
افغان تنازع افراتفری،تصادم اور انتشار کے ایک نئے دور میں داخل ہو رہا ہے۔گزشتہ ہفتے چھ امریکی فوجی خودکش حملے میں مارے گئے، اس کے ساتھ ساتھ داعش کی قوت افغانستان کے مختلف علاقوںمیں تیزی سے بڑھ رہی ہے اور طالبان میں بھی اقتدار کی ایک خطرناک جنگ کا آغاز ہو چکا ہے۔
رواں ماہ کے اوائل میں طالبان کے نئے امیر ملا اختر منصور کی ہلاکت کی افواہوں سے خطے میں سنسنی کی لہر دوڑ گئی۔ کہا جاتا ہے کہ کوئٹہ (پاکستان) میں طالبان کے دو دھڑوں کے اجلاس کے دوران فائرنگ سے ملا اختر منصور کے زخمی ہونے کی وجہ سے افغان حکومت اور طالبان کے درمیان جاری مذاکرات معطل ہوگئے۔ اس واقعہ کے کچھ ہی دنوں بعد ملا اختر کا ایک مبینہ آڈیو پیغام جاری کیا گیا تاکہ طالبان میں ان کے حوالے سے موجود تشویش کو کم کیا جاسکے۔ لیکن یہ آڈیو پیغام بھی اس افواہ کی تردید کرنے میں کارگر ثابت نہ ہوسکا، بلکہ ۷ دسمبر ۲۰۱۵ء کو افغانستان کے چیف ایگزیکٹو عبداللہ عبداللہ نے بھی ایک بیان میں کہا کہ ملا اختر منصور زخمی ہیں۔
سچ کچھ بھی ہو، لیکن ایسے وقت میں جب اوباما انتظامیہ افغانستان سے امریکی فوج کے انخلا کی حکمتِ عملی پر عمل پیرا ہے، طالبان میں پیدا ہونے والے انتشار سے خطہ میں عدم استحکام اور تشدد میں اضافہ ہوگا۔ افغانستان میں امریکی فوج کے سربراہ جنرل جان کیمبل نے اکتوبر میں ہونے والی سینیٹ کمیٹی کی ایک سماعت کے دوران کہا تھا کہ افغانستان کے لیے ایک نئی منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ گزشتہ سال کے دوران افغانستان میں داعش کی قوت میں اضافے اور ملا عمر کی ہلاکت پر طالبان سے جاری مذاکرات رک جانے کی وجہ سے علاقے کے سیاسی اور فوجی حالات میں نمایا ں تبدیلی آئی ہے۔ امریکی حکومت کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق جون سے نومبر ۲۰۱۵ کے دوران علاقے میں سکیورٹی کی صورتحال بدتر ہو گئی ہے اور اس بات کا قوی امکان ہے کہ طالبان دھڑوں کے درمیان ملا عمر کی جانشینی کے لیے لڑائی جاری رہے گی، جس سے افغانستان میں سکیورٹی کی صورتحال مزید خراب ہو گی۔
خیال کیا جاتا ہے کہ طالبان کے گوشہ نشین راہنما ملا عمر کی ہلاکت کے بعد طالبان تین دھڑوں میں تقسیم ہو گئے ہیں۔ ایک گروہ ملا عمر کے سابق نائب ملا اختر منصور کا ہے، دوسرا گروہ زابل صوبے کے کمانڈر ملا محمد رسول نورزئی کا ہے اور تیسرا گروہ طالبان دور کے نائب وزیر خارجہ مولوی عبدالجلیل کا ہے۔
ایک دور تھا جب سویت یونین افغانستان سے نکلا تو طالبان نے نسلی گروہوں میں تقسیم افغانیوں کو یکجا کیا تھا، لیکن اب طالبان ایسا کرنے کی طاقت نہیں رکھتے، اور نہ ہی ان کو اس قابل سمجھا جاتا ہے کہ وہ کبھی ایسا کر پائیں گے۔ طالبان جن کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ ’’طالبان ہی افغانستان کو متحد رکھے ہوئے ہیں‘‘، ۲۰۱۳ء میں افغانستان کے رابن ہڈ ملاعمر کی ہلاکت کے بعد وہ اپنی یہ شناخت کھو چکے ہیں۔
ٹوٹ پھوٹ کا شکار تحریکیں ہمیشہ تنازعات کی طوالت کا باعث بنتی ہیں۔ عصرِ حاضر میں اس کی واضح مثال یمن، لیبیا اور شام کے تنازعات ہیں۔ ایسے حالات میں منقسم گروہوں میں مفادات پر اختلاف اور مالی وسائل کے حصول کے لیے آپس کی لڑائیوں میں اضافہ ہوجاتا ہے اور اس کی وجہ سے ان کے لڑنے کی صلاحیت میں کمی اور اعلیٰ مقاصد کے حصول سے توجہ ہٹ جاتی ہے، جس سے افراتفری کی صورتحال پیدا ہوتی ہے۔ اس دوران وہ حکومت سے اپنی لڑائی جاری رکھتے ہیں، جیسا کہ افغانستان میں ہو رہا ہے۔
ایک طرف افغان حکومت سے جاری امن مذاکرات اور دوسری طرف طالبان کی اندرونی لڑائی، محسوس یہ ہوتا ہے کہ آنے والے وقت میں یہ کشمکش طالبان کی جانب سے کارروائیوں میں اضافہ کا سبب بنے گی۔ ممکنہ امن معاہدے سے پہلے طالبان کے مختلف گروہوں نے اپنے حامیوں کی تعداد بڑھانے اور اپنے آپ کو مستحکم کرنے کے لیے زیادہ آبادی والے علاقوں پر قبضے کی کوششیں تیز کر دی ہیں، اس کی تازہ مثال کچھ دن پہلے قندوز کا عارضی قبضہ ہے، اس کے علاوہ اہم تنصیبات پر حملوں میں بھی اضافہ دیکھنے میں آیا ہے، جیسا کہ حالیہ دنوں میں قندھار ائیر بیس کا محاصرہ۔
وائٹ ہائوس تیزی سے بدلتی ہوئی صورتحال پر گہری نظر رکھے ہوئے ہے۔ پاکستانی وزیراعظم نواز شریف اور بری فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف کے حالیہ دورئہ امریکا پر اوباما انتظامیہ نے علاقائی تعاون اور خطے میں امن کے لیے پاکستان کے کردار کی اہمیت پر زور دیا۔ آنے والے دنوں میں لڑائی سے نمٹنے کے لیے امریکا کو چاہیے کہ وہ افغان فوج کی امداد جاری رکھے اور ساتھ ساتھ پاکستان پر دبائو بڑھائے کہ وہ اعتدال پسند طالبان اور کابل کے درمیان مذاکرات کی حمایت جاری رکھے۔
امریکا کے خصوصی دستوں کی جنوبی ہلمند میں بڑھتی ہوئی کارروائیاں اس بات کی نشاندہی کر رہی ہیں کہ وہ طالبان کی پیش قدمی روکنے کے لیے افغان فوج کی مدد کے حوالے سے طے شدہ پالیسی سے بڑھ کر اقدام کر رہا ہے۔ کیونکہ امریکا کو اندازہ ہے کہ ہلمند پر طالبان کا قبضہ مذاکرات میں ان کی پوزیشن کو مضبوط کرے گا۔ امریکی فوج کا زمینی کارروائیوں میں بڑھتا ہوا کردار کمزور اور ناتجربہ کار افغان فوج کے مورال کو بلند کرنے میں مدد دے گا اور اس سے افغان فوج کو وقت بھی مل جائے گا، جو اسے فضائی مدد کے حصول کے لیے درکار ہے (یاد رہے ہلمند کے قریب فضائی مدد کے لیے ایئر فیلڈ کی تعمیر نو آنے والے موسم بہار تک مکمل ہو جائے گی)۔ امریکا کا افغانستان میں ایک مضبوط اور فعال جنگی کردار طالبان کے منحرف گروہوں کو اس بات پر مجبور کرے گا کہ وہ مرکزی حکومت سے مذاکرات کی حمایت کریں۔ تاہم یہ نہایت اہم ہے کہ اس بات کی خبر رکھی جائے کہ طالبان کے اندر کون کس سے لڑ رہا ہے، کیونکہ مکمل امن کے قیام کے لیے آپس کے تنازعات کا خاتمہ بھی ضروری ہو گا۔
(ترجمہ: حافظ محمد نوید نون)
“Why a fractured Taliban is endangering the U.S. mission in Afghanistan”.
(“Washington Post”. December 21, 2015)
Leave a Reply