ایک مثال فرعون کے دعواے خدائی کے حوالے سے موجود ہے جس نے اعلان کیا تھا کہ ’’اناربکم الاعلیٰ‘‘ یعنی میں تمہارا سب سے بڑا رب ہوں اور اس کا تکبر اس وقت ٹوٹ گیا جب وہ دریائے نیل میں غرق ہونے لگا۔
لیکن ہمارے ہادیٔ برحق رسولِ اکرم کے وسیلے سے کرۂ ارض پر نسلِ انسانی کے اجتماعی وجود کے شعور کی بیداری کے بعد باطل قوتیں بھی حق کی علمبرداری کا لبادہ اوڑھ کر میدان میں آتی ہیں۔ اس سلسلے میں گذشتہ صدی میں یورپ میں ’’فاشزم‘‘ کے خطرے کے اعلانات سامنے لائے جاسکتے ہیں۔ ’’فاشزم‘‘ کی ذہنیت اور ’’فاشزم‘‘ کا رویہ کسی صورت قابلِ قبول نہیں بنائے جا سکتے لیکن یورپ میں اس خطرے کو نمایاں کرنے والے ممالک بجائے خود کسی اعلیٰ انسانی نظریے کے حامل نہیں تھے بلکہ ان میں سے اکثر ممالک اٹھارہویں، انیسویں اور بیسویں صدی میں دنیا کے مختلف علاقوں پر نہایت جابرانہ استحصالی نظام قائم کرنے کے مجرم تھے۔ ان کی اپنی تاریخ خود انہی بداعمالیوں سے داغدار تھی جن بداعمالیوں کو انسانیت کے خلاف خطرہ قرار دے کر ’’فاشزم‘‘ کے خلاف صف آرا ہو رہے تھے۔
امریکا اس وقت مادی دولت اور عسکری قوت دونوں اعتبار سے عالمی سپرپاور بنا ہوا ہے اور اسے دنیا کی ’’واحد سپر پاور‘‘ کی مسند تک پہنچانے میں پاکستان کے اس دور کے اربابِ اختیار کے حکمتِ عملی کا کردار بڑا کلیدی تھا جنھوں نے ’’دوسری سپر پاور‘‘ کو ’’جذبۂ جہاد‘‘ کی توانائی کے وسیلے سے اس منصب سے معزول کر دیا۔ امریکا اس وقت دنیا کی ’’سپر پاور‘‘ ہے اور اسی زعم میں اس واحد ’’سپر پاور‘‘ نے ساری دنیا میں ’’امن کے قیام کی ٹھیکیداری‘‘ کا منصب بھی سنبھال لیا ہے۔ امن کے اس ٹھیکیدار نے اگست ۱۹۴۰ء پہلے عشرے میں جاپان کے دو شہروں یعنی ہیروشیما اور ناگا ساکی کو ایٹم بم کا نشانہ بنایا۔ بیسویں صدی کی ’’روشنی‘‘ میں جب کہ یورپ میں ’’فاشزم‘‘ کے خلاف جنگ جیتی جا چکی تھی، شہری آبادی کو جاپان میں انسانی تاریخ کے مہلک ترین ہتھیار کا نشانہ بنایا گیا اور چالیس برس گزر جانے کے باوجود کسی امریکی نے آج تک اس پر افسوس کا اظہار تک نہیں کیا بلکہ آج امریکا ہی فیصلے کر رہا ہے کہ کس ملک کو ایٹمی طاقت بننا چاہیے اور کس کو نہیں۔
علامہ اقبال نے سچ کہا ہے کہ:
سو بار ہوئی حضرتِ انساں کی قبا چاک
تاریخِ امم کا یہ پیامِ ازلی ہے
صاحبِ نظراں نشۂ قوت ہے خطرناک
اس سیلِ سبب سیر و زمیں گیر کے آگے
عقل و خرد و علم و ہنر ہیں خس و خاشاک
لادیں ہو تو ہے زہرِ ہلاہل سے بھی بڑھ کر
ہوں دیں کی حفاظت میں تو ہر زہر کا تریاک
اس امریکی جنرل نے ’’اسلامی عسکریت پسندی‘ اور ’’اسلامی انتہا پسندی‘‘ کے خلاف واضح اعلان کیا ہے۔ پاکستان نے گذشتہ چند برسوں میں خاص طور پر امریکا کی بھرپور حمایت کی ہے جس کے حوالے خود ہم پاکستانیوں کے ذہنوں میں بہت سے سوالات پیدا ہو رہے ہیں، اس کے باوجود یہ لہجہ اور یہ انداز ہمت افزا نہیں، ہمت شکن ہے۔ اس حوالے سے قرآن پاک میں سورۂ آلِ عمران میں آیت:۱۲۰۔۱۱۸ قابلِ غور ہیں۔
’’اے ایمان والو! اپنے ایمان والوں کی جماعت کے سوا دوسروں کو اپنا رازدار نہ بنائو۔ وہ تمھاری خرابی کے کسی موقع سے فائدہ اٹھانے سے نہیں چوکتے۔ ان کو وہی کچھ محبوب ہے جس سے تمھیں نقصان پہنچے۔ ان کے دلوں کا بغض ان کے منہ سے نکل پڑتا ہے اور اس سے شدید تر ہے وہ کیفیت جسے وہ اپنے سینوں میں چھپائے ہوئے ہیں۔ اگر تم عقل رکھتے ہو تو ہم نے تمھیں صاف صاف ہدایات دے دی ہیں۔ تم ان سے محبت رکھتے ہو مگر وہ تم سے محبت نہیں رکھتے حالانکہ تم تمام آسمانی کتابوں کو مانتے ہو جب وہ تم سے ملتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم بھی ایمان رکھتے ہیں مگر جب الگ ہوتے ہیں، اُن کے غصے کا یہ عالم ہوتا ہے کہ اپنی انگلیاں چبانے لگتے ہیں۔ ان سے کہہ دو اپنے غصے میں آپ جل مرو۔ اﷲ دلوں کے راز بھی جانتا ہے‘‘۔
امریکا اور اس کے اتحادی ملکوں کے بااختیار سیاست داں اور ان کے بااختیار فوجی کسی ایک مسلمان ملک کے حوالے نہیں بلکہ مجموعی طور پر مسلم اُمہ کے بارے میں کیا اندازِ فکر رکھتے ہیں، جنرل ابی زید کے خیالات سے اس کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔ یقینا ہمارے بااختیار لوگ جو سارے حقائق سے بھرپور واقفیت رکھتے ہیں وہ صورتحال کا جائزہ لے کر فیصلے کریں گے لیکن ہمارے دین میں مشاورت کے حوالے سے ہر مسلمان پر اظہارِ رائے کی جو ذمہ داری آجاتی ہے اس کے پیشِ نظر یہ کہنا ضروری ہے کہ اقوامِ مغرب کے نزدیک ڈپلومیسی یعنی بین الاقوامی حکمتِ عملی اور منافقت بلکہ قول و عمل کے جس تضاد کو ہم منافقت کہتے ہیں، وہ اسے کسی جھجک کے بغیر ان ملکوں کے خلاف بھی اختیار کر لیتے ہیں جن کو اپنا دوست اور مددگار کہتے ہیں۔ لہٰذا ہمیں ہر صورت کا سامنا کرنے کے لیے تیار رہنا چاہیے۔ رہ گئی اسلامی ’’عسکریت پسندی‘‘ اور ’’انتہا پسندی‘‘ جس کے لیے یورپ کے ’’فاشزم‘‘ کو بطور مثال پیش کیا گیا ہے تو یہ ہمارے مخالفین کی ہمارے دین سے ناواقفیت کی دلیل ہے۔ اسلام ساری نسلِ انسانی کے لیے مکمل طور پر امن و سلامتی اور عزت و تکریم کا پیام بر ہے۔ سورۂ بنی اسرائیل آیت۷۰ میں واضح ارشاد موجود ہے کہ:
’’ہم نے بنی آدم کو عزت و تکریم عطا کی، انھیں خشکی اور بحری سواریاں عطا کیں، ان کو پاکیزہ چیزوں سے رزق عطا کیا اور اپنی بہت سی مخلوقات پر نمایاں فوقیت بخشی‘‘۔
ارشاداتِ قرآنی کے مطابق کسی جرم کے بغیر کسی بھی انسان کا قتل گویا ساری انسانیت کے قتل کے مترادف ہے۔ یہ ہے انسانی زندگی کی حرمت۔
٭ سورۂ مائدہ آیت۸ میں ارشاد ہے:
’’کسی قوم کی دشمنی بھی تم کو اتنا مشتعل نہ کر دے کہ تم اس کے ساتھ انصاف نہ کرو۔ انصاف کرو یہی خدا خوفی کے مطابق ہے‘‘۔
’’اے ایمان والو! انصاف کے علمبردار اور خدا واسطے کے گواہ بنو۔ اگرچہ تمھارے انصاف اور تمھاری گواہی کی زَد تمھاری اپنی ذات پر ہی کیوں نہ پڑتی ہو یا تمھارے والدین اور رشتہ داروں پر پڑتی ہو، فریقِ معاملہ خواہ امیر ہو یا غریب، اﷲ تم سے زیادہ اُن کا خیر خواہ ہے‘‘۔ (النساء:۱۳۵)
’’(اے ایمان والو!) تم ان کے باطل خدائوں کو بھی برا نہ کہو۔ جواب میں یہ (اپنے جہل کی بنیاد پر) اﷲ کے لیے بدکلامی پر نہ اتر آئیں‘‘۔
یہ احکامات بالکل واضح ہیں۔ انسانوں کے مابین امن و سلامتی کی بنیادیں فراہم کرنے والے واضح ارشاداتِ قرآنی ہمارا جزوِ ایمان ہیں۔
٭ قرآنِ پاک نے اُمتِ مسلمہ پر ذمہ داریاں ڈالی ہیں۔
’’ہم نے تم کو ایک اُمتِ وسط بنایا ہے تاکہ تم دنیا کے لوگوں پر گواہ بنو اور رسول تم پر گواہ بنیں‘‘۔ (البقرہ:۱۴۳)
’’اب دنیا میں تم وہ بہترین گروہ ہے جسے انسانوں کی اصلاح کے لیے ذمہ داری دی گئی ہے تم نیکی کا حکم دیتے ہو، بدی سے روکتے ہو اور اﷲ پر ایمان رکھتے ہو‘‘۔ (آلِ عمران:۱۱۰)
بحیثیتِ مسلمان یہ ہیں ہماری انفرادی و اجتماعی ذمہ داریاں۔ یہ انسانیت نواز ذمہ داریاں ہیں، یہ تاریخ ساز ذمہ داریاں ہیں اور قیامِ پاکستان کے ساتھ ہی عالمگیر سطح پر ہمارے ملی شعور کی بیداری کی ابتدا ہو چکی ہے۔
سورۂ بقرہ کی آیت۲۱۶ میں ارشاد ہوا ہے:
’’تمھیں جنگ کا حکم دیا گیا ہے اور تمھیں وہ ناگوار ہے۔ ہو سکتا ہے ایک بات تمھیں ناگوار ہو لیکن وہی بات تمھارے لیے بہتر ہو اور ہو سکتا ہے ایک بات تمھیں پسند ہو لیکن اس میں تمھارے لیے خرابی ہو۔ حقیقت تو اﷲ جانتا ہے، تم نہیں جانتے‘‘۔
دنیا میں اس وقت مسلمانوں کے ۵۷ آزاد ممالک ہیں۔ دنیا کی آبادی کا ۴/۱ حصہ مسلمانوں پر مشتمل ہے۔ مسلمان ملکوں میں ہمہ جہت صلاحیتوں کی مالک افرادی قوت ہے۔ اﷲ تعالیٰ نے مسلمان ملکوں کو برسرِ زمین اور زیرِ زمین لاتعداد دولت سے نوازا ہے۔ ہمارے ایمان کے مطابق ایمانی رشتہ انسانوں کے مابین دیگر تمام رشتوں سے زیادہ اہم اور زیادہ مضبوط ہوتا ہے۔ اگر غور کیا جائے تو یہ حقیقت بالکل واضح ہو جائے گی کہ مسلمانوں کو ایمان دشمن طاقتوں کا سامنا تو ہے لیکن اصل کمزوری فریقِ مخالف کی بے پناہ عسکری طاقت کی وجہ سے نمایاں نہیں ہوتی، ہماری اصل کمزوری اپنے ایمانی تقاضوں کے تحت بھرپور عمل سے محرومی کی وجہ سے ہے۔ مسلمان ملکوں کے بااختیار لوگوں کو خاص طور پر اور سارے مسلمانوں کو عام طور پر اس ناگزیر حقیقت سے کبھی غافل نہیں ہونا چاہیے کہ ہمیں، ہم میں سے ہر ایک کو، اپنے خالقِ حقیقی کے روبرو اپنے اعمال کا سامنا کرنا ہے۔ اﷲ تعالیٰ ہمارے دل کے بھید بھی جانتا ہے۔ اپنی معاشرتی ذمہ داریوں اور عالمی صورتحال کے حوالے سے بھی ان کی ادائیگی میں مثبت پہلو زیادہ ہے یا منفی پہلو زیادہ ہے۔ مادی طاقتیں ایمانی توانائی پر کبھی غالب نہیں آسکتیں بشرطیکہ عالمی سطح پر مسلمان ممالک اپنی ذمہ داریاں پوری کریں۔ دنیا کے سامنے ہم اسلام کا کون سا رُخ پیش کر رہے ہیں، اسی کی نسبت سے ہمارے احتساب کے رُخ کا تعین ہو گا۔
(بشکریہ: ماہنامہ ’’طاہرہ‘‘ کراچی۔ شمارہ: دسمبر ۲۰۰۶ء)
Leave a Reply