
برطانیہ میں رائے عامہ کے دو تازہ جائزوں نے ایک عجیب و غریب ہلچل مچا دی ہے اور اس سوال پر ہنگامہ خیز بحث شروع ہو گئی ہے کہ کیا واقعی برطانیہ عیسائی ملک ہے؟ اس بحث کی وجہ سے ملک سیکولر اور مذہبی قوتوں کے مابین تقسیم ہو گیا ہے اور اس بحث میں ملکہ ایلزبتھ بھی شامل ہو گئی ہیں۔
رائے عامہ کے جائزے کے ممتاز ادارے “You Gov” کی جانب سے کرائے جانے والے ایک جائزے میں یہ انکشاف ہوا ہے کہ برطانیہ کے ۷۲ فیصد عوام کا یہ کہنا ہے کہ وہ مذہبی نہیں ہیں۔ جائزے کے دوران جب لوگوں سے یہ پوچھا گیا کہ وہ کس مذہب سے تعلق رکھتے ہیں تو ۵۰ فیصد لوگوں نے کہاکہ وہ کسی مذہب سے تعلق نہیں رکھتے۔ اس سوال کے جواب میں کہ کیا برطانیہ عیسائی ملک ہے؟ تو ۴۴ فیصد لوگوں نے صاف طور پر جواب دیا کہ ’’نہیں‘‘۔
دوسرا جائزہ آکسفورڈ یونیورسٹی کے ممتاز پروفیسر رچرڈ ڈاکنس کی Foundation for Science and Reasons کے لیے کیا گیا ہے۔ جس سے برطانیہ میں مذہب سے لگائو اور وابستگی کے مسئلے پر بہت کھل کر روشنی پڑتی ہے۔ اس جائزے میں یہ انکشاف ہوا ہے کہ گزشتہ سال مردم شماری میں جن افراد نے مذہب کے خانے میں اپنے آپ کو عیسائی قرار دیا تھا، ان میں ۵۰ فیصد کا کہنا ہے کہ وہ مذہبی نہیں ہیں، جب کہ دس سال پہلے مردم شماری میں ۷۲ فیصد لوگوں نے کہا تھا کہ وہ اپنے آپ کو عیسائی سمجھتے ہیں، لیکن ان میں سے ۲۸ فیصد افراد نے کہا تھا کہ وہ اپنے آپ کو اس بنا پر عیسائی کہتے ہیں کہ وہ عیسائی تعلیمات پر ایمان رکھتے ہیں۔
جائزے کے مطابق ۳۷ فیصد افراد ایسے ہیں جو کبھی عبادت کے لیے گرجا گھر نہیں گئے۔ ۲۹ فیصد افراد ایسے ہیں جو عیسائی عقیدے کے مطابق حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو اللہ کا بیٹا (معاذاللہ) تسلیم نہیں کرتے۔ ۳۵ فیصد افراد انجیل کے بارے میں یکسر نابلد ہیں اور ۶۰ فیصد لوگ ایسے ہیں جنہوں نے پچھلے ایک سال کے دوران کبھی انجیل کو ہاتھ تک نہیں لگایا۔
رچرڈ ڈاکنس برطانیہ میں دہریوں کے سربراہ مانے جاتے ہیں۔ اس جائزے کے بعد انہوں نے کہا ہے کہ کلیسا کے پیشوائوں اور سیاست دانوں کا یہ دعویٰ باطل ثابت ہو گیا ہے کہ مذہب اب بھی ہماری قومی زندگی میں زبردست اہمیت کا حامل ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ تازہ ترین جائزے سے یہ حقیقت ثابت ہوتی ہے کہ مذہب کا ہماری زندگی سے کوئی تعلق نہیں، حتیٰ کہ وہ افراد بھی جو اپنے آپ کو عیسائی کہلاتے ہیں وہ بھی عیسائی عقیدے پر کاربند نہیں ہیں۔
سیکولرازم کے حامیوں کا استدلال ہے کہ رائے عامہ کے تازہ جائزوں کے بعد یہ دعویٰ قطعی جائز نہیں ہے کہ برطانیہ ایک عیسائی ملک ہے، لہٰذا مملکت پر مذہب کی اجارہ داری ختم ہونی چاہیے۔ ملکہ کو چرچ آف انگلینڈ کے کلیسا کی سربراہ کا عہدہ ترک کردینا چاہیے اور مذہب اور مملکت کو ایک دوسرے سے جدا کر دینے کے ساتھ پارلیمنٹ کے ایوان بالا، دارالامراء میں ۲۶ بشپس کی رکنیت کا سلسلہ ختم کر دینا چاہیے۔
اس ہنگامہ خیز بحث میں اب ملکہ ایلزبتھ بھی شامل ہو گئی ہیں۔ ان کی تخت نشینی کی ڈائمنڈ جوبلی کے سلسلے میں آرچ بشپ آف کنٹربری کی قیام گاہ لیمبتھ پیلس میں ملک کے ۹ بڑے مذاہب کے رہنمائوں کی ضیافت میں تقریر کرتے ہوئے ملکہ ایلزبتھ نے رائے عامہ کے تازہ جائزوں کے پس منظر میں اس استدلال کو باطل ثابت کرنے کی کوشش کی کہ برطانیہ میں مذہبی عقیدہ روبہ زوال ہے۔ ان کا اصرار تھا کہ اس معاشرے میں عقیدہ ایک اہم اور طاقتور کردار ادا کر رہا ہے۔ کلیسا کی سربراہ کا کہنا تھا کہ کلیسا کے کردار پر زور دینے کا مقصد چرچ آف انگلینڈ کے عقیدے کا دفاع کرنا نہیں ہے بلکہ وہ اس پر زور دینا چاہتی ہیں کہ کلیسا کا فرض اس ملک میں تمام عقائد کی آزادی کا تحفظ کرنا ہے۔ ملکہ ایلزبتھ کا استدلال تھا کہ چرچ آف انگلینڈ اس ملک کی ساخت میں رچا بسا ہے اور اس نے بہتر معاشرے کی تعمیر میں مدد دی ہے۔
ملکہ ایلزبتھ کی اس تقریر سے چند دن پہلے حکمران ٹوری پارٹی کی چیئرپرسن اور کابینہ کی واحد مسلم وزیر بیرونس سعیدہ وارثی نے خبردار کیا تھا کہ برطانوی معاشرے کو سیکولر شدت پسندی کی اٹھتی ہوئی لہر سے شدید خطرہ ہے، ان کے نزدیک سیکولر شدت پسندی آمرانہ استبدادی نظام کی مانند ہے۔ انہوں نے زور دیا تھا کہ برطانوی معاشرے کے فروغ کے لیے ضروری ہے کہ عیسائی عقیدے کو تقویت دی جائے۔
بہت سے لوگوں کو اس بات پر افسوس ہوا ہے کہ برطانوی معاشرے میں عقیدے کی مضبوطی کے سلسلے میں انہوں نے اس ملک میں آباد ۳۰ لاکھ مسلمانوں کا ذکر نظرانداز کر دیا، جو عقیدے کے زوال کو روکنے کے لیے اہم پشتہ بن سکتے ہیں اور عقیدے کے فروغ کی کاوشوں میں مؤثر کردار ادا کرسکتے ہیں۔ اسی طرح اس ملک میں ۸ لاکھ ہندو اور ۳ لاکھ سکھ بھی آباد ہیں جو مذہبی عقیدے کو تقویت بخش سکتے ہیں۔ وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون کو بھی اس بات کا شدید احساس ہے کہ معاشرے میں اخلاقی گراوٹ کو روکنے کے لیے روایتی عیسائی اَقدار کی تجدید بہت ضروری ہے۔ ان کا اصرار ہے کہ برطانیہ عیسائی مملکت ہے اور اس کی مضبوطی کے لیے عیسائی عقیدے کا فروغ لازمی ہے۔
بہرحال چرچ آف انگلینڈ کلیسا کی سربراہ ملکہ ایلزبتھ ملک میں مذہبی عقائد کے طاقتور کردار کے بارے میں چاہے کتنا ہی پرزور دعویٰ کریں، حقیقت یہ ہے کہ ملک میں چار کروڑ ۲۰ لاکھ عیسائیوں میں مذہبی عقیدہ تیزی سے روبہ زوال ہے۔ ہر اتوار کو خالی رہنے والے گرجا گھر عبادت کرنے والوں کے منتظر رہتے ہیں۔ عیسائی مذہبی اَقدار کے ساحل سیکولرازم کے جوار بھاٹے سے روز بروز کٹ رہے ہیں اور مذہبی عقائد کی نیو پر رکھی گئی اخلاقی دیواریں مسمار ہو رہی ہیں۔ اس صورتحال میں برطانیہ کیوں کر ایک عیسائی مملکت ہونے کا دعویٰ کر سکتا ہے۔
(بشکریہ: سہ روزہ ’’دعوت‘‘ دہلی۔ ۱۹؍مارچ ۲۰۱۲ء)
Leave a Reply