سیلاب حکومت اور امریکی حکمتِ عملی کو بہا لے جائے گا؟

پاکستان میں بد ترین سیلاب نے جہاں دو کروڑ افراد کو براہ راست متاثر کیا ہے اور حکومت کے لیے مزید مشکلات پیدا کی ہیں، وہیں امریکی حکومت بھی شدید تشویش اور پریشانی میں مبتلا ہے۔ سیلاب نے عسکریت پسندی کے خاتمے سے متعلق امریکی حکمت علمی کو داؤ پر لگا دیا ہے۔ امریکی حکومت نے پاکستانی سیلاب زدگان کی بھرپور امداد یقینی بنانے کے لیے فنڈ مختص کر دیے ہیں اور سرکاری مشینری کو بھی حکم دیا ہے کہ امدادی سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا جائے۔ دوسری طرف امریکی حکام اس امر کا بھی جائزہ لے رہے ہیں کہ سیلاب سے عسکریت پسندی کے خلاف حکمتِ عملی کو کس حد تک نقصان پہنچا ہے۔ سیلابی صورت حال افغانستان میں جاری جنگ میں بھی امریکا کے لیے مشکلات پیدا کرسکتی ہے۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ القاعدہ کے خلاف جنگ کا دائرہ وسیع کرنے پر زیادہ توجہ دینی پڑے۔ حالات کا فائدہ اٹھاکر عسکریت پسند دوبارہ منظم ہوسکتے ہیں۔

سیلاب کے باعث گیلانی حکومت کی کمزوریاں بڑھ گئی ہیں۔ امدادی سرگرمیوں میں سست روی نے لوگوں کو مزید مشتعل کیا ہے۔ سویلین حکومت کمزور ہوچکی ہے مگر اس کے باوجود اس کے گرنے یا گرائے جانے کا کوئی امکان نہیں۔ ہاں، اس کے اختیارات ضرور محدود ہوتے جائیں گے اور ساکھ بھی شاید ہی بحال ہوسکے۔ دوسری جانب فوج نے ایک منظم ادارے کی حیثیت سے امدادی سرگرمیوں میں تیزی بھی دکھائی ہے اور لوگوں کو بحالی کی طرف لانے میں بھی اہم کردار ادا کیا ہے۔ امریکی خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹیڈ پریس (AP) کے مطابق جنرل پرویز مشرف کے دور میں فوج کی ساکھ کو جس قدر نقصان پہنچا تھا وہ اب دور ہوچکا ہے اور فوج کے لیے عوام کی نظر میں وقعت پہلے سے کہیں بڑھ کر ہے۔

پاکستان کو امریکا نے پانچ سال میں ساڑھے سات ارب ڈالر کی امداد کا جو پیکیج دیا ہے وہ اب تبدیلی کے عمل سے گزرتا دکھائی دیتا ہے۔ ہوسکتا ہے کہ بجلی کے بحران پر قابو پانے سے متعلق اقدامات ترک کرکے سیلاب زدگان کی بحالی اور تعمیر نو پر زیادہ رقوم خرچ کی جائیں۔ اس وقت پاکستانی حکومت اور فوج پر بہت دباؤ ہے۔ ایسے میں کوئی بھی غیر موافق بات کہنے کا سنگین نتیجہ بھی برآمد ہوسکتا ہے۔ دوسری جانب اسلامی اور جہادی اور دیگر تنظیموں نے سیلاب زدگان کی بروقت امداد کرکے ان کے دلوں میں نرم گوشہ پیدا کرنے کی بھرپور کوشش کی ہے۔ نئے حالات میں بہت کچھ عسکریت پسندوں کے حق میں جاسکتا ہے۔ پاکستان اور افغانستان کے لیے امریکا کے خصوصی ایلچی رچرڈ ہالبروک کا کہنا ہے کہ فی الحال پاکستان پر زیادہ دباؤ نہیں ڈالا جاسکتا۔ فوج خاصی دباؤ میں ہے۔ سیلاب زدگان کی امداد کے لیے ہزاروں فوجی جوان میدان میں ہیں۔

پاک امریکا تعلقات سرد و گرم سے آشنا رہے ہیں۔ ڈرون حملوں نے امریکیوں کے لیے پاکستانیوں کے دلوں میں مزید نفرت پیدا کردی تھی۔ ایک طرف لاکھوں پاکستانی معاشی مشکلات سے دوچار تھے اور دوسری طرف سیکورٹی کی صورت حال بھی دن بہ دن خراب ہوتی جارہی تھی۔ ایسے میں عسکریت پسندوں کو نشانہ بنانے کے نام پر ڈرون حملوں میں شہریوں کی ہلاکتوں نے معاملات مزید خراب کردیے۔ امریکا نے پاکستانیوں کے دل جیتنے کے لیے چند کوششیں شروع کی تھیں۔ توانائی کا بحران ختم کرنے کے لیے امریکا میدان میں آیا اور امدادی پیکیج کا اعلان کیا تاکہ نئے بجلی گھر تعمیر کیے جاسکیں۔ دوسری طرف پاکستانی مصنوعات اور پھلوں کے لیے نئی منڈیوں کی تلاش میں مدد دینے کا وعدہ بھی کیا گیا۔ مگر یہ سب کچھ ابھی ابتدائی مرحلے ہی میں تھا کہ سیلاب نے آلیا۔ کونسل آن فارن ریلیشنز میں پاکستان اور بھارت کے امور کے فیلو ڈینیل مارکے کا کہنا ہے کہ امریکا جن بجلی گھروں کو اپ گریڈ کرنے کی بات کر رہا تھا وہ اب زیر آب ہیں!

امریکا نے سیلاب زدہ پاکستانیوں کی بھرپور مدد یقینی بنانے کے لیے پندرہ سے زائد ہیلی کاپٹر بھیجے ہیں۔ اب تک دس ہزار سے زائد پاکستانیوں کو ان ہیلی کاپٹروں کی مدد سے سیلاب سے گھرے ہوئے علاقوں سے نکالا جاچکا ہے۔ انہیں خوراک اور دیگر بنیادی اشیا کی فراہمی یقینی بنانے پر بھی زور دیا جارہا ہے۔ امریکیوں کا امدادی سرگرمیوں میں حصہ لینے سے امریکا کی ساکھ بہتر بنانے کا موقع ضرور ملا ہے۔

سیلاب نے پاک بھارت کشیدگی دور کرنے اور ہم آہنگی کو فروغ دینے میں بھی اہم کردار ادا کیا ہے۔ بھارت نے پاکستان کو ابتدائی مرحلے میں پچاس لاکھ ڈالر کی امداد کی پیشکش کی تھی اور کہا تھا کہ ضرورت کے مطابق امداد بڑھائی بھی جاسکتی ہے۔ یہ حکومت کے لیے مشکل مرحلہ تھا کہ بھارت سے امداد لی جائے یا نہ لی جائے۔ اکتوبر ۲۰۰۵ء کے زلزلے کے موقع پر پاکستان نے بھارت سے امدادی سامان وصول کیا تھا۔ بھارتی ایئر فورس کے مال بردار طیارے پہلی بار پاکستانی سرزمین پر اترے تھے۔ اب پھر بھارت کی جانب سے امداد کی پیشکش کی گئی ہے۔ (امریکی دفتر خارجہ اور ایوان صدر نے ۱۹؍ اگست کو پاکستان پر زور دیا کہ بھارت کی جانب سے امداد کی پیشکش قبول کرلی جائے اور اگلے ہی دن پاکستان نے یہ پیشکش قبول کرلی۔)

ایک اہم سوال یہ ہے کہ کیا سیلاب سے پیدا شدہ صورت حال کے تناظر میں پاکستان کی حکومت اور عسکریت پسند کوئی سمجھوتہ کریں گے؟ کیا اب وہ ایک دوسرے پر ہتھیار اٹھانا ترک کردیں گے؟ انڈونیشیا میں دسمبر ۲۰۰۴ء کے سونامی میں پونے دو لاکھ ہلاکتوں کے بعد حکومت اور عسکریت پسندوں کے درمیان امن سمجھوتہ طے پاگیا تھا جس پر اب تک عمل کیا جارہا ہے۔ امریکا کے سابق انٹیلی جنس افسر بروس ریڈل کا کہنا ہے کہ اگر سیلاب سے پاکستان میں طاقت کا توازن بگڑے گا بھی تو بہر حال عسکریت پسندوں کے حق میں ضرور ہوچکا ہوگا۔

سیلاب کے ابتدائی دنوں میں صدر آصف علی زرداری نے فرانس اور برطانیہ کا دورہ کرکے لوگوں کو مزید اپنے خلاف کرلیا۔ ان کی مقبولیت میں تیزی سے کمی واقع ہوتی جارہی ہے۔ ایسے میں بھی امریکا نے ان پر تنقید کرنے سے گریز کیا ہے۔ ویسے بھی آئینی ترامیم کی رو سے ان کے اختیارات میں کمی واقع ہوچکی ہے۔ بین الاقوامی امداد بھی کم کم مل رہی ہے اور اس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ حکومتی سیٹ اپ پر کسی کو اعتبار نہیں۔ سینیٹر جان کیری کے دورے سے یہ طے ہوگا کہ پاکستان کو مزید کتنی امداد دی جائے اور کس طرح دی جائے۔

یہ بات شک و شبہ سے بالاتر ہوکر کہی جاسکتی ہے کہ سیلاب سے پاک امریکا تعلقات ہر سطح پر متاثر ہوں گے۔ ایسا لگتا ہے کہ امریکی حکمتِ عملی بھی سیلابی ریلوں میں بہہ گئی ہے۔ پاکستانی حکومت کے پاس اس وقت غیر معمولی مصروفیت ہے۔ ایسے میں امریکا کو بہت محتاط ہوکر معاملات طے کرنے ہوں گے۔

(بشکریہ: ’’نیو یارک ٹائمز‘‘۔ ۱۹؍ اگست ۲۰۱۰ء)

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*