
اسرائیل اور متحدہ عرب امارات کے درمیان معاہدۂ ابراہیمی بھیانک صہیونی و اسرائیلی حقیقت اور مذہبی و برادرانہ اختلافات کو دوبارہ لکھنے کی تازہ ترین کاوش ہے۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے حال ہی میں اسرائیل اور متحدہ عرب امارات کے درمیان تعلقات قائم کرائے ہیں۔ اس حوالے سے ۱۳؍اگست کو طے پانے والے دوطرفہ معاہدے کو دی ابراہم اکارڈ (معاہدۂ ابراہیمی) کا نام دیا گیا ہے۔
اس موقع پر صدر ٹرمپ نے فخر سے اعلان کیا کہ متحدہ عرب امارات کے مسلمان اب (مقبوضہ) بیت المقدس کی تاریخی مسجد اقصیٰ میں بھی نماز پڑھ سکتے ہیں جو مسلمانوں کے لیے تیسرا مقدس ترین مقام ہے۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے معاہدۂ ابراہیمی کے ذریعے اسرائیل اور متحدہ عرب امارات کے درمیان تعلقات قائم کراکے کوئی نیا یا انوکھا کام نہیں کیا۔ ۱۹۷۸ء اور ۱۹۷۹ء میں اس وقت کے امریکی صدر جمی کارٹر نے مصر کو اسرائیل کا وجود تسلیم کرنے پر راضی کیا تھا اور اس سلسلے میں کیمپ ڈیوڈ معاہدے پر اس وقت کے اسرائیلی وزیراعظم مناہم بیگن اور مصر کے صدر انور سادات نے دستخط کیے تھے۔ اُس موقع پر جمی کارٹر نے کہا تھا ’’اچھا ہے کہ اب ہم جنگ کو ایک طرف رکھ دیں۔ آئیے، ہم ابراہیم علیہ السلام کے بچوں کو نوازیں جو مشرقِ وسطیٰ میں جامع امن کے لیے ترس رہے ہیں۔ آئیے، اب ہم مکمل انسان، مکمل پڑوسی اور مکمل بہن بھائی بننے کی حقیقت سے لطف اندوز و سرفراز ہوں‘‘۔
۱۹۹۳ء میں امریکی ایوانِ صدر میں اوسلو معاہدے پر فلسطینی لیڈر یاسر عرفات اور اس وقت کے اسرائیلی وزیراعظم یزاک رابن کی طرف سے دستخط کیے جانے کے موقع پر امریکی صدر بل کلنٹن نے کہا تھا ’’اس موقع پر ہمیں یاد کرنا چاہیے کہ اب تمہاری سرزمین پر تشدد کی چیخ سنائی نہیں دے گی اور نہ ہی تمہاری سرحدوں کے اندر تباہی و بربادی ہوگی۔ ابراہیم علیہ السلام کے بچے، اور اسحاق و اسماعیل علیہم السلام کی اولادیں، مل کر ایک نئے جرأت مندانہ سفر پر نکلے ہیں۔ آج ہم دل اور روح کی گہرائیوں سے دونوں کو مبارک باد دیتے ہوئے مکمل سلامتی کی نوید سناتے ہیں‘‘۔
مگر ۱۹۹۴ء میں امریکا ہی کی وساطت سے اسرائیل اور اردن کے درمیان تعلقات معمول پر لائے جانے کے معاہدے پر دستخط کے وقت صدر بل کلنٹن نے ابراہیم علیہ السلام کا حوالہ نہیں دیا تاہم یہ ضرور کہا کہ ’’ایک نسل کے اس امن کے طلوع ہونے کے وقت اس قدیم مقام پر ہم تاریخ کی عظمت کے ساتھ ساتھ اسرائیلیوں اور اردنیوں کے مذہب کا بھی جشن منارہے ہیں۔‘‘ ساتھ ہی ساتھ انہوں نے قرآن کی آیات اور یہودیت کی مقدس کتب کے حوالے بھی دیے تھے۔
بل کلنٹن نے ضمنی طور پر ابراہیم علیہ السلام کا ذکر کیا تھا، جس پر اردن کے فرماں رواں شاہ حسین نے کہا تھا ’’جب تک ہم زندہ ہیں تب تک اس دن کو یاد رکھیں گے اور اردنیوں، اسرائیلیوں، عربوں، فلسطینیوں اور ابراہیم علیہ السلام کی تمام اولاد اور اُن کی آنے والی نسلیں اس دن کو یاد رکھیں گی‘‘۔
بعد میں جب شاہ حسین اور اسرائیلی وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو کے درمیان ۱۹۹۷ء میں اختلافات نے شدت اختیار کی تو شاہ حسین نے ابراہیم علیہ السلام کا حوالہ دیتے ہوئے اُنہیں لکھا ’’سب سے تکلیف دہ حقیقت مجھ پر اس نکتے کا منکشف ہونا ہے کہ ابراہیم علیہ السلام کی تمام اولاد کے درمیان حتمی نوعیت کی مفاہمت کے قیام کے فریضے سے سبکدوش ہونے کے لیے میں آپ کو اپنے ساتھ نہیں پارہا ہوں‘‘۔
مغربی ایجاد
ابراہیم علیہ السلام کا حوالہ دیے جانے کا تعلق چند برسوں کے دوران مغرب میں پروٹسٹنٹ اور استشراقیت پسند حلقوں کی وضع کردہ اصطلاح ’’ابراہیمی مذاہب‘‘ سے ہے، جو تین توحیدی مذاہب کو بیان کرنے کے لیے ہے جبکہ اس میں مسلمانوں کو غلط طور پر شامل کیا گیا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اسلامی روایات میں بھی ابراہیم علیہ السلام کا غیرمعمولی مقام ہے تاہم ’’ابراہیمی مذاہب‘‘ کی اصطلاح نئی ہے۔ یہ اصطلاح عربی کے علاوہ عبرانی میں بھی غیرمعروف اور نامانوس ہے۔ زیادہ سے زیادہ یہ ہے کہ انگریزی اصطلاح کا ترجمہ کردیا جاتا ہے۔
ابراہیم علیہ السلام کا حوالہ صرف اس لیے دیا جارہا ہے کہ یورپ کی پروردہ صہیونیت کے ہاتھوں فلسطینیوں کی سرزمین پر قبضہ کرکے اسرائیل کی شکل میں صہیونی ریاست کے قیام اور اِسے یہودیوں کی نو آبادی میں تبدیل کرنے کے عمل کو مذہبی کاوش کے طور پر دکھایا جائے تاکہ کوئی اس قبیح فعل کو یورپی نوآبادیاتی نظام کا جُز یا تسلسل نہ سمجھے اور یہ کہ یورپی نوآبادیاتی نظام کے خلاف فلسطینیوں اور عربوں کی جدوجہد مسلمانوں اور یہودیوں کے خلاف مذہب کی لڑائی تھی۔ حقیقت یہ ہے کہ فلسطین پر یہودیوں کے قبضے کے خلاف لڑائی میں مقامی عیسائی بھی مسلمانوں کے شانہ بہ شانہ لڑے ہیں۔ یہ حقیقت بھی جھٹلائی نہیں جاسکتی کہ یہودی بالعموم اور یہودیوں کی تنظیمیں (آرتھو ڈوکس اور اصلاح پسند یہودیت) بالخصوص ۱۸۸۰ء اور ۱۸۹۰ء میں صہیونیت کے قیام سے دوسری جنگِ عظیم تک اِس کے خلاف رہی ہیں۔
یہاں یہ نکتہ فراموش نہیں کیا جانا چاہیے کہ صہیونی پروپیگنڈا، جس نے پروٹسٹنٹ اور یہودی مخالف پروٹسٹنٹ موقف کو قبول کیا کہ یورپ کے یہودی یورپی نہیں بلکہ قدیم فلسطین میں آباد عبرانیوں کی اولاد ہیں، یہ بات پیش کی جاتی رہی ہے کہ یورپی یہودیوں کے ہاتھوں فلسطینیوں کی سرزمین کو نوآبادی میں تبدیل کرنا دراصل فرزندانِ زمین کی واپسی ہے اور یہ کہ مقامی فلسطینی درحقیقت نوآبادیاتی قوت ہیں۔ یہ فی نفسہٖ کوئی اصل تصور نہیں۔
صہیونیت کے لیے پردہ
الجزائر پر قابض ہوکر وہاں نوآبادی قائم کرنے والے سفید فام فرانسیسیوں نے بھی دعویٰ کیا تھا کہ وہ الجزائر کے اصل باشندے ہیں، جس پر اُن کے رومن آبا نے حکومت کی تھی اور یہ کہ الجزائر پر اُن کا قابض ہو جانا رومن سلطنت کو واپس لینے کے عمل کے سوا کچھ نہیں!
صہیونیت کو تسلیم کرلینا دراصل اس امر سے اتفاق کرلینا ہے کہ اس کی نو آبادیاتی حیثیت چھپ جائے تاکہ اس کے خلاف کسی بھی طرح کی مزاحمت کو یہودیوں کے خلاف نفرت و تعصب کے طور پر پیش کیا جاسکے۔
فرانسیسی مصنف لوئی برٹرانڈ (Louis Bertrand) نے الجزائر پر یورپی نوآبادیاتی نظام کی یلغار اور قبضے کو بالکل درست قرار دیتے ہوئے لکھا تھا کہ شمالی افریقا میں رومن سلطنت کا ورثہ واپس لیا گیا ہے۔ اور یہ کہ جو زمین واپس لی گئی ہے وہ ہر اعتبار سے فرانسیسیوں کا حق ہے۔
ابراہیم علیہ السلام کے حوالے دے کر دراصل صہیونیت کی نوآبادیاتی نوعیت کو چھپایا جارہا ہے اور یہ کہ دنیا کے سامنے یہ ثابت کرنے کی بھی کوشش کی جارہی ہے کہ اسرائیلیوں کے خلاف جو جنگ جاری ہے وہ نوآبادیاتی نظام کے خلاف نہیں بلکہ ایک ہی سلسلۂ مذہب کے ماننے والے ’’ابراہیمی‘‘ بھائیوں کا آپس کا جھگڑا ہے۔
جن عرب رہنماؤں نے صہیونیت کو قبول کیا ہے وہ بھی اس نکتے سے متفق ہیں کہ صہیونیت کی نو آبادیاتی نوعیت کو چھپایا جائے تاکہ یہودیوں کے خلاف تعصب کو مذہبی بنیاد پر ہونے والی لڑائی کی حیثیت سے پیش کیا جاسکے اور یہ بھی ثابت کیا جاسکے کہ جو کچھ فلسطینی کر رہے ہیں وہ دراصل ابراہیم کے خدا کے عطا کردہ عطیۂ اخوت کے منافی ہے، کفرانِ نعمت ہے۔
سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور بحرین کی جانب سے دو عشروں کے دوران بین المذاہب مکالمے اور رواداری کے نام پر جو کچھ بھی کیا جاتا رہا ہے وہ دراصل صہیونیت کی نوآبادیاتی تاریخ کو مذہبی تنازع کی حیثیت سے پیش کرنے کی جامع کوششوں کا کلیدی جُز ہے۔
مذہبی تنازع
چلیے ہم صہیونی نوآبادیاتی کاوشوں کو مذہی لڑائی اور ’’برادرانہ چشمک‘‘ قرار دینے کی کوششوں کو ایک طرف ہٹائیں اور ابراہیم علیہ السلام کا حوالہ دیے جانے کی کشش کا جائزہ لیں۔
آئیے ہم یہ بھی فرض کرلیں کہ امریکا کے استعماری قائدین اور عرب دنیا کے غیر منتخب آمر بھی فلسطین کے سوال پر کوئی حقیقی تصفیہ ممکن بنانے کی کوشش میں ابراہیمی مذاہب کے ماننے والوں کے درمیان حقیقی اخوت قائم کرنا چاہتے ہیں۔
فلسطین کے الجھے ہوئے مسئلے کو مستقل بنیاد پر حل کرنے کے عمل میں جو کچھ بھی کیا جارہا ہے اُس سے قطعِ نظر ابراہیم علیہ السلام کا حوالہ دیا جانا بجائے خود کسی اور حقیقت کا غمّاز ہے۔
اگر ہم یہ فرض کر بھی لیں کہ فلسطین کے مسئلے کو اُس کی سیاسی پیچیدگیوں سے پاک کرکے ابراہیمی مذاہب کے ماننے والوں میں حقیقی اخوت پیدا کرنے کی کوشش کی جارہی ہے تب بھی یہ سب کچھ اُسی وقت بامعنی ہوسکتا ہے جب متعلقہ رسوم و روایات، مذہبی رسوم اور ثقافت کو نظرانداز نہ کیا جائے۔
ایسی کسی بھی صورت میں تینوں ابراہیمی مذاہب کو جوڑنے والے عوامل کی کشش بڑھانے سے متعلق کوششوں سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ ان مذاہب کے درمیان بے بنیاد سیاسی تنازع کھڑا ہوا تھا اور یہ کہ مختلف مقاصد کے حصول کے لیے اس قضیے سے خوب فائدہ اٹھایا گیا جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ابراہیم علیہ السلام کے حوالے کی کشش کے معاملے میں جو کچھ اِس کے برعکس ہے وہی درست ہے۔
ایک غلط حقیقت
اس حقیقت سے کون انکار کرسکتا ہے کہ فلسطینیوں اور اسرائیلیوں کے درمیان جتنا بھی جھگڑا ہے وہ زمین پر قبضے کے حوالے سے ہے۔ اسرائیل اور مقبوضہ فلسطین سے باہر آباد یہودی اور فلسطینیوں کے درمیان کوئی تنازع نہیں پایا جاتا۔ نسل پرست جنوبی افریقا کے دور میں بھی ایسا ہی تھا۔ جنوبی افریقا میں نسل پرست سفید فام اقلیت نے سیاسی، معاشی اور عسکری اعتبار سے غیر معمولی استحکام پاکر مقامی سیاہ فام آبادی کو غلام بنا رکھا تھا جبکہ جنوبی افریقا کی حدود سے باہر سفید فام اور سیاہ فام نسلوں کے درمیان ایسا کوئی تنازع نہیں پایا جاتا تھا۔
عرب دنیا یا مشرق وسطیٰ میں مسلمان، عیسائی اور یہودی صدیوں سے ساتھ رہ رہے ہیں۔ ان کے درمیان جو تعلقات ہیں ان کی نوعیت فلسطینیوں کی سرزمین پر قبضہ کرنے والے یہودیوں سے اُن کے تعلقات کی نوعیت سے بہت مختلف ہے۔ فلسطین سے ہٹ کر خطے میں کہیں بھی آباد عرب نسل کے مسلمان، عیسائی اور یہودی ایک دوسرے کو نفرت یا تعصب کی نظر سے نہیں دیکھتے۔ فلسطینیوں کی نظر میں یورپی نسل کے یہودیوں کو نو آبادیاتی قوت کہا جاسکتا ہے، تمام یہودیوں کو نہیں۔
فلسطین کے خطے کی نو آبادیاتی حقیقت کے تناظر میں ابراہیم علیہ السلام کا حوالے دے کر معاملات کو کچھ کا کچھ دکھانے کی کوشش کامیاب نہیں ہوسکتی۔ زمینی حقیقت یہودیوں یا صہیونیوں کے پروپیگنڈے سے بہت مختلف ہے۔ یورپ سے آکر فلسطین پر قابض ہو جانے والے نو آبادیت پسند یہودیوں کو مقامی باشندوں کا درجہ دلاکر قابلِ قبول بنانا کسی بھی سطح پر ممکن نہیں ہوسکتا۔ فلسطینی علاقوں پر قبضے کا عمل ۱۸۸۰ء کے عشرے میں شروع ہوا تھا۔
صہیونیوں کی نو آبادیاتی حیثیت کو دنیا کی نگاہوں سے چھپانے اور فلسطینیوں کی مزاحمت کو قومیتوں کے جھگڑے کے طور پر پیش کرنے کی کوششیں ۱۹۳۰ء کے عشرے سے کی جارہی ہیں۔ اٹھارہویں صدی میں یورپ کے عیسائیوں نے Semites کی اصطلاح وضع کی تھی، جس میں یہودیوں کے ساتھ مسلمان بھی شامل تھے۔ صہیونیوں نے فلسطینیوں کی جدوجہدِ آزادی کو محض تنازع کے طور پر پیش کرنے کی بھرپور کوشش کی ہے تاکہ اسے الجزائر، کینیا یا زمبابوے کے لوگوں کی جدوجہدِ آزادی سے مماثل قرار نہ دیا جاسکے۔
چند عرب قائدین نے صہیونیت کو قبول کرلیا ہے مگر فلسطینی اپنی تحریک ختم کرنے کے لیے تیار نہیں۔ وہ مزاحمت کی راہ پر گامزن رہنا چاہتے ہیں۔ وہ اپنی زمین پر صہیونیوں کے قبضے کو کسی بھی نبی کے نام پر کچھ اور قرار دینے کی ہر کوشش کے سامنے سیسہ پلائی ہوئی دیوار بننے کے لیے تیار ہیں۔
(جوزف مصاد نیو یارک کی کولمبیا یونیورسٹی میں جدید عرب سیاست اور تاریخِ دانش کے پروفیسر ہیں۔ وہ کئی کتب اور علمی جرائد میں متعدد مضامین کے مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور مضامین کا ایک درجن زبانوں میں ترجمہ ہوچکا ہے۔ ان کی تازہ ترین کتاب ’’اسلام اِن لبرل اِزم‘‘ ہے۔ ان کی دیگر کتب درجِ ذیل ہیں:
“Colonial effects: The making of national identity in Jordan, Desiring Arabs” etc.
(ترجمہ: محمد ابراہیم خان)
“UAE-Israel deal: Abraham accord or Israeli colonialism?”(“middleeasteye.net”. August 28, 2020)
Please translate these points in Urdu Language & spread over whole wold for enforcement its implementation.