
ٹرمپ انتظامیہ کی افغانستان کے حوالے سے جارحانہ حکمتِ عملی کے بعد پینٹاگون نے پہلی دفعہ امریکی فوج کے خصوصی دستوں کی جانب سے کیے گئے آپریشنز کی تفصیلات جاری کی ہیں۔ جس میں ٹرمپ کے آنے کے بعد طالبان، حقانی نیٹ ورک اور داعش پر حملوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔
پینٹاگون کی جانب سے جاری کی جانے والی ششماہی رپوٹ کے مطابق یکم جون سے لے کر ۲۴ نومبر تک امریکی جوائنٹ اسپیشل آپریشنز ٹاسک فورس برائے افغانستان (JSOTF) نے ’’۲۱۷۵‘‘ زمینی آپریشن کیے، جن میں افغانستان کے فوجی کمانڈو بھی ساتھ رہے۔
اگرچہ اعدادوشمارمیں ٹرمپ کی جارحانہ پالیسی کا واضح عکس دکھائی دیتا ہے ،جس کے تحت انھوں نے مقامی کمانڈروں کو کارروائیاں کرنے کے حوالے سے کافی حد تک خود مختاری دی تھی،لیکن ان اعدادوشمار کے ذریعے آپریشنز کی کامیابی، ان کے اثرات اور ان کی نوعیت کا موازنہ کرنا انتہائی مشکل کام ہے۔
۱۵ دسمبر کو کانگریس کے سامنے پیش کی گئی اس تازہ ترین رپوٹ میں کہا گیا ہے کہ امریکی خصوصی فوج کے دستوں نے افغانستان میں انسداد دہشت گردی کے لیے جو آپریشن کیے ان کی تفصیل درج ذیل ہے۔
۱۔ داعش کے خلاف ۴۲۰ زمینی آپریشن کیے گئے جبکہ ۲۱۴ فضائی حملے کیے گئے ،جس کے نتیجے میں داعش سے تعلق رکھنے والے ۱۷۴ ؍لوگ مارے گئے۔ان میں عراق اور شامی داعش کے سربراہ ابو سعید بھی شامل ہیں ۔جن کی موت کا ذکر ۱۱؍جولائی کو پینٹاگون کی ترجمان Dana W. White نے بھی اپنے بیان میں کیا تھا۔ان کو کنڑ میں موجود اس گروہ کے ہیڈ کواٹر میں مارا گیا۔
۲۔ طالبان کے خلاف ۱۶۴۴؍زمینی اور ۱۸۱؍فضائی حملے کیے گئے، جن میں ۲۲۰ عسکریت پسند مارے گئے۔
۳۔ حقانی نیٹ ورک کے خلاف ۶۸ زمینی اور ۲۸ فضائی کارروائیاں کی گئیں ،جن کے نتیجے میں ۳۴ ؍افراد ہلاک ہوئے۔
۴۔ دیگر عسکریت پسندوں کے خلاف ۴۳ ؍آپریشن کیے گئے، جن کے نتیجے میں ۳۶ ؍افراد مارے گئے۔
اس رپورٹ میں حملوں کے نتیجے میں مارے جانے والے بے گناہ افراد کا کہیں ذکر نہیں کیا گیا، جن کے بارے میں انسانی حقوق کی تنظیموں کا کہنا ہے کہ ٹرمپ کے دور صدارت میں بے گناہ افراد کی ہلاکت میں خاصا اضافہ ہوا ہے۔
Kenneth Katzman جو کہ کانگریشنل ریسرچ سروس کے تجزیہ نگار ہیں اور افغانستان کے حوالے سے خصوصی تجربہ رکھتے ہیں، انھوں نے کہا ہے کہ اس رپورٹ کو شائع کرنے کا مقصد بھی یہی لگتا ہے کہ صدر ٹرمپ کے دور میں اپنائی گئی جارحانہ پالیسی کا ثبوت دیا جاسکے۔ اور ٹرمپ اس جنگ کو روکنے کے بجائے جیتنا چاہتے ہیں۔
Katzman کا یہ بھی کہنا ہے کہ یہ عسکریت پسندوں کے لیے بھی ایک اشارہ ہے کہ وہ مستقبل قریب میں کوئی فوجی کامیابی حاصل نہیں کر سکتے، اس لیے بہتر یہی ہے کہ وہ پُرامن طریقے سے مذاکرات پر راضی ہو جائیں۔
۲۰۰ فوجیوں پر مشتمل اسپیشل آپریشن ٹاسک فورس میں ۱۲۰۰ ؍فوجی وہ بھی ہیں جن کو ہر طرح کے حالات سے نمٹنے کی خصوصی تربیت دی گئی ہے۔ اس فورس کے ترجمان میجر انتھونی کا کہنا ہے کہ اس فورس میں مختلف مشیر اور دیگر ماہرین بھی شامل ہیں، اور یہ فورس افغانستان میں تعینات ۱۴۰۰۰؍ فوجیوں میں سے ہی ہے۔
یہ اسپیشل آپریشن ٹاسک فورس افغان فوج کے کمانڈو یونٹ کی خصوصی تربیت پر اپنی توجہ مرکوز کیے ہوئے ہے اور اس کی کوشش ہے کہ اس مقامی فوج کی اہلیت میں زیادہ سے زیادہ اضافہ کیا جا سکے۔
ایئر فورس کے کرنل مائیکل اینڈریو جو کہ پینٹاگون کے ترجمان ہیں، ان کا کہنا ہے کہ یہ سال ہماری فوج اور خاص کر کمانڈو یونٹ کے لیے نہایت اہم تھا، اسی لیے اس کے اعدادوشمار پیش کیے گئے ہیں۔ امریکی کمانڈوز نے افغان فوج کے ساتھ مل کر اور ان کی مدد کے لیے بہت سے آپریشن کیے۔
(ترجمہ: حافظ محمد نوید نون)
“U.S. touts Afghanistan special-operations raids in rare detail”.
(“bloomberg.com”. December 21, 2017)
Leave a Reply