کسی فیصلے تک پہنچنے کے لیے یہ ایک مشکل وقت ہے۔ ہم ایک ایسے دور میں رہ رہے ہیں جس میں کوئی بات یقین سے نہیں کہی جاسکتی اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ایسی متعدد مثالیں ہیں جب کم مدتی سیاسیات اور طویل مدتی پالیسیوں کے درمیان نوبت تصادموں تک جا پہنچی۔
جہاں تک معیشت‘ ماحولیات اور سکیورٹی کا تعلق ہے‘ دبائو کا رخ صرف یکطرفہ ہوتا ہے کہ معیشت کے بارے میں حکومت کا کردار بہتر ہونا چاہیے‘ ماحولیات کا مسئلہ سرمائے کی کمی کی وجہ سے ملتوی کر دیا جائے اور دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ میں فوجی کارروائیاں کم کی جائیں۔ اس کے باوجود ہر معاملے میں درست طویل مدتی پالیسی تقریباً یقینی طور پر متضاد اقدام کی نشاندہی کرتی ہے۔
کم اور طویل مدتوں کے درمیان تفاوت کس طرح سے ختم کیا جاسکتا ہے؟ یہ فیصلہ کرنا کہ یہ کام کس طرح کیا جائے‘ یہی بنیادی عنصر ہے جس پر ہم یقین رکھتے ہیں اور جو ہم اپنے مستقبل سے حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ اس قسم کے فیصلے تک پہنچنے میں صرف ہمارا دماغ ہماری رہنمائی کر سکتا ہے۔
بینکنگ نظام کے زوال کے بعد عالمی روایتی فہم و فراست کی رُو سے معیشت کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ مارکیٹ ناکام ہو چکی ہے اور ریاست کو مدد کے لیے آگے بڑھنا چاہیے۔ جان گیلبریتھ کے مطابق ۱۹۲۹ء میں مارکیٹ بری طرح ناکام ہوئی تھی اور ریاست کو مدد کے لیے آنا پڑا تھا۔ مالیاتی محرمات بھی اپنے طور پر اہم تھے‘ لیکن اس سے بھی زیادہ وہ اس بات کی طرف اشارہ کرتے تھے کہ ناکامی کے پھیلائو اور مزید انحطاط کو روکنے کے لیے حکومتی اثر و رسوخ استعمال کیا جارہا ہے۔
اگر ہم تجزیہ کریں کہ ہمیں کیا کچھ حاصل ہونے کی توقع ہے اور ہم مستقبل میں کس قسم کی معیشت رائج کرنے کی کوشش کر رہے ہیں تو یہ کسی صورت میں بھی واضح نہیں ہوتا کہ ہمیں اس معاملے میںریاست کی طرف سے مدد جاری رکھنے کی ضرورت ہے۔ اس کے برعکس ظاہر یہ ہوتا ہے کہ نجی شعبے کو اپنے آپ کو مضبوط کرنے اور نئی راہیں اختیار کرنے اور کاروباری فہم و فراست حاصل کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں محتاط رہنے‘ قرضوں کے حجم کو کم کرنے کی ضرورت ہے اور ہمیں لازمی طور پر دوسروں کی طرف سے تحفظ سے گریز کرنا چاہیے۔
یہ بات درست ہے کہ نجی شعبے کے ڈھانچے میں بہت سی تبدیلیاں لانا پڑیں گی اور بحران کی مدت کے دوران میں بڑے بڑی خساروں سے نجات حاصل کرنا ہو گی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ریاست اور اس کی کارکردگی کے ڈھانچے میں بھی بنیادی تبدیلیاں لانا ہوں گی۔ لیکن آخرکار نتیجے کے طور پر یہ حکومت نہیں بلکہ کاروباری سرگرمیاں ہوں گی جو عالمی معیشت کو آگے بڑھائیں گی۔
دوسرے لفظوں میں یہ کہہ لیں کہ یہ دعویٰ کہ ’’مارکیٹ ناکام ہو گئی ہے‘‘ ایک غیرشائستہ لہجہ ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ مارکیٹ کا صرف ایک حصہ ناکام ہوا تھا‘ لیکن اس ناکامی میں حکومت اور عملدرآمد پر متعین لوگ بھی ذمہ دار تھے۔ اگر ہم یہ سمجھیں کہ یہ درست ہے تو نتیجتاً یہ نجی شعبے کی صلاحیتیں ہوں گی‘ جو ہمیں خوشحالی کی طرف واپس لے جائیں گی۔ چنانچہ ہمیں آنے والے ہفتوں اور مہینوں میں ایسے فیصلے کرنے ہوں گے جن سے نجی شعبے کو نقصان پہنچانے کے بجائے اس کی مدد کی جاسکے۔
اسی طرح ماحولیات اور توانائی کے ضمن میں مالیاتی دبائو چاہے جس قسم کے بھی ہوں‘ اگر ہم سوچیں کہ انسانی سرگرمیوں کے نتیجے میں زمین کا موسم تبدیل ہو رہا ہے تو ہمیں عالمی معیشت کو اس راستے پر چلانے کی ضرورت ہے جہاں کاربن والا ایندھن کم استعمال ہو۔ ایسے بہت سے اہم کام ہیں جو ہم موجودہ علم و ہنر کی بنیاد پر کر سکتے ہیں۔ مثلاً جنگلات کا تحفظ‘ توانائی کی صلاحیت میں اضافہ جس سے آئندہ عشرے میں بہت فرق پڑ سکتا ہے۔ اس کے بعد ہمیں محرکات کے ایک طویل مدتی فریم ورک کی ضرورت ہو گی تاکہ مستقبل کے لیے نئی نئی ٹیکنالوجی وجود میں لائی جاسکے۔ لیکن نکتہ یہ ہے کہ اب وقت نہیں ہی کہ ان باتوں پر عملدرآمد ملتوی کیا جاسکے۔
اس مسئلے پر چین اور اب بھارت بھی سنجیدگی سے غور کر رہے ہیں اور برازیل اور دیگر ابھرتی ہوئی مارکیٹیں بھی دلچسپی ظاہر کر رہی ہیں کہ وہ موسم کی تبدیلی سے نمٹنے میں شریک ہو سکیں۔ اس طرح ہمارے لیے ایک بہت اچھا موقع سامنے آیا ہے اور ہمیں اس سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔ اور جہاں تک مغرب کا تعلق ہے‘ ہم سب کو مل تیل کی قیمت ایک سو ڈالر فی بیرل مقرر کرنی چاہیے۔ توانائی کے تحفظ کی کئی وجوہ ہیں جن کی بنیاد پر ہمیں اپنی معیشتوں کی نوعیت تبدیل کرنے کی ضرورت ہے تاکہ کاربن پر انحصار کم کیا جاسکے۔
یہ صاف نظر آتا ہے کہ عوام افغانستان اور عراق میں طویل فوجی مہموں اور انسانی جانوں کے نقصان پر بد دل ہو چکے ہیں اور اب وہ چاہتے ہیں کہ ان مہموں کو ختم کیا جائے‘ لیکن یہ ایک ایسا موقع بھی ہے جب ہم میں سے بیشتر کو یہ فیصلہ کرنے کی ضرورت ہے کہ ہم ان مہموں کو کیوں جاری رکھے ہوئے ہیں؟
افغانستان میں اس وقت بہت مشکلات پیش آرہی ہیں اور اس کی وجہ یہ ہے کہ جن فورسز کا ہم مقابلہ کر رہے ہیں‘ انہوں نے حالات ہی ایسے پیدا کر رکھے ہیں۔ وہ لوگ یہ سب کچھ دہشت گردی کے حربے استعمال کر کے کر رہے ہیں‘ شہری آبادی میں خوف و ہراس پیدا کر رہے ہیں اور بین الاقوامی برادری جو کچھ کہہ رہی ہے اس کی خلاف ورزی کر رہے ہیں۔
بار بار یہ بات واضح ہو چکی ہے کہ عوام ایسی حکومتیں چاہتے ہیں جن کا احتساب کیا جاسکے‘ باقاعدہ قانون کی حکمرانی ہو اور انہیں موقع ملنا چاہیے کہ وہ اپنی منزل کا تعین خود کر سکیں جو لوگ افغانستان‘ پاکستان‘ عراق‘ صومالیہ‘ یمن اور دوسرے ملکوں میں دہشت گردی کی کارروائیاں کر رہے ہیں‘ وہ ان ملکوں کو غیرمستحکم کرتے رہیں گے اور امن پسند عوام کی زندگیاں تلخ بناتے رہیں گے۔
اگر اس وقت جنگ سے ہاتھ روک لیا جائے تو لوگوں کو ہماری مداخلت سے نجات تو مل جائے گی مگر وہ ان گروپوں کے رحم و کرم پر ہوں گے‘ جن کی انتہا پسندی ہمارے لیے خطرہ بنی ہوئی ہے۔ چنانچہ اس تمام تر بے یقینی کی صورتحال میں بھی مناسب وقت ہے کہ ہر بات واضح کی جائے جس کی بنیاد مضبوط عزائم کی بہترین حکمت عملی پر ہو۔
(بشکریہ: ’’گلف نیوز‘‘۔ ترجمہ: ریحان قیوم)
Leave a Reply