
اس وقت واشنگٹن سے اسلام آباد اور کابل سے بغداد تک ایک بڑی مہم پر نہایت سرگرمی سے کام ہورہا ہے۔ مہم یہ ہے کہ مسلمان امت کے جذبہ جہاد کو سرد کردیا جائے گا اور اس پوری اسکیم کے لیے جو خوبصورت اصطلاح وضع کی گئی ہے اس کا نام ہے’’اعتدال پسندی‘‘
حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے اپنے پیروکاروں کو تعلیم دی تھی کہ کوئی اگر تمہارے دائیں گال پر تھپڑ رسید کرے تو بایاں گال بھی آگے کردو۔ اب یہ تعلیم پیروانِ عیسیٰؑ کے لیے نہیں بلکہ مسلمانوں کے لیے بھی ہے کہ بوسنیا میں مسلمانوںکی نسل کشی کا عمل مکمل ہوچکے تو چیچنیا والے اپنے آپ کو پیش کردیں اور فلسطین کی نسلوں کے قلع قمع کا عمل ابھی ختم نہ ہو کہ کشمیریوں کے خون سے آبشار بہنے لگیں۔ افغانستان کے لاشے تڑپنا بند نہ کریں کہ عراق میں انسانی سروں کی فصل کٹنے لگے۔ برما اور فلپائن کے ستم رسیدہ ابھی سانس بھی نہ لیں کہ سوڈان وغیرہ میں ان کاشکار شروع کردیا جائے ‘ جواب میں انہیں اف تک نہیں کرنا چاہیئے‘ آہ وفغاں سے باز رہنا چاہیئے۔ شکوہ و شکایت کے لیے زبان نہیں کھولنی چاہیئے۔ یہ اعتدال پسندی ہے اور یہی دستور ہے اس دور کے مسلمانوں کے لیے جس پر انہیں چل کر دکھانا ہے۔ احتجاج ‘ فریاد‘ آہ و بکا اور مزاحمت و دفاع کی روش اس دستور کی خلاف ورزی ہے‘ جس کے لیے اس دور کی مروج اصطلاح انتہا پسندی اور دہشت گردی ہے۔
قرآن اور سنت نبویؐ کی روشنی میں باعمل ‘ خدا خوفی اور عظمت اخلاق سے آراستہ معاشرہ تشکیل دینے کا خیال بھی انتہا پسندی ہی کی ایک صورت ہے۔ قرآ ن و سنت کی تعلیمات کے سائے میں تعمیر ہونے والے معاشرے کے اندر غیرت و حمیت اور جرأت و شجاعت کا جوہر پروان چڑھ سکتا ہے۔ غیرت و جرأت ایمان کا خواہ کیسا ہی بڑا تقاضا ہو اعتدال پسندی کے منافی اور انتہا ء پسندی کے مترادف ہے جس سے دہشت گردی جنم لیتی ہے۔ مسجد و مدرسہ کی فضائیں جہاں سے قال اللہ‘ وقال الرسول ؐ کی صدائیں بلند ہوتی ہیں اس اعتدال پسندی کے ماحول کو نقصان پہنچانے کا باعث بنتی ہیں۔ اعتدال پسندی کے بے ضرر ماحول کی ساخت کے لیے ایسے تکیے وجود میں لانے کی ضرورت ہے جہاں وہ مدہوش ملنگ براجمان ہوں جو بے خودی و بے ہوشی میں ہوحق ہو حق کے نعرے بلند کرتے رہیں لیکن انہیں کچھ خبر نہ ہو کہ حق کیا ہے اور باطل کیا ہے۔ خیر کسے کہتے ہیں اور شر سے کیا مراد ہے۔ جو نہ رحمان کے دیئے ہوئے نظامِ حق سے واقف ہوں اورنہ شیطان کی انسانیت آزاد اسکیم کا انہیں کوئی پتہ ہو‘ جو نہ اسلام کے غلبے کے لیے فکر مند ہوں اور نہ کفر کی یلغار سے پریشان۔ یہی وہ ’’صوفی ازم‘‘ ہے جس کا آج کل بہت چرچا ہے جس کے فروغ کے لیے پاکستان کے فوجی حکمران جنرل پرویز مشرف نے اپنی بے پناہ مصروفیات میں سے وقت نکال کر ایک صوفی کونسل کی بنیاد رکھی ہے اور مسلم (ق) کے صدر چوہدری شجاعت کو اس کی چیئرمین شپ تفویض کی ہے۔ اس تصور کے مبلغین کے خیال میں خالص اسلام امن و محبت کا گویا سبق نہیں دیتا‘ یہ انسان دوستی کی تعلیمات سے خالی ہے‘ اس میں نفرتوں کی تعلیم پائی جاتی ہے ‘ امن و آشتی اور محبت و اخوت کے لیے گویا اسلام کی نہیں بلکہ صوفی ازم کی ضرورت ہے۔
صوفی کونسل امریکی منصوبہ:
ہمارے ہاتھ امریکا میں Rand Corporation کی طرف سے نیشنل سیکورٹی ریسرچ ڈویژن کے تعاون سے مرتب ہونے والی ایک اہم رپورٹ آئی ہے۔ اس کا مرتب کنندہ شیرل بینرڈ ہے اور اس کی تیاری میں افغانستان اور اب عراق میں امریکا کے افغان نژاد سفیر زلمے خلیل زاد سمیت لگ بھگ آٹھ دوسرے دماغوں نے معاونت کی۔ سول ڈیمو کریٹک اسلام۔ پارٹنرز‘ ریسورسز اینڈ اسٹریٹجس کے نام سے شائع ہونے والی ۷۲ صفحات کی اس رپورٹ کو ایک اہم تھنک ٹینک ’’دی سمتھ رچرڈ فائونڈیشن‘‘ نے اسپانسرکیا ہے۔ ابتداء میں دیباچے کے بعد اس کا خلاصہ دیا گیا ہے۔ رپورٹ کا تحقیقی مواد تین ابواب پر مشتمل ہے۔ پہلے باب میں ایشوز کو گنوایا گیا جن کو آج مغرب اسلامی دنیا کے ساتھ وجہ نزاع سمجھتا ہے ۔ دوسرے باب میں ’’جمہوری اسلام کے فروغ کے لیے شراکت داروں کی تلاش‘‘ کا نقشہ اور تدابیر ہیں۔ تیسرا باب ’’مجوزہ حکمت عملی‘‘ پر مشتمل ہے۔ آخر میں چار اہم ملحقات یا ذیلی حصے ہیں۔ ان میں تیسرے ملحقہ یا ذیلی حصے کو ’’گہری حکمت عملی‘‘ کے عنوان سے دیا گیا ہے۔ رپورٹ کے خلاصے اور اس حصے کے نکات میں مماثلت ہے۔ اس لیے ہم قارئین کی دلچسپی اور اہل فکر و نظر کے غور و فکر کے لیے اس حصے کا ترجمہ و تلخیص یہاں پیش کررہے ہیں ہم یہاں رپورٹ کے مرتبین کے مکروہ عزائم اور اسلام و مسلم دشمنی کے باوجود اس امر کی داد دیتے ہیں کہ انہوں نے اپنے زاویے سے اسلام اور اس کی تاریخ اور قرآن و سنت کا خوب مطالعہ پیش کیا ہے۔ کاش کہ اسلام اور اس ملتِ مظلومہ کی وکالت کرنے والے مسلم دانشور‘ صحافی اور علماء بھی مغربی تہذیب‘ مغربی اقدار اور مغربی سوچ کی حقیقت واضح کرنے کے لیے ان کا اسی گہرائی اور غیر جذباتی انداز میں مطالعہ کرکے ایک حکیمانہ پالیسی وضع کریں۔ پچھلی صدی کے وسطِ اول میں مغرب کی فکری یلغار کا انتہائی فراست سے جواب دینے والے اصحابِ علم و فکر اس دنیا سے اٹھ گئے ہیں۔ نئے دماغوں کی ضرورت ہے جو اس محاذ پر اسی فراست سے مقابلہ کرسکیں۔
مذکورہ رپورٹ عالم اسلام کے جغرافیائی تناظر کو ملحوظ رکھ کر کسی خاص ملک کے لیے نہیں بلکہ مجموعی طور پر پوری مسلم ملت کو سامنے رکھ کر تیار کی گئی۔مسلمانوں کو اس رپورٹ میں فکری اور اعتقادی و نظریاتی طور پر چار بڑے گروہوں میں تقسیم کیا گیا ہے اور پھر اسی تقسیم کی بنیادپر ان میں مزید تقسیم یا تصادم‘ توافق یا تباعد یا تعاون یا تفریق پیداکرنے کی تجویز دی گئی ہیں۔ چار بڑے گروہوں میں رپورٹ کے مطابق مغرب کے لیے سب سے زیادہ خطرناک اور مسئلہ ثابت ہونے والا گروہ ہے بنیاد پرست۔ اس کے قریب قریب مغرب کے لیے الجھن ثابت ہونے والا دوسرا گروہ ’’روایت پسندوں‘‘ کا گروہ ہے۔ تجدد پرست (ماڈرنسٹ) تیسرا گروہ ہے اور ’’لادین‘‘ چوتھا فریق ہے۔ رپورٹ میں وضع ہونے والی پالیسی مسلمان امت کے اندر انہی چار گروہوں کے گرد گھومتی ہے۔ ضمنی طور پر تعلیم کے میدان اور نوجوان نسل کو بھی اس رپورٹ کے اہداف سے باہر نہیں رکھا گیا ہے۔ ’’تعلیم اور نوجوان پر توجہ‘‘ کی سرخی کے تحت بتایا گیا ہے کہ ریڈیکل اسلامی تحریکوں سے عہد وفا رکھنے والے پختہ عمر لوگوں کے نظریات کو متزلزل کرنا ناممکن ہے۔ چنانچہ اگر تعلیمی اداروں کی نصابی کتابوں میں ’’جمہوری اسلام‘‘ کا پیغام داخل کردیا جائے تو اگلی نئی نسل کو ذہنی طور پر متاثر کیا جاسکتا ہے۔ نصابِ تعلیم کے علاوہ نئی نسل کو متاثر کرنے کے لیے عوامی میڈیا کو بھی استعمال کیا جانا چاہیئے۔ ریڈیکل بنیاد پرستوں نے تعلیم کے میدان کو اپنے اثر اور گرفت میں رکھنے کے لیے دور تک اپنے اثرات پھیلا رکھے ہیں۔ ان سے یہ میدان سخت جدوجہد کے بغیر نہیں چھینا جاسکتا۔ ان سے یہ خاص میدان چھیننے کے لیے ان کے برابر پرجوش اور توانا کاوشوں کی ضرورت ہوگی۔
’’حکمت عملی کی تقویت و تنقیذ کے لیے قطعی اور متعینہ اقدامات اور سرگرمیاں‘‘ کے ذیلی عنوان کے تحت تجویز کیاگیا ہے کہ:
٭ تجددد پرست (ماڈرنسٹ) اور عوامی حلقوں میں معروف سیکولر اہل دانش اور اصحابِ قلم کی بھرپور حمایت کی جائے۔ ان کی عملی و فکری کاوشات کی طباعت اور تقسیم میں ان کی مدد کی جائے۔ ان کی ہمت بندھائی جائے اور رہنمائی کی جائے کہ وہ وسیع عوامی حلقوں اور نوجوانوں کو مخاطب بنا کر اپنی قلمی مہم کو آگے بڑھائیں۔ ان کے نظریات کو اسلامی نصابی کتابوں میں شامل کرانے کی کوشش کی جائے۔ ان کو پبلک پلیٹ فارم‘ اخبارات و جرائد اور الیکٹرانک میڈیا میں جگہیں دلائی جائیں۔
٭ بنیاد پرستوں اور روایت پسندوں کے پاس ویب سائٹس ‘اشاعتی مراکز ہیں‘ اسکول اور ادارے ہیں اور دیگر متعدد وسائل ہیں جن کے ذریعے وہ آسانی سے اپنا پیغام پھیلاتے ہیں۔ اس کا توڑ کرنے کے لیے جدیدیت پسند اور سیکولر دانشوروں کے افکار عام کرنے اور مختلف دینی تعبیرات و تشریحات میں ان کی آراء اور فیصلوں کو مقبول بنانے کے لیے وسیع انتظام کیا جائے۔
٭ ایک طرف قدامت پسندی اور بنیاد پرستی ہے‘ وہ مسلمان نئی نسل جو ابھی ذہنی طور پر کسی سے متاثر نہیں اس کے سامنے جدیدیت کو ثقافتی توڑ کے طور پر پیش کیا جائے تاکہ وہ جدیدیت کی طرف مائل ہوسکے۔
٭ مسلمان ملکوں اور خطوں کی تاریخ کا ایک وہ دور ہے جو اسلام پہنچنے کے بعد شروع ہوا۔ ایک دور وہ تھا جب وہاں اسلام نہیں تھا۔ اس دور کو نمایاں کرنے کی کوشش کی جائے جو اسلام سے پہلے اور اس کی تعلیمات کے پھیلنے سے پہلے تھا۔ ان قبل یا بغیر از اسلام ادوار کی تہذیب و ثقافت کی علامتوں کو میڈیا کے ذریعے ابھارا جائے اور نصابِ تعلیم میں شامل کیا جائے۔
٭ سیکولر سماجیاتی اور ثقافتی اداروں اور پروگراموں کو مقبول بنانے اور تقویت پہنچانے کی تدابیر کی جائیں۔ ہم نے اوپر بتایا ہے کہ رپورٹ میں بنیاد پرست اور روایت پسند اور سیکولر اور ماڈرنسٹ گروہوں میں مسلم امت کو تقسیم کیاگیا ہے۔ روایت پسندوں کی طرف جو اشارہ ہے وہ غالب انداز میں سلفی مکتب فکر کی طرف ہے اور بنیاد پرستوں سے مراد ائمہ کی تقلید کے قائلین کی اکثریت ہے۔ دونوں مکاتب فکر میں اپروچ کا فرق مدتوں سے رہا ہے۔ امریکا اور مغرب کے خلاف جہادی تحریکوں نے اس فرق کو بڑی حد تک کم کرکے انہیں مشترک مقاصد کی روشنی میں بہت قریب کردیا ہے۔ رپورٹ میں اسی قرب و تعلق کو مٹانے اور ان کے اندر داڑیں پیدا کرنے کی تجویز دیتے ہوئے کہا گیا ہے:
٭ روایت پسندوں نے بنیاد پرستوں کے تشدد اور انتہا پسندی پر جو اور جب کبھی تنقید کی ہیں ان کی خوب تشہیر کی جائے اور دونوں فریقوں کے اختلافات کو گہرا کرنے کی کوشش کی جائے۔
٭ روایت پسندوں اور بنیاد پرستوں میں اتحاد واتفاق کے امکانات کو مٹانے کی پوری کوشش کی جائے۔
٭ اس کے برعکس روایت پسندوں اور جدیدیت پسندوں کے مابین قرب و تعاون کے امکانات تلاش کیے جائیں۔ روایت پسندوں کے اداروں میں جدیدت پسندوں کی موجودگی اور اہمیت بڑھانے کی کوشش کی جائے۔
٭ روایت پسندی کے بھی مختلف روپ ہیں۔ کچھ اہل حدیث گروہوں میں ہیں اور کچھ مقلد طبقوں میں۔ ان میں جو فرق و اختلاف ہے اسے نمایاں کیا جائے۔
٭ حنفی اپروچ کے مختلف گروپ ہیں جن کو جدیدیت سے ہم آہنگ کرکے وہابی دینی آراء اور فتوئوں کو کمزور کرنے کاکام لیا جاسکتا ہے۔
پاکستان میں صدر پرویز مشرف کی سرپرستی میں قائم ہونے والی صوفی کونسل محض اتفاق نہیں ہے۔ مغرب زدہ ماڈرن طبقہ ایمان و یقین کے اعتبار سے کھوکھلا ہوتا ہے۔ بظاہر جدیدیت پسندی اور روشن خیالی کا مظاہرہ کررہا ہوتا ہے اور باطن میں حد درجہ توہم پرست ہوتا ہے بے نظیر اور آصف زرداری ہوں یا نواز شریف اور ان کا خاندان‘ پرویز مشرف ہوں یا چوہدری شجاعت‘ جمالی ‘ شوکت عزیز‘ مشاہد حسین سید ‘ سب ہی تو ہم کی لپیٹ میں ہوتے ہیں۔ اسلام کے علمی و فکری سرمائے سے کماحقہ ‘ آگاہی نہ ہونے کے باعث اندر پائے جانے والے خلا کو تصوف سے پُر کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ صوفی ازم بے شمار شرعی قیود سے آزادی کی راہیں کھولتا ہے اوربہت سی دینی پابندیوں کو ختم کرتا ہے اس کھلے بے دینیوں ‘ بدعملوں‘ خدا اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے باغیوں کو بھی ذہنی سکون اور ’’روحانی سرور‘ ‘ کی حاجت ہوتی ہے تو وہ صوفی ازم کی طرف رجوع کرتے ہیں۔ مذکورہ رپورٹ کے مرتبین اس حقیقت سے بخوبی آگاہ ہیں۔ چنانچہ انہوں نے رپورٹ میں ایک اہم نکتہ یہ شامل کیا ہے کہ
٭ صوفی ازم کی مقبولیت سے فائدہ اٹھایا جائے اور اس کی قبولیت کا دائرہ وسیع کیا جائے۔ حال ہی میں برطانیہ کے ولی عہد شہزادہ چارلس اپنی اہلیہ کے ساتھ پاکستان کے دورے پر آئے تو ہر جگہ مذہبی ہم آہنگی امن و آشتی ‘ رواداری اور اعتدال پسندی کے لیے صوفی ازم ہی کو بطور نسخہ پیش کیا گیا۔
صوفی ازم اگر دنیا پرستی‘ حرص و ہوس‘ لذات طلبی سے پرہیز میں مددگار اور تعلق باللہ‘ تزکیہ نفس اور اصلاح باطن کا وسیلہ بنے تو مطلوب و مقصود ہے اور اگر اس سے مراد یہ ہے کہ مسلمان کے اندر سے دینی غیرت اور اطاعت رب کے سچے جذبے نکال کر بندے کی بندگی کو وسیع المشربی اور اعتدال پسندی کے نام پر ایسا رنگ دے دیا جائے کہ مسلمان اور کافر میں فرق ہی مٹ جائے توایسے صوفی ازم کی اسلام سے کوئی نسبت نہیں ہے۔ پھر صوفی ازم اگر ایسا نسخہ ہے جو دشمنانِ دین و ملت کی طرف سے تجویز ہورہا ہے تو خود اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ اس سے وہ کیسا کام لینا چاہتے ہیں۔ زیرِ بحث رپورٹ ظاہر کرتی ہے کہ امریکی تھنک ٹینک اور اصحاب رائے نے امت مسلمہ کے اندر اپنا اصل حریف اس گروہ کو قرار دے رکھا ہے جس پر وہ بنیاد پرست ہونے کا لیبل لگائے ہوئے ہیں چنانچہ اس کا ہر نکتہ اسی حریف کو نیچا دکھانے کی ایک تدبیر پر مشتمل ہے‘ آگے کہا جارہا ہے۔
٭ بنیاد پرستوں کا ہر جگہ مقابلہ اور مخالفت کریں۔ اسلامی تعبیرات و تشریحات کے سوالات پر ان کے خیالات کی غلطیوں کو اجاگر کیا جائے۔
٭ غیرقانونی گروہوں اور سرگرمیوں سے ان کے تعلق کا خوب چرچا کیا جائے۔
٭ ان کی پرتشدد کارروائیوں کے منفی نتائج واثرات کی تشہیر کی جائے۔
٭ اس امر کو لوگوں کے ذہن نشین کیا جائے کہ بنیاد پرستوں کے اندر وہ صلاحیت نہیں پائی جاتی کہ وہ اقتدار میں آکر عوام کو بہبوداور ترقی کی منزل سے ہمکنار کرسکیں۔
٭ یہی پیغام مغربی ممالک کی مسلمان اقلیتوں ‘ مسلمان عورتوں اور نوجوانوں کو دیا جانا چاہیئے۔
٭ بنیاد پرستوں کو بڑے ہیرو کے طور پر بھی پیش نہ کریں بلکہ یہ ثابت کریں کہ یہ دماغی طور پر مختل اور بزدل لوگ ہیں۔
٭ ان صحافیوں اور دانشوروں کی سرپرستی اور حوصلہ افزائی کی جائے جو بنیاد پرست اور دہشت گرد حلقوں کی بدعنوانی‘ منافقت اور غیر اخلاقی حرکات کو موضوع بناکر لکھتے ہیں۔
٭ یہ اہتمام کیا جائے کہ سیکولر عناصر کا قوم پرستی یا بائیں بازو کے نظریات سمیت کسی بھی بنیاد پر امریکا مخالف قوتوں کے ساتھ الحاق و اتحاد قائم نہ ہونے پائے اور بنیاد پرستی کو دائیں یا بائیں بازو کے یا قوم پرست سیکولر عناصر کا مشترک دشمن تصور کیا جائے۔
٭ اس تصور کی شدومد کے ساتھ تائید کیجیے کی جس طرح مغرب میں دین کو سیاست سے الگ کردیا گیا ہے اسلام میں بھی دین و سیاست کی جدائی ضروری اور ممکن ہے اور اس سے دین و ایمان کو کوئی خطرہ لاحق نہیں ہوتا۔
ہمیں احساس ہے کہ ۷۲ صفحات کی اس خطرناک اور مضمرات کے اعتبار سے مسلم امہ کے لیے انتہائی اہم رپورٹ کا چند صفحات میں خلاصہ لانا بہت مشکل کام تھا بہت سے اہم پہلو اس خلاصے میں آنے سے رہ گئے ہیں تاہم جو گوشے خلاصے میں بے نقاب ہوئے وہ قارئین کو ان خطرات کی چاپ سنانے میں کافی ہوں گے جو اس امت کا تعاقب کررہے ہیں۔
(بشکریہ: ماہنامہ ’’خطیب‘‘ لاہور۔ جنوری ۲۰۰۷ء)
Leave a Reply